لاک ڈاؤن کے دوران شہریوں نے مثالی ایثار اور اتحاد کا مظاہرہ کیا

پاکستانیوں کو چین سے نہ نکالنے کے فیصلے پر مایوسی ہوئی تھی لیکن بعد میں یہ فیصلہ درست ثابت ہوا

کورونا وائرس ایک عالمی وبا بن چکا ہے۔ ایک سو ستانوے سے زائد ممالک سے اس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ ابھی تک اس کی کوئی دوا یا ویکسین دریافت نہیں ہوئی مگر احتیاطی تدابیر میں سے سب سے موثر لاک ڈاون ہی کو قر ار دیا جار ہا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک اس کو اپنا چکے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب، سندھ، بلوچستان ، خیبر پختونخواہ اور گلگت و بلتستان،آزاد کشمیر میں بھی لاک ڈاون پر عملدرآ مد جاری ہے۔لاک ڈائون میں زندگی رُک سی جاتی ہے اور طرز حیات تبدیل ہو جاتا ہے۔

چین کے شہر ووہان سے کورونا وائرس یا کووڈ 19 کی شروعات ہوئی۔ چین نے ہی مختلف شہروں اور علاقوں کو اس وائرس کے پھیلائو کی روک تھام کی حکمت عملی کے تحت لاک ڈاون کرنا شرو ع کیا۔ ووہان ہی اس وبا کا آغاز ہوا اور ووہان ہی سے لاک ڈائو ن شروع ہوا۔ اس بات کا تجسس یقیناً ہر کسی کو ہے کہ لاک ڈائون کے دوران معمولات زندگی کیسے تھے۔

چینی حکام اور انتظامیہ کا رویہ کیسا تھا ، چینی شہریوں اور مختلف اداروں کا اس حوالے سے کیا ردعمل تھا۔ اس حوالے سے ہم نے ووہان یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک پاکستانی پوسٹ ڈاک ریسرچ فیلو ڈاکٹر اسلم حیات سے رابط کیا۔ انہوں نے یہ تمام عرصہ ووہان میں ہی گزارا او ر پاکستان نہیں آئے اور اب بھی جب وہاں پر اس وائرس کو کافی حد تک کنٹرول کر لیا گیا ہے وہیں پر ہیں ۔توآئیے ان کی زبانی جانتے ہیں کہ کورونا وائرس کا آغاز اور بعد میں پیش آنے والے واقعات نے کس ترتیب سے جنم لیا۔

ابتدائی ردعمل
جنوری دو ہزار بیس کے آغاز میں کورونا وائرس یونیورسٹی طلبا کے درمیان موضوع سخن بننا شروع ہوا۔ اس سے پہلے یہ زیر بحث نہیں آیا تھا۔جنوری کے وسط میں اس حوالے سے انفارمیشن، خبریں ،اطلاعات آنا شروع ہوئیں۔پندرہ جنوری کے بعد دوستوں کے درمیان گفتگو کا یہ لازمی موضوع ہوتا تھا۔ مگر اس کو ایک نئی ڈیویلپمینٹ کے طور پر یا ایک نئی بیماری کے طور پر لیا گیا۔ مگر اس سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کیا جار ہا تھا۔

یونیورسٹی لیبزکی بندش اور نارمل طرز زندگی
اٹھارہ یا انیس جنوری دو ہزار بیس کو ووہان یونیورسٹی کی انتظامیہ نے یونیورسٹی کی تما م لیبز کو بند کردیا۔ چونکہ نیا چینی سال قریب تھا اور اس موقع پر پورے چین میں چھٹیاں ہوتی ہیں۔ غیر ملکی طلبا نے اپنے اپنے ممالک واپسی کی راہ لینا شروع کردی۔ بہت سے پی ایچ ڈی اور ایم ایس کے پاکستانی طلبا بھی وطن واپس چلے گئے۔ یہ سلسلہ بیس اکیس جنوری تک چلتا رہا۔ اس وقت تک کوئی لاک ڈائون نہیں ہوا تھا۔ اس وقت کوئی وارننگ یا نوٹس نہیں ملا تھا۔ چین میں تیئس اور چوبیس جنوری کو دو تعطیلات تھیں۔ ووہان کی مقامی انتظامیہ نے سوچا کہ جب لوگ نئے چینی سال کے لیے یہاں سے چلے جائیں گے تو ہم اس وقت مارکیٹس بند کردیں گے اور لاک ڈائون کا اعلان کریں گے۔ اس وقت تک مارکیٹس ، سپر مارکیٹس ،بازار ، ریستوران ، سینما گھر کھلے ہوئے تھے اور ہم آزادانہ گھوم رہے تھے۔ لیبز میں بھی کسی حد تک جزوی طور پر ریسرچ چل رہی تھی۔ سب کچھ نارمل تھا

لاک ڈائون کا آغاز
تئیس جنوری سے ووہان یونیورسٹی میں لاک ڈائون شروع ہوا۔ مختلف نوعیت کی بندشوں کا آغاز ہو ا۔ ووہان اب بند ہو گیا۔ مقامی انتظامیہ نے اعلان کیا کہ اب یہاں سے کوئی غیر ملکی باہر نہیں جا سکتا۔ ہوبے صوبے کو بند کر دیا گیا۔ اس وقت تک کورونا وائرس سے متاثرہ کیسز کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ اس وقت ہمیں صورتحال کی سنجیدگی اور سنگینی کا احساس ہونا شروع ہوا۔ ایک خوف نے جنم لینا شروع کیا اور اضطرابی کیفیت محسوس ہونا شروع ہوئی۔ تئیس جنوری کے بعد زندگی بالکل بدل گئی۔

عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز اور ہنگامی اقدامات
تئیس جنوری کے بعد یہ معاملہ بین الاقوامی اہمیت اختیار کر گیا۔ مقامی میڈیا، قومی میڈیا میں خبریں آنا شروع ہو گئیں۔ سو شل میڈیا پر اس کی باز گشت سنائی دینے لگی۔ہر طرف یہی موضوع گفتگو بن گیا۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ہم سے براہ راست رابطہ شروع کر دیا۔ پوسٹ ڈاک ریسرچ فیلوز یا طلبا سے یونیورسٹی کے پوسٹ ڈاک آفس نے رابطہ کیا ۔ انٹر نیشنل آفس نے ایم ایس ، پی ایچ ڈی ، انڈر گریجویٹس طلبا سے رابطہ کیا۔ طلبا کو اپنے ہاسٹلز میں رہنے کی ہدایات اور احتیاطی اقدامات اپنانے کی ہدایات دی گئیں ۔ طلبا کے لیے ہیلپ لائنز بنا دی گئیں۔

طلبا کو واضح ہدایات دی گئیں کہ اگر آپ کو کوئی پرابلم ہے ،صحت، یا خوراک کا مسئلہ ہے تو ہمیں بتائیں ۔یہ بھی ہدایت تھی کہ آپ نے ووہان اور صوبہ ہوبے نہیں چھوڑنا ، اگر آپ چھوڑیں گے تو یہ غیر قانونی ہو گا۔ اس پر قانونی کاروائی ہو گی۔مجھے بھی یہ پیغام آیا کہ آپ نے اپنی صحت کو خیال رکھنا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اس کو مانیٹر کرنا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کو بتا نا ہے کہ آپ کی صحت کیسی ہے۔

کوشش کریں کہ یونیورسٹی کے اندر رہیں اور باہر نہ جائیں۔ لیکن اس وقت تک یونیورسٹی کے گیٹ بند نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت ہم نے سوچا کہ اب صورتحال سیریس ہونا شروع ہو گئی ہے تو ہم اب کچھ چیزوں کو اکٹھا کرنا شروع کر دیں۔ اس وقت تک بڑی مارکیٹس بند ہو چکی تھیںمگر یونیورسٹی کی سپر مارکیٹ کھلی تھی کچھ باہر دکانیں کھلی تھیں۔ تو ہم نے چکن، کوکنگ آئل ، گوشت، چاول، آٹا ، سبزیاں اور دیگر ضروری سامان ایک ماہ کے لیے اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ شروع میں ایک ہفتہ ایسا ہی تھا ۔ بعد میں پھر ہدایات بڑھتی چلی گئیں اور اقدامات میں سختی اور تبدیلی آتی چلی گئی۔

لاک ڈاون میں بتدریج سختی
ڈاکٹر اسلم حیات بتاتے ہیں کہ ان کا یو نیورسٹی میں اپارٹمنٹ ووہان میں واقع ایسٹ لیک کے قریب تھا۔ تو لاک ڈاون کے آ غاز میں شام کے وقت وہ وہاں واک کے لیے چلے جایا کرتے تھے۔ پھر یونیورسٹی کا ایسٹ گیٹ بند کردیا گیا اور یونیورسٹی کے باقی گیٹس بند ہو نا شروع ہو گئے۔ ووہان یونیورسٹی کی سپر مارکیٹ بھی فروری کے پہلے ہفتے میں بند ہو گئی۔ دس فروری کے قریب یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلبا کو کچھ ایپس دی گئیں کہ اگر آپ نے کچھ بھی خریداری کرنی ہے تو آپ آن لائن کریں گے۔مخصوص اور مقررہ مقامات پر آپ کو آپ کی خریدی گئی اشیاء پہنچا دی جائیں گی۔

شہریوں کی بلاضرور ت نقل و حرکت کی روک تھام اور والنٹیر (رضاکار) سروس کا آغاز
جب معاملات اس نہج پر پہنچے تو پھر یونیورسٹی کی مینجمینٹ اور والنٹیر سروس شروع ہو ئی۔ ان رضاکاروں میں یونیورسٹی کے پروفیسرز، پوسٹ ڈاک طلبا، ایم ایس کے سٹوڈنٹس اور دیگر شعبہ جا ت کے لو گ تھے۔وہ تمام کے تمام پڑھے لکھے اور بہت سر گرم تھے۔ انہوں نے اشیاء ضروریہ کی سپلائی ، ضرروی سماجی معاملات کو چلانے اور یونیورسٹی میں مقیم افراد کی سہولت کے لیے کام آپس میں بانٹ لیے تھے۔ کاموں کی تقسیم کے دوران انہوں نے اپنے عہدے ، تعلیم، سماجی حیثیت یا مالی خوشحالی کو در خور اعتنا نہیں سمجھا۔ ایک ہی مشن اور مقصد تھا کہ اس ہنگامی صورتحال سے احسن انداز میں نبٹنا ہے اور لوگوں کو سہولیات احتیاط اور ایک منظم طریقہ کار کے تحت فراہم کرنی ہیں۔

کچھ ایسے تھے جو آرڈر لے رہے تھے اور کچھ ایسے تھے جو ڈیلیور کر رہے تھے۔ اس میں طریقہ کار یہ تھا کہ ہم ایک دن آرڈر کرتے تھے اور چوبیس گھنٹے کے بعد ہمیں وہ اشیاء مل جاتی تھیں۔ اس رضاکار سروس میں یونیورسٹی طلبا اور دیگر افراد کی ْصحت کے معا ملات کو ترجیحی اہمیت حاصل تھی۔ہر طرح کی میڈیکل سہولت ہمیں میسر تھی۔ہمیں بار بار کہا جاتا تھا کہ اگر کسی بھی چیز کی ضرورت ہے تو ہمیں بتائیں۔انٹرنیشنل ہاسٹلز بند ہو چکے تھے ۔ مگر میں چونکہ ٹیچنگ فیکلٹی میں رہتا تھا تو مجھے ذرا باہر جانے کی اجازت تھی۔ ہر جگہ ہمارا ٹمپریچر چیک کیا جاتا تھا۔


ہر سٹریٹ میں اسکین کیا جاتا تھا۔کچھ والنٹیرز ایسے تھے جو صرف لوگوں کی نقل و حرکت کو مانیٹر کرتے تھے۔ وہ ہرکسی سے پوچھتے تھے کہ آپ کہاں جا رہے ہیں۔ اگر کوئی منطقی وجہ نہ ہوتی تو انہیں واپس کر دیا جاتا تھا۔ مثلا ً اگر کوئی کہتا کہ وہ واک کرنے جارہا ہے تو اس کو واپس بھیج دیا جاتا۔نقل و حرکت کی روک تھام تمام چینی و غیر چینی شہریوں کے لیے برابر تھی۔ اس میں کوئی تخصیص نہیں تھی۔ یہ رضاکار لوگ اپنے کام سے بہت مخلص تھے اورکسی غرض، صلے یا ستائش کی تمنا کے بغیر یہ کام کر رہے تھے۔ ان رضا کاروں نے کبھی اپنے کام کی چینی سوشل میڈیا پرموجود کسی گروپ یا انفرادی سطح پر تشہیر نہیں کی ۔ وہ عدم تشہیر کے اپنے فیصلے پر سختی سے کار بند رہے۔لوگ ان کی تصاویر کھینچ سکتے تھے مگر وہ رضاکار خود کبھی بھی اپنی تصویر نہیں لیتے تھے۔ یہ ان کی اچھی اور قابل تحسین اپروچ تھی۔

آن لائن ڈیلیوری سروس کا آغاز
یونیورسٹی میں تمام شاپس اور مارکیٹس بند ہو چکی تھیں ۔ مگر لوگوں نے ضروری اشیاء بھی خریدنی تھیں تو اس کا حل انتظامیہ نے یہ نکالا کہ آن لائن سروس کا آغاز کر دیا۔ کچھ کمپنیوں نے آن لائن ڈیلیوری سروس شروع کی۔ یونیورسٹی کے ایسٹ گیٹ پر سامان چھوڑ دیا جاتا تھا۔ میرا سامان بھی وہاں آیا۔ ایک دلچسپ مشاہدہ جو میں نے کیا کہ کسی بھی شخص کے سامان کو کوئی دوسر ا فرد نہیں چھیڑتا تھا۔ مثال کے طور پر اگر میرا سامان دن کے بارہ بجے آیا اور میں تین یا چار گھنٹے کے بعد اس کو لینے گیا ہوں تو میں حیران ہوتا تھا کہ کوئی رضا کار یا کوئی اور فرد وہاں سامان کی نگرانی کرنے والا نہیں مگر میرے نام پر آئی ہوئی میری اشیاء مکمل طور پر اسی حالت میں ہوتی تھیں جیسے ڈیلیوری والے چھوڑ کر جاتے تھے۔ کوئی رکھوالی نہیں کرتا تھا۔ یہ میرے ساتھ ایک مرتبہ نہیں ہوا ۔

آٹھ دس مرتبہ ہواکہ میرا سامان آیا۔ ڈیلیوری والے مجھے ایک چھوٹی سی ویڈیو اور میسج کر دیتے تھے کہ میرا سامان فلاں جگہ پڑا ہوا ہے اور مجھے کوئی فکر نہیں ہوتی تھی۔ حالانکہ یہ بحرانی کیفیت تھی اور ہر ایک کو سامان کی ضرورت ہوتی تھی مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میرا سامان یا منگوائی گئی اشیاء کوئی اور لے گیا ہو۔ بعد میں ہم اس سامان کو چیک کرتے تھے ۔پورا کرنے کے بعد اور تسلی کے بعد ہم ان کو ادائیگی کرتے تھے۔ کسی چیز کی کمی نہیں آنے دی گئی۔ پانی وقت پر ملا، خوراک وقت پر ملی، صحت کی سہولیات مکمل طور پر ہر کسی کو دستیاب تھیں ملیں۔ بار بار پوچھتے تھے کہ صحت کیسی ہے۔ کسی چیز کی ضرروت تو نہیں۔ بین الاقوامی طلباء کے لیے انہوں نے انگلش زبان میں ہیلپ لائن شروع کی تا کہ وہ طلبا جو چینی نہیں بول سکتے ۔وہ رابطہ کر کے اپنے مسائل یا ضرورت سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ یوں چینی حکام نے ہمار ا پورا خیال رکھا۔

غیر ملکی طلبا کا انخلا اور پاکستانی سفارت خانے کا کردار
اس دوران یہاں فروری میں انخلا کی بات شروع ہوئی اور یہاں سے لوگ اپنے اپنے ملکوں میں جانا شروع ہوئے اور طلبا کا انخلاء ہونا شروع ہوا۔ جنوری اٹھائیس یا انتیس سے لوگوں کا انخلا شروع ہوا۔ بھارتی شہریوں کا تین بار انخلا ہوا۔ بھارتیوں کی تعداد ووہان میں کوئی دو ہزار سے زیادہ تھی۔ آخری انخلا ان کا بائیس فروری کو ہوا ۔ بھارتی سفارت خانے کے حکام نے پاکستانیوں سے کہا کہ اگر وہ واپس جانا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو واپس لے جانے کو تیار ہیں۔ مگر پاکستانی طلبا نے کہا کہ وہ جائیں گے تو پاکستانی حکومت کے انتظامات کے تحت مگر بھارتیوں کے ساتھ نہیں جائیں گے۔ پاکستانی حکومت نے فیصلہ کیا کہ ہم نے طلبا کو وہاں سے نہیں نکالنا۔ تو اس وقت یہ فیصلہ سن کر ایک ہفتے کے لیے کافی پریشانی ہوئی ۔ پاکستانی طلبا کی اکثریت چاہتی تھی کہ وہ وطن واپس چلے جائیںمگر پاکستانی حکومت اور چینی حکومت کا خیال تھا کہ طلبا یہاں زیادہ محفوظ ہیں تو یہاں پر رہیں۔

یہاں پر بحرانی کیفیت تھی۔ نوے فیصد طلبا واپس جانا چاہتے تھے۔ مگر پاکستانی حکومت نے کہا کہ آپ نے واپس نہیں آنا۔ اس وقت یہ ایشو دراصل سوشل میڈیا پر آیا۔
پاکستان سے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی ذوالفقار بخاری سے رابطہ ہوا۔مگر پھر کچھ مسائل پیدا ہو گئے۔ یوں دس فروری کے بعد طلبا نے سوچنا شروع کیا کہ ہم نے یہیں رہنا ہے۔ کچھ روز بحرانی کیفیت تو رہی مگر پندرہ فروری کے بعد طلبا ریلیکس ہو گئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ یہیں رہیں گے۔ اس کے بعد پھر طلبا نے نہ پاکستانی حکومت سے رابطہ کیااور نہ ہی سوشل میڈیا پر آئے۔ بعد میں پاکستانی حکومت کا فیصلہ درست ثابت ہوا۔
اس وقت بیجنگ میں واقع پاکستانی سفارت خانے نے پاکستانی طلبا سے را بطہ کیا۔ طلبا کے نفسیاتی سیشنز بیجنگ سے فون پر شروع ہوئے۔ ایمبیسی کے پاس سب پاکستانی طلبا کی معلومات اور فہرستیں تھیں۔ مختلف ڈاکٹرز تھے۔ مجھے ڈاکٹر نوید کال کیا کرتے تھے۔ پہلے تو سٹاف نے رابطہ کیا پھر انہوں نے سائیکاٹرسٹ تعینات کیے جو ہم سے بات کرتے ۔نفسیاتی مسائل پر بات کرتے ۔ آپ کمرے میں اکیلے ہیں۔ آپ باہر نہیں جا سکتے ۔ آپ کیا سوچ رہے ہیں۔ آپ کو کوئی پریشانی تو نہیں۔ کوئی انگزائیٹی تو نہیں۔آپ ڈیپریشن میں تو نہیں ہیں۔ گھر والوں سے باقاعدگی سے بات ہوتی ہے؟۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ آپ کا خیال رکھا جائے گا۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں تو اس طرح پاکستانی سفار ت خانے کے عملے اور یہاں موجود چینی حکام نے ہمار ا بہت خیال رکھا اور ہماری ہر ضرورت پوری کی۔

وبا کے دوران طبی سہولیا ت کی فراہمی
لاک ڈائون کے دوران یونیورسٹی انتظامیہ اور مقامی چینی انتظامیہ نے طلباکی طبی نگہداشت کا خاص خیال رکھا۔ ڈاکٹر اسلم حیات بتاتے ہیں کہ وہ اس دوران انیتس جنوری کو بخار میں مبتلا ہوئے اور ہسپتال گئے ۔ یہ لمحہ ان کے لیے بڑا پریشان کُن اور تکلیف دہ تھا ۔ انہیں کئی طرح کے وسوسے اور منفی خیالات بھی آئے۔ ہسپتال میں ان کا چیک اپ ہوا مگر ڈاکٹرز نے ان کو بتایا کہ یہ موسمی بخار ہے ۔ انہیں ادویات دی گئیں۔ دو دن بعد یہ ٹھیک ہو گئے۔ مگر وہ ایک ہفتہ ان کے لیے بھاری رہا۔ ڈاکٹر اسلم حیات کو ہسپتال کی انتظامیہ، یونیورسٹی کا انٹر نیشنل آفس اور ان کے پروفیسر دن میں تین ،تین بار صحت کے بارے میں پوچھتے تھے۔ ایک ہفتے تک مجھے دوبارہ بخار نہیں ہوا تو میری صحت کے بارے میں روزانہ کے سوالات ختم ہو گئے۔ ہوا یوں تھا کہ ہسپتال کی انتظامیہ نے یونیورسٹی کے پروفیسر کو آگاہ کردیا تھا کہ آپ کا ایک طالب علم بخار کی شکایت لے کر آیا تھا۔ اس لیے تین مختلف جگہوں سے میری صحت کے معاملات کے حوالے سے نگرانی کی جاتی رہی۔یوں وہاں تمام ادارے ایک مربوط میکنزم کے تحت کام کر رہے تھے۔ جو فرد جہاں کہیں بھی کام کرتا تھا اگر وہ ہسپتال جاتا تو اس کے متعلقہ ادارے کو آگاہ کردیا جاتا ۔یوں اس شہری کی مانیٹرنگ اور نگرانی کی جاتی تھی۔ اسی طرح ووہان میںہی ایک پاکستانی فیملی تھی۔ ایک پوسٹ ڈاک ریسرچ فیلو ڈاکٹر آصف وہ اپنی بیگم اور دو بچوں سمیت کرونا وائرس سے متاثر ہوئے مگر ان کا وہیں علاج ہوا اور وہ دس سے پندرہ دن میں صحت یاب ہو گئے۔ اس طرح ہمیں حوصلہ ہوا۔

پاکستانی طلباکی نفسیاتی حالت اور لاک ڈائو ن کے دوران معمولات زندگی
وائرس کے پھیلائو کے ابتدائی ایام میں جس طرح کیسز رپورٹ ہورہے تھے وہ کافی پریشان کن اور مایوس کن صورتحال تھی۔ پھر جب ہم نے دیکھا کہ غیر ملکی طلباء کو ان کے متعلقہ ممالک واپس لے کر جا رہے ہیں اور پاکستانی طلباء کو یہیں رکنے کا کہا جارہا ہے تو اس سے مورال کافی ڈاون ہوا۔ بالخصوص جب بھارتی طلبا بھی واپس چلے گئے اور ہمیں بھاریتوں کی جانب سے واپس لے جانے کی آفر بھی تھی مگر یہ ایک مشکل وقت تھا اور ہمارے اعصاب کا امتحان تھا۔ جنوری اور فروری میں تو ہمارے ساتھ پوسٹ ڈاک کے تین بھارتی طلبا بھی تھے ۔ان سے گپ شپ ہوتی رہتی تھی اور وقت گزر جاتا تھا۔ مگر جب وہ چلے گئے تو ہمیں پھر تنہائی کا سامنا کرنا پڑا ۔ یوں ہم پوسٹ ڈاک کے تین پاکستانی طلبا رہ گئے۔ پھر ہم نے سوچا کہ اب ہم نے یہیں اور اسی صورتحال میں رہنا ہے تو اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کر لیا۔

میں نے اکیلے ہی یونیورسٹی کے اندر واک پر جانا شروع کیا ۔ تین چار گھنٹوں کے لیے اپنا ریسرچ کا کام کرتا اور وقت گزاری کے لیے آن لائن پلیٹ فارمز سے فلمیں، ڈرامے اور دیگر تفریحی نوعیت کا مواد دیکھنا شروع کیا۔ نیوز نہیں دیکھتے تھے کیونکہ وہ کافی مایوس کن اور پریشانی والی ہوتیں تھیں۔ نماز پڑھنی شروع کی۔کچھ ذکر اذکار کیا اور یوں وقت گزارنا شروع کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہاں پر ماہرین کی رائے کو بھی مانیٹر کر رہے تھے ۔ماہرین کا کہنا تھا کہ پندرہ یا بیس فروری تک کورنا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعدا د اوپر جائے گی اس کے بعد یہ نیچے آئے گی۔ ایسا ہی ہوا ۔ بائیس فروری کے بعد اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں کمی آنا شروع ہو گئی ۔ صحت یابی کے کیسز بڑھنا شروع ہو گئے۔کچھ لوگ بیمار ہوئے ۔ مگر وہ صحت یاب ہونا شروع ہو گئے تو اس سے حوصلہ ملا اور اُمید پیدا ہو گئی۔

چینی سوشل میڈیا اور عوام کا ردعمل
؎کورونا کے پھیلائو کے دوران چینی سوشل میڈیا اور عوام کا ردعمل بہت سنجیدہ اور منطقی تھا۔ انہوں نے اس حوالے سے کوئی غلط معلومات یا ٹوٹکا شیئر نہیں کیا۔انہوں نے اس کو سنجیدگی سے لیا اور ماہرین اور ڈاکٹرز کی ہدایات کے تحت اس کی علامات اور احتیاطی تدابیر کے حوالے سے پوسٹ کرنا شروع کیں۔ اس حوالے سے کوئی مذاق یا اس میں سے کوئی تفریح کا پہلو نہیں ڈھونڈا۔چینی عوام ویسے بھی ایشیائی میڈیا پر زیادہ توجہ نہیں دیتے اور وہ مغر بی میڈیا میں شائع ہونے والی نیوز رپورٹس کو زیادہ توجہ سے دیکھتے ہیں۔ جب مغربی میڈیا میں کورونا وائرس کے حوالے سے غیر منطقی یا کسی سائنسی تصدیق کے بغیر اس کے پھیلائو یا آغاز کے بارے میں باتیں کی گئیں توا س سے نوجوان چینی دکھی ہوئے اور اشتعال میں بھی آئے۔ چینی عوام نے اس حوالے سے حیاتیاتی جنگ یا حملے کی سازشی تھیوریز یا کہانیوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ انہوں نے صرف اور صرف اس بیماری کی علامات اور اس کے علاج پر مکمل توجہ مرکوز رکھی اور اپنی توانائیوں کو منتشر نہ ہونے دیا ۔ یوں وہ اس بیماری کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے۔

ڈاکٹر اسلم حیات کہتے ہیں کہ اس دوران مجھے پاکستانی دوستوں اور اہل خانہ سے عمومی طور پر چینی عوام کے برعکس رد عمل ملا۔ پاکستان میں مذہبی تناظر میں اس کو اللہ تعالی کا عذاب یا ناراضگی کے زمر ے میں لیا گیا اور مجھے اس سے بچنے کے لیے کئی طرح کے دیسی ٹوٹکے اورعلاج تجویز کئے گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان سے مجھے دن میں کئی بار پیغام ملتے جس میں ہر بار کسی ٹوٹکے کا ذکر ہوتا ۔

ڈاکٹر اسلم حیات کہتے ہیں کہ لاک ڈاون کے دوران انہیں ہر طرح کی ضروری اشیاء بغیر کسی روک ٹوک اور اضافی قیمت کے ملیں۔ پانی ، خوراک، فیس ماسک سمیت ضرورت کی ہر چیز بروقت اور لاک ڈائون سے پہلے کے نرخوں پر ملی ۔ چینی حکام اور عوام نے بحرانی صورتحال میں بھی نظم وضبط، ڈسپلن ، تحمل ،صبر اور برداشت کامظاہرہ کیا۔ لاک ڈائون چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے کیا گیا تھا ۔ تمام چینی شہریوں نے ذمہ داری کا ثبوت دیا اور حکام سے مکمل تعاون کیا۔ اسی طرح وہاں کے تاجروں یا کاروباری طبقے نے بھی اس کا نا جائز فائدہ نہیں اٹھایا اور اس کو کاروباری فائدے کے لیے استعمال نہیں کیا۔ یوں چین اس وباء کو پھیلنے سے روکنے میں کامیاب ہو گیا۔

ڈاکٹر اسلم حیات کہتے ہیں کہ لاک ڈائون کے دوران یہاں زندگی کا ایک بہت خوشگوار تجربہ ہوا۔ اگر انہیں مستقبل میں کسی بھی ناگہانی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تو وہ اس تجربے کی روشنی میں بہترا نداز میں گزار پائیں گے۔ ڈاکٹر اسلم حیات اپنے آپ کو ووہان میں محفوظ تصور کرتے ہیں اور پاکستانی حکومت کے طلباء کو یہاں سے نہ نکالنے کے فیصلے کو سراہتے ہیں۔ یہاں ووہان میں جس طرح وباء پھیلی تھی او ر جس تعدا د میں لوگ اس سے متاثر ہوئے وہ کافی غیر معمولی اور پریشان کُن تھا مگر چینی شہریوں نے اپنی انفرادی حیثیت اور چین کے ریاستی اداروں نے ادارہ جاتی طور پر یکجا ہو کر اس کا سامنا کیا۔ چینی حکام کی جانب سے بروقت فیصلے، طبی سہولیات کی فراہمی اورسخت سماجی ڈسپلن کورونا کو شکست دینے میں کامیاب ہوا۔ آج ووہان میں اس وباء سے متاثرہ افراد کی تعداد بہت حد تک کم ہو چکی ہے۔ ووہان یونیورسٹی اور شہر میں رفتہ رفتہ زندگی کے رنگ لوٹ رہے ہیں۔ لوگوں کی نقل و حرکت پر بندشیں ختم ہو چکی ہیں۔ عوامی مقامات پر رونقیں لوٹ رہی ہیں۔ووہان میں خوف کے سائے چھٹ چکے ہیں اور اس کی جگہ اُمید اور ز ندگی کو جینے کا عزم ہے۔
Load Next Story