چین کا مشورہ مان لیا جائے
رفتہ رفتہ ایسے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور پہلی جنوری 2020 تک ان کی تعداد تین سو سے تجاوزکرچکی تھی
دنیا کے ایک بڑے شہر ووہان کے مرکزی اسپتال میں 16 دسمبرکو تیز بخار میں مبتلا ایک مریض آیا۔ یہ شخص مچھلی مارکیٹ میں کام کرتا تھا۔ ایمرجنسی شعبے کی انچارج آئی فینن نے اس کا علاج شروع کیا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ فلوکا شکار ہے۔ ڈاکٹرکو اس وقت حیرت ہونی شروع ہوئی جب انھوں نے دیکھا کہ اس نوعیت کی بیماری میں آزمایا جانے والا کوئی بھی علاج کارگر نہیں ہورہا ہے۔
انھیں لگا کہ جیسے یہ کوئی نیا وائرس یا کوئی نامعلوم بیماری ہے۔ انھوں نے مریض کے پھیپھڑوں سے پانی نکال کر اسے ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری روانہ کردیا۔ یہ کام انھوں نے 22 دسمبر کوکیا تھا۔ 30 دسمبر کی شام اسے رپورٹ موصول ہوگئی جس میں ''سارس کورونا وائرس'' لکھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر آئی فینن رپورٹ دیکھ کر پریشان ہو گئیں اور انھوں نے فوری طور پرمحکمہ صحت عامہ کو فون کر کے صورتحال سے آگاہ کردیا۔
رفتہ رفتہ ایسے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور پہلی جنوری 2020 تک ان کی تعداد تین سو سے تجاوزکرچکی تھی۔ ووہان وسطی چین کا معاشی، تجارتی اور صنعتی مرکز ہے۔ یہاں دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں نے سرمایہ کاری کررکھی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ دنیا کا واحد شہر ہے جہاں دنیا کی 500 فارچون کمپنیوں میں سے 230 کمپنیوں کا سرمایہ لگا ہوا ہے۔ 31 دسمبرکو چین نے ڈبلیو ایچ او کو اس بیماری کی موجودگی سے خبردارکر دیا، انھوں نے بتایا کہ نمونیا کے ایسے کئی کیسز آئے ہیں جو عام نہیں ہیں بلکہ مختلف نوعیت کے ہیں۔
یہ ایک بالکل نیا وائرس ہے جسکے بارے میں کسی کوکچھ معلوم نہیں ہے لہٰذا چین کے لیے بھی اس وائرس کا سراغ لگانا آسان نہیں تھا، ان کا خیال تھا کہ یہ سارس وائرس سے پھیلنے والی کوئی بیماری ہے جس کا آغاز چین سے ہوا تھااور 2002-2003 میں عالمی سطح پر 770 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 7جنوری تک چین نے یہ معلوم کرلیا کہ یہ وائرس بالکل نیا ہے اور اس کا تعلق کورونا وائرس کے خاندان سے ہے۔
11 جنوری کو چین نے اعلان کیا کہ وائرس جسے کوڈو 19- کا نام دیا گیا تھا، سے پہلا مریض جان کی بازی ہارگیا ہے۔ اس خبر سے دنیا میں سنسنی پھیل گئی۔ ڈبلیو ایچ او نے 13 جنوری کو مطلع کیا کہ چین سے باہر کسی دوسرے ملک میں کورونا وائرس کا پہلا مریض سامنے آگیا ہے۔ یہ تھائی لینڈکی ایک خاتون تھیں۔ 16 جنوری 2020 کو جاپان سے اطلاع آئی کہ وہاں بھی ایک مریض کی تصدیق ہوئی ہے جس نے حال میں ہی ووہان کا دورہ کیا تھا۔ آنے والے دنوں میں یہ وائرس تیزی سے دنیا میں پھیلنا شروع ہوگیا۔
عالمی ادارہ صحت بھی اس وائرس کی سنگینی کا ادراک کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔ جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس ادارے نے 23 جنوری کو یہ بیان دیا کہ اس وائرس کے پھیلنے سے عالمی سطح پر ہنگامی صورتحال پیدا ہونے کاکوئی خطرہ نہیں ہے اور اس امرکے ''کوئی شواہد'' نہیں ہیں کہ یہ وائرس چین سے باہر انسانوں کے درمیان پھیلے گا۔ جب چین اور دیگر ملکوں میں اس ہلاکت خیز بیماری نے زیادہ شدت اختیارکرلی تو بالآخر 30 جنوری کو عالمی ادارہ صحت (WHO) نے کورونا وائرس کو ایک عالمی ایمرجنسی قرار دینے کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد سے آج تک کی جو صورتحال ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔
دنیا میں اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے دو طرح کے طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ ایک طریقہ وہ ہے جس پر چین، جنوبی کوریا اور چند دیگر ملک کامیابی سے عمل کرچکے ہیں، یہ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی ہے جس کے تحت شہروں اور ملکوں کو مکمل طور پر بندکردیا جاتا ہے، تاکہ لوگ ایک دوسرے سے کم سے کم جسمانی رابطے میں آئیں اور یہ وائرس آگ کی طرح شہروں کو اپنی لپیٹ میں نہ لے سکے۔ امریکا اور یورپ کے کئی ملکوں جن میں اٹلی، اسپین، برطانیہ اور جرمنی سرفہرست ہیں نے لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کرنے کے بجائے اپنے شہریوں کو ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے اور دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ حکمت عملی بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔
یورپ کے اہم اور تاریخی ممالک تباہ ہوچکے ہیں۔ انھیں نہ صرف غیر معمولی جانی بلکہ ناقابل تلافی معاشی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ امریکا کے حالات بھی سامنے ہیں۔ امریکا دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت ہے۔ یہ کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ امریکا موجودہ دور سے نہیں بلکہ 1871 سے ہی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ اس کی مجموعی داخلی پیداوار 21.44 ٹریلین ڈالر ہے۔ امریکی صدر نے ابتدا میں اس مسئلے کو اہمیت نہیں دی بلکہ اسے نظر اندازکیا اور ایسے بیانات دیے جن سے ان کی غیر سنجیدگی ظاہر ہوتی تھی۔ ان کا یہ اندازفکر امریکا کے لوگوں اور اس کی معیشت کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوا۔ صدر ٹرمپ جوکورونا کو بڑا خطرہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔
آج یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اگر ہم امریکا کے اندر ہلاکتوں کو ایک سے دو لاکھ کے اندر رکھنے میں کامیاب ہوجائیں تو یہ ہماری بڑی کامیابی ہوگی۔ جرمنی 3.86 ٹریلین ڈالرکے ساتھ چوتھی بڑی عالمی معیشت ہے۔ اس نے بھی سخت گیر لاک ڈاؤن سے گریزکیا اور وہاں کے حالات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ہندوستان دنیا کی پانچویں بڑی معاشی طاقت ہے، وہاں سخت گیر لاک ڈاؤن کی حکمت عملی اپنائی گئی اور کم از کم آج کی تاریخ تک وہ کسی غیر معمولی ہنگامی صورتحال سے دوچار نہیں ہے۔ برطانیہ عالمی درجہ بندی کے لحاظ سے چھٹی بڑی معیشت ہے وہاں مکمل لاک ڈاؤن نہیں کیا گیا اور نتیجہ سامنے ہے۔
اب ہم فرانس کی طرف آتے ہیں جو ساتویں بڑی معاشی طاقت ہے۔ وہاں کی حکومت نے بھی نرم رویہ اختیارکیا۔ جس کا خمیازہ اسے ہولناک انسانی و معاشی نقصان کی شکل میں اٹھانا پڑا۔ اب اس بد نصیب ملک کا ذکرکرتے ہیں جس نے اپنی حکومت کی سستی اور عاقبت نا اندیش حکمت عملی کی ناقابل بیان قیمت ادا کی ہے۔ اٹلی نہ صرف ایک خوبصورت تہذیب اور تاریخ رکھنے والا ملک ہے بلکہ اس کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے۔ عالمی معاشی درجہ بندی میں وہ آٹھواں مقام رکھتا ہے۔ جس کی مجموعی داخلی پیداوار 1.99 ٹریلین ڈالر ہے۔ اب یہ ملک نہ جانے کب اپنے پیروں پرکھڑا ہوسکے گا۔ کورونا وبا سے بچنے کے لیے اسپین نے بھی تذبذب سے کام لیا اب وہ بھی اپنی تاریخ کے المناک ترین دور سے گزررہا ہے۔
چین اور اس جیسے دیگر ممالک جنھوں نے سخت گیر لاک ڈاؤن کیا۔ بحالی کے مرحلے سے گزررہے ہیں۔ اٹلی، امریکا اور دیگر یورپی ملکوںنے کاروبار بچانا چاہا اور انسانی زندگیوں کوکم اہمیت دی، لیکن یہ ملک نہ اپنے لوگوں کو مرنے اور نہ اپنی صنعتوں اورکاروبار کو تباہ ہونے سے بچاسکے۔ جنوبی ایشیا میں سری لنکا کورونا کے خلاف جنگ میں نمایاں کامیابی حاصل کر رہا ہے۔ اس ملک میں بہت سیاح آتے ہیں۔ یہاں کی حکومت نے کورونا کے خلاف جنگ کا آغاز ہی کرفیو نافذ کرکے کیا تھا، اس وقت بھی وہاں مختلف دنوں کے لیے کرفیو لگایا جاتا ہے۔ اس حکمت عملی کی وجہ سے سری لنکا میں اب تک صرف 5 سے کچھ زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں اور متاثرین کی تعداد بھی 2 سو کے اندرمحدود ہے۔
یہ وقت سیاسی مباحث اور الزام تراشیوں میں الجھنے کا نہیں ہے۔ اس مشکل دور میں عوام مسائل کے باوجود حکومت سے تعاون کر رہے ہیں۔ یہاں یہ عرض کرنا کچھ نامناسب نہیں ہوگا کہ ہماری وفاقی حکومت کو صوبوں اور دیگر سیاسی جماعتوں سے مثالی تعاون کی فضا پیدا کرنی ہوگی تاکہ اس ہولناک وبا کا متحد ہوکرمقابلہ کیا جاسکے۔ مختلف ملکوںکی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ چین کے ایک وفد نے اپنے حالیہ دورے میں واضح طور پرکہہ دیا ہے کہ 28 دنوں کا لاک ڈاؤن ضروری ہے جس کا خاتمہ بھی مرحلہ وار کیاجانا چاہیے۔ امید کی جانی چاہیے کہ ہم چین کے کامیاب تجربے اور بہتر مشورے سے ضرور فائدہ اٹھائیں گے۔ چین ہمارا بہترین دوست ہے، اس کا مشورہ مان لیا جائے تو بہتر ہے۔
انھیں لگا کہ جیسے یہ کوئی نیا وائرس یا کوئی نامعلوم بیماری ہے۔ انھوں نے مریض کے پھیپھڑوں سے پانی نکال کر اسے ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری روانہ کردیا۔ یہ کام انھوں نے 22 دسمبر کوکیا تھا۔ 30 دسمبر کی شام اسے رپورٹ موصول ہوگئی جس میں ''سارس کورونا وائرس'' لکھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر آئی فینن رپورٹ دیکھ کر پریشان ہو گئیں اور انھوں نے فوری طور پرمحکمہ صحت عامہ کو فون کر کے صورتحال سے آگاہ کردیا۔
رفتہ رفتہ ایسے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور پہلی جنوری 2020 تک ان کی تعداد تین سو سے تجاوزکرچکی تھی۔ ووہان وسطی چین کا معاشی، تجارتی اور صنعتی مرکز ہے۔ یہاں دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں نے سرمایہ کاری کررکھی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ دنیا کا واحد شہر ہے جہاں دنیا کی 500 فارچون کمپنیوں میں سے 230 کمپنیوں کا سرمایہ لگا ہوا ہے۔ 31 دسمبرکو چین نے ڈبلیو ایچ او کو اس بیماری کی موجودگی سے خبردارکر دیا، انھوں نے بتایا کہ نمونیا کے ایسے کئی کیسز آئے ہیں جو عام نہیں ہیں بلکہ مختلف نوعیت کے ہیں۔
یہ ایک بالکل نیا وائرس ہے جسکے بارے میں کسی کوکچھ معلوم نہیں ہے لہٰذا چین کے لیے بھی اس وائرس کا سراغ لگانا آسان نہیں تھا، ان کا خیال تھا کہ یہ سارس وائرس سے پھیلنے والی کوئی بیماری ہے جس کا آغاز چین سے ہوا تھااور 2002-2003 میں عالمی سطح پر 770 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 7جنوری تک چین نے یہ معلوم کرلیا کہ یہ وائرس بالکل نیا ہے اور اس کا تعلق کورونا وائرس کے خاندان سے ہے۔
11 جنوری کو چین نے اعلان کیا کہ وائرس جسے کوڈو 19- کا نام دیا گیا تھا، سے پہلا مریض جان کی بازی ہارگیا ہے۔ اس خبر سے دنیا میں سنسنی پھیل گئی۔ ڈبلیو ایچ او نے 13 جنوری کو مطلع کیا کہ چین سے باہر کسی دوسرے ملک میں کورونا وائرس کا پہلا مریض سامنے آگیا ہے۔ یہ تھائی لینڈکی ایک خاتون تھیں۔ 16 جنوری 2020 کو جاپان سے اطلاع آئی کہ وہاں بھی ایک مریض کی تصدیق ہوئی ہے جس نے حال میں ہی ووہان کا دورہ کیا تھا۔ آنے والے دنوں میں یہ وائرس تیزی سے دنیا میں پھیلنا شروع ہوگیا۔
عالمی ادارہ صحت بھی اس وائرس کی سنگینی کا ادراک کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔ جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس ادارے نے 23 جنوری کو یہ بیان دیا کہ اس وائرس کے پھیلنے سے عالمی سطح پر ہنگامی صورتحال پیدا ہونے کاکوئی خطرہ نہیں ہے اور اس امرکے ''کوئی شواہد'' نہیں ہیں کہ یہ وائرس چین سے باہر انسانوں کے درمیان پھیلے گا۔ جب چین اور دیگر ملکوں میں اس ہلاکت خیز بیماری نے زیادہ شدت اختیارکرلی تو بالآخر 30 جنوری کو عالمی ادارہ صحت (WHO) نے کورونا وائرس کو ایک عالمی ایمرجنسی قرار دینے کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد سے آج تک کی جو صورتحال ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔
دنیا میں اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے دو طرح کے طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ ایک طریقہ وہ ہے جس پر چین، جنوبی کوریا اور چند دیگر ملک کامیابی سے عمل کرچکے ہیں، یہ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی ہے جس کے تحت شہروں اور ملکوں کو مکمل طور پر بندکردیا جاتا ہے، تاکہ لوگ ایک دوسرے سے کم سے کم جسمانی رابطے میں آئیں اور یہ وائرس آگ کی طرح شہروں کو اپنی لپیٹ میں نہ لے سکے۔ امریکا اور یورپ کے کئی ملکوں جن میں اٹلی، اسپین، برطانیہ اور جرمنی سرفہرست ہیں نے لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کرنے کے بجائے اپنے شہریوں کو ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے اور دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ حکمت عملی بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔
یورپ کے اہم اور تاریخی ممالک تباہ ہوچکے ہیں۔ انھیں نہ صرف غیر معمولی جانی بلکہ ناقابل تلافی معاشی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ امریکا کے حالات بھی سامنے ہیں۔ امریکا دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت ہے۔ یہ کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ امریکا موجودہ دور سے نہیں بلکہ 1871 سے ہی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ اس کی مجموعی داخلی پیداوار 21.44 ٹریلین ڈالر ہے۔ امریکی صدر نے ابتدا میں اس مسئلے کو اہمیت نہیں دی بلکہ اسے نظر اندازکیا اور ایسے بیانات دیے جن سے ان کی غیر سنجیدگی ظاہر ہوتی تھی۔ ان کا یہ اندازفکر امریکا کے لوگوں اور اس کی معیشت کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوا۔ صدر ٹرمپ جوکورونا کو بڑا خطرہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔
آج یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اگر ہم امریکا کے اندر ہلاکتوں کو ایک سے دو لاکھ کے اندر رکھنے میں کامیاب ہوجائیں تو یہ ہماری بڑی کامیابی ہوگی۔ جرمنی 3.86 ٹریلین ڈالرکے ساتھ چوتھی بڑی عالمی معیشت ہے۔ اس نے بھی سخت گیر لاک ڈاؤن سے گریزکیا اور وہاں کے حالات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ہندوستان دنیا کی پانچویں بڑی معاشی طاقت ہے، وہاں سخت گیر لاک ڈاؤن کی حکمت عملی اپنائی گئی اور کم از کم آج کی تاریخ تک وہ کسی غیر معمولی ہنگامی صورتحال سے دوچار نہیں ہے۔ برطانیہ عالمی درجہ بندی کے لحاظ سے چھٹی بڑی معیشت ہے وہاں مکمل لاک ڈاؤن نہیں کیا گیا اور نتیجہ سامنے ہے۔
اب ہم فرانس کی طرف آتے ہیں جو ساتویں بڑی معاشی طاقت ہے۔ وہاں کی حکومت نے بھی نرم رویہ اختیارکیا۔ جس کا خمیازہ اسے ہولناک انسانی و معاشی نقصان کی شکل میں اٹھانا پڑا۔ اب اس بد نصیب ملک کا ذکرکرتے ہیں جس نے اپنی حکومت کی سستی اور عاقبت نا اندیش حکمت عملی کی ناقابل بیان قیمت ادا کی ہے۔ اٹلی نہ صرف ایک خوبصورت تہذیب اور تاریخ رکھنے والا ملک ہے بلکہ اس کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے۔ عالمی معاشی درجہ بندی میں وہ آٹھواں مقام رکھتا ہے۔ جس کی مجموعی داخلی پیداوار 1.99 ٹریلین ڈالر ہے۔ اب یہ ملک نہ جانے کب اپنے پیروں پرکھڑا ہوسکے گا۔ کورونا وبا سے بچنے کے لیے اسپین نے بھی تذبذب سے کام لیا اب وہ بھی اپنی تاریخ کے المناک ترین دور سے گزررہا ہے۔
چین اور اس جیسے دیگر ممالک جنھوں نے سخت گیر لاک ڈاؤن کیا۔ بحالی کے مرحلے سے گزررہے ہیں۔ اٹلی، امریکا اور دیگر یورپی ملکوںنے کاروبار بچانا چاہا اور انسانی زندگیوں کوکم اہمیت دی، لیکن یہ ملک نہ اپنے لوگوں کو مرنے اور نہ اپنی صنعتوں اورکاروبار کو تباہ ہونے سے بچاسکے۔ جنوبی ایشیا میں سری لنکا کورونا کے خلاف جنگ میں نمایاں کامیابی حاصل کر رہا ہے۔ اس ملک میں بہت سیاح آتے ہیں۔ یہاں کی حکومت نے کورونا کے خلاف جنگ کا آغاز ہی کرفیو نافذ کرکے کیا تھا، اس وقت بھی وہاں مختلف دنوں کے لیے کرفیو لگایا جاتا ہے۔ اس حکمت عملی کی وجہ سے سری لنکا میں اب تک صرف 5 سے کچھ زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں اور متاثرین کی تعداد بھی 2 سو کے اندرمحدود ہے۔
یہ وقت سیاسی مباحث اور الزام تراشیوں میں الجھنے کا نہیں ہے۔ اس مشکل دور میں عوام مسائل کے باوجود حکومت سے تعاون کر رہے ہیں۔ یہاں یہ عرض کرنا کچھ نامناسب نہیں ہوگا کہ ہماری وفاقی حکومت کو صوبوں اور دیگر سیاسی جماعتوں سے مثالی تعاون کی فضا پیدا کرنی ہوگی تاکہ اس ہولناک وبا کا متحد ہوکرمقابلہ کیا جاسکے۔ مختلف ملکوںکی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ چین کے ایک وفد نے اپنے حالیہ دورے میں واضح طور پرکہہ دیا ہے کہ 28 دنوں کا لاک ڈاؤن ضروری ہے جس کا خاتمہ بھی مرحلہ وار کیاجانا چاہیے۔ امید کی جانی چاہیے کہ ہم چین کے کامیاب تجربے اور بہتر مشورے سے ضرور فائدہ اٹھائیں گے۔ چین ہمارا بہترین دوست ہے، اس کا مشورہ مان لیا جائے تو بہتر ہے۔