کورونا وباء غیر رسمی معیشت پر سب سے تباہ کن اثر ڈال رہی ہے
نجی شعبہ ملازمین کو نکالنے کے بجائے حکومت کا دست و بازو بنتے ہوئے بوجھ بانٹنے کی پالیسی اپنائے
رمضان صاحب لاہور میں ویگن چلاتے ہیں۔ دن میں بچوں کو اسکول لانے لے جانے کے کام سے منسلک ہیں اور دو پہر کے بعد ماربل کی ایک چھوٹی فیکٹری کے ساتھ ڈلیوری کا کام اس طرح کرتے ہیں کہ ماربل کے خریدار کو جب اپنے مال کی ترسیل کے لیے کسی گاڑی کی ضرورت ہوتی ہے تو فیکٹری والے اُنھیں بلالیتے ہیں اور وہ خریدار سے اپنا معاوضہ طے کرنے کے بعد اُن کا ماربل مطلوبہ مقام پر پہنچا دیتے ہیں۔
اُن سے گفتگو میں جب اُن کے کام کے بارے میں پوچھا تو جو کچھ اُنھوں نے بتایا وہ کسی بھی باشعور فرد کے دل کو دہلانے کے لیے کافی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے اسکولوں کی بندش نے اُنھیں شدید ترین مالی مشکلات میں جکڑ دیا ہے۔ بچوں کے اسکول نہ جانے کی وجہ سے اکثر والدین مارچ کے مہینے کی ویگن فیس اُنھیں دینے کو تیار نہیں۔ اس کے علاوہ اکثرلوگوں نے کورونا وائرس کے باعث اپنا تعمیراتی کام بھی بند کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے ماربل فیکٹری سے بھی لوڈنگ کا کام آج کل مندے کا شکار ہے۔ رمضان صاحب کرائے کے گھر میں رہتے ہیں ۔ شادی شدہ ہیں ۔اپنے والد کی وفات کے بعد گھر کے بڑے اور واحد کفیل ہیں ۔
اُن کی ماہانہ آمدن کا مکمل دار و مدار ویگن سے حاصل ہونے والی آمدن پر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کرونا وائرس نے تو ہمیں جیتے جی مار دیا ہے۔ ایک طرف تو مجھے بھی اس بیماری کا خوف ہے تو دوسری جانب لوگوں نے سماجی اور معاشی طور پر اپنے آپ کو محدود کرلیا ہے۔کام نہیں ہے گزارہ کیسے ہوگا؟
شبیر احمد شاہین لاہور میں ڈیزائن اور کنسٹرکشن کی ایک معروف فرم کے مالک ہیں۔غیر رسمی انداز میں شروع کیا جانے والا اُن کا کام آج انکم ٹیکس ادا کرنے والی ایک باقاعدہ فرم کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔ہنر مندوں اور لیبر کا ایک پورا نیٹ ورک اُن کے ساتھ منسلک ہے۔ جنہیں اُنکی فرم کی جانب سے کام ٹھیکوں پر دیا جاتا ہے۔شبیر صاحب بھی موجودہ صورتحال سے پریشان ہیں کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے کنسٹرکشن کا نیا کام بالکل بند ہوگیا ہے۔ صرف وہ کام مکمل کیے جا رہے ہیں جو پہلے سے شروع تھے لیکن اُن میں سے بھی بہت سے کام مالکان کی جانب سے جہاں تھے وہیں روک لیے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہنر مندوں اورلیبر کو دینے کے لیے اُن کے پاس کام کم ہوتا جارہا ہے۔
رمضان اور شاہین صاحب کے بیان کردہ یہ حالات اُس انسانی بحران کی ایک جھلک ہیں جو ہمارے دروازے پر کورونا کے ضمنی اثرات کی صورت میں کھڑا دستک دے رہا ہے۔ کورونا وائرس کا اگرچہ خدا نخواستہ کوئی بھی شکار ہوسکتا ہے۔ امیر، غریب، چھوٹا ،بڑا، بوڑھا ، جوان ،مرد ،عورت، مالک، ملازم، دیہاڑی دار کوئی بھی۔ لیکن اس کے اثرات ان افراد پر دوہرے ہیں جو با ضابطہ ملازمت ( formal employment)کے حامل نہیں یعنی غیر رسمی شعبے (informal sector)سے وابستہ ہیں یا ان کے کاروبار غیر رسمی معیشت (Informal Economy )کی تعریف میں آتے ہیں۔ ایک تو وہ خود اس وائرس کا شکار ہوسکتے ہیںدوسرا اُن کی آمدن کے ذرائع بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں۔کیونکہ اُنھیں زندہ رہنے کے لیے روز کمانا ہے ۔کمائیں گے تو کھائیں گے اور اپنی دیگر ضروریات پوری کر سکیں گے۔
حالات اور معمولات زندگی میں کسی طرح کی تبدیلی ایسے افراد کے لیے تباہ کُن بن جاتی ہے کیونکہ ان کے کام کو چاہے وہ دیہاڑی کی صورت میں ہو یا ملازمت کی یا پھر ذاتی کاروبار کی کسی طرح کا قانونی ، معاشی اور سماجی تحفظ(سوشل سیکورٹی) حاصل نہیں ہوتا۔ سب سے بڑھ کر اُن کا اور اُن کے کام کا کہیں اندراج یا کوئی باضابطہ ریکارڈ بھی نہیں ہوتا اور وہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہوتے ہیں جس کے باعث کسی ناگہانی آفت کے وقت حکومت کی جانب سے براہ راست اُن کے لیے کسی قسم کی امداد یا مراعات کا مہیا کرنا کافی مشکل ہوجاتا ہے۔اور اس وقت حکومت کو بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے ۔
وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے کرونا وائرس کے تناظر میںجس ریلیف پیکج کا اعلان کیا گیا ہے اُس میں غیر رسمی معیشت کی دونوں اکائیوں اجراور اجیر کے لیے خصوصی مراعات کو اعلان کیا گیا ہے لیکن یہ کس حد تک غیررسمی معیشت کو براہ راست فائدہ پہنچائے گا یہ آنے والا وقت ہی بتا ئے گا۔ وزیراعظم کی جانب سے بار بار اس کا بلواسطہ اور بلاواسطہ ذکر ذہن میں کئی ایک سوالات پیدا کر رہا ہے کہ آیا یہ غیر رسمی معیشت ہے کیا؟ کیوں وجود میںآتی ہے؟اس کا حجم کیا ہے؟یہ اتنی اہم کیوں ہے؟ اس کے فوائد کیا ہیں اور نقصانات کیا ؟
غیر رسمی معیشت کو سمجھنے کے لئے پہلے ہمیں غیر رسمی روزگار کو سمجھنا ہوگا۔ جس کی دو صورتیں ہیںاول اپنا کا م دوم اجرتی کام یا ملازمت۔ دیہاڑی دار مزدور و مستری، بغیر کنٹریکٹ کے ملازمین،سوشل سیکورٹی کی سہولت سے محروم ملازمین ،خود اپنے لیے کام کرنے والے، رکشہ و ٹیکسی و ٹرک ڈرائیور، پتھارا لگانے والے، خوانچہ فروش ،حجام، بیرے، گھریلو ملازمین، گھر پر کام کرنے والے، کچرہ اٹھانے والے، خاکروب ،دکاندار، درزی، ترکھان، پلمبر، مکینک، الیکٹریشن، ڈینٹر، ویلڈر،خرادیہ، دھوبی، موچی، رنگ ساز، قلی اور دیگرذاتی حیثیت میں شخصی خدمات مہیا کرنے والے فنکار،ہنر مند اور لیبرغیر رسمی کام اور ملازمت کی چند صورتیں ہیں۔
جنہیں کسی قسم کا قانونی یا سوشل سیکورٹی کے تحفظ کی سہولت میسر نہیں ہوتی۔ اسی طرح ایسے کاروبار جن میں روزانہ یا ماہانہ بنیادوں پر کنٹریکٹ یا بغیر کنٹریکٹ کے ملازمین رکھے جائیں لیکن انھیں وہ تما م سہولتیں فراہم نہ کی جائیں جو لیبر قوانین کے تحت تمام ملازمین کا حق ہے۔خصوصاً سوشل سیکورٹی کا تحفظ فراہم نہ کیا جائے اور کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدن کو ٹیکس نیٹ اور سرکاری ریکارڈمیں نہ لایا جائے۔ غیر رسمی کاروباری اداروں ( Informal enterprises ) کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ جبکہ غیر رسمی معیشت میں وہ تمام معاشی سرگرمیاں شامل ہیں جو سرکاری ریکارڈ میں موجود نہ ہوں یا جنھیں نیشنل انکم اکاؤنٹ میں شامل نہ کیا جائے۔
دوسرے الفاظ میں یہ معیشت کا ایک ایسا حصہ ہے جو ریاست کے نافذکردہ ضوابط ، ٹیکس اورجانچ پڑتال کے دائرہ کار سے باہر ہونے والی پیداواری اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیتا ہے۔ عام طور پر غیر رسمی معیشت کو ایک متوازی معیشت کے طور پرجانا جاتا ہے جس کی آمدنی غیر دستاویزی اور ٹیکس ادائیگی کے بغیر ہوتی ہے۔یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ غیر رسمی ملازمین کاتعلق ضروری نہیں کہ غیر رسمی معیشت سے ہی ہو بلکہ یہ رسمی اداروںمیں بھی موجود ہیں۔ مثلاً سرکاری محکموں میںکنٹریکٹ کی بنیاد پر رکھے جانے والے ملازمین اس کی واضح مثال ہیں۔ جنہیںتنخواہ اور محدود چھٹیوں کے علاوہ اور کوئی مراعات حاصل نہیں۔
ہمارے یہاں تو انھیں تنخواہیں بھی بروقت نہیں ملتیں۔ ڈیلی ویجز ایمپلائز آپ کو اکثر اپنی تنخواؤں کے حصول کے لیے احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ اکثر باضابطہ کاروباری ادارے بھی مزدور مراعات اور سوشل سیکورٹی کے بغیر کارکنوں کی غیر رسمی طور پر خدمات حاصل کر رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں مزدور قوانین سے انحراف کر تے ہیں۔ جس کی واضح مثال وہ خواتین اور مرد ہیں جنھیں مینوفیکچرنگ ادارے پیکنگ اوردیگر کام اپنے گھر پر ہی کرنے کے لیے دے دیتے ہیں۔ ایسا سب کچھ اُن تمام ممالک میں ہو رہا ہے جہاں مزدور قوانین سخت ہیں اور جہاں ان میں نرمی ہے اور وہاںبھی جہاں کئی سالوں سے لیبر کے قواعد و ضوابط تبدیل نہیں ہوئے۔
غیر رسمی معیشت ایک عالمی رجحان ہے۔کیونکہ آج کی عالمی معیشت میں کافی ملازمتیں پیدا نہیں کی جا رہیں اور بہت سی موجود ملازمتیں بھی غیر رسمی ہوتی جارہی ہیں۔اس کے علاوہ جن لوگوں کو باضابطہ تنخواہ دار ملازمت تک رسائی حاصل نہیں ہوتی تو وہ مقامی مارکیٹوں میں جس طرح ہوسکتا ہے معاملات طے کرتے ہوئے اپنی زندگیاں بچانے کے طریقے تلاش کرتے ہیں۔ معاشی ماہرین کے مطابق زیادہ ٹیکسوں کا بوجھ پوری دنیا میں غیر رسمی معیشت کے نمو کے پیچھے ایک بنیادی محرک ہے۔دنیا بھر میں غیر رسمی معیشت اور ٹیکس کی سطح کی حد کے درمیان تعلق کی جانچ کے حوالے سے بہت سی تحقیقات کی گیں ہیں۔ ان میں سے اکثر کے نتائج سے یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ جیسے جیسے ٹیکسوں کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے ۔ رسمی معیشت میں کام کرنے کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے ۔جس سے غیر رسمی کام کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ، ٹیکس جی ڈی پی کا کم تناسب، مہنگائی، افراط زر ،اجرتوں میں عدم مساوات، غربت ،اداروں میں داؤن یا رائٹ سائزنگ ،سیاسی وجغرافیائی حالات اور قدرتی آفات یہ سب غیر رسمی معیشت میں اضافہ کے محرکات ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیم اور مہارت کی کمی بھی غیررسمی معیشت کی افزائش کا محرک ہے۔ تعلیم کی کمی معاشی سرگرمیوں کو باضابطہ اوران کے ریکارڈ کے طریقہ کار کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ کم سطح کی تعلیم کی وجہ سے لوگ باضابطہ معیشت میں فٹ ہونے کے معاملے میں خود کو معذور پاتے ہیں۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ تعلیم میں اضافہ سے غیر رسمی معیشت کی وسعت میں کمی آتی ہے۔ممالک کی معاشی اور معاشرتی ترقی کی کم تر شرح بھی غیر رسمی معیشت کے نمو کی وجہ بنتی ہے۔ تحقیقی نتائج بتاتے ہیں کہ مالی ترقی کی کم سطح کے حامل ممالک کو غیر رسمی معیشت اور ٹیکس چوری کی اعلی شرحوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جن ممالک میں انسانی ترقی کے معیارات کم ہوں گے وہاں غیررسمی پن زیادہ ہوگا۔ کسی ملک میں غیر رسمی معیشت کی توسیع کے پیچھے دیگر وجوہات کے علاوہ بدعنوانی بھی ایک غالب عنصر ہے۔
سرکاری شعبے میں اعلی سطح پر بدعنوانی کا مطلب یہ ہے کہ باضابطہ معیشت میں بڑے پیمانے پر رشوت اورکمشن وصول کرنا۔ نتیجتا ًنئے کاروباری اداروں کے قیام یا رسمی معیشت میں رہنے کی لاگت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔جو غیر رسمی معیشت کو زیادہ منافع بخش اور قابل عمل متبادل بنا دیتا ہے۔ غیر رسمی معیشت میں کام کرنا رشوت کے ذریعہ باضابطہ لین دین پر اٹھنے والے زیادہ اخراجات کی جگہ لے لیتا ہے اور اس طرح کسی ملک میں غیر رسمی معیشت کی توسیع میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔لہذا بدعنوانی باضابطہ معیشت کی نشوونما کے لئے ایک مضبوط رکاوٹ ہے ۔اس سے لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے کہ اگر متعلقہ عوامی اتھارٹی خود قانون کی حکمرانی کی تعمیل نہیں کرتی تو وہ کیوں کریں۔ جس سے بالآخر ملک میںغیر رسمی معیشت کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بدعنوان سرکاری افسران غیر رسمی معیشت میں دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ اہلکار ایسے کاروبار سے رشوت اور دیگر تحائف کی شکل میں کک بیکس وصول کرتے ہیں اور انہیں غیر رسمی بنیاد پر کام کرنے دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہ افسران قوانین سے بچنے کے طریقے تلاش کرنے میں غیر رسمی کارکنوں کوسہولت دیتے ہیں۔ اور ٹیکسوں سے بچنے اور منافع میں اضافے کے لئے رسمی کاروباری اداروں کوغیر رسمی معیشت میں کام کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ اور جن ممالک میں بدعنوانی کی شرح زیادہ ہوگی وہاںغیرسرکاری معیشت کا تناسب بھی زیادہ ہوگا۔لاہور یونیورسٹی آف منجمنٹ سائنسز کی ایک ٹیکنیکل رپورٹــ'' دی اِنفارمل اکانومی آف پاکستان'' کے مطابق'' ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے بدعنوانی کے انڈکس میں ایک پوائینٹ کی بہتری غیر رسمی معیشت میں 5.1 فیصد پوائینٹ کمی واقع کرتی ہے''۔بدعنوانی سے جڑا ایک اور پہلو ممالک میں کاروبار میں آسانی کا ایک عنصر بھی ہے جو غیر رسمی معیشت کی حد کو متاثر کرتا ہے۔اس کے علاوہ محقیقن کے مطابق غیر رسمی معیشت کی سرگرمیوں میں اُس وقت اضافہ ہو جاتا ہے جب کسی ملک میں نوجوانوں کی آبادی کا تناسب زیادہ ہو۔
اس لیے غیر رسمی ملازمتیں ہر جگہ مختصر، قلیل اور طویل عرصہ تک رہنے والی ہیں۔ جس کی منظر کشی آئی ایل اوکی 2018 میں شائع ہونے رپورٹ'' وومن اینڈ مین اِن دی اِن فارمل اکانومی : اے اسٹیٹیسٹیکل پیکچر'' یوں کر رہی ہے کے دنیا میں15 سال اور اس سے زائد عمر کے 2 ارب باروزگار افراد جو عالمی ملازمتوںکا 61 فیصد ہیں غیر رسمی معیشت سے جڑے ہوئے ہیں۔ یعنی دنیا میں 10 میں سے 6 کارکن اور پانچ میں سے چار کاروباری ادارے آئی ایل او کے مطابق غیر رسمی معیشت میں کام کر رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سماجی اور معاشی ترقی کی ہر سطح کے حامل ممالک میں غیر رسمی پن موجود ہے ۔ لیکن یہ ترقی پذیر دنیا میں افرادی قوت اور آبادی کی اکثریت کے لیے روزگار اور آمدن کا بنیادی ذریعہ ہے۔یہی بنیادی وجہ ہے کہ دنیا کے ترقی پزیر علاقوں میں غیر رسمی معیشت توسیع پا رہی ہے۔ اور یہ ترقی پذیر ممالک کے جی ڈی پی کے40 سے60 فیصد حصہ کی شراکت دار ہے۔
وہ تمام محرکات جو غیر رسمی معیشت کی نمو کا محرک ہیں پاکستان میں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ جس کی وجہ سے آئی ایل او کے تازہ اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق پاکستا ن دنیا بھر میں ان ممالک کی درجہ بندی میں 33 ویں نمبر پر ہے جہاںزرعی شعبہ سے باہر غیر رسمی ملازمتوں کا تناسب زیادہ ہے۔خواندگی کو لے لیں، یونیسکو کے اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں دنیا بھر میں پرائمری اسکول کی عمر کے بچوںکی سب سے بڑی تعداد جواسکولوں سے باہر تھی اُس کا تعلق پاکستان سے تھا۔ اسی طرح15 سال اور اس سے زائد عمر کے ناخواندہ بالغوں کی بھی سب سے بڑی تعداد2017 میں پاکستانیوں پر مشتمل تھی۔اور مذکورہ سال پاکستان 15 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد کی خواندگی کی کم شرح کے حوالے سے دنیا بھر میں پانچواں محروم ملک تھا۔اکنامک سروے آف پاکستان 2018-19 کے مطابق ملک میں 10 سال اور اس سے زائد عمر میں خواندگی کی شرح 62.3 فیصد ہے۔
بدعنوانی کے حوالے سے ہم ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے 2019 کے بدعنوانی کا شکار ممالک کے انڈکس میں دنیا کے180 ممالک میں120 ویں نمبر پر تھے۔ اسی طرح ایز آف ڈوئنگ بزنس انڈیکس جو ورلڈ بینک کا بنایا ہوا ایک ایسا انڈکس ہے جس میں بہتر پوزیشن کسی بھی ملک میں کاروبار دوست فضا کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ انڈیکس دس پہلوؤں میں ہونے والی پیشترفت کی بنیاد پر کسی بھی ملک کی درجہ بندی کرتا ہے جن میںنیا کاروبار شروع کرنا ، بجلی کا کنکشن حاصل کرنا ، ٹیکس ادا کرنا ، جائیداد کا اندراج کرنا ، معاہدوں کا نفاذ کرنا ، دیوالیہ پن کو حل کرنا ، تعمیراتی اجازت ناموں کا حصول ، سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم اور قرضہ جات کا حصول شامل ہیں۔2020 کی رپورٹ اس امر کی نشاندہی کر رہی ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن 10 ممالک میں ہوتا ہے۔
جنہوں نے بہتر انضباطی اصلاحات کو نافذ کرنے کے بعد کاروبار میں آسانی کے حوالے سے اپنے یہاںسب سے زیادہ بہتری لائی ہے۔ پاکستان نے10 شعبہ جات میں سے6 میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن اس کے باوجود ہم دنیا کے 190 ممالک میں ابھی بھی108 ویں نمبر پر ہیں۔یعنی ہنوز دلی دور است۔ ماہرین کے نزدیک نوجوان آبادی بھی کسی ملک میں غیر رسمی معیشت کے فروغ کا ایک اہم محرک ہے اس حوالے سے پاکستان کی صورتحال بہت انفرادی ہے ۔اقوام متحدہ 15 سے24 سال کے Age Group کو بین الاقوامی طور پر نوجوانوں کی آبادی کا گروپ قرار دیتا ہے۔جبکہ پاکستان دولت ِمشترکہ کے متعین کردہ نوجوانوں کے Age Group 15 سے 29 سال کو نوجوانوںکی آبادی کا گروپ تصور کرتا ہے۔Age Group چاہے کوئی بھی ہو پاکستان کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا میں نوجوانوں کے دونوں Age Groups کے حوالے سے بلترتیب تیسری اور پانچویں بڑی تعداد کا مالک ملک ہے ۔
یو ایس سینسز بیوروکے انٹرنیشنل ڈیٹا بیس کے مطابق 30 جون2020 ء تک پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد اقوامِ متحدہ کے طے شدہ Age Group کے مطابق 45.07 ملین اور دولت ِمشترکہ کے متعین کردہ نوجوانوں کے Age Group کے مطابق 64.05 ملین ہے۔ ملک کے طول و عرض میں انسانی ترقی کی صورتحال بھی غیر رسمی معیشت کے فروغ کا محرک بنی ہوئی ہے۔ کیونکہ صوبوںکے مابین انسانی ترقی کے حوالے سے وسیع خلیج پائی جاتی ہے۔
جس کا اندازہ آکسفورڈ یو نیورسٹی کے بین الاقوامی ترقی کے شعبہ کے مرتب کردہ Multidimensional Poverty Index 2019 جو لوگوں کے معیار زندگی، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے دس Indicators کی کارکردگی کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے سے با خوبی لگایا جا سکتا ہے۔اس انڈکس کے مطابق پاکستان کی 38.3فیصد آبادی کثیر الجہت غربت یعنی تعلیم، صحت اور معیار زندگی کے بنیادی انسانی حقوق کی عدم تکمیل کا شکار ہے۔
غربت ماپنے کے اس جدید پیمانے کے مطابق بلوچستان کی 65.3 فیصد آبادی، خیبرپختونخواہ کی 50.9 فیصد، سندھ کی 50.5 فیصد,پنجاب کی 25.2 فیصد آبادی ، شمالی علاقہ جات کی53.6 اور اسلام آباد کی 10.6 فیصد آباد ی کثیر الجہت غربت کا شکار ہے۔جبکہ بلوچستان کی مزید 14.6 فیصد، خیبرپختونخواہ کی 16.7فیصد، پنجاب کی 13.5 فیصد اور سندھ کی 8.7 فیصد ، شمالی علاقہ جات کی 16.8فیصد اور اسلام آباد کی 7.5 فیصد مزیدآبادی کثیر الجہت غربت کے حوالے سے Vulnerableہے۔پاکستان کی سطح پر مزید Vulnerable آبادی کا تناسب 12.9 فیصد ہے۔ ملک میں کثیر الجہت غربت کی یہ صورتحال دراصل ہم وطنوں کو حاصل بنیادی انسانی ضروریات کی کم تر سہولیات کے باعث ہے ۔
یہ تما م معروضی حالات پاکستان میں غیر رسمی معیشت کی نمو کی و جوہات میں سے چند ایک ہیںجن کے باعث ملک میںغیر رسمی پن بڑھ رہا ہے۔جس کی ایک جھلک ان اعداوشمار سے باخوبی ملتی ہے کہ 2001-02 میں ملک میںغیر زرعی روزگار کے مواقعوں کا64.6 فیصدغیر رسمی ملازمتوں پر مشتمل تھا جو 2017-18 تک بڑھ کر72 فیصد ہوچکا ہے یعنی مذکورہ عرصہ کے دوران اس میں 7.4 فیصد پوائینٹ اضافہ ہوا۔ اس وقت ملک کی آبادی کے ایک بہت بڑے حصہ کا مکمل معاشی انحصار غیر رسمی
معیشت پر ہے جس کا اندازہ پاکستان لیبر فورس سروے 2017-18 کے ان اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں 10 میں سے7 غیر زرعی ملازمتیں غیر رسمی سیکٹر فراہم کرتا ہے۔ یعنی ملک کی 72 فیصد غیر زرعی لیبرفورس غیر رسمی شعبے کے ذریعے معاش حاصل کر رہی ہے۔ شہروں میں یہ تناسب 68.3 فیصد اور دیہات میں 76 فیصد ہے۔اس کے علاوہ صورتحال کو ایک اور پہلو سے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ ملک میں 10 سال اور اس سے زائد عمر کے غیر رسمی سیکٹر کے ملازمین (Employed Persons in Informal Sector)کی تعداد کا اندازہ 2017-18 کے لیبر فورس سروے میں 2 کروڑ 73 لاکھ 25 ہزار سے زائد لگایا گیا ہے۔
جو ملک میں تمام ملازمین (Total Employed Persons)کی تعداد کا 44 فیصد ہے۔خیبر پختونخواہ میں یہ تناسب سب سے زیادہ یعنی 52 فیصد ہے۔پنجاب میں یہ تناسب 44 فیصد، سندھ میں41 فیصد اور بلوچستان میں 40 فیصد ہے۔ملک میں غیر رسمی معیشت میں 2.6 فیصد روزگار فراہم کرنے والے یعنی اجر ہیں جبکہ 47.5 فیصد ملازمین یعنی اجیر ہیں۔ اس کے علاوہ 41 فیصد خود مالک خود ملازم کی صورت میں ہیں ۔ 8.9 فیصد خاندانی معاونین کی صورت میں کام کرتے ہیں۔ ملک میں غیر رسمی شعبہ کی اہمیت کا اندازہ آئی ایم ایف کی اس رپورٹ سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق 2017 میں پاکستان میں جی ڈی پی کا 36.8 فیصد غیر رسمی معیشت سے آیا۔
اب جو سب سے اہم سوال ہے وہ یہ کہ غیر رسمی معیشت فائدہ مند ہے کہ نقصان دہ؟ اس سوال اور اس کے جواب نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اعتراضات اٹھانے والے کیا کہتے ہیں اور اُس کے جوابات میں کیا کہا جاتا ہے۔ اس کی ایک جھلک کچھ یوں ہے ۔ اعتراض کرنے والوں کی جانب سے ایک موقف یہ پیش کیا جاتا ہے کہ غیر رسمی معیشت معاشی نمو کے ساتھ سکڑ جاتی ہے یا ختم ہوجاتی ہے۔اس کے جواب میں جو دلیل دی جاتی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ غیر رسمی معیشت دنیا کے بیشتر ممالک میں برقرار ہے اور ترقی کر رہی ہے۔ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ غیر رسمی معیشت کے کچھ حصے معاشی زوال کے ساتھ پھیلتے ہیں جبکہ دوسرے معاشی نمو کے ساتھ پھیلتے ہیں۔
مثال کے طور پر برآمدی مینو فیکچرنگ کے لئے گھر پر مبنی پیداوار معاشی نمو کے ساتھ بڑھتی ہے۔اسی طرح معاشی جمود اور کساد بازاری کے ادوار میں جب کارکنوں سے روزگار چھن جائے اور وہ کوئی دوسرا رسمی روزگار حاصل نہیں کر پاتے تو وہ غیر رسمی معیشت میں روزگار کا سہارا لیتے ہیں۔ یوں آج غیر رسمی ملازمت ترقی پذیر ممالک میں کل ملازمت کا نصف یااس سے زیادہ اور ترقی یافتہ ممالک میں کل ملازمت کا بڑھتا ہوا حصہ پیش کر رہی ہے۔دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ غیر رسمی معیشت ایسے کاروباری اداروں پر مشتمل ہے جو ضوابط سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر غیر رسمی کاروبار اور ملازمتیں خود مالک خود ملازم کی صورت کی حامل ہوتی ہیں۔ جو دوسروں کو نوکری پر نہیں لیتے ہیں۔یا اُن معاونین کو بلامعاوضہ اپنے ساتھ شامل کرتے ہیں جو اُن کی فیملی کے رکن ہوتے ہیں۔ کچھ غیر رسمی کارکن غیر رسمی طور پر کام کرنے کا انتخاب کرتے ہیں اور کچھ ضرورت کے پیش نظر یا روایت (یعنی موروثی پیشوں) کی وجہ سے ایساکرتے ہیں۔ نیز انضباطی ماحول غیر رسمی کارکنوں اور ان کی سرگرمیوں کے لیے غیر مناسب اورغیر متعلقہ ہوتا ہے۔ اس طرح ان کے لئے قواعد و ضوابط پر عمل پیرا ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔ تیسرے اعتراض میں کہا جاتا ہے کہ غیر رسمی فرموں کا باضابطہ فرموں کے ساتھ مقابلہ غیر منصفانہ ہے ۔ کیونکہ وہ ٹیکس ، کرایہ یا یوٹیلٹی فیسز نہیں دیتیں۔ اس کا جواب یوں دیا جاتا ہے کہ بہت سارے غیر رسمی ملازمین حکومت کو طرح طرح کے ٹیکس اور فیس دیتے ہیں۔ اس میں سپلائی اورinputs پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس شامل ہے۔
آپریٹنگ فیس مقامی حکومتوں کو ادا کی جاتی ہے۔ اور لائسنس یا اجازت نامے سے متعلق فیس بھی۔ کام کرنے کے لیے بہت سوں کو مقامی حکام کو رشوت اور جرمانے دینا پڑتے ہیں۔ کچھ عوامی جگہ استعمال کرنے کے لئے کرایہ بھی دیتے ہیں۔ اپنی کمائی سے غیر رسمی کارکن یوٹیلٹی فیسیں ، ٹرانسپورٹ کے اخراجات ، اسکول کی فیس اور اسپتال کے اخراجات بھی ادا کرتے ہیں جو براہ راست یا بالواسطہ سرکاری محصول کا حصہ بنتی ہے۔ اگلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ غیر رسمی معیشت کا رسمی معیشت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ بہت سارے غیر رسمی کارکن اپنے سامان / خام مال باقاعدہ شعبے کے سپلائرز کو فراہم کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ اپنا سامان باضابطہ شعبے کے کاروباری اداروں یا مڈل مینوں کو فروخت کرتے ہیں جو باقاعدہ فرموں کو فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے پھل اور سبزی فروش اپنا سامان باضابطہ ہول سیل مارکیٹوں سے خریدتے ہیں جبکہ دیگر گلی فروش باقاعدہ فرموں کے لئے کمیشن پر سامان فروخت کرتے ہیں۔ بہت سے گھریلو مزدور ویلیو چین کا حصہ بنے باضابطہ فرموں کے لئے ذیلی معاہدوں کے تحت سامان تیار کرتے ہیں۔ نیز باضابطہ فرمزمختلف طرح کے غیر رسمی معاہدوں کے تحت ملازمین کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔
ایک اور اعتراض میں کہا جاتا ہے کہ غیر رسمی معیشت روایتی سرگرمیوں پر مشتمل ہے جو جدید معیشت کا حصہ نہیں ہیں۔ جواباً یہ کہا جاتا ہے کہ گھروں میں کام کرنے والے مزدور مختلف ناموں کے برانڈزکے لباس ، جوتے ،کھیلوں کا سامان کے ساتھ ساتھ آٹو موبائل اور ایئر لائن مینوفیکچررز کے لیے پرزے تیار کرتے ہیں۔ کچھ الیکٹرانک اور دوا ساز کمپنیوں کے لئے سازوسامان اسمبل اور پیک کرتے ہیں۔ کچھ گلی فروش جدید سامان بیچتے ہیں جو وہ باقاعدہ سپلائرز سے خریدتے ہیں۔ دوسرے باضابطہ فرموں کے لئے کمیشن پر سامان (جیسے موبائل فون ، سافٹ ڈرنکس) فروخت کرتے ہیں۔ کچرہ اٹھانے والے کچرہ میں سے دوبارہ استعمال کے قابل اشیاء جن میںپلاسٹک ، گلاس ، گتے ، دھاتوں وغیرہ کو علیحدہ کرتے ہیں جو باقاعدہ مینوفیکچررز کیلئے خام مال اور پیکنگ مواد کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ مزید اعتراض یہ ہے کہ غیر رسمی معیشت ملکی معیشت میں تعاون نہیں کرتی اس حوالے سے جو جواب دیا جاتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ حالیہ سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جن ممالک کے اعداد و شمار دستیاب ہیں وہاں غیر رسمی معاشی اکائیوں نے ان ممالک کیnon-agricultural Gross Value Added (GVA) میں نمایاں حصہ لیا ہے ۔
مثلا ًیہ حصہ مغربی افریقہ کے تین ممالک (بینن ، نائجر اور ٹوگو) میں تقریبا 50 فیصد ،بھارت میں 46 فیصد، کولمبیا اور گوئٹے مالا میں 30 فیصد سے زیادہ ہے۔ میکسیکو میں غیر رسمی روزگار دونوں رسمی اورغیر رسمی یونٹس کے اندر وباہر مجموعی طور پر جی وی اے کا تقریبا 25 فیصد ہے۔ اگلا اعتراض یہ کہ غیر رسمی معیشت ریاست اور اس کے قوانین سے باہر ہے۔ اس اعتراض کے ردعمل میں یہ کہا جاتا ہے کہ غیر رسمی کارکنوں کو باقاعدگی سے تعزیراتی قوانین اور ضوابط کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
کیونکہ حفاظتی قوانین کی عدم موجودگی میں غیر رسمی کارکن اکثر تعزیراتی قوانین اور ضوابط کا شکار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر انڈیا میں نیا قانون متعارف ہونے سے قبل بغیر لائسنس کے اسٹریٹ فروشوں کو ملک کے کرمینل کوڈ اور متعدد میونسپل ایکٹس کے تحت مجرم سمجھا جاتا تھا۔ یہاں تک کے کولمبیا میں جب تک آئینی عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ نہیںسنایا تھا فضلہ اٹھانے والوں کوکچرہ اٹھانے اور اُسے کی ٹراسپورٹیشن کے لیے بلدیہ کے معاہدوں میں بولی لگانے کی اجازت نہ تھی۔ اس کے علاوہ اب کچھ ممالک کے پاس ایسے قوانین موجود ہیں جو غیر رسمی کارکنوں کے تحفظ کے لئے واضع یا عیاں کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پربھارت کے پاس اسٹریٹ فروشوں کے روزگار کے تحفظ کے لئے ایک نیا قانون ہے اور متعدد ممالک میں گھریلو ملازمین کے تحفظ کے لئے بھی قوانین موجود ہیں۔
غیر رسمی معیشت کے حق اور اس کی مخالفت میںدیئے جانے والے دلائل اپنی جگہ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ غیر رسمی معیشت دنیا بھر میں اربوں انسانوں کے معاش کا محور اور غربت اور افلاس سے نکلنے کے مواقعے فراہم کرتی ہے ۔ بس شرط شخصی محنت کی ہے۔ اور اسی محنت میں پاکستان کی 13.2 فیصد آبادی بھی لگی ہوئی ہے ( غیر رسمی سیکٹر کے ملازمین ملک کی کل آبادی کا 13.2 فیصد ہیں)۔ جس وقت یہ تحریر لکھی جارہی ہے تو پورے ملک میںصوبائی سطح پر لاک ڈاؤن کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے۔ لیکن یہ لاک ڈاؤن ملک بھرمیں ابھی مکمل لاک ڈاؤن نہیںبلکہ رعایتی لاک ڈاؤن ہے۔
حکومت کی جانب سے بار بار عوام سے یہ اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ گھروں میں رہیں۔لیکن لوگ اس لاک ڈاؤن کو گھروں میں رہنے کے حوالے سے سنجیدہ نہیں لے رہے۔ اس حوالے سے دفعہ 144 بھی نافذ کی جا چکی ہے لیکن روزانہ ملک بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں اس دفعہ کی خلاف ورزی کے واقعات ہورہے ہیں۔ اور اگرشہری یوں ہی بلا ضرورت گھروں سے باہر نکلتے رہے تو اس سے اُن کی اور اُنکے اہل خانہ کی زندگیاں مسلسل داؤ پر لگی رہیں گی ۔اس صورتحال میں اگر حکومت لاک ڈاؤن کے فیصلہ کے سخت اطلاق کی طرف جاتی ہے تو غیر رسمی معیشت سے منسلک کارکن کی بڑی اکثریت اور اُن پر انحصار کرنے والے اُن کی فیملیز کے دیگر ارکان نان شبینہ کو محتاج ہوسکتے ہیں۔
اورحکومت یہ بھی کہہ چکی ہے کہ اُس کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ لوگوں کے گھر تک کھانا پہنچائے۔لاک ڈاؤن کی جس حکمت عملی کا سہارا حکومت نے لیا ہے ۔اسے سینٹ لوئس ماڈل کہا جاتا ہے ۔جو1918 میں سپینش انفلوئزا کے مقابلے میںامریکی شہر سینٹ لوئس کے ہیلتھ کمشنر ڈاکٹر میکس سی سٹارکلوف (Dr. Max C Starkloff )نے اپنایا اور شہر بند کرا دیا۔ جیسے ہی شہر میں انفلوئزا کے پہلے کیس کی نشاندہی ہوئی تمام اسکول، دفاتر،مالز ،کورٹس ، کھیل کے میدان ،لائبریریز،چرجز، سینما اور20 سے زائد افراد کے اکٹھے ہونے پر پابندی لگادی گی۔ پبلک ٹرانسپورٹ کو بہت کم کر دیا گیا اور لوگوں کو اُن کے گھروں تک محدود رہنے کے لیے کہا گیا۔
تاجروں اور لوگوںنے اس اقدام کے خلاف شروع میںبھرپور احتجاج کیا لیکن سٹارکلوف اور شہر کے مئیر ہنری کیل (Henry Kiel)اپنے فیصلے پر قائم رہے۔یہ اقدام بعد میںsocial distancing کہلایا۔ اس کے برعکس دوسرے امریکی شہر فلاڈلفیا میں صورتحال اس سے بالکل مختلف رہی ستمبر کے وسط میں ہسپانوی فلو فلاڈیلفیا میں فوج اور بحری تنصیبات کے ذریعے جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا تھا ۔لیکن فلاڈیلفیا کے پبلک ہیلتھ ڈائریکٹر ولمر کروسن(Wilmer Krusen) نے عوام کو یقین دلایا کہ متاثرہ فوجی صرف روایتی موسمی فلو میں مبتلا ہیں اورفلو پر شہری آبادی کو متاثر کرنے سے پہلے قابو کرلیا جائے گا۔ جب 21 ستمبر کو پہلے چند شہری کیسز کی اطلاع ملی تو مقامی معا لجین کو خدشہ ہوا کہ یہ ایک وبا کا آغاز ہوسکتا ہے۔
لیکن کروسن اور اس کے میڈیکل بورڈ نے کہا کہ فلاڈیلفین گرم رہ کراور اپنے پاؤں کو خشک رکھ کر فلو لگنے کے خطرے کو کم کرسکتے ہیں اور اسے سنجیدہ نا لیا۔ جب عام شہریوں میں انفیکشن کی شرح دن بدن بڑھتی جا رہی تھی تو کروسن نے 28 ستمبر کو شہری سیاسی قیادت کے دباؤ پرطے شدہ لبرٹی لون پریڈ کو منسوخ کرنے سے انکار کر دیا۔ یوں پریڈ کے ٹھیک 72 گھنٹوں کے بعد فلاڈیلفیا کے تمام 31 اسپتال فلو کے مریضوں سے بھرے ہوئے تھے اور ہفتے کے آخر تک شہر میں2600 ہلاکتیںہوئیں اور جب شہر کو بند کیا تو اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ جبکہ سینٹ لوئس میں صورتحال اس کے بالکل برعکس رہی جہاں مریضوں کی تعداد اور اموات فلاڈلفیا کے مقابلے میں بہت ہی کم ہوئیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس سے بچنے کا سب سے موثر طریقہ سماجی فاصلہ اوراپنے آپ کو گھروں تک محدود رکھنے کو قرار دیا گیا ہے۔
کرونا وائرس کے پھیلنے کے خوف نے ملک میں پہلے ہی سماجی ومعاشی سرگرمیوں کو تقریباً جامد کر دیا ہے جس سے غیر رسمی شعبے سے وابستہ افرادی قوت کے روزگار کے مواقعوں اور آمدن میںنمایاں حد تک کمی آچکی ہے۔ پس انداز کیے ہوئے پیسوں کے ختم ہونے اور ادھار پیسے نہ ملنے کی وجہ سے غیر رسمی معیشت کے کارکن خاص کر دیہاڑی دار مزدور طبقہ کام کی تلاش میں شہروں کے چوراہوںاور سڑکوں کے کنارے اب دوبارہ نظر آنا شروع ہوگیا ہے اور ہر نئے دن کے ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جو خدانخواستہ ایک طرف تو کروناوائرس کا شکار ہوسکتے ہیں لیکن دوسری جانب وہ بھوک کا شکار ہوچکے ہیں۔
اور ہر اُس فرد اور گاڑی کی طرف لپکتے ہیں جس سے اُنھیں کسی قسم کی امداد یا کام کی اُمید ہو۔ اس تمام صورتحال میںسب سے مشکل حالات کا سامنا غیر رسمی شعبہ کا وہ لوئر مڈل کلاس سفید پوش تنخواہ دار طبقہ ہے جن کی تنخواہ کی ادائیگی میں تاخیر کی جا رہی ہے یا پھراُنھیںآدھی تنخواہ ادا کی گئی ہے اور مستقبل میں آدھی بھی ملتی ہے کہ نہیں اسکا انھیںکوئی پتا نہیں۔اور اگر زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہا جائے کہ اُن کی ملازمتیں برقرار بھی رہتیں ہیںکے نہیں اس سوچ نے اُن کی راتوں کی نیندیں اڑا دیں ہیں۔ یہ سفید پوش طبقہ اپنی عزت نفس کے ہاتھوںکسی سے مانگ بھی نہیںسکتا ہے اورتنخواہوں کے حوالے سے اگر یہی روش برقرار رہی تو بغیر مانگے جی بھی نہیں سکے گا۔اس کی تازہ ترین مثال حال ہی میں وسیع نیٹ ورک کی حامل ایک معروف بیکری نے اپنی دکانوں پر موجود سیلز مینوں اور سپروائزر کو مارچ کی تنخواہ دینے کے بعد اُن کی تعداد کو آدھا کر دیا ہے۔یعنی ڈاؤن سائزنگ کردی ہے۔
کیونکہ صوبائی حکومت کی جانب سے دکان کھلے رہنے کی اوقات کارکم کردیئے گئے ہیں۔ جس سے سیل کم ہوگئی ہے۔اس لیے ملازمین کی تعداد کو محدود کردیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ جنہیں فارغ کیا گیا ہے وہ کیا کریں گے ؟جن ملازمین کی وجہ سے ادارے ساراسال منافع کماتے ہیں کیا وہ ان ملازمین کو دو تین مہینے مشکل حالات میں تنخواہیں نہیں دے سکتے؟اس طرح کی صورت حال سے بچنے کے لیے اُنھیں سوشل سیکورٹی کا تحفظ فراہم نہیں کرسکتے؟یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ ہم اپنے منافع کے کم ہونے کو نقصان سے تعبیر کرتے ہیں۔اوریہ سوچ غیر رسمی لیبر کے روزگار کے تحفظ کو لاحق سب سے بڑا المیہ ہے۔
کرونا کے اس طرح کے ضمنی اثرات آنے والے دنوں میں مزید کئی صورتوں میں ہمارے سامنے آئیں گے ۔اس حوالے سے حکومت اپنے تئیں جو بھی کر رہی ہے یا کرے گی اُس پر بھرپور اعتماد اور بھروسہ کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کا بازو بننے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ دنیا کی کوئی بھی حکومت اس طرح کی آزمائش کا بغیر عوامی تعاون مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس سلسلے میں یہ ہر اُس فرد کی انفرادی ذمہ داری ہے جسے اللہ پاک نے کسی کے گھر کا پہیہ رواں دواں رکھنے میں اپنا حصہ ادا کرنے کا اہل بنایا ہے تو وہ آزمائش کے اس وقت میں اپنے حصہ کو کم کرنے کی بجائے بڑھا دے ۔ کسی کی اُجرت نہ روکیں ۔کسی کو بیروزگار نہ کریں۔
کسی کی بنا تقاضہ مدد کر دیں۔ کسی کو اُس کی اجرت سے زیادہ دے دیں۔ اپنا دستر خوان وسیع کرلیں۔ گھر میں جو پکائیں اُس میں محلے یا جاننے والوں میں سے کسی ایک ایسے گھر کا حصہ ضرور شامل کرلیں جن کی آمدن غیر رسمی شعبہ سے منسلک ہے اور وہ موجودہ حالات میں تنگی کا شکار ہیں۔ یوں ہم مل کر اس آزمائش کے ضمنی اثرات کا احسن طریقے سے مقابلہ کر سکتے ہیںجس کا شکارہم سب ہیں۔
اُن سے گفتگو میں جب اُن کے کام کے بارے میں پوچھا تو جو کچھ اُنھوں نے بتایا وہ کسی بھی باشعور فرد کے دل کو دہلانے کے لیے کافی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے اسکولوں کی بندش نے اُنھیں شدید ترین مالی مشکلات میں جکڑ دیا ہے۔ بچوں کے اسکول نہ جانے کی وجہ سے اکثر والدین مارچ کے مہینے کی ویگن فیس اُنھیں دینے کو تیار نہیں۔ اس کے علاوہ اکثرلوگوں نے کورونا وائرس کے باعث اپنا تعمیراتی کام بھی بند کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے ماربل فیکٹری سے بھی لوڈنگ کا کام آج کل مندے کا شکار ہے۔ رمضان صاحب کرائے کے گھر میں رہتے ہیں ۔ شادی شدہ ہیں ۔اپنے والد کی وفات کے بعد گھر کے بڑے اور واحد کفیل ہیں ۔
اُن کی ماہانہ آمدن کا مکمل دار و مدار ویگن سے حاصل ہونے والی آمدن پر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کرونا وائرس نے تو ہمیں جیتے جی مار دیا ہے۔ ایک طرف تو مجھے بھی اس بیماری کا خوف ہے تو دوسری جانب لوگوں نے سماجی اور معاشی طور پر اپنے آپ کو محدود کرلیا ہے۔کام نہیں ہے گزارہ کیسے ہوگا؟
شبیر احمد شاہین لاہور میں ڈیزائن اور کنسٹرکشن کی ایک معروف فرم کے مالک ہیں۔غیر رسمی انداز میں شروع کیا جانے والا اُن کا کام آج انکم ٹیکس ادا کرنے والی ایک باقاعدہ فرم کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔ہنر مندوں اور لیبر کا ایک پورا نیٹ ورک اُن کے ساتھ منسلک ہے۔ جنہیں اُنکی فرم کی جانب سے کام ٹھیکوں پر دیا جاتا ہے۔شبیر صاحب بھی موجودہ صورتحال سے پریشان ہیں کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے کنسٹرکشن کا نیا کام بالکل بند ہوگیا ہے۔ صرف وہ کام مکمل کیے جا رہے ہیں جو پہلے سے شروع تھے لیکن اُن میں سے بھی بہت سے کام مالکان کی جانب سے جہاں تھے وہیں روک لیے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہنر مندوں اورلیبر کو دینے کے لیے اُن کے پاس کام کم ہوتا جارہا ہے۔
رمضان اور شاہین صاحب کے بیان کردہ یہ حالات اُس انسانی بحران کی ایک جھلک ہیں جو ہمارے دروازے پر کورونا کے ضمنی اثرات کی صورت میں کھڑا دستک دے رہا ہے۔ کورونا وائرس کا اگرچہ خدا نخواستہ کوئی بھی شکار ہوسکتا ہے۔ امیر، غریب، چھوٹا ،بڑا، بوڑھا ، جوان ،مرد ،عورت، مالک، ملازم، دیہاڑی دار کوئی بھی۔ لیکن اس کے اثرات ان افراد پر دوہرے ہیں جو با ضابطہ ملازمت ( formal employment)کے حامل نہیں یعنی غیر رسمی شعبے (informal sector)سے وابستہ ہیں یا ان کے کاروبار غیر رسمی معیشت (Informal Economy )کی تعریف میں آتے ہیں۔ ایک تو وہ خود اس وائرس کا شکار ہوسکتے ہیںدوسرا اُن کی آمدن کے ذرائع بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں۔کیونکہ اُنھیں زندہ رہنے کے لیے روز کمانا ہے ۔کمائیں گے تو کھائیں گے اور اپنی دیگر ضروریات پوری کر سکیں گے۔
حالات اور معمولات زندگی میں کسی طرح کی تبدیلی ایسے افراد کے لیے تباہ کُن بن جاتی ہے کیونکہ ان کے کام کو چاہے وہ دیہاڑی کی صورت میں ہو یا ملازمت کی یا پھر ذاتی کاروبار کی کسی طرح کا قانونی ، معاشی اور سماجی تحفظ(سوشل سیکورٹی) حاصل نہیں ہوتا۔ سب سے بڑھ کر اُن کا اور اُن کے کام کا کہیں اندراج یا کوئی باضابطہ ریکارڈ بھی نہیں ہوتا اور وہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہوتے ہیں جس کے باعث کسی ناگہانی آفت کے وقت حکومت کی جانب سے براہ راست اُن کے لیے کسی قسم کی امداد یا مراعات کا مہیا کرنا کافی مشکل ہوجاتا ہے۔اور اس وقت حکومت کو بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے ۔
وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے کرونا وائرس کے تناظر میںجس ریلیف پیکج کا اعلان کیا گیا ہے اُس میں غیر رسمی معیشت کی دونوں اکائیوں اجراور اجیر کے لیے خصوصی مراعات کو اعلان کیا گیا ہے لیکن یہ کس حد تک غیررسمی معیشت کو براہ راست فائدہ پہنچائے گا یہ آنے والا وقت ہی بتا ئے گا۔ وزیراعظم کی جانب سے بار بار اس کا بلواسطہ اور بلاواسطہ ذکر ذہن میں کئی ایک سوالات پیدا کر رہا ہے کہ آیا یہ غیر رسمی معیشت ہے کیا؟ کیوں وجود میںآتی ہے؟اس کا حجم کیا ہے؟یہ اتنی اہم کیوں ہے؟ اس کے فوائد کیا ہیں اور نقصانات کیا ؟
غیر رسمی معیشت کو سمجھنے کے لئے پہلے ہمیں غیر رسمی روزگار کو سمجھنا ہوگا۔ جس کی دو صورتیں ہیںاول اپنا کا م دوم اجرتی کام یا ملازمت۔ دیہاڑی دار مزدور و مستری، بغیر کنٹریکٹ کے ملازمین،سوشل سیکورٹی کی سہولت سے محروم ملازمین ،خود اپنے لیے کام کرنے والے، رکشہ و ٹیکسی و ٹرک ڈرائیور، پتھارا لگانے والے، خوانچہ فروش ،حجام، بیرے، گھریلو ملازمین، گھر پر کام کرنے والے، کچرہ اٹھانے والے، خاکروب ،دکاندار، درزی، ترکھان، پلمبر، مکینک، الیکٹریشن، ڈینٹر، ویلڈر،خرادیہ، دھوبی، موچی، رنگ ساز، قلی اور دیگرذاتی حیثیت میں شخصی خدمات مہیا کرنے والے فنکار،ہنر مند اور لیبرغیر رسمی کام اور ملازمت کی چند صورتیں ہیں۔
جنہیں کسی قسم کا قانونی یا سوشل سیکورٹی کے تحفظ کی سہولت میسر نہیں ہوتی۔ اسی طرح ایسے کاروبار جن میں روزانہ یا ماہانہ بنیادوں پر کنٹریکٹ یا بغیر کنٹریکٹ کے ملازمین رکھے جائیں لیکن انھیں وہ تما م سہولتیں فراہم نہ کی جائیں جو لیبر قوانین کے تحت تمام ملازمین کا حق ہے۔خصوصاً سوشل سیکورٹی کا تحفظ فراہم نہ کیا جائے اور کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدن کو ٹیکس نیٹ اور سرکاری ریکارڈمیں نہ لایا جائے۔ غیر رسمی کاروباری اداروں ( Informal enterprises ) کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ جبکہ غیر رسمی معیشت میں وہ تمام معاشی سرگرمیاں شامل ہیں جو سرکاری ریکارڈ میں موجود نہ ہوں یا جنھیں نیشنل انکم اکاؤنٹ میں شامل نہ کیا جائے۔
دوسرے الفاظ میں یہ معیشت کا ایک ایسا حصہ ہے جو ریاست کے نافذکردہ ضوابط ، ٹیکس اورجانچ پڑتال کے دائرہ کار سے باہر ہونے والی پیداواری اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیتا ہے۔ عام طور پر غیر رسمی معیشت کو ایک متوازی معیشت کے طور پرجانا جاتا ہے جس کی آمدنی غیر دستاویزی اور ٹیکس ادائیگی کے بغیر ہوتی ہے۔یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ غیر رسمی ملازمین کاتعلق ضروری نہیں کہ غیر رسمی معیشت سے ہی ہو بلکہ یہ رسمی اداروںمیں بھی موجود ہیں۔ مثلاً سرکاری محکموں میںکنٹریکٹ کی بنیاد پر رکھے جانے والے ملازمین اس کی واضح مثال ہیں۔ جنہیںتنخواہ اور محدود چھٹیوں کے علاوہ اور کوئی مراعات حاصل نہیں۔
ہمارے یہاں تو انھیں تنخواہیں بھی بروقت نہیں ملتیں۔ ڈیلی ویجز ایمپلائز آپ کو اکثر اپنی تنخواؤں کے حصول کے لیے احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ اکثر باضابطہ کاروباری ادارے بھی مزدور مراعات اور سوشل سیکورٹی کے بغیر کارکنوں کی غیر رسمی طور پر خدمات حاصل کر رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں مزدور قوانین سے انحراف کر تے ہیں۔ جس کی واضح مثال وہ خواتین اور مرد ہیں جنھیں مینوفیکچرنگ ادارے پیکنگ اوردیگر کام اپنے گھر پر ہی کرنے کے لیے دے دیتے ہیں۔ ایسا سب کچھ اُن تمام ممالک میں ہو رہا ہے جہاں مزدور قوانین سخت ہیں اور جہاں ان میں نرمی ہے اور وہاںبھی جہاں کئی سالوں سے لیبر کے قواعد و ضوابط تبدیل نہیں ہوئے۔
غیر رسمی معیشت ایک عالمی رجحان ہے۔کیونکہ آج کی عالمی معیشت میں کافی ملازمتیں پیدا نہیں کی جا رہیں اور بہت سی موجود ملازمتیں بھی غیر رسمی ہوتی جارہی ہیں۔اس کے علاوہ جن لوگوں کو باضابطہ تنخواہ دار ملازمت تک رسائی حاصل نہیں ہوتی تو وہ مقامی مارکیٹوں میں جس طرح ہوسکتا ہے معاملات طے کرتے ہوئے اپنی زندگیاں بچانے کے طریقے تلاش کرتے ہیں۔ معاشی ماہرین کے مطابق زیادہ ٹیکسوں کا بوجھ پوری دنیا میں غیر رسمی معیشت کے نمو کے پیچھے ایک بنیادی محرک ہے۔دنیا بھر میں غیر رسمی معیشت اور ٹیکس کی سطح کی حد کے درمیان تعلق کی جانچ کے حوالے سے بہت سی تحقیقات کی گیں ہیں۔ ان میں سے اکثر کے نتائج سے یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ جیسے جیسے ٹیکسوں کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے ۔ رسمی معیشت میں کام کرنے کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے ۔جس سے غیر رسمی کام کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ، ٹیکس جی ڈی پی کا کم تناسب، مہنگائی، افراط زر ،اجرتوں میں عدم مساوات، غربت ،اداروں میں داؤن یا رائٹ سائزنگ ،سیاسی وجغرافیائی حالات اور قدرتی آفات یہ سب غیر رسمی معیشت میں اضافہ کے محرکات ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیم اور مہارت کی کمی بھی غیررسمی معیشت کی افزائش کا محرک ہے۔ تعلیم کی کمی معاشی سرگرمیوں کو باضابطہ اوران کے ریکارڈ کے طریقہ کار کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ کم سطح کی تعلیم کی وجہ سے لوگ باضابطہ معیشت میں فٹ ہونے کے معاملے میں خود کو معذور پاتے ہیں۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ تعلیم میں اضافہ سے غیر رسمی معیشت کی وسعت میں کمی آتی ہے۔ممالک کی معاشی اور معاشرتی ترقی کی کم تر شرح بھی غیر رسمی معیشت کے نمو کی وجہ بنتی ہے۔ تحقیقی نتائج بتاتے ہیں کہ مالی ترقی کی کم سطح کے حامل ممالک کو غیر رسمی معیشت اور ٹیکس چوری کی اعلی شرحوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جن ممالک میں انسانی ترقی کے معیارات کم ہوں گے وہاں غیررسمی پن زیادہ ہوگا۔ کسی ملک میں غیر رسمی معیشت کی توسیع کے پیچھے دیگر وجوہات کے علاوہ بدعنوانی بھی ایک غالب عنصر ہے۔
سرکاری شعبے میں اعلی سطح پر بدعنوانی کا مطلب یہ ہے کہ باضابطہ معیشت میں بڑے پیمانے پر رشوت اورکمشن وصول کرنا۔ نتیجتا ًنئے کاروباری اداروں کے قیام یا رسمی معیشت میں رہنے کی لاگت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔جو غیر رسمی معیشت کو زیادہ منافع بخش اور قابل عمل متبادل بنا دیتا ہے۔ غیر رسمی معیشت میں کام کرنا رشوت کے ذریعہ باضابطہ لین دین پر اٹھنے والے زیادہ اخراجات کی جگہ لے لیتا ہے اور اس طرح کسی ملک میں غیر رسمی معیشت کی توسیع میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔لہذا بدعنوانی باضابطہ معیشت کی نشوونما کے لئے ایک مضبوط رکاوٹ ہے ۔اس سے لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے کہ اگر متعلقہ عوامی اتھارٹی خود قانون کی حکمرانی کی تعمیل نہیں کرتی تو وہ کیوں کریں۔ جس سے بالآخر ملک میںغیر رسمی معیشت کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بدعنوان سرکاری افسران غیر رسمی معیشت میں دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ اہلکار ایسے کاروبار سے رشوت اور دیگر تحائف کی شکل میں کک بیکس وصول کرتے ہیں اور انہیں غیر رسمی بنیاد پر کام کرنے دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہ افسران قوانین سے بچنے کے طریقے تلاش کرنے میں غیر رسمی کارکنوں کوسہولت دیتے ہیں۔ اور ٹیکسوں سے بچنے اور منافع میں اضافے کے لئے رسمی کاروباری اداروں کوغیر رسمی معیشت میں کام کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ اور جن ممالک میں بدعنوانی کی شرح زیادہ ہوگی وہاںغیرسرکاری معیشت کا تناسب بھی زیادہ ہوگا۔لاہور یونیورسٹی آف منجمنٹ سائنسز کی ایک ٹیکنیکل رپورٹــ'' دی اِنفارمل اکانومی آف پاکستان'' کے مطابق'' ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے بدعنوانی کے انڈکس میں ایک پوائینٹ کی بہتری غیر رسمی معیشت میں 5.1 فیصد پوائینٹ کمی واقع کرتی ہے''۔بدعنوانی سے جڑا ایک اور پہلو ممالک میں کاروبار میں آسانی کا ایک عنصر بھی ہے جو غیر رسمی معیشت کی حد کو متاثر کرتا ہے۔اس کے علاوہ محقیقن کے مطابق غیر رسمی معیشت کی سرگرمیوں میں اُس وقت اضافہ ہو جاتا ہے جب کسی ملک میں نوجوانوں کی آبادی کا تناسب زیادہ ہو۔
اس لیے غیر رسمی ملازمتیں ہر جگہ مختصر، قلیل اور طویل عرصہ تک رہنے والی ہیں۔ جس کی منظر کشی آئی ایل اوکی 2018 میں شائع ہونے رپورٹ'' وومن اینڈ مین اِن دی اِن فارمل اکانومی : اے اسٹیٹیسٹیکل پیکچر'' یوں کر رہی ہے کے دنیا میں15 سال اور اس سے زائد عمر کے 2 ارب باروزگار افراد جو عالمی ملازمتوںکا 61 فیصد ہیں غیر رسمی معیشت سے جڑے ہوئے ہیں۔ یعنی دنیا میں 10 میں سے 6 کارکن اور پانچ میں سے چار کاروباری ادارے آئی ایل او کے مطابق غیر رسمی معیشت میں کام کر رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سماجی اور معاشی ترقی کی ہر سطح کے حامل ممالک میں غیر رسمی پن موجود ہے ۔ لیکن یہ ترقی پذیر دنیا میں افرادی قوت اور آبادی کی اکثریت کے لیے روزگار اور آمدن کا بنیادی ذریعہ ہے۔یہی بنیادی وجہ ہے کہ دنیا کے ترقی پزیر علاقوں میں غیر رسمی معیشت توسیع پا رہی ہے۔ اور یہ ترقی پذیر ممالک کے جی ڈی پی کے40 سے60 فیصد حصہ کی شراکت دار ہے۔
وہ تمام محرکات جو غیر رسمی معیشت کی نمو کا محرک ہیں پاکستان میں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ جس کی وجہ سے آئی ایل او کے تازہ اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق پاکستا ن دنیا بھر میں ان ممالک کی درجہ بندی میں 33 ویں نمبر پر ہے جہاںزرعی شعبہ سے باہر غیر رسمی ملازمتوں کا تناسب زیادہ ہے۔خواندگی کو لے لیں، یونیسکو کے اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں دنیا بھر میں پرائمری اسکول کی عمر کے بچوںکی سب سے بڑی تعداد جواسکولوں سے باہر تھی اُس کا تعلق پاکستان سے تھا۔ اسی طرح15 سال اور اس سے زائد عمر کے ناخواندہ بالغوں کی بھی سب سے بڑی تعداد2017 میں پاکستانیوں پر مشتمل تھی۔اور مذکورہ سال پاکستان 15 سال اور اس سے زائد عمر کے افراد کی خواندگی کی کم شرح کے حوالے سے دنیا بھر میں پانچواں محروم ملک تھا۔اکنامک سروے آف پاکستان 2018-19 کے مطابق ملک میں 10 سال اور اس سے زائد عمر میں خواندگی کی شرح 62.3 فیصد ہے۔
بدعنوانی کے حوالے سے ہم ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے 2019 کے بدعنوانی کا شکار ممالک کے انڈکس میں دنیا کے180 ممالک میں120 ویں نمبر پر تھے۔ اسی طرح ایز آف ڈوئنگ بزنس انڈیکس جو ورلڈ بینک کا بنایا ہوا ایک ایسا انڈکس ہے جس میں بہتر پوزیشن کسی بھی ملک میں کاروبار دوست فضا کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ انڈیکس دس پہلوؤں میں ہونے والی پیشترفت کی بنیاد پر کسی بھی ملک کی درجہ بندی کرتا ہے جن میںنیا کاروبار شروع کرنا ، بجلی کا کنکشن حاصل کرنا ، ٹیکس ادا کرنا ، جائیداد کا اندراج کرنا ، معاہدوں کا نفاذ کرنا ، دیوالیہ پن کو حل کرنا ، تعمیراتی اجازت ناموں کا حصول ، سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم اور قرضہ جات کا حصول شامل ہیں۔2020 کی رپورٹ اس امر کی نشاندہی کر رہی ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن 10 ممالک میں ہوتا ہے۔
جنہوں نے بہتر انضباطی اصلاحات کو نافذ کرنے کے بعد کاروبار میں آسانی کے حوالے سے اپنے یہاںسب سے زیادہ بہتری لائی ہے۔ پاکستان نے10 شعبہ جات میں سے6 میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن اس کے باوجود ہم دنیا کے 190 ممالک میں ابھی بھی108 ویں نمبر پر ہیں۔یعنی ہنوز دلی دور است۔ ماہرین کے نزدیک نوجوان آبادی بھی کسی ملک میں غیر رسمی معیشت کے فروغ کا ایک اہم محرک ہے اس حوالے سے پاکستان کی صورتحال بہت انفرادی ہے ۔اقوام متحدہ 15 سے24 سال کے Age Group کو بین الاقوامی طور پر نوجوانوں کی آبادی کا گروپ قرار دیتا ہے۔جبکہ پاکستان دولت ِمشترکہ کے متعین کردہ نوجوانوں کے Age Group 15 سے 29 سال کو نوجوانوںکی آبادی کا گروپ تصور کرتا ہے۔Age Group چاہے کوئی بھی ہو پاکستان کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا میں نوجوانوں کے دونوں Age Groups کے حوالے سے بلترتیب تیسری اور پانچویں بڑی تعداد کا مالک ملک ہے ۔
یو ایس سینسز بیوروکے انٹرنیشنل ڈیٹا بیس کے مطابق 30 جون2020 ء تک پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد اقوامِ متحدہ کے طے شدہ Age Group کے مطابق 45.07 ملین اور دولت ِمشترکہ کے متعین کردہ نوجوانوں کے Age Group کے مطابق 64.05 ملین ہے۔ ملک کے طول و عرض میں انسانی ترقی کی صورتحال بھی غیر رسمی معیشت کے فروغ کا محرک بنی ہوئی ہے۔ کیونکہ صوبوںکے مابین انسانی ترقی کے حوالے سے وسیع خلیج پائی جاتی ہے۔
جس کا اندازہ آکسفورڈ یو نیورسٹی کے بین الاقوامی ترقی کے شعبہ کے مرتب کردہ Multidimensional Poverty Index 2019 جو لوگوں کے معیار زندگی، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے دس Indicators کی کارکردگی کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے سے با خوبی لگایا جا سکتا ہے۔اس انڈکس کے مطابق پاکستان کی 38.3فیصد آبادی کثیر الجہت غربت یعنی تعلیم، صحت اور معیار زندگی کے بنیادی انسانی حقوق کی عدم تکمیل کا شکار ہے۔
غربت ماپنے کے اس جدید پیمانے کے مطابق بلوچستان کی 65.3 فیصد آبادی، خیبرپختونخواہ کی 50.9 فیصد، سندھ کی 50.5 فیصد,پنجاب کی 25.2 فیصد آبادی ، شمالی علاقہ جات کی53.6 اور اسلام آباد کی 10.6 فیصد آباد ی کثیر الجہت غربت کا شکار ہے۔جبکہ بلوچستان کی مزید 14.6 فیصد، خیبرپختونخواہ کی 16.7فیصد، پنجاب کی 13.5 فیصد اور سندھ کی 8.7 فیصد ، شمالی علاقہ جات کی 16.8فیصد اور اسلام آباد کی 7.5 فیصد مزیدآبادی کثیر الجہت غربت کے حوالے سے Vulnerableہے۔پاکستان کی سطح پر مزید Vulnerable آبادی کا تناسب 12.9 فیصد ہے۔ ملک میں کثیر الجہت غربت کی یہ صورتحال دراصل ہم وطنوں کو حاصل بنیادی انسانی ضروریات کی کم تر سہولیات کے باعث ہے ۔
یہ تما م معروضی حالات پاکستان میں غیر رسمی معیشت کی نمو کی و جوہات میں سے چند ایک ہیںجن کے باعث ملک میںغیر رسمی پن بڑھ رہا ہے۔جس کی ایک جھلک ان اعداوشمار سے باخوبی ملتی ہے کہ 2001-02 میں ملک میںغیر زرعی روزگار کے مواقعوں کا64.6 فیصدغیر رسمی ملازمتوں پر مشتمل تھا جو 2017-18 تک بڑھ کر72 فیصد ہوچکا ہے یعنی مذکورہ عرصہ کے دوران اس میں 7.4 فیصد پوائینٹ اضافہ ہوا۔ اس وقت ملک کی آبادی کے ایک بہت بڑے حصہ کا مکمل معاشی انحصار غیر رسمی
معیشت پر ہے جس کا اندازہ پاکستان لیبر فورس سروے 2017-18 کے ان اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں 10 میں سے7 غیر زرعی ملازمتیں غیر رسمی سیکٹر فراہم کرتا ہے۔ یعنی ملک کی 72 فیصد غیر زرعی لیبرفورس غیر رسمی شعبے کے ذریعے معاش حاصل کر رہی ہے۔ شہروں میں یہ تناسب 68.3 فیصد اور دیہات میں 76 فیصد ہے۔اس کے علاوہ صورتحال کو ایک اور پہلو سے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ ملک میں 10 سال اور اس سے زائد عمر کے غیر رسمی سیکٹر کے ملازمین (Employed Persons in Informal Sector)کی تعداد کا اندازہ 2017-18 کے لیبر فورس سروے میں 2 کروڑ 73 لاکھ 25 ہزار سے زائد لگایا گیا ہے۔
جو ملک میں تمام ملازمین (Total Employed Persons)کی تعداد کا 44 فیصد ہے۔خیبر پختونخواہ میں یہ تناسب سب سے زیادہ یعنی 52 فیصد ہے۔پنجاب میں یہ تناسب 44 فیصد، سندھ میں41 فیصد اور بلوچستان میں 40 فیصد ہے۔ملک میں غیر رسمی معیشت میں 2.6 فیصد روزگار فراہم کرنے والے یعنی اجر ہیں جبکہ 47.5 فیصد ملازمین یعنی اجیر ہیں۔ اس کے علاوہ 41 فیصد خود مالک خود ملازم کی صورت میں ہیں ۔ 8.9 فیصد خاندانی معاونین کی صورت میں کام کرتے ہیں۔ ملک میں غیر رسمی شعبہ کی اہمیت کا اندازہ آئی ایم ایف کی اس رپورٹ سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق 2017 میں پاکستان میں جی ڈی پی کا 36.8 فیصد غیر رسمی معیشت سے آیا۔
اب جو سب سے اہم سوال ہے وہ یہ کہ غیر رسمی معیشت فائدہ مند ہے کہ نقصان دہ؟ اس سوال اور اس کے جواب نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اعتراضات اٹھانے والے کیا کہتے ہیں اور اُس کے جوابات میں کیا کہا جاتا ہے۔ اس کی ایک جھلک کچھ یوں ہے ۔ اعتراض کرنے والوں کی جانب سے ایک موقف یہ پیش کیا جاتا ہے کہ غیر رسمی معیشت معاشی نمو کے ساتھ سکڑ جاتی ہے یا ختم ہوجاتی ہے۔اس کے جواب میں جو دلیل دی جاتی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ غیر رسمی معیشت دنیا کے بیشتر ممالک میں برقرار ہے اور ترقی کر رہی ہے۔ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ غیر رسمی معیشت کے کچھ حصے معاشی زوال کے ساتھ پھیلتے ہیں جبکہ دوسرے معاشی نمو کے ساتھ پھیلتے ہیں۔
مثال کے طور پر برآمدی مینو فیکچرنگ کے لئے گھر پر مبنی پیداوار معاشی نمو کے ساتھ بڑھتی ہے۔اسی طرح معاشی جمود اور کساد بازاری کے ادوار میں جب کارکنوں سے روزگار چھن جائے اور وہ کوئی دوسرا رسمی روزگار حاصل نہیں کر پاتے تو وہ غیر رسمی معیشت میں روزگار کا سہارا لیتے ہیں۔ یوں آج غیر رسمی ملازمت ترقی پذیر ممالک میں کل ملازمت کا نصف یااس سے زیادہ اور ترقی یافتہ ممالک میں کل ملازمت کا بڑھتا ہوا حصہ پیش کر رہی ہے۔دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ غیر رسمی معیشت ایسے کاروباری اداروں پر مشتمل ہے جو ضوابط سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر غیر رسمی کاروبار اور ملازمتیں خود مالک خود ملازم کی صورت کی حامل ہوتی ہیں۔ جو دوسروں کو نوکری پر نہیں لیتے ہیں۔یا اُن معاونین کو بلامعاوضہ اپنے ساتھ شامل کرتے ہیں جو اُن کی فیملی کے رکن ہوتے ہیں۔ کچھ غیر رسمی کارکن غیر رسمی طور پر کام کرنے کا انتخاب کرتے ہیں اور کچھ ضرورت کے پیش نظر یا روایت (یعنی موروثی پیشوں) کی وجہ سے ایساکرتے ہیں۔ نیز انضباطی ماحول غیر رسمی کارکنوں اور ان کی سرگرمیوں کے لیے غیر مناسب اورغیر متعلقہ ہوتا ہے۔ اس طرح ان کے لئے قواعد و ضوابط پر عمل پیرا ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔ تیسرے اعتراض میں کہا جاتا ہے کہ غیر رسمی فرموں کا باضابطہ فرموں کے ساتھ مقابلہ غیر منصفانہ ہے ۔ کیونکہ وہ ٹیکس ، کرایہ یا یوٹیلٹی فیسز نہیں دیتیں۔ اس کا جواب یوں دیا جاتا ہے کہ بہت سارے غیر رسمی ملازمین حکومت کو طرح طرح کے ٹیکس اور فیس دیتے ہیں۔ اس میں سپلائی اورinputs پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس شامل ہے۔
آپریٹنگ فیس مقامی حکومتوں کو ادا کی جاتی ہے۔ اور لائسنس یا اجازت نامے سے متعلق فیس بھی۔ کام کرنے کے لیے بہت سوں کو مقامی حکام کو رشوت اور جرمانے دینا پڑتے ہیں۔ کچھ عوامی جگہ استعمال کرنے کے لئے کرایہ بھی دیتے ہیں۔ اپنی کمائی سے غیر رسمی کارکن یوٹیلٹی فیسیں ، ٹرانسپورٹ کے اخراجات ، اسکول کی فیس اور اسپتال کے اخراجات بھی ادا کرتے ہیں جو براہ راست یا بالواسطہ سرکاری محصول کا حصہ بنتی ہے۔ اگلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ غیر رسمی معیشت کا رسمی معیشت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ بہت سارے غیر رسمی کارکن اپنے سامان / خام مال باقاعدہ شعبے کے سپلائرز کو فراہم کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ اپنا سامان باضابطہ شعبے کے کاروباری اداروں یا مڈل مینوں کو فروخت کرتے ہیں جو باقاعدہ فرموں کو فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے پھل اور سبزی فروش اپنا سامان باضابطہ ہول سیل مارکیٹوں سے خریدتے ہیں جبکہ دیگر گلی فروش باقاعدہ فرموں کے لئے کمیشن پر سامان فروخت کرتے ہیں۔ بہت سے گھریلو مزدور ویلیو چین کا حصہ بنے باضابطہ فرموں کے لئے ذیلی معاہدوں کے تحت سامان تیار کرتے ہیں۔ نیز باضابطہ فرمزمختلف طرح کے غیر رسمی معاہدوں کے تحت ملازمین کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔
ایک اور اعتراض میں کہا جاتا ہے کہ غیر رسمی معیشت روایتی سرگرمیوں پر مشتمل ہے جو جدید معیشت کا حصہ نہیں ہیں۔ جواباً یہ کہا جاتا ہے کہ گھروں میں کام کرنے والے مزدور مختلف ناموں کے برانڈزکے لباس ، جوتے ،کھیلوں کا سامان کے ساتھ ساتھ آٹو موبائل اور ایئر لائن مینوفیکچررز کے لیے پرزے تیار کرتے ہیں۔ کچھ الیکٹرانک اور دوا ساز کمپنیوں کے لئے سازوسامان اسمبل اور پیک کرتے ہیں۔ کچھ گلی فروش جدید سامان بیچتے ہیں جو وہ باقاعدہ سپلائرز سے خریدتے ہیں۔ دوسرے باضابطہ فرموں کے لئے کمیشن پر سامان (جیسے موبائل فون ، سافٹ ڈرنکس) فروخت کرتے ہیں۔ کچرہ اٹھانے والے کچرہ میں سے دوبارہ استعمال کے قابل اشیاء جن میںپلاسٹک ، گلاس ، گتے ، دھاتوں وغیرہ کو علیحدہ کرتے ہیں جو باقاعدہ مینوفیکچررز کیلئے خام مال اور پیکنگ مواد کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ مزید اعتراض یہ ہے کہ غیر رسمی معیشت ملکی معیشت میں تعاون نہیں کرتی اس حوالے سے جو جواب دیا جاتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ حالیہ سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جن ممالک کے اعداد و شمار دستیاب ہیں وہاں غیر رسمی معاشی اکائیوں نے ان ممالک کیnon-agricultural Gross Value Added (GVA) میں نمایاں حصہ لیا ہے ۔
مثلا ًیہ حصہ مغربی افریقہ کے تین ممالک (بینن ، نائجر اور ٹوگو) میں تقریبا 50 فیصد ،بھارت میں 46 فیصد، کولمبیا اور گوئٹے مالا میں 30 فیصد سے زیادہ ہے۔ میکسیکو میں غیر رسمی روزگار دونوں رسمی اورغیر رسمی یونٹس کے اندر وباہر مجموعی طور پر جی وی اے کا تقریبا 25 فیصد ہے۔ اگلا اعتراض یہ کہ غیر رسمی معیشت ریاست اور اس کے قوانین سے باہر ہے۔ اس اعتراض کے ردعمل میں یہ کہا جاتا ہے کہ غیر رسمی کارکنوں کو باقاعدگی سے تعزیراتی قوانین اور ضوابط کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
کیونکہ حفاظتی قوانین کی عدم موجودگی میں غیر رسمی کارکن اکثر تعزیراتی قوانین اور ضوابط کا شکار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر انڈیا میں نیا قانون متعارف ہونے سے قبل بغیر لائسنس کے اسٹریٹ فروشوں کو ملک کے کرمینل کوڈ اور متعدد میونسپل ایکٹس کے تحت مجرم سمجھا جاتا تھا۔ یہاں تک کے کولمبیا میں جب تک آئینی عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ نہیںسنایا تھا فضلہ اٹھانے والوں کوکچرہ اٹھانے اور اُسے کی ٹراسپورٹیشن کے لیے بلدیہ کے معاہدوں میں بولی لگانے کی اجازت نہ تھی۔ اس کے علاوہ اب کچھ ممالک کے پاس ایسے قوانین موجود ہیں جو غیر رسمی کارکنوں کے تحفظ کے لئے واضع یا عیاں کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پربھارت کے پاس اسٹریٹ فروشوں کے روزگار کے تحفظ کے لئے ایک نیا قانون ہے اور متعدد ممالک میں گھریلو ملازمین کے تحفظ کے لئے بھی قوانین موجود ہیں۔
غیر رسمی معیشت کے حق اور اس کی مخالفت میںدیئے جانے والے دلائل اپنی جگہ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ غیر رسمی معیشت دنیا بھر میں اربوں انسانوں کے معاش کا محور اور غربت اور افلاس سے نکلنے کے مواقعے فراہم کرتی ہے ۔ بس شرط شخصی محنت کی ہے۔ اور اسی محنت میں پاکستان کی 13.2 فیصد آبادی بھی لگی ہوئی ہے ( غیر رسمی سیکٹر کے ملازمین ملک کی کل آبادی کا 13.2 فیصد ہیں)۔ جس وقت یہ تحریر لکھی جارہی ہے تو پورے ملک میںصوبائی سطح پر لاک ڈاؤن کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے۔ لیکن یہ لاک ڈاؤن ملک بھرمیں ابھی مکمل لاک ڈاؤن نہیںبلکہ رعایتی لاک ڈاؤن ہے۔
حکومت کی جانب سے بار بار عوام سے یہ اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ گھروں میں رہیں۔لیکن لوگ اس لاک ڈاؤن کو گھروں میں رہنے کے حوالے سے سنجیدہ نہیں لے رہے۔ اس حوالے سے دفعہ 144 بھی نافذ کی جا چکی ہے لیکن روزانہ ملک بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں اس دفعہ کی خلاف ورزی کے واقعات ہورہے ہیں۔ اور اگرشہری یوں ہی بلا ضرورت گھروں سے باہر نکلتے رہے تو اس سے اُن کی اور اُنکے اہل خانہ کی زندگیاں مسلسل داؤ پر لگی رہیں گی ۔اس صورتحال میں اگر حکومت لاک ڈاؤن کے فیصلہ کے سخت اطلاق کی طرف جاتی ہے تو غیر رسمی معیشت سے منسلک کارکن کی بڑی اکثریت اور اُن پر انحصار کرنے والے اُن کی فیملیز کے دیگر ارکان نان شبینہ کو محتاج ہوسکتے ہیں۔
اورحکومت یہ بھی کہہ چکی ہے کہ اُس کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ لوگوں کے گھر تک کھانا پہنچائے۔لاک ڈاؤن کی جس حکمت عملی کا سہارا حکومت نے لیا ہے ۔اسے سینٹ لوئس ماڈل کہا جاتا ہے ۔جو1918 میں سپینش انفلوئزا کے مقابلے میںامریکی شہر سینٹ لوئس کے ہیلتھ کمشنر ڈاکٹر میکس سی سٹارکلوف (Dr. Max C Starkloff )نے اپنایا اور شہر بند کرا دیا۔ جیسے ہی شہر میں انفلوئزا کے پہلے کیس کی نشاندہی ہوئی تمام اسکول، دفاتر،مالز ،کورٹس ، کھیل کے میدان ،لائبریریز،چرجز، سینما اور20 سے زائد افراد کے اکٹھے ہونے پر پابندی لگادی گی۔ پبلک ٹرانسپورٹ کو بہت کم کر دیا گیا اور لوگوں کو اُن کے گھروں تک محدود رہنے کے لیے کہا گیا۔
تاجروں اور لوگوںنے اس اقدام کے خلاف شروع میںبھرپور احتجاج کیا لیکن سٹارکلوف اور شہر کے مئیر ہنری کیل (Henry Kiel)اپنے فیصلے پر قائم رہے۔یہ اقدام بعد میںsocial distancing کہلایا۔ اس کے برعکس دوسرے امریکی شہر فلاڈلفیا میں صورتحال اس سے بالکل مختلف رہی ستمبر کے وسط میں ہسپانوی فلو فلاڈیلفیا میں فوج اور بحری تنصیبات کے ذریعے جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا تھا ۔لیکن فلاڈیلفیا کے پبلک ہیلتھ ڈائریکٹر ولمر کروسن(Wilmer Krusen) نے عوام کو یقین دلایا کہ متاثرہ فوجی صرف روایتی موسمی فلو میں مبتلا ہیں اورفلو پر شہری آبادی کو متاثر کرنے سے پہلے قابو کرلیا جائے گا۔ جب 21 ستمبر کو پہلے چند شہری کیسز کی اطلاع ملی تو مقامی معا لجین کو خدشہ ہوا کہ یہ ایک وبا کا آغاز ہوسکتا ہے۔
لیکن کروسن اور اس کے میڈیکل بورڈ نے کہا کہ فلاڈیلفین گرم رہ کراور اپنے پاؤں کو خشک رکھ کر فلو لگنے کے خطرے کو کم کرسکتے ہیں اور اسے سنجیدہ نا لیا۔ جب عام شہریوں میں انفیکشن کی شرح دن بدن بڑھتی جا رہی تھی تو کروسن نے 28 ستمبر کو شہری سیاسی قیادت کے دباؤ پرطے شدہ لبرٹی لون پریڈ کو منسوخ کرنے سے انکار کر دیا۔ یوں پریڈ کے ٹھیک 72 گھنٹوں کے بعد فلاڈیلفیا کے تمام 31 اسپتال فلو کے مریضوں سے بھرے ہوئے تھے اور ہفتے کے آخر تک شہر میں2600 ہلاکتیںہوئیں اور جب شہر کو بند کیا تو اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ جبکہ سینٹ لوئس میں صورتحال اس کے بالکل برعکس رہی جہاں مریضوں کی تعداد اور اموات فلاڈلفیا کے مقابلے میں بہت ہی کم ہوئیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس سے بچنے کا سب سے موثر طریقہ سماجی فاصلہ اوراپنے آپ کو گھروں تک محدود رکھنے کو قرار دیا گیا ہے۔
کرونا وائرس کے پھیلنے کے خوف نے ملک میں پہلے ہی سماجی ومعاشی سرگرمیوں کو تقریباً جامد کر دیا ہے جس سے غیر رسمی شعبے سے وابستہ افرادی قوت کے روزگار کے مواقعوں اور آمدن میںنمایاں حد تک کمی آچکی ہے۔ پس انداز کیے ہوئے پیسوں کے ختم ہونے اور ادھار پیسے نہ ملنے کی وجہ سے غیر رسمی معیشت کے کارکن خاص کر دیہاڑی دار مزدور طبقہ کام کی تلاش میں شہروں کے چوراہوںاور سڑکوں کے کنارے اب دوبارہ نظر آنا شروع ہوگیا ہے اور ہر نئے دن کے ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جو خدانخواستہ ایک طرف تو کروناوائرس کا شکار ہوسکتے ہیں لیکن دوسری جانب وہ بھوک کا شکار ہوچکے ہیں۔
اور ہر اُس فرد اور گاڑی کی طرف لپکتے ہیں جس سے اُنھیں کسی قسم کی امداد یا کام کی اُمید ہو۔ اس تمام صورتحال میںسب سے مشکل حالات کا سامنا غیر رسمی شعبہ کا وہ لوئر مڈل کلاس سفید پوش تنخواہ دار طبقہ ہے جن کی تنخواہ کی ادائیگی میں تاخیر کی جا رہی ہے یا پھراُنھیںآدھی تنخواہ ادا کی گئی ہے اور مستقبل میں آدھی بھی ملتی ہے کہ نہیں اسکا انھیںکوئی پتا نہیں۔اور اگر زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہا جائے کہ اُن کی ملازمتیں برقرار بھی رہتیں ہیںکے نہیں اس سوچ نے اُن کی راتوں کی نیندیں اڑا دیں ہیں۔ یہ سفید پوش طبقہ اپنی عزت نفس کے ہاتھوںکسی سے مانگ بھی نہیںسکتا ہے اورتنخواہوں کے حوالے سے اگر یہی روش برقرار رہی تو بغیر مانگے جی بھی نہیں سکے گا۔اس کی تازہ ترین مثال حال ہی میں وسیع نیٹ ورک کی حامل ایک معروف بیکری نے اپنی دکانوں پر موجود سیلز مینوں اور سپروائزر کو مارچ کی تنخواہ دینے کے بعد اُن کی تعداد کو آدھا کر دیا ہے۔یعنی ڈاؤن سائزنگ کردی ہے۔
کیونکہ صوبائی حکومت کی جانب سے دکان کھلے رہنے کی اوقات کارکم کردیئے گئے ہیں۔ جس سے سیل کم ہوگئی ہے۔اس لیے ملازمین کی تعداد کو محدود کردیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ جنہیں فارغ کیا گیا ہے وہ کیا کریں گے ؟جن ملازمین کی وجہ سے ادارے ساراسال منافع کماتے ہیں کیا وہ ان ملازمین کو دو تین مہینے مشکل حالات میں تنخواہیں نہیں دے سکتے؟اس طرح کی صورت حال سے بچنے کے لیے اُنھیں سوشل سیکورٹی کا تحفظ فراہم نہیں کرسکتے؟یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ ہم اپنے منافع کے کم ہونے کو نقصان سے تعبیر کرتے ہیں۔اوریہ سوچ غیر رسمی لیبر کے روزگار کے تحفظ کو لاحق سب سے بڑا المیہ ہے۔
کرونا کے اس طرح کے ضمنی اثرات آنے والے دنوں میں مزید کئی صورتوں میں ہمارے سامنے آئیں گے ۔اس حوالے سے حکومت اپنے تئیں جو بھی کر رہی ہے یا کرے گی اُس پر بھرپور اعتماد اور بھروسہ کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کا بازو بننے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ دنیا کی کوئی بھی حکومت اس طرح کی آزمائش کا بغیر عوامی تعاون مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس سلسلے میں یہ ہر اُس فرد کی انفرادی ذمہ داری ہے جسے اللہ پاک نے کسی کے گھر کا پہیہ رواں دواں رکھنے میں اپنا حصہ ادا کرنے کا اہل بنایا ہے تو وہ آزمائش کے اس وقت میں اپنے حصہ کو کم کرنے کی بجائے بڑھا دے ۔ کسی کی اُجرت نہ روکیں ۔کسی کو بیروزگار نہ کریں۔
کسی کی بنا تقاضہ مدد کر دیں۔ کسی کو اُس کی اجرت سے زیادہ دے دیں۔ اپنا دستر خوان وسیع کرلیں۔ گھر میں جو پکائیں اُس میں محلے یا جاننے والوں میں سے کسی ایک ایسے گھر کا حصہ ضرور شامل کرلیں جن کی آمدن غیر رسمی شعبہ سے منسلک ہے اور وہ موجودہ حالات میں تنگی کا شکار ہیں۔ یوں ہم مل کر اس آزمائش کے ضمنی اثرات کا احسن طریقے سے مقابلہ کر سکتے ہیںجس کا شکارہم سب ہیں۔