چاند کورونا چینی و آٹا اور کتنے سوال
ایسے بہت سے معاملات آج تک زیرِ بحث ہیں اور مزید بھی جو سامنے آرہے ہیں ان پر سوال ہوتے رہیں گے
CALIFORNIA:
رات گئے حسبِ معمول مطالعے کے بعد چند لمحوں کےلیے آنکھیں بند کرتے ہوئے کرسی سے ٹیک لگائی تو ایک نیا ہی نقشہ نظر آیا، جس کو دیکھ تو سب رہے ہیں لیکن کر کچھ نہیں سکتے۔
7 اپریل 2020 بروز منگل کی اہم خبر تھی کہ اسرائیل میں بھی مکمل لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے۔ اس سے پہلے صرف چند ممالک کے علاوہ لاک ڈاؤن کا یہ سلسلہ دنیا بھر میں جاری ہے اور تازہ ترین خبروں کے مطابق اس وقت تک 96 ہزار سے زائد افراد کورونا وبا سے انتقال کرچکے ہیں۔ لیکن دنیا بحث میں پڑی ہوئی کہ یہ دنیاوی معاملہ ہے۔ کیا واقعی اس کو دنیاوی معاملہ کہہ کر چھوڑ دیا جائے گا یا اب تو یقین کرلینا چاہیے کہ قدرت کی طاقت نے اپنا رنگ دکھا دیا ہے۔ لیکن نہیں، کیونکہ سوال کھیل بدل دیتا ہے۔
کیا کورونا وائرس بھی ماضی کے چند اہم واقعات کی طرح اختلافی صورت اختیار کرلے گا؟ یعنی انسان چاند پر گیا تھا کہ ڈرامہ تھا؟ 9/11 کا واقعہ ہوا تھا یا کروایا گیا؟ اسامہ بن لادن زندہ ہے کہ مردہ؟ کیمیکل ہتھیار بنے ہیں تو کہاں ہیں؟ شام میں کون لڑ رہے ہیں؟ وہاں کے عوام کیوں مررہے ہیں اور کورونا وائرس جسمانی بیماری تھی یا ذہنی ٹارچر؟
اب ذرا موضوع کا جھکاؤ پاکستان کی طرف کرتے ہیں تو ایسے ہی بہت سے معاملات آج تک زیرِ بحث ہیں اور مزید بھی جو سامنے آرہے ہیں ان پر سوال ہوتے رہیں گے۔ مثلاً پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا قتل کسی سازش کا حصہ تھا؟ پاکستان کی اولین سیاسی قیادت نے اس وقت پاکستان کو جمہوری حیثیت کیوں نہ دی جب قیام پاکستان کے پہلے 3 سال میں پاکستان کا کوئی فوجی اعلیٰ ترین عہدے پر نہیں تھا؟ کیا پاکستانی فوج سیاست کا حصہ بنی یا سیاست دانوں کی ضرورت تھی؟ مارشل لا کیوں لگتے رہے؟ مشرقی پاکستان کس نے الگ کروایا؟ پاکستان کے سابق وزیراعظم زیڈ اے بھٹو کو پھانسی بیرونی طاقتوں کی وجہ سے دی گئی؟ سابق صدر جنرل ضیاء الحق کا طیارہ کیسے تباہ ہوا؟
اس دوران 80 کی دہائی میں دنیا بھر میں نودولتیوں کا کھیل شروع ہوچکا تھا اور دولت کمانے اور چھپانے کے وہ طریقے، جو پہلے کسی حد تک انڈر دِی ٹیبل ہوا کرتے تھے اوور دِی ٹیبل بتائے جانے لگے۔ اس کےلیے اعلیٰ ترین پڑھی لکھی ٹیمیں تیار کی گئیں، مالی ادارے قائم کیے گئے اور اس نئے نظام کو کامیاب بنانے کےلیے سب سے بڑا کام یہ ہوا کہ پرنٹ میڈیا نے الیکٹرونک میڈیا کے متبادل انگڑائی لی اور سچ جھوٹ کی ایک ایسی بحث شروع کروا دی جو آج تک یہ فیصلہ نہ کروا پائی حقیقت کیا ہے۔ میڈیا نے پس پشت نئے دولتیوں کا ساتھ دیتے ہوئے اسکینڈلز کو بے نقاب کرنا شروع کیا اور پھر بحثوں، تجزیوں اور تبصروں میں ان کو متنازعہ، یک طرفہ جیسے الفاظ سے اختلافی حیثیت میں ردی کی ٹوکری کروانے میں اہم کردار ادا کیا اور آج تک کررہا ہے۔ بلکہ اب تو سوشل میڈیا کی وجہ سے معاملہ دو قدم اور آگے بڑھ گیا ہے۔ ساتھ ہی مذہبی رواداری کو باقاعدہ دنیا کا رنگ دے دیا گیا۔
90 کی دہائی میں اس کے واضح اثرات آگے چل کر اہم انکشافات کی صورت میں پاکستان میں بھی سامنے آنا شروع ہوگئے۔ کاروباری سیاست دان بن گئے اور جگاڑیں لگانی شروع کردیں اور سیاسی خاندانوں نے بھی کوئی کسر ادھار نہ رکھی۔ جس سے اسکینڈلز بھی سامنے آنے شروع ہوگئے۔ جن میں سے چند اہم آج بھی سب کی زبان پر ہیں۔ سرے محل، اتفاق گروپ، سوئس بینک، پانامہ، اومنی گروپ، آف شور کمپنیاں، موٹر وے، میٹرو اور اب ایک نئے انداز سے چینی و آٹا اسکینڈل۔ سوال تو یہ بنتا ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں بھی بشمول پاکستان ایسی سیکڑوں کارروائیوں کی انکوائریوں پر عوام کے اربوں روپے لگادیے جاتے ہیں اور ریکوری کتنی؟ ایک یا دو۔ کیوں؟
غریبوں کی جھونپڑیاں بِک رہی ہیں اور امیروں کے محل مزید مضبوط ہورہے ہیں۔ یہ سارا نظام صرف تباہی کا پیش خیمہ ہے، جس کی ایک صورت یہ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن ہے۔ لیکن اس کو بھی کوئی ماننے کو تیار نہیں اور میڈیا کے منفی کردار نے دین سے دوری کےلیے اس کو دنیاوی سطح پر اس طرح پیش کیا ہے کہ اس کے بعد معاشی نظام کیا ہوگا؟ اسلامی و اخلاقی قدریں کیا ہوں گی کوئی زیرِ بحث نہیں لارہا۔ اللہ ہمیں ہدایت بخشے۔ آمین۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
رات گئے حسبِ معمول مطالعے کے بعد چند لمحوں کےلیے آنکھیں بند کرتے ہوئے کرسی سے ٹیک لگائی تو ایک نیا ہی نقشہ نظر آیا، جس کو دیکھ تو سب رہے ہیں لیکن کر کچھ نہیں سکتے۔
7 اپریل 2020 بروز منگل کی اہم خبر تھی کہ اسرائیل میں بھی مکمل لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے۔ اس سے پہلے صرف چند ممالک کے علاوہ لاک ڈاؤن کا یہ سلسلہ دنیا بھر میں جاری ہے اور تازہ ترین خبروں کے مطابق اس وقت تک 96 ہزار سے زائد افراد کورونا وبا سے انتقال کرچکے ہیں۔ لیکن دنیا بحث میں پڑی ہوئی کہ یہ دنیاوی معاملہ ہے۔ کیا واقعی اس کو دنیاوی معاملہ کہہ کر چھوڑ دیا جائے گا یا اب تو یقین کرلینا چاہیے کہ قدرت کی طاقت نے اپنا رنگ دکھا دیا ہے۔ لیکن نہیں، کیونکہ سوال کھیل بدل دیتا ہے۔
کیا کورونا وائرس بھی ماضی کے چند اہم واقعات کی طرح اختلافی صورت اختیار کرلے گا؟ یعنی انسان چاند پر گیا تھا کہ ڈرامہ تھا؟ 9/11 کا واقعہ ہوا تھا یا کروایا گیا؟ اسامہ بن لادن زندہ ہے کہ مردہ؟ کیمیکل ہتھیار بنے ہیں تو کہاں ہیں؟ شام میں کون لڑ رہے ہیں؟ وہاں کے عوام کیوں مررہے ہیں اور کورونا وائرس جسمانی بیماری تھی یا ذہنی ٹارچر؟
اب ذرا موضوع کا جھکاؤ پاکستان کی طرف کرتے ہیں تو ایسے ہی بہت سے معاملات آج تک زیرِ بحث ہیں اور مزید بھی جو سامنے آرہے ہیں ان پر سوال ہوتے رہیں گے۔ مثلاً پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا قتل کسی سازش کا حصہ تھا؟ پاکستان کی اولین سیاسی قیادت نے اس وقت پاکستان کو جمہوری حیثیت کیوں نہ دی جب قیام پاکستان کے پہلے 3 سال میں پاکستان کا کوئی فوجی اعلیٰ ترین عہدے پر نہیں تھا؟ کیا پاکستانی فوج سیاست کا حصہ بنی یا سیاست دانوں کی ضرورت تھی؟ مارشل لا کیوں لگتے رہے؟ مشرقی پاکستان کس نے الگ کروایا؟ پاکستان کے سابق وزیراعظم زیڈ اے بھٹو کو پھانسی بیرونی طاقتوں کی وجہ سے دی گئی؟ سابق صدر جنرل ضیاء الحق کا طیارہ کیسے تباہ ہوا؟
اس دوران 80 کی دہائی میں دنیا بھر میں نودولتیوں کا کھیل شروع ہوچکا تھا اور دولت کمانے اور چھپانے کے وہ طریقے، جو پہلے کسی حد تک انڈر دِی ٹیبل ہوا کرتے تھے اوور دِی ٹیبل بتائے جانے لگے۔ اس کےلیے اعلیٰ ترین پڑھی لکھی ٹیمیں تیار کی گئیں، مالی ادارے قائم کیے گئے اور اس نئے نظام کو کامیاب بنانے کےلیے سب سے بڑا کام یہ ہوا کہ پرنٹ میڈیا نے الیکٹرونک میڈیا کے متبادل انگڑائی لی اور سچ جھوٹ کی ایک ایسی بحث شروع کروا دی جو آج تک یہ فیصلہ نہ کروا پائی حقیقت کیا ہے۔ میڈیا نے پس پشت نئے دولتیوں کا ساتھ دیتے ہوئے اسکینڈلز کو بے نقاب کرنا شروع کیا اور پھر بحثوں، تجزیوں اور تبصروں میں ان کو متنازعہ، یک طرفہ جیسے الفاظ سے اختلافی حیثیت میں ردی کی ٹوکری کروانے میں اہم کردار ادا کیا اور آج تک کررہا ہے۔ بلکہ اب تو سوشل میڈیا کی وجہ سے معاملہ دو قدم اور آگے بڑھ گیا ہے۔ ساتھ ہی مذہبی رواداری کو باقاعدہ دنیا کا رنگ دے دیا گیا۔
90 کی دہائی میں اس کے واضح اثرات آگے چل کر اہم انکشافات کی صورت میں پاکستان میں بھی سامنے آنا شروع ہوگئے۔ کاروباری سیاست دان بن گئے اور جگاڑیں لگانی شروع کردیں اور سیاسی خاندانوں نے بھی کوئی کسر ادھار نہ رکھی۔ جس سے اسکینڈلز بھی سامنے آنے شروع ہوگئے۔ جن میں سے چند اہم آج بھی سب کی زبان پر ہیں۔ سرے محل، اتفاق گروپ، سوئس بینک، پانامہ، اومنی گروپ، آف شور کمپنیاں، موٹر وے، میٹرو اور اب ایک نئے انداز سے چینی و آٹا اسکینڈل۔ سوال تو یہ بنتا ہے کہ دنیا کے کسی ملک میں بھی بشمول پاکستان ایسی سیکڑوں کارروائیوں کی انکوائریوں پر عوام کے اربوں روپے لگادیے جاتے ہیں اور ریکوری کتنی؟ ایک یا دو۔ کیوں؟
غریبوں کی جھونپڑیاں بِک رہی ہیں اور امیروں کے محل مزید مضبوط ہورہے ہیں۔ یہ سارا نظام صرف تباہی کا پیش خیمہ ہے، جس کی ایک صورت یہ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن ہے۔ لیکن اس کو بھی کوئی ماننے کو تیار نہیں اور میڈیا کے منفی کردار نے دین سے دوری کےلیے اس کو دنیاوی سطح پر اس طرح پیش کیا ہے کہ اس کے بعد معاشی نظام کیا ہوگا؟ اسلامی و اخلاقی قدریں کیا ہوں گی کوئی زیرِ بحث نہیں لارہا۔ اللہ ہمیں ہدایت بخشے۔ آمین۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔