بہار کا موسمی پھل شہتوت
گزشتہ سال کی نسبت شہتوت کی فی کلوقیمت میں دُگنا اضافہ
KARACHI:
پنجاب کے مختلف اضلاع میں ان دنوں موسم بہار کا پھل شہتوت فروخت ہونا شروع ہوگیا ہے۔
محکمہ جنگلات کی طرف سے گھروں میں شہتوت اگانے کے لئے 30 ہزار پودے تیار کئے ہیں جن میں سے 15 ہزار تقسیم کئے جاچکے ہیں۔ اپریل اورمئی کے مہینے میں شہتوت کا پھل عام فروخت ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ مارکیٹ میں ان دنوں سبز اور کالے شہتوت نظرآتے ہیں۔ سبز شہتوت جسے دکاندار بادانہ شہتوت کہتے ہیں کالے شہتوت کی نسبت مہنگاہے۔ کالے شہتوت 450 سے 480 روپے تک فی کلومیں فروخت ہورہا ہے جبکہ سبزشہتوت کی قیمت 600 روپے فی کلو گرام تک ہے۔
زرعی ماہررضوان احمد نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت شہتوت کی دوقسمیں عام ہیں ان میں سے ایک ماہی نام کی ورائٹی ہے۔ یہ ورائٹی بیرون ملک سے لائی گئی ہے اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا پھل انتہائی رسیلا اور میٹھا ہے۔ ان کے مطابق ایک دوسری ورائٹی کلکتی کے نام سے بھی لاہور کے گردو نواح میں لگائی جا رہی ہے۔ باوجود اس کے کہ کلکتی ورائٹی کا پھل لمبائی اور موٹائی میں ماہی سے بڑا ہے لیکن اس میں مٹھاس ماہی شہتوت سے کم ہے۔ماہی ورائٹی لاہور میں کامیاب نہیں ہو سکی البتہ فیصل آباد کی آب و ہوا اس ورائٹی کو راس آئی ہے۔
محکمہ جنگلات پنجاب کے شعبہ سیری کلچرکے ڈپٹی ڈائریکٹر فاروق بھٹی نے بتایا کہ پنجاب میں سب سے زیادہ شہتوت کے درخت چھانگامانگا کے جنگل میں ہی ہیں۔ جہاں کچھ درخت ایسے ہیں جوصرف ریشم کے کیڑوں کی خوراک کے لئے پتوں کے حصول کے لئے لگائے گئے ہیں جبکہ کچھ درخت ایسے ہیں جن کولمبے سائزکے شہتوت لگتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس سال ہم نے 30 ہزارپھل دارشہتوت کے پودے نرسریوں میں لگائے تھے جن میں سے 15 ہزار فروخت ہوچکے ہیں جبکہ باقی بیچے جارہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ شہتوت کے ایک پودے کی قیمت 20 روپے ہے جبکہ نجی نرسریوں میں یہ پودا 200 سے 300 روپے تک میں فروخت ہوتا ہے۔
فاروق بھٹی نے بتایا اپنے ذائقے اور بے پناہ طبی خصو صیات کی بنا پر انتہائی مقبول توت کا پھل ایک انچ سے کچھ ہی بڑا ہوتا ہے جو دراصل بہت سے ننھے ننھے رسدانوں کا مجموعہ ہوتا ہےجو دھاگے کی سی باریک ایک ننھی شاخ پر ایک ساتھ جڑکر اس کی شکل بناتے ہیں۔ انتہائی میٹھا ہونے کے ساتھ ساتھ ہلکی سی ترشی اس کے ذائقے کو منفرد بناتی ہے اور اسے پہچان دیتی ہے۔اس کی مختلف اقسام کےنباتاتی ملاپ سے ایسی اقسام بھی تیار کی گئی ہیں جن کا پھل تین سے چار انچ تک لمبا ہوتا ہے اس میں بھی دو رنگ اور ذائقے ہیں سبز بہت میٹھا اور عنابی یا کالا قدرے ترش ہوتا ہے اور توت کی بجائے شہتوت (شاہ توت) کہلاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق شہتوت کے پھل سے ناصرف مشروب تیارہوتے ہیں بلکہ انہیں خشک کرکے بطورمیوہ بھی استعمال کیا جاتا ہے ادویات سازی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
لاہور میں شرقپور کے قریب شہتوت کے باغات کی کثرت ہے، یہاں ایک کاشتکار چوہدری عبدالحمید نے بتایا کہ اگر شہتوت کا باغ مناسب پھل لے لے تو ایک ایکڑ تین سے سے ساڑھے تین روپے تک بک جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک درخت کتنا پھل دیتا ہے یہ اس کی عمراوردیکھ بھال پرمنحصرہے۔ ایک درخت سے ایک من سے لیکرتین من تک پھل حاصل کیاجاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ایکڑمیں 80 سے 100 تک درخت لگائے جاتے ہیں، جوایک سے ڈیڑھ سال میں پھل دینا شروع کردیتے ہیں۔ ایک درخت کی اوسط پیداوار ایک من لگائی جائے تو ایک ایکڑ سے 80 من شہتوت حاصل ہوں گے۔ مارکیٹ میں اگر یہ شہتوت 300 روپے فی کلو کے حساب سے بھی بچیں تو ساڑھے 9 لاکھ روپے فی ایکڑ حاصل ہوں گے جبکہ اس کا ٹھیکہ تین لاکھ روپے کا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں ان کے ملازم روزانہ صبح سات آٹھ بجے شہتوت کا پھل توڑنا شروع کرتے ہیں اور بارہ ایک بجے تک چار پانچ من پھل اکٹھا کر لیتے ہیں۔ پھر اس پھل کو بڑے بڑے اسپیشل ٹوکروں میں پیک کرلاہورکی بڑی منڈیوں تک لے جایا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق شہتوت کے درختوں میں سوکھے کی بیماری بڑھنے سے اس کا کاشت کم ہورہی ہے ، روٹ راٹ نامی اس بیماری میں ایک پھپھوندی درخت کی جڑوں پر حملہ کرتی ہے جس سے جڑ گلنا سڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ جڑ گلنے کے باعث پہلے درخت کے پتے پیلے ہونا شروع ہوتے ہیں اور پھر جلد ہی درخت سوکھنا شروع ہو جاتا ہے۔ شدید حملے کی صورت میں درخت ٹوٹ کر گر جاتا ہے۔یہ پھپھوندی عام طور پر سردیوں میں شہتوت کو زیادہ پانی دینے کی وجہ سے حملہ کرتی ہیں۔
پنجاب کے مختلف اضلاع میں ان دنوں موسم بہار کا پھل شہتوت فروخت ہونا شروع ہوگیا ہے۔
محکمہ جنگلات کی طرف سے گھروں میں شہتوت اگانے کے لئے 30 ہزار پودے تیار کئے ہیں جن میں سے 15 ہزار تقسیم کئے جاچکے ہیں۔ اپریل اورمئی کے مہینے میں شہتوت کا پھل عام فروخت ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ مارکیٹ میں ان دنوں سبز اور کالے شہتوت نظرآتے ہیں۔ سبز شہتوت جسے دکاندار بادانہ شہتوت کہتے ہیں کالے شہتوت کی نسبت مہنگاہے۔ کالے شہتوت 450 سے 480 روپے تک فی کلومیں فروخت ہورہا ہے جبکہ سبزشہتوت کی قیمت 600 روپے فی کلو گرام تک ہے۔
زرعی ماہررضوان احمد نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت شہتوت کی دوقسمیں عام ہیں ان میں سے ایک ماہی نام کی ورائٹی ہے۔ یہ ورائٹی بیرون ملک سے لائی گئی ہے اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا پھل انتہائی رسیلا اور میٹھا ہے۔ ان کے مطابق ایک دوسری ورائٹی کلکتی کے نام سے بھی لاہور کے گردو نواح میں لگائی جا رہی ہے۔ باوجود اس کے کہ کلکتی ورائٹی کا پھل لمبائی اور موٹائی میں ماہی سے بڑا ہے لیکن اس میں مٹھاس ماہی شہتوت سے کم ہے۔ماہی ورائٹی لاہور میں کامیاب نہیں ہو سکی البتہ فیصل آباد کی آب و ہوا اس ورائٹی کو راس آئی ہے۔
محکمہ جنگلات پنجاب کے شعبہ سیری کلچرکے ڈپٹی ڈائریکٹر فاروق بھٹی نے بتایا کہ پنجاب میں سب سے زیادہ شہتوت کے درخت چھانگامانگا کے جنگل میں ہی ہیں۔ جہاں کچھ درخت ایسے ہیں جوصرف ریشم کے کیڑوں کی خوراک کے لئے پتوں کے حصول کے لئے لگائے گئے ہیں جبکہ کچھ درخت ایسے ہیں جن کولمبے سائزکے شہتوت لگتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس سال ہم نے 30 ہزارپھل دارشہتوت کے پودے نرسریوں میں لگائے تھے جن میں سے 15 ہزار فروخت ہوچکے ہیں جبکہ باقی بیچے جارہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ شہتوت کے ایک پودے کی قیمت 20 روپے ہے جبکہ نجی نرسریوں میں یہ پودا 200 سے 300 روپے تک میں فروخت ہوتا ہے۔
فاروق بھٹی نے بتایا اپنے ذائقے اور بے پناہ طبی خصو صیات کی بنا پر انتہائی مقبول توت کا پھل ایک انچ سے کچھ ہی بڑا ہوتا ہے جو دراصل بہت سے ننھے ننھے رسدانوں کا مجموعہ ہوتا ہےجو دھاگے کی سی باریک ایک ننھی شاخ پر ایک ساتھ جڑکر اس کی شکل بناتے ہیں۔ انتہائی میٹھا ہونے کے ساتھ ساتھ ہلکی سی ترشی اس کے ذائقے کو منفرد بناتی ہے اور اسے پہچان دیتی ہے۔اس کی مختلف اقسام کےنباتاتی ملاپ سے ایسی اقسام بھی تیار کی گئی ہیں جن کا پھل تین سے چار انچ تک لمبا ہوتا ہے اس میں بھی دو رنگ اور ذائقے ہیں سبز بہت میٹھا اور عنابی یا کالا قدرے ترش ہوتا ہے اور توت کی بجائے شہتوت (شاہ توت) کہلاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق شہتوت کے پھل سے ناصرف مشروب تیارہوتے ہیں بلکہ انہیں خشک کرکے بطورمیوہ بھی استعمال کیا جاتا ہے ادویات سازی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
لاہور میں شرقپور کے قریب شہتوت کے باغات کی کثرت ہے، یہاں ایک کاشتکار چوہدری عبدالحمید نے بتایا کہ اگر شہتوت کا باغ مناسب پھل لے لے تو ایک ایکڑ تین سے سے ساڑھے تین روپے تک بک جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک درخت کتنا پھل دیتا ہے یہ اس کی عمراوردیکھ بھال پرمنحصرہے۔ ایک درخت سے ایک من سے لیکرتین من تک پھل حاصل کیاجاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ایکڑمیں 80 سے 100 تک درخت لگائے جاتے ہیں، جوایک سے ڈیڑھ سال میں پھل دینا شروع کردیتے ہیں۔ ایک درخت کی اوسط پیداوار ایک من لگائی جائے تو ایک ایکڑ سے 80 من شہتوت حاصل ہوں گے۔ مارکیٹ میں اگر یہ شہتوت 300 روپے فی کلو کے حساب سے بھی بچیں تو ساڑھے 9 لاکھ روپے فی ایکڑ حاصل ہوں گے جبکہ اس کا ٹھیکہ تین لاکھ روپے کا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں ان کے ملازم روزانہ صبح سات آٹھ بجے شہتوت کا پھل توڑنا شروع کرتے ہیں اور بارہ ایک بجے تک چار پانچ من پھل اکٹھا کر لیتے ہیں۔ پھر اس پھل کو بڑے بڑے اسپیشل ٹوکروں میں پیک کرلاہورکی بڑی منڈیوں تک لے جایا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق شہتوت کے درختوں میں سوکھے کی بیماری بڑھنے سے اس کا کاشت کم ہورہی ہے ، روٹ راٹ نامی اس بیماری میں ایک پھپھوندی درخت کی جڑوں پر حملہ کرتی ہے جس سے جڑ گلنا سڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ جڑ گلنے کے باعث پہلے درخت کے پتے پیلے ہونا شروع ہوتے ہیں اور پھر جلد ہی درخت سوکھنا شروع ہو جاتا ہے۔ شدید حملے کی صورت میں درخت ٹوٹ کر گر جاتا ہے۔یہ پھپھوندی عام طور پر سردیوں میں شہتوت کو زیادہ پانی دینے کی وجہ سے حملہ کرتی ہیں۔