پروردگار عالم تیرا ہی ہے سہارا ۔۔۔۔۔۔
انسانوں پر ایسے کئی دور آئے اور چلے گئے۔ یہ وقت بھی یقیناً گزر جائے گا
کورونا کا خوف اتنا ہے کہ پناہ مانگتے ہیں لوگ! سہم ہوئے انسان، اک دُوجے سے خوف زدہ آدمی۔ لاک ڈاؤن ایسا کہ جس میں انسان بھی بدترین خوف کو اوڑھے ہوئے قید ہے۔ ابھی تو شب کا پہلا پہر ہی تھا جی! وقت تھا دس بجے کا لیکن خاموشی تھی مکمل سُکوت، فقیر شاہ راہ پر نکل آیا، دُور تک آدم نہ آدم زاد، بس سیاہ رات بچھی ہوئی، آوارہ کتّے بھی نہ جانے کہاں غائب ہوگئے تھے، سناٹا اور اتنا گہرا کہ اُف! خوف نے گھیرا ہُوا تھا ہر شے کو۔ فقیر اپنے فانی مسکن کے باہر سنگی بینچ پر بیٹھ گیا تو اس کے سامنے رات اپنا حجاب کھولنے لگی۔ آپ کو فقیر نے پہلے بھی بتایا ہے کہ ہر رات ایک جیسی نہیں ہوتی! کوئی تاریکی سے نہاتی ہے، چیختی ہے، چلّاتی ہے، دھاڑتی ہے، جُنوں میں اپنا سر اشجار سے ٹکراتی ہے، کوہ ساروں میں وحشت سے لڑکھڑاتی ہے، صحرا میں دیوانوں کی طرح گھومتی پھرتی ہوئی رات، کسی آوارہ کی طرح بے منزل کوئی رات، ایسی بھی ہوتی ہے رات جی! کیا اب یہ بھی بتایا جائے کہ مقام بدلنے سے رات بدلتی ہے، اس کا اسرار بدلتا ہے، اس کی تاثیر بدلتی ہے۔ آپ کبھی صحرا میں ہوں تو دیکھیے کتنی خوب صورت ہوتی ہے رات، ستاروں سے بھرا آکاش اور جب دن بدلتا ہے تو رات بدل بھی جاتی ہے۔
جی موسم بدلتا ہے تو وہ بھی بدل جاتی ہے، سرد شب تاریک میں صحرا کی رات ہُو کے عالم میں آپ کے سامنے کھڑی ہوئی ڈراتی ہے اور چاندنی ہو تو مُسکراتی ہے۔ کبھی جائیے ناں دیکھیے کسی صحرا میں رات گزار کر، کسی جنگل میں قیام کیجیے، کسی جھیل کنارے، دریا کے پاس، کوہ ساروں کے درمیان، کسی سرسبز وادی میں یا پھر کسی ویرانے میں جہاں دُور تک کوئی نہ ہو، اب یہ تو فقیر آپ سے نہیں کہتا کہ کسی قبرستان میں رات بسر کرکے دیکھیے لیکن کبھی یہ تجربہ کرکے بھی دیکھیے! جینا روانی کو کہتے ہیں جی! کہیں مستقل پڑاؤ کیا تو بس سمجھیے! ماجرا ہوا تمام۔ شب کا اسرار سب سے زیادہ خانہ بہ دوشوں پر کُھلتا ہے، جو اپنے ساتھ ہی سفر لکھوا کر لاتے ہیں۔ فقیر بہت عرصہ رہا اُن راز زندگی پانے والوں کے سنگ، رب کی ساری زمین اُن کی ہے جی، لیکن ملکیت کا کوئی دعویٰ نہیں، بس چل سو چل اور آگے چل۔ توکّل ہی توکّل ہوتے ہیں وہ۔
عاشقین پر، کسانوں پر، کوہ کنوں پر، ہجر کے ماروں پر، مجھ ایسے آوارگان پر، عابدین شب بیداروں پر، ساجدین پر اور ان پر بھی کہ جن کا ذکر کیا جائے گا تو ریاکار متّقین کی پیشانی شکن آلود ہوجائے گی، تو ایسوں پر کُھلتی ہے رات جی! وصال میں بھی اور ہجر میں بھی کُھلتی ہے رات! جنگل میں رات عجب رنگ ہوتی ہے! سرسراتی ہوئی، گنگناتی ہوئی، گُدگداتی ہوئی، آپ کو چھیڑ کر گزر جائے گی اور آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے، جگنوؤں سے چمکتی ہوئی رات اور کبھی اس میں برسات کا موسم ہو تو پھر دیکھیے اُس رات کو، اور کبھی آندھی و طوفان ہو تو آپ خود سے ڈر جائیں گے، ایسا سماں ہوتا ہے جیسے سارے شجر آپ کے گرد اشک بہاتے، اپنا دُکھڑا سناتے، بال کھولے، سینہ کوبی کر رہے ہیں۔ رب کی شان تو کائنات بیان کرتی ہے، جنگل و صحرا و کوہ سار بیان کرتے ہیں، جھیلیں، دریا، ندی و آبشار بیان کرتے ہیں جی! مجھ ایسا کورچشم کیا دیکھے گا اور مجھ ایسا سیاہ دل و چرب زبان کیا بیان کرے گا۔
فقیر پھر کہیں اور نکل گیا ناں! تو لاک ڈاؤن میں دُور تک رات بچھی ہوئی تھی، افسردہ رات۔ ایسے میں گم راہ فقیر کے سامنے شمشاد بیگم اور طلعت محمود نغمہ سرا ہوئے۔
دنیا بدل گئی، مری دنیا بدل گئی
ٹکڑے ہوئے جگر کے، چُھری دل پہ چل گئی
ایسی ہَوا چلی کہ خوشی دُکھ میں ڈھل گئی
دنیا بدل گئی، مری دنیا بدل گئی
دل خاک ہوگیا یہ کسی کو خبر نہیں
سب یہ سمجھ رہے ہیں، تمنّا نکل گئی
دنیا بدل گئی، مری دنیا بدل گئی
برباد ہوگیا مری امید کا چمن
جس ڈال پر کیا تھا بسیرا، وہ جل گئی
دنیا بدل گئی، مری دنیا بدل گئی
آپ تو پریشان ہی ہوگئے! اجی پریشان نہ ہوں، کچھ نہیں ہوا، انسان پر ایسے کئی دور آئے اور چلے گئے۔ یہ وقت بھی یقیناً گزر جائے گا، ایسا ممکن ہی نہیں کہ کسی رات کی سحر ہی نہ ہو تو بس رب تعالٰی پر کامل یقین رکھیے اور اپنے حصے کا کام کرتے چلے جائیے۔ کیا کام ۔۔۔۔۔ ؟ جی سوال تو آپ کا برحق ہے تو سنیے!
فقیر کے ویسے تو سب ہی بابے سخی تھے لیکن لوہار بابا کی بات ہی نرالی تھی۔ سخی تھے اور فرماتے: اپنا سب کچھ خلق کا سمجھو، تمہارا کہاں سے آگیا، سب کچھ رب تعالٰی کا ہے، ہاں! یہ جو تمہارے ہاتھ پاؤں آنکھ ناک غرض پورا جسم ہے، کیا تمہارا ہے؟ اگر آپ کہیں کہ جی ہمارا ہے تو کیا پھر آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ آپ نے کہاں سے اور کتنے کا خریدا ہے؟ نہیں کچھ بھی نہیں تمہارا، اصل تو یہ ہے کہ قلاش ہو تم، کچھ نہیں تمہارا، نادان سمجھتا ہے یہ سب کچھ ہمارا ہے، تیرا تو جسم بھی تیرا نہیں تو پھر اس کی پرورش کا سامان کہاں سے تیرا ہے۔
تو بس سب کچھ رب کا ہے تو جو رب کا ہے تو بس پھر مخلوق کا ہُوا، تم تو بس تقسیم کار بنو، دیتے جاؤ خلق خدا میں بانٹتے رہو، خلق کو جوڑو اور اپنا مال و اسباب ان میں تقسیم در تقسیم در تقسیم کرتے چلے جاؤ۔ بانٹتے جاؤ اور بانٹتے ہی چلے جاؤ، اور اپنوں میں ہی نہیں سب میں، کوئی سروکار ہی نہیں کہ کون کیا ہے، اس کا مذہب و عقیدہ کیا ہے، جنس و ذات کیا ہے، قوم قبیلہ کیا ہے، نہیں، نہیں بالکل بھی نہیں۔ بس اسے انسان سمجھو اس کی تکریم کرو، اس کا بھلا چاہو، اس کی تکالیف کو دُور کرو اور اسے سُکھ پہنچاؤ۔ اپنی محبّت کو تقسیم کرو، ایثار بانٹو، سُکھ پھیلاؤ، اجالا کرو اور کسی سے بھی کوئی توقع مت رکھو، اس کے اعمال سے بھی کہ تم کوئی کوتوال مقرر نہیں کیے گئے، اسے جس نے بنایا ہے وہ وہی اس سے پوچھ سکتا ہے، اسے سزا دے سکتا ہے، اور یہ بھی کہ اسے معاف بھی کرسکتا ہے۔
اس لیے کہ وہی ہے اس کا خالق، اسے ہی زیبا ہے کہ وہ اپنے بندے کے ساتھ کیا برتاؤ کرے، بس آسانیاں تقسیم کرو اور کرتے چلے جاؤ کہ تمہارا کام ہی یہی ہے۔ ہاں پسے ہوئے مقہور، ستم رسیدہ و مفلوک الحال انسانوں کے ساتھ کھڑے رہو، انہیں مفلسی سے باہر نکالنے کی جہد کرو کہ یہی ہے شرف انسان، کوئی بڑا کیسے ہوسکتا ہے، کوئی اعلٰی و ارفع کیسے ہوسکتا ہے، رنگ و نسل ہو یا مال و اسباب کوئی امتیاز نہیں ہے یہ کہ وہ اعلٰی ہے، نہیں وہ اک انسان ہے بس جیسے سب انسان ہیں اور اگر کوئی افتخار ہے تو بس یہ کہ وہ اپنے خالق سے کتنا جُڑا ہوا اور اس کی مخلوق کے لیے کتنا نافع ہے۔ تو بس انسان بنو خدا نہیں کہ وہ تم کبھی بن ہی نہیں سکتے۔ کبھی بھی نہیں۔ فقیر نے اپنے لوہار بابا کو ایسا ہی پایا کہ خلق خدا کے لیے جیتے اور ان کے دکھ کو سکھ میں بدلنے کی ہر ممکن سعی کرتے۔ عام انسانوں کو سینے سے لگائے ہوئے ان کی معصوم بچوں کی طرح نگہہ داشت کرنے والے، ہمارے لوہار بابا۔
دیکھیے کیا یاد آگیا کہ اک راضی بہ رضائے الہی تھے۔ ایک دن وہ اپنے احباب کی محفل میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے آکر اپنی حاجت بیان کی تو فوراً اٹھ کھڑے ہوئے، گھر میں جو کچھ تھا اس کے سامنے لا رکھ چھوڑا۔ وہ سوالی جب وہ سب کچھ لے کر چلا گیا تو اشک بار ہوئے اور ایسے کہ مت پوچھیے۔ احباب نے کہا: ایک سوالی نے آکر سوال کیا اور آپ نے اسی وقت کوئی سوال کیے بنا ہی اس کی حاجت کو پورا فرما دیا تو اب کیوں اشک بار ہیں۔ تو فرمایا: اس لیے اشک بار ہوں کہ میں کتنا بے خبر ہوں کہ میری بے خبری نے اسے میرے سامنے دست سوال دراز کرنے کی ذلّت پر مجبور کیا، مجھے اس کے سوال کرنے سے پہلے ہی اس کی حاجت روائی کرنا چاہیے تھی، وہ میری کوتاہی سے دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہوگیا اب میں اپنے رب کو کیا جواب دوں گا۔۔۔۔۔ ؟
ایک دن فقیر کو ہَرجی باپُو نے بتایا تھا: دیکھ کھاتے پیتے تو جانور بھی ہیں۔ لیکن انسان دوسروں کو اپنے کھانے پینے اور جینے میں شریک کرتا ہے۔ دوسرے کا دُکھ درد اپنا سمجھ کر محسوس کرتا ہے۔ کوشش کرتا ہے زندگی کے چار دن سب ہنس کھیل کر گزار دیں۔ سب سُکھی رہیں۔ دُکھ درد ختم ہوں، راحت اور آرام آئے، سب نہال رہیں۔ انسان کا وجود انسانوں کے لیے نہیں جانوروں کے لیے، پرندوں کے لیے حتیٰ کہ درختوں اور زمین کے کیڑے مکوڑوں کے لیے بھی باعث رحمت ہوتا ہے۔ ارے پگلے! وہ ہوتا ہے انسان، زمین پر اتارا گیا انسان۔ دریا دل اور سخی، بس اس کی گدڑی میں لعل ہی لعل ہوتے ہیں۔ بانٹتا چلا جاتا ہے اور دیکھ جو بانٹتا ہے اس کے پاس کبھی کم نہیں ہوتا۔
کیوں۔۔۔۔۔ ؟ فقیر نے پوچھا تو اسے بتایا: اس لیے کہ کائنات کا خالق بھی یہی کرتا ہے۔ خزانے لٹاتا رہتا ہے۔ ہر ایک کو دیتا ہے۔ ہر ایک کی ضرورت پوری کرتا ہے جب انسان یہ کرنے لگے تو خدا اس کی مدد کرتا ہے۔ وہ اپنے پیسے پر، اپنی لیاقت پر، اپنی ذہانت پر، اپنی طاقت پر بھروسا نہیں کرتا، وہ تو بس اپنے رب پر بھروسا کرتا ہے۔
مولا پر توکّل کہ ملے گا ضرور ملے گا، دیر تو ہوگی، پَر ملے گا ضرور۔ کیوں نہیں ملے گا وہ تو سارے جہانوں کی ساری مخلوق کو پالتا ہے۔ تجھ سے کیا دشمنی ہے اس کی، اس کی تو سب سے دوستی ہے، سب کو دیتا ہے، دے گا۔ تو انسان اسے کہتے ہیں جو اپنے پالن ہار کی صفات اپنائے، سخی ہو، رحم دل ہو، معاف کردیتا ہو، سب کے لیے اچھا چاہے، کوئی بھی ہو، کہیں کا بھی ہو، کسی بھی مذہب کا ہو، برائی کے پاس نہ جائے اور بُرے کو بھی سینے سے لگائے، اسے سمجھائے، دیکھ تُو اچھا ہے، تیرا فعل اچھا نہیں ہے۔ چھوڑ دے اسے، نیکی کر اچھائی پھیلا، خوشیاں بانٹ۔
اور باپُو اگر کسی کے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہ ہو تو ۔۔۔ ؟ فقیر نے سوال اٹھایا تو بتایا: یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان ہو اور اس کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو۔ چڑیا کے پاس چہچہانا ہے، چہچہاتی ہے۔ کوئل کوکتی ہے، کتّا انسان کی رکھوالی کرتا ہے، بکری، گائے، بھینس دودھ دیتی ہے تو دنیا جہاں کی نعمتیں بنتی ہیں۔ درخت سایہ دیتا ہے، پھل دیتا ہے اور پھر اس کی لکڑی سے دنیا جہاں کا ساز و سامان تیار ہوتا ہے، اب تُو جس چیز کے بارے میں سوچتا چلا جائے گا اس کی سخاوت تیرے سامنے آتی چلی جائے گی۔ انسان تو مخلوق میں سب سے اعلیٰ ہے۔ اس کا وجود کائنات کی ساری مخلوق کے لیے رحمت ہے۔ رحمت ہی رحمت، چاہت ہی چاہت، محبّت ہی محبّت وہ سب کو دیتا ہے۔ لوگوں کے لیے سُکھ چین بنو، تمہیں دیکھ کر دوسرے خوش ہوں۔ گڑ نہ دو تو گڑ جیسی بات کرو۔ نفرت کے سامنے محبّت بن کر کھڑے ہوجاؤ۔ مفلس لوگوں میں جیو، انہیں بے یار و مددگار نہ چھوڑو۔ بس یہ ہوتا ہے انسان۔
دیکھیے! سنیے فقیر کی بات! کورونا سے رب تعالٰی سب کو اپنی امان میں رکھے اور خاطر جمع رکھیے جلد بہت جلد یہ وقت گزر جائے گا۔ احتیاط کیجیے کہ ایسا کرنے حکم ہے۔ لیکن یہ بھی تو سوچیے ناں! ہم کورونا سے بچ بھی گئے تو کسی اور بہانے اس فانی دنیا سے چلے جائیں گے، جانا تو ہے ناں جی! تو پھر اس خوف کو اپنے سر سے اتار پھینکیے۔ ابھی اور اسی وقت اور رب پر کامل بھروسا رکھیے اور بس اپنے حصے کا کام کرتے چلے جائیے۔
تو بس سب کچھ رب کا ہے تو جو رب کا ہے تو بس پھر مخلوق کا ہُوا، تم تو بس تقسیم کار بنو، دیتے جاؤ خلق خدا میں بانٹتے رہو، خلق کو جوڑو اور اپنا مال و اسباب ان میں تقسیم در تقسیم در تقسیم کرتے چلے جاؤ۔ بانٹتے جاؤ اور بانٹتے ہی چلے جاؤ، اور اپنوں میں ہی نہیں سب میں، کوئی سروکار ہی نہیں کہ کون کیا ہے، اس کا مذہب و عقیدہ کیا ہے، جنس و ذات کیا ہے، قوم قبیلہ کیا ہے، نہیں، نہیں بالکل بھی نہیں۔ بس اسے انسان سمجھو اس کی تکریم کرو، اس کا بھلا چاہو، اس کی تکالیف کو دُور کرو اور اسے سُکھ پہنچاؤ۔
لیجیے! اب محمد رفیع تشریف لے آئے، سُنیے!
پروردگار عالم! تیرا ہی ہے سہارا
تیرے سوا جہاں میں، کوئی نہیں ہمارا
نوحؑ کا سفینہ تُونے طوفان سے بچایا
دنیا میں تُو ہمیشہ بندوں کے کام آیا
مانگی خلیلؑ نے جب تجھ سے دعا خدایا
آتش کو تُونے فوراً ایک گُلستان بنایا
ہر التجا نے تیری، رحمت کو ہے ابھارا
پروردگار عالم! تیرا ہی ہے سہارا
پروردگار عالم!
یونسؑ کو تُونے مچھلی کے پیٹ سے نکالا
تُونے ہی مُشکلوں میں ایوبؑ کو سنبھالا
الیاسؑ پر کرم کا، تُونے کیا اجالا
ہے دو جہاں میں یارب! تیرا ہی بول بالا
تُونے سدا الہی! بگڑی کو ہے سنوارا
پروردگار عالم! تیرا ہی ہے سہارا
پروردگار عالم!
یوسفؑ کو تُونے مولا! دی قید سے رہائی
یعقوبؑ کو دوبارہ شکل پسر دکھائی
بہتی ہوئی ندی میں موسیؑ کی راہ بنائی
تُونے صلیب پر بھی عیسٰیؑ کی جاں بچائی
داتا ترے کرم کا، کوئی نہیں کنارا
پروردگار عالم! تیرا ہی ہے سہارا
تیرے سوا جہاں میں کوئی نہیں ہمارا
جی موسم بدلتا ہے تو وہ بھی بدل جاتی ہے، سرد شب تاریک میں صحرا کی رات ہُو کے عالم میں آپ کے سامنے کھڑی ہوئی ڈراتی ہے اور چاندنی ہو تو مُسکراتی ہے۔ کبھی جائیے ناں دیکھیے کسی صحرا میں رات گزار کر، کسی جنگل میں قیام کیجیے، کسی جھیل کنارے، دریا کے پاس، کوہ ساروں کے درمیان، کسی سرسبز وادی میں یا پھر کسی ویرانے میں جہاں دُور تک کوئی نہ ہو، اب یہ تو فقیر آپ سے نہیں کہتا کہ کسی قبرستان میں رات بسر کرکے دیکھیے لیکن کبھی یہ تجربہ کرکے بھی دیکھیے! جینا روانی کو کہتے ہیں جی! کہیں مستقل پڑاؤ کیا تو بس سمجھیے! ماجرا ہوا تمام۔ شب کا اسرار سب سے زیادہ خانہ بہ دوشوں پر کُھلتا ہے، جو اپنے ساتھ ہی سفر لکھوا کر لاتے ہیں۔ فقیر بہت عرصہ رہا اُن راز زندگی پانے والوں کے سنگ، رب کی ساری زمین اُن کی ہے جی، لیکن ملکیت کا کوئی دعویٰ نہیں، بس چل سو چل اور آگے چل۔ توکّل ہی توکّل ہوتے ہیں وہ۔
عاشقین پر، کسانوں پر، کوہ کنوں پر، ہجر کے ماروں پر، مجھ ایسے آوارگان پر، عابدین شب بیداروں پر، ساجدین پر اور ان پر بھی کہ جن کا ذکر کیا جائے گا تو ریاکار متّقین کی پیشانی شکن آلود ہوجائے گی، تو ایسوں پر کُھلتی ہے رات جی! وصال میں بھی اور ہجر میں بھی کُھلتی ہے رات! جنگل میں رات عجب رنگ ہوتی ہے! سرسراتی ہوئی، گنگناتی ہوئی، گُدگداتی ہوئی، آپ کو چھیڑ کر گزر جائے گی اور آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے، جگنوؤں سے چمکتی ہوئی رات اور کبھی اس میں برسات کا موسم ہو تو پھر دیکھیے اُس رات کو، اور کبھی آندھی و طوفان ہو تو آپ خود سے ڈر جائیں گے، ایسا سماں ہوتا ہے جیسے سارے شجر آپ کے گرد اشک بہاتے، اپنا دُکھڑا سناتے، بال کھولے، سینہ کوبی کر رہے ہیں۔ رب کی شان تو کائنات بیان کرتی ہے، جنگل و صحرا و کوہ سار بیان کرتے ہیں، جھیلیں، دریا، ندی و آبشار بیان کرتے ہیں جی! مجھ ایسا کورچشم کیا دیکھے گا اور مجھ ایسا سیاہ دل و چرب زبان کیا بیان کرے گا۔
فقیر پھر کہیں اور نکل گیا ناں! تو لاک ڈاؤن میں دُور تک رات بچھی ہوئی تھی، افسردہ رات۔ ایسے میں گم راہ فقیر کے سامنے شمشاد بیگم اور طلعت محمود نغمہ سرا ہوئے۔
دنیا بدل گئی، مری دنیا بدل گئی
ٹکڑے ہوئے جگر کے، چُھری دل پہ چل گئی
ایسی ہَوا چلی کہ خوشی دُکھ میں ڈھل گئی
دنیا بدل گئی، مری دنیا بدل گئی
دل خاک ہوگیا یہ کسی کو خبر نہیں
سب یہ سمجھ رہے ہیں، تمنّا نکل گئی
دنیا بدل گئی، مری دنیا بدل گئی
برباد ہوگیا مری امید کا چمن
جس ڈال پر کیا تھا بسیرا، وہ جل گئی
دنیا بدل گئی، مری دنیا بدل گئی
آپ تو پریشان ہی ہوگئے! اجی پریشان نہ ہوں، کچھ نہیں ہوا، انسان پر ایسے کئی دور آئے اور چلے گئے۔ یہ وقت بھی یقیناً گزر جائے گا، ایسا ممکن ہی نہیں کہ کسی رات کی سحر ہی نہ ہو تو بس رب تعالٰی پر کامل یقین رکھیے اور اپنے حصے کا کام کرتے چلے جائیے۔ کیا کام ۔۔۔۔۔ ؟ جی سوال تو آپ کا برحق ہے تو سنیے!
فقیر کے ویسے تو سب ہی بابے سخی تھے لیکن لوہار بابا کی بات ہی نرالی تھی۔ سخی تھے اور فرماتے: اپنا سب کچھ خلق کا سمجھو، تمہارا کہاں سے آگیا، سب کچھ رب تعالٰی کا ہے، ہاں! یہ جو تمہارے ہاتھ پاؤں آنکھ ناک غرض پورا جسم ہے، کیا تمہارا ہے؟ اگر آپ کہیں کہ جی ہمارا ہے تو کیا پھر آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ آپ نے کہاں سے اور کتنے کا خریدا ہے؟ نہیں کچھ بھی نہیں تمہارا، اصل تو یہ ہے کہ قلاش ہو تم، کچھ نہیں تمہارا، نادان سمجھتا ہے یہ سب کچھ ہمارا ہے، تیرا تو جسم بھی تیرا نہیں تو پھر اس کی پرورش کا سامان کہاں سے تیرا ہے۔
تو بس سب کچھ رب کا ہے تو جو رب کا ہے تو بس پھر مخلوق کا ہُوا، تم تو بس تقسیم کار بنو، دیتے جاؤ خلق خدا میں بانٹتے رہو، خلق کو جوڑو اور اپنا مال و اسباب ان میں تقسیم در تقسیم در تقسیم کرتے چلے جاؤ۔ بانٹتے جاؤ اور بانٹتے ہی چلے جاؤ، اور اپنوں میں ہی نہیں سب میں، کوئی سروکار ہی نہیں کہ کون کیا ہے، اس کا مذہب و عقیدہ کیا ہے، جنس و ذات کیا ہے، قوم قبیلہ کیا ہے، نہیں، نہیں بالکل بھی نہیں۔ بس اسے انسان سمجھو اس کی تکریم کرو، اس کا بھلا چاہو، اس کی تکالیف کو دُور کرو اور اسے سُکھ پہنچاؤ۔ اپنی محبّت کو تقسیم کرو، ایثار بانٹو، سُکھ پھیلاؤ، اجالا کرو اور کسی سے بھی کوئی توقع مت رکھو، اس کے اعمال سے بھی کہ تم کوئی کوتوال مقرر نہیں کیے گئے، اسے جس نے بنایا ہے وہ وہی اس سے پوچھ سکتا ہے، اسے سزا دے سکتا ہے، اور یہ بھی کہ اسے معاف بھی کرسکتا ہے۔
اس لیے کہ وہی ہے اس کا خالق، اسے ہی زیبا ہے کہ وہ اپنے بندے کے ساتھ کیا برتاؤ کرے، بس آسانیاں تقسیم کرو اور کرتے چلے جاؤ کہ تمہارا کام ہی یہی ہے۔ ہاں پسے ہوئے مقہور، ستم رسیدہ و مفلوک الحال انسانوں کے ساتھ کھڑے رہو، انہیں مفلسی سے باہر نکالنے کی جہد کرو کہ یہی ہے شرف انسان، کوئی بڑا کیسے ہوسکتا ہے، کوئی اعلٰی و ارفع کیسے ہوسکتا ہے، رنگ و نسل ہو یا مال و اسباب کوئی امتیاز نہیں ہے یہ کہ وہ اعلٰی ہے، نہیں وہ اک انسان ہے بس جیسے سب انسان ہیں اور اگر کوئی افتخار ہے تو بس یہ کہ وہ اپنے خالق سے کتنا جُڑا ہوا اور اس کی مخلوق کے لیے کتنا نافع ہے۔ تو بس انسان بنو خدا نہیں کہ وہ تم کبھی بن ہی نہیں سکتے۔ کبھی بھی نہیں۔ فقیر نے اپنے لوہار بابا کو ایسا ہی پایا کہ خلق خدا کے لیے جیتے اور ان کے دکھ کو سکھ میں بدلنے کی ہر ممکن سعی کرتے۔ عام انسانوں کو سینے سے لگائے ہوئے ان کی معصوم بچوں کی طرح نگہہ داشت کرنے والے، ہمارے لوہار بابا۔
دیکھیے کیا یاد آگیا کہ اک راضی بہ رضائے الہی تھے۔ ایک دن وہ اپنے احباب کی محفل میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے آکر اپنی حاجت بیان کی تو فوراً اٹھ کھڑے ہوئے، گھر میں جو کچھ تھا اس کے سامنے لا رکھ چھوڑا۔ وہ سوالی جب وہ سب کچھ لے کر چلا گیا تو اشک بار ہوئے اور ایسے کہ مت پوچھیے۔ احباب نے کہا: ایک سوالی نے آکر سوال کیا اور آپ نے اسی وقت کوئی سوال کیے بنا ہی اس کی حاجت کو پورا فرما دیا تو اب کیوں اشک بار ہیں۔ تو فرمایا: اس لیے اشک بار ہوں کہ میں کتنا بے خبر ہوں کہ میری بے خبری نے اسے میرے سامنے دست سوال دراز کرنے کی ذلّت پر مجبور کیا، مجھے اس کے سوال کرنے سے پہلے ہی اس کی حاجت روائی کرنا چاہیے تھی، وہ میری کوتاہی سے دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہوگیا اب میں اپنے رب کو کیا جواب دوں گا۔۔۔۔۔ ؟
ایک دن فقیر کو ہَرجی باپُو نے بتایا تھا: دیکھ کھاتے پیتے تو جانور بھی ہیں۔ لیکن انسان دوسروں کو اپنے کھانے پینے اور جینے میں شریک کرتا ہے۔ دوسرے کا دُکھ درد اپنا سمجھ کر محسوس کرتا ہے۔ کوشش کرتا ہے زندگی کے چار دن سب ہنس کھیل کر گزار دیں۔ سب سُکھی رہیں۔ دُکھ درد ختم ہوں، راحت اور آرام آئے، سب نہال رہیں۔ انسان کا وجود انسانوں کے لیے نہیں جانوروں کے لیے، پرندوں کے لیے حتیٰ کہ درختوں اور زمین کے کیڑے مکوڑوں کے لیے بھی باعث رحمت ہوتا ہے۔ ارے پگلے! وہ ہوتا ہے انسان، زمین پر اتارا گیا انسان۔ دریا دل اور سخی، بس اس کی گدڑی میں لعل ہی لعل ہوتے ہیں۔ بانٹتا چلا جاتا ہے اور دیکھ جو بانٹتا ہے اس کے پاس کبھی کم نہیں ہوتا۔
کیوں۔۔۔۔۔ ؟ فقیر نے پوچھا تو اسے بتایا: اس لیے کہ کائنات کا خالق بھی یہی کرتا ہے۔ خزانے لٹاتا رہتا ہے۔ ہر ایک کو دیتا ہے۔ ہر ایک کی ضرورت پوری کرتا ہے جب انسان یہ کرنے لگے تو خدا اس کی مدد کرتا ہے۔ وہ اپنے پیسے پر، اپنی لیاقت پر، اپنی ذہانت پر، اپنی طاقت پر بھروسا نہیں کرتا، وہ تو بس اپنے رب پر بھروسا کرتا ہے۔
مولا پر توکّل کہ ملے گا ضرور ملے گا، دیر تو ہوگی، پَر ملے گا ضرور۔ کیوں نہیں ملے گا وہ تو سارے جہانوں کی ساری مخلوق کو پالتا ہے۔ تجھ سے کیا دشمنی ہے اس کی، اس کی تو سب سے دوستی ہے، سب کو دیتا ہے، دے گا۔ تو انسان اسے کہتے ہیں جو اپنے پالن ہار کی صفات اپنائے، سخی ہو، رحم دل ہو، معاف کردیتا ہو، سب کے لیے اچھا چاہے، کوئی بھی ہو، کہیں کا بھی ہو، کسی بھی مذہب کا ہو، برائی کے پاس نہ جائے اور بُرے کو بھی سینے سے لگائے، اسے سمجھائے، دیکھ تُو اچھا ہے، تیرا فعل اچھا نہیں ہے۔ چھوڑ دے اسے، نیکی کر اچھائی پھیلا، خوشیاں بانٹ۔
اور باپُو اگر کسی کے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہ ہو تو ۔۔۔ ؟ فقیر نے سوال اٹھایا تو بتایا: یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان ہو اور اس کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو۔ چڑیا کے پاس چہچہانا ہے، چہچہاتی ہے۔ کوئل کوکتی ہے، کتّا انسان کی رکھوالی کرتا ہے، بکری، گائے، بھینس دودھ دیتی ہے تو دنیا جہاں کی نعمتیں بنتی ہیں۔ درخت سایہ دیتا ہے، پھل دیتا ہے اور پھر اس کی لکڑی سے دنیا جہاں کا ساز و سامان تیار ہوتا ہے، اب تُو جس چیز کے بارے میں سوچتا چلا جائے گا اس کی سخاوت تیرے سامنے آتی چلی جائے گی۔ انسان تو مخلوق میں سب سے اعلیٰ ہے۔ اس کا وجود کائنات کی ساری مخلوق کے لیے رحمت ہے۔ رحمت ہی رحمت، چاہت ہی چاہت، محبّت ہی محبّت وہ سب کو دیتا ہے۔ لوگوں کے لیے سُکھ چین بنو، تمہیں دیکھ کر دوسرے خوش ہوں۔ گڑ نہ دو تو گڑ جیسی بات کرو۔ نفرت کے سامنے محبّت بن کر کھڑے ہوجاؤ۔ مفلس لوگوں میں جیو، انہیں بے یار و مددگار نہ چھوڑو۔ بس یہ ہوتا ہے انسان۔
دیکھیے! سنیے فقیر کی بات! کورونا سے رب تعالٰی سب کو اپنی امان میں رکھے اور خاطر جمع رکھیے جلد بہت جلد یہ وقت گزر جائے گا۔ احتیاط کیجیے کہ ایسا کرنے حکم ہے۔ لیکن یہ بھی تو سوچیے ناں! ہم کورونا سے بچ بھی گئے تو کسی اور بہانے اس فانی دنیا سے چلے جائیں گے، جانا تو ہے ناں جی! تو پھر اس خوف کو اپنے سر سے اتار پھینکیے۔ ابھی اور اسی وقت اور رب پر کامل بھروسا رکھیے اور بس اپنے حصے کا کام کرتے چلے جائیے۔
تو بس سب کچھ رب کا ہے تو جو رب کا ہے تو بس پھر مخلوق کا ہُوا، تم تو بس تقسیم کار بنو، دیتے جاؤ خلق خدا میں بانٹتے رہو، خلق کو جوڑو اور اپنا مال و اسباب ان میں تقسیم در تقسیم در تقسیم کرتے چلے جاؤ۔ بانٹتے جاؤ اور بانٹتے ہی چلے جاؤ، اور اپنوں میں ہی نہیں سب میں، کوئی سروکار ہی نہیں کہ کون کیا ہے، اس کا مذہب و عقیدہ کیا ہے، جنس و ذات کیا ہے، قوم قبیلہ کیا ہے، نہیں، نہیں بالکل بھی نہیں۔ بس اسے انسان سمجھو اس کی تکریم کرو، اس کا بھلا چاہو، اس کی تکالیف کو دُور کرو اور اسے سُکھ پہنچاؤ۔
لیجیے! اب محمد رفیع تشریف لے آئے، سُنیے!
پروردگار عالم! تیرا ہی ہے سہارا
تیرے سوا جہاں میں، کوئی نہیں ہمارا
نوحؑ کا سفینہ تُونے طوفان سے بچایا
دنیا میں تُو ہمیشہ بندوں کے کام آیا
مانگی خلیلؑ نے جب تجھ سے دعا خدایا
آتش کو تُونے فوراً ایک گُلستان بنایا
ہر التجا نے تیری، رحمت کو ہے ابھارا
پروردگار عالم! تیرا ہی ہے سہارا
پروردگار عالم!
یونسؑ کو تُونے مچھلی کے پیٹ سے نکالا
تُونے ہی مُشکلوں میں ایوبؑ کو سنبھالا
الیاسؑ پر کرم کا، تُونے کیا اجالا
ہے دو جہاں میں یارب! تیرا ہی بول بالا
تُونے سدا الہی! بگڑی کو ہے سنوارا
پروردگار عالم! تیرا ہی ہے سہارا
پروردگار عالم!
یوسفؑ کو تُونے مولا! دی قید سے رہائی
یعقوبؑ کو دوبارہ شکل پسر دکھائی
بہتی ہوئی ندی میں موسیؑ کی راہ بنائی
تُونے صلیب پر بھی عیسٰیؑ کی جاں بچائی
داتا ترے کرم کا، کوئی نہیں کنارا
پروردگار عالم! تیرا ہی ہے سہارا
تیرے سوا جہاں میں کوئی نہیں ہمارا