’’گوڈو کا انتـظار‘‘

ناپا ریپٹری تھیٹر کے تحت پیش کیا جانے والا سٹیج ڈرامہ

ناپا ریپٹری تھیٹر کے تحت پیش کیاجانے والا سٹیج ڈرامہ۔ فوٹو : فائل

ناپا ریپٹری تھیٹر نے کراچی میں روایتی اور جدید تھیٹر کے فروغ اور اسے عوام میں مقبولیت دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، چار سال قبل جب اس ادارہ کی بنیاد ڈالی گئی تو اس کا مقصد کراچی میں ایک ایسے تھیٹر کو فروغ دینا تھا ،جو معیاری اور بہترین تھیٹر کہلائے۔

ناپا کے قیام کے ابتداء میں بہت سی مشکلات کاسامنا کرنا پڑا، لیکن اس ادارے کے سربراہ کے طور پر ایک ایسی بین الاقوامی شہرت یافتہ شخصیت کا انتخاب کیا گیا کہ جنہوں نے دنیا بھر میں نہ صرف تھیٹر کیا ، بلکہ دنیا کے مشہور اداکاروں اور ڈائریکٹرز کے ساتھ انہیں کام کرنے کا موقع ملا۔ ضیاء محی الدین کی بطور ادارے کے سربراہ تقرر اس بات کا ثبوت تھی کہ یہ ادارہ پاکستان میں ایک مستند اور بہترین ادارے کے طور کام کرے گا، اور کراچی میں اچھے اور معیاری تھیٹر کا آغاز ہوگا۔ ضیاء محی الدین نے ادارے کے قیام کے بعد ایسی ٹیم تشکیل دی جو تھیٹر، فلم اور ٹی وی کے کہنہ مشق اداکار تھے۔ ناپا کے تحت ایسی کہانیوں کا انتخاب کیا گیا جواپنے دور کے مشہورو معروف رائٹرز کی لکھی ہوئی تھیں اور ان کے لکھے ہوئے ڈرامے دنیا بھر میں شہرت کے حامل رہے، نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں ان کہانیوں پر پیش کیے جانے والوں کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہوئی اور انہیں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔

اسی ادارے میں باصلاحیت نوجوانوں کو تربیت کا موقع ملا اور پھر ان ہی فنکاروں نے اپنی شاندار کارکردگی کی وجہ بہت سے لوگوں کو حیران کردیا،نئے فنکاروں کی عمدہ صلاحیتوں نے ادارے کی ساکھ کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ، بلکہ تھیٹر کو ایک نیا انداز دیا ہندو جیمخانہ میں قائم ناپا اکیڈمی اور تھیٹر آڈیٹوریم کا شمار آج فن کی بہترین درسگاہ اور جدید آڈیٹوریم میں ہوتا ہے ناپا تھیٹر آڈیٹوریم میں نہ صرف تھیٹر بلکہ موسیقی کے بھی شاندار پروگرام پیش کیے جارہے ہیں۔ ضیاء محی الدین نے جس محنت اور لگن کے ساتھ اس ادارے سرپرستی کی آج ان ہی کی کوشش سے یہ پاکستان کا ایک بہترین ادارے کے طور پر شہرت حاصل کرچکا ہے، جہاں فن سے محبت کرنے والے لوگ موسیقی اور تھیٹر کی تربیت حاصل کررہے ہیں، بلکہ اسی ادارہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء اپنے روز گار کا بھی بندوبست کررہے ہیں،اپنے شوق کی تکمیل کے ساتھ ایک اچھی تربیت گاہ میں کام کرکے اپنا حق ادا کررہے ہیں۔


ایسے ہی اداروں کی ہمارے ملک کو ضرورت ہے،ناپا ریپٹری تھیٹر کا اسٹیج ڈرامہ''گوڈو کا انتظار'' ان دنوں ناپا تھیٹر میں پیش کیا جارہا ہے ۔جس میں ایکسپریس میڈیا گروپ میڈیا پارٹنر ہے، ناپا آڈیٹوریم میں پیش کیے جانے والے اس پروگرام کے ہدایت کار ضیاء محی الدین ہیں، انھوں نے بہت عمدگی سے پیش کرنے کے لیے کاوشیں کی ہیں۔ ڈرامے کو عوامی سطح پر زبردست پزیرائی حاصل ہوئی اور یہ ڈرامہ ان دنوں کامیابی سے جاری ہے،ڈرامے میں فارس خالد، علی حسن جونیجو، عمید ریاض، فواد خان اور ضیاء محی الدین کی صاحبزادی عالیہ محی الدین نے اداکاری کا مظاہرہ کیا ہے،تمام فنکاروں نے بہترین اداکاری اس ڈرامے کا بہترین بنا دیا،ڈرامے کی اس صنف میں جسے "Theatre of Absurdity" (لا یعنیت کا تھیٹر) کہا جاتا ہے ''گوڈو کا انتظار'' جیسا ڈراما شاید ہی کوئی لکھا گیا ہو،اس کھیل میں المیے اور مزاح کا ایک ایسا امتزاج ہے کہ اسے بیسویں صدی کے ڈرامائی ادب کا ایک شاہکار سمجھا جاتا ہے۔

اس طرز کا کھیل شاید آپ نے کبھی نہ دیکھا ہو،اس میں کوئی کہانی نہیں، کوئی پلاٹ نہیں ، اس کے باوجود یہ ایک انتہائی اثرانگیز کھیل ہے، زمانے کے ٹھکرائے ہوئے دو انسان ویرانے میں ایک لنڈمنڈ درخت کے نیچے بیٹھے ''گوڈو'' کا انتظار کررہے ہیںجو ان میں زندگی کی کوئی رمق پیدا کرسکے (گوڈو کوئی واقعہ بھی ہوسکتا ہے، کوئی شے بھی ہوسکتی ہے اور کوئی وجود بھی) یہ کھیل کسی معنی کسی مطلب یا مطلب در مطلب کی تلاش کے بعد ایک لامتناہی سفر میں بدل کر ایک حزنیہ نغمہ بن جاتا ہے، اس کھیل کا اصل موضوع ''گوڈو'' نہیں بلکہ انتظار کی وہ کیفیت ہے جس سے ہم سب گزرتے ہیں، ہم زندگی بھر کسی نہ کسی چیز کا انتظار کرتے ہیں ''گوڈو'' اُس شے، اُس تمنا اس حصول کی علامت ہے۔ انتظار کی گھڑیاں کٹھن ہوتی ہیں Beckett نے لکھا ہے کہ ''وقت سے نجات ممکن نہیں، ہمارا آج ہمارے کل کو مسخ کردیتا ہے اور ہمارا کل آج کا چہرہ بگاڑ دیتا ہے''۔

Beckett نے اس کھیل کی بُنت شاعرانہ استعاروں سے نہیں کی بلکہ ایسی گفتگو سے کی ہے جو بے معنی ہوتے ہوئے بھی معنی رکھتی ہے جو مربوط بھی ہے اور مجہول بھی ہے، زندگی سے پیدا ہونے والی اُکتاہٹ اور انسان کی یہ کوشش کہ وہ کسی طرح اس بے معنویت کو معنویت میں بدل دے اس ڈرامے میں تناؤ اور کھینچ تان پیدا کرتی ہے ،دو ٹوٹے پھوٹے لوگ مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گھرے ہوئے ہیں لیکن امید کا تنکا پکڑے رہتے ہیں۔
Load Next Story