کورونا کا پھیلاؤ فیصلہ کی گھڑی

کورونا وائرس اس وقت پوری دنیا کا موضوع سخن ہے، وطن عزیز کی صورتحال بھی خاصی پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔

کورونا وائرس اس وقت پوری دنیا کا موضوع سخن ہے، وطن عزیز کی صورتحال بھی خاصی پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔ فوٹو، فائل

NEW DELHI:
کورونا وائرس اس وقت پوری دنیا کا موضوع سخن ہے، وطن عزیز کی صورتحال بھی خاصی پیچیدہ ہوتی جارہی ہے، متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ اور جاں بحق افراد کی تعداد بھی روز بروز بڑھ رہی ہے۔

دنیا بھر میں اس وائرس کے خلاف ایک جنگ جاری ہے، دنیا کی طبی تاریخ کی بہت ہی مشکل ترین وبا سے واسطہ اور سابقہ پڑا ہے اہل زمین کا، یہ جنگ انسانوں نے ہر قیمت پر جیتنی ہے کیونکہ جیت میں ہی انسانی زندگی کی بقا اور سلامتی مضمر ہے۔ پاکستان اس وباء کے حوالے سے تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ لاک ڈاؤن نے معمولات زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے جب کہ ملکی معیشت کا پہیہ بھی رک چکا ہے۔

ایک ترقی پذیر ملک جس کی پچیس فی صد سے زائد آبادی پہلے ہی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی تھی اب اس کی مشکلات مزید بڑھتی جارہی ہیں۔ ایک طرف کنواں اور دوسری طرف کھائی والی صورتحال کا سامنا ہے ۔ ایک جانب لاک ڈاؤن کے نتیجے میں قوم کو گھروں تک محدود رکھ کر ان کی زندگیاں بچانے کی کوششیں جاری ہیں تو دوسری جانب بھوک وافلاس اور غربت کے مارے عوام کے مسائل میں اضافہ ہوگیا ہے۔

اس نازک ترین صورتحال کے تناظر میں وزیر اعظم عمران خان اور ان کے رفقاء کار انتہائی باریک بینی سے حالات کا جائزہ لے رہے ہیں، روزانہ کی بنیادوں پر ترجیحی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ14اپریل سے لاک ڈاؤن میں نرمی کے معاملے پر تمام صوبوں اور آزاد کشمیر حکومت کی مشاورت سے کوئی فیصلہ کریں گے۔ دورہ بلوچستان کے موقعے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ملک کے غریب اور روزانہ اجرت پر کام کرنے والے محنت کشوں کی بہت فکر ہے، ان کی مدد کے لیے ہم نے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ریلیف پروگرام کا آغاز کردیا ہے۔ پروگرام کے تحت ایک کروڑ20 لاکھ خاندانوں کو12ہزار روپے فی خاندان ادا کیے جا رہے ہیں۔

وزیراعظم کے خیالات انتہائی صائب ہیں وہ قوم کے ہر فرد کے لیے فکرمند ہیں وہ چاہتے ہیں کہ محنت کش طبقے کو فاقہ کشی سے بچایا جائے۔ اب حکومت پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ریلیف پیکیج کے ذریعے مستحق افراد کی شفاف طریقے سے مدد کو یقینی بنائے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ کورونا وائرس عالمی نظام صحت کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔

معاون خصوصی برائے قومی صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ حکومت کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے بھر پور عملی اقدامات کو یقینی بنا رہی ہے، ڈریپ نے کلورو کوئن کے خام مال کی مقامی طور پر تیاری اور کورونا کے لیے پلازما تھراپی کے کلینیکل ٹرائلز کی اجازت دے دی ہے۔ حکومتی سطح پر یہ ایک مستحسن اقدام ہے، جس کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی ٹاسک فورس کے کو چیئرمین ڈاکٹر عطا الرحمن نے کہا ہے کہ میرا اندازہ ہے کہ 6 سے 7 ہزار کورونا کیس اور رپورٹ ہوں گے۔ اگلے 2 ماہ یعنی اپریل اور مئی کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے خاصے اہم ہیں، ان مہینوں میں وائرس کے پھیلنے کا خدشہ زیادہ ہے، انتہا پر پہنچ کر کورونا وائرس کا پھیلاؤ گھٹنا شروع ہو سکتا ہے، ہماری صورت حال یورپی ممالک سے کافی بہتر ہے، کووڈ 19 کا اسٹرکچر پتا چل جائے تو دوا کی طرف بڑھ سکتے ہیں، وقت کے ساتھ واضح ہوگا کہ کورونا کے لیے کون سی دوائیں آزمودہ ہیں۔

ڈاکٹر عطا الرحمن قوم کے ایک قابل سپوت ہیں ان کی رائے اہمیت کی حامل ہے جس کو سامنے رکھتے ہوئے صورتحال پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے جائیں تو سب کے حق میں بہتر اور مفید ہوگا۔

ملک بھر میں کورونا کے تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد 4596 جب کہ اموات کی تعداد 67 تک جا پہنچی ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کی جانب سے جاری اعداد وشمار کے مطابق اب تک پنجاب میں2279، سندھ 1128، بلوچستان 219، خیبر پختونخوا 620، آزاد کشمیر33، اسلام آباد میں 102 اور گلگت بلتستان میں 215 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، اس تعداد میں مزید اضافہ رونما ہوچکا ہوگا، جو اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ کورونا وائرس ایک جان لیوا وبا ہے۔


احتیاط اور صرف احتیاط ہی اس سے بچاؤ کا واحد حل ہے۔ طبی نقطہ نگاہ سے جو بھی ہدایات عوام کو فراہم کی جارہی ہیں ان پر سختی سے عمل پیرا ہوکر اس وائرس کے شدید حملے سے بچاؤ ممکن ہے۔ عوام کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ذرا سی بے احتیاطی انھیں موت کا شکار کرسکتی ہے۔

حکومت نے کورونا ریلیف پیکیج کے تحت بجلی کے بلوں میں ماہانہ اور سہ ماہی بنیادوں پر فیول ایڈجسٹمنٹ جون تک موخر کردی ہے، قومی خزانے پر151ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا، اقتصادی رابطہ کمیٹی نے منظوری دے دی جب کہ ای سی سی نے 4 سپلیمنٹری گرانٹس بھی منظور کر لی ہیں جب کہ دو سو ارب روپے کے پاکستان انرجی سکوک بانڈز کے دوسرے مرحلے کے لیے ویلیوایٹر (تخمینہ کار، قیمت لگانے والا) کی تقرری کی منظوری دی ہے۔

حکومت معاشی استحکام کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے۔ عالمی سطح پر نظر ڈالی جائے، تو کورونا کی وبا عالمی معیشت کے 5 ہزار ارب ڈالر کھا جائے گی۔ مختلف ممالک کی معاشی صورت حال پر تجزیے پیش کرنے والی امریکی نیوز ایجنسی بلوم برگ کی جانب سے کورونا وائرس سے عالمی معیشت پر اثرات کے حوالے سے بھی رپورٹ پیش کی گئی ۔ اس کے مطابق دنیا 1930کے بعد پہلی بار ایسی شدید کساد بازاری کے دور میں ہے لیکن معیشت کی یہ تنزلی جز وقتی ہوگی تاہم نقصان کے ازالے میں وقت لگے گا، سابق صورتحال تک واپسی کم ازکم 2022 تک ہوگی۔ دو سال کا خسارہ جاپان کی سالانہ پیداوار سے زیادہ ہوگا۔

یہ رپورٹ عالمی طور پر معاشی صورتحال کے حوالے سے انتہائی الارمنگ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کورونا وائرس کے باعث پاکستان سمیت دنیا بھر میں حکومتیں کاروبار بند کرانے اور لوگوں کو گھروں میں محصور رکھنے پر مجبور ہیں۔ بڑے بڑے معاشی، سماجی اور کھیلوں کے مقابلے منسوخ یا معطل ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال کو دیکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ عالمی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ اگر ہم اتنے ٹیسٹ کر لیں جتنے جرمنی نے کیے ہیں تو شاید ہمارے ہاں بھی اتنے ہی کیسز نکلیں جتنے جرمنی میں نکلے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر ہم افیکٹیو لاک ڈاؤن نہیں کرسکے تو کیسز کی تعداد زیادہ بھی ہوسکتی ہے، کورونا وائرس اس وقت ساری دنیا کا مسئلہ ہے اگر ہم نے اس وبا پر قابو پانا ہے تو ہمیں ایک نیشنل اسٹرٹیجی تو ضرور اپنانی پڑے گی۔ سندھ کے وزیراعلیٰ کے خیالات درست سمت اختیار کرنے کی جانب مثبت اشارہ ہیں۔

وفاقی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ وفاقی سطح پر کوئی کنفیوژن نہیں ہے، وزیر اعظم کا موقف ہے کہ ہم نے کورونا سے بچنے کے ساتھ ساتھ بھوک اور افلاس سے بھی لڑنا ہے، ہم اسٹیپ بائی اسٹیپ لاک ڈاؤن کو اٹھائیں گے، ضرورت کورونا وائرس کے حوالے سے قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ہے۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے اگر ملک میں وائرس زیادہ پھیل گیا تو ہمارے لیے زیادہ مشکلات پیدا ہو جائیں گی، پسماندہ علاقوں میں راشن ایسے پہنچایا جائے کہ وائرس پھیلنے کا امکان نہ ہو اور لاک ڈاؤن کے مقاصد فیل نہ ہوں۔

وزیراعظم ایک درد مندانہ دل رکھتے ہیں، کنسٹرکشن کا شعبہ اس لیے کھولنا چاہتے ہیں کہ یومیہ کمانے والا روزی کما کر کھا سکے، کسانوں نے فصل بھی کاٹنی ہے۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کی بات کی جا رہی ہے، سندھ کے تاجر بھی کاروبار کھولنے کا مطالبہ کررہے ہیں، تمام اہم فیصلے نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی کرتی ہے جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ وزیر اعظم و دیگر فوجی اور سول قیادت شامل ہوتی ہے، تمام فیصلے باہمی مشاورت سے کیے جاتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں مناسب وقت کا ضرور انتظار کرنا چاہیے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کورونا کا علاج معالجہ کرنے والے ڈاکٹرز اور طبی عملے کو تاحال حفاظتی لباس مہیا نہ کیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈاکٹرز کورونا کے خلاف جنگ کررہے ہیں اور حکومت حفاظتی لباس نہ دے کر کورونا کی مدد کررہی ہے۔ ڈاکٹرز اور طبی عملے کو اب تک جو حفاظتی لباس فراہم کیے گئے ہیں، ان کی تمام تفصیل قوم کو بتائی جائے۔ کہاں کہاں ڈاکٹرز کو حفاظتی کٹس پہنچ چکی ہیں، تمام تفصیل بتائی جائے۔

کورونا وائرس کی وبا کے باعث پروازیں منسوخ کرنے والی فضائی کمپنیوں نے مسافروں کے ٹکٹوں کی رقوم واپس کرنے سے انکار کردیا ہے، انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن نے منسوخ ہونے والے ٹکٹوں کے کلیمز کی وصولی روکنے کے لیے اپنا سسٹم بھی بند کردیا ہے جس سے پاکستانی مسافروں اور ٹریول ایجنٹس کی بھاری رقوم پھنس کر رہ گئی ہیں۔ ٹریول ایجنٹس ایسوسی ایشن نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام ایئر لائنز کو ریفنڈز کی 17 اپریل تک واپسی کا پابند بنایا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ اب بحث لاک ڈاؤن میں توسیع اور سختی تک محدود نہیں رہنی چاہیے، تاجر برادری مضطرب ہے، ملک میں بیروزگاری کی شرح میں ہولناک اضافہ ہوا ہے، دنیا کے ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا کی ہلاکتوں سے انسانی سماج کے ارتقا کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، عالمی طاقتیں جو غریب ملکوں کی امداد کے لیے کسی نہ کسی حوالہ سے اپنا حصہ ڈال دیتی تھیں اب کورونا میں الجھی اور پھنسی انسانیت کے لیے نسخہ شفا پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں، امداد کی خبریں ہیں، کسے کیا ملتا ہے، یہ دیکھنے کی بات ہے۔ سب سے بڑا خطرہ کورونا کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔ اس پر اتفاق رائے اور فیصلہ کن حکمت عملی سب سے اہم سوال ہے۔
Load Next Story