بلیک کامیڈی
کمرے میں اکیلا بیٹھتا ہوں تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں دیوار سے کورونا نہ چمٹا ہو
کورونا وباء کے خوف اور شور نے مجھے سترہ بہترا بنادیا ہے ، کمرے میں اکیلا بیٹھتا ہوں تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں دیوار سے کورونا نہ چمٹا ہو، دفتر آنے کے لیے گھر سے نکلوں تو گھبراہٹ ہوتی ہے کہ کہیں کوئی کورونا بھائی جان زبردستی آکر بغلگیر نہ ہوجائے ۔ میری حواس باختگی کا اندازہ یوں لگائیے کہ اگلے روزکام ختم کرکے دفتر سے باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گاڑی غائب ہے، دل دھک دھک کرنے لگا، ادھر ادھر نظر دوڑائی گاڑی کہیں نہیں تھی۔
گھبرا کر سیکیورٹی گارڈز سے کہا، میری گاڑی یہاں تھی، کہاں گئی؟ وہ بیچارے بھی پریشان ہوگئے۔ ادھر ادھر بھاگے، ایک گارڈ نے کہا کہ سر! تھوڑا آگے چلتے ہیں، کیونکہ آپ گاڑی آگے پارک کرتے ہیں۔ تھوڑا چلے تو گاڑی نظر آگئی۔میں نے سکون کا سانس لیا جب کہ گارڈز ہنس دیے، مجھے صاف نظر آرہا تھا کہ وہ میری ذہنی حالت پر ہنس رہے ہیں۔
ایسے میں پی ٹی آئی کے ہمدردگان مجھ سے نالاں رہتے ہیںکہ مجھے حکومت کے کسی بھی کام میں کوئی مثبت بات نظر ہی نہیں آتی۔ چلیں!مجھے ایک بے عقل اورحالات حاضرہ سے ناواقف، مخبوط الحواس شخص ہی سمجھ لیں لیکن میری یہ گزارشات سن لیں۔ عرض ہے کہ موجودہ لاک ڈاؤن چودہ اپریل سے آگے تک ہے اور وزیر اعظم کی چیتا فورس کی رجسٹریشن یقیناً 10اپریل تک مکمل ہوگئی ہوگی، سنا ہے کہ اب ان چیتوں کو اعلی تربیت کے لیے بھیجاجائے گا(جس کے دورانیے کا کچھ پتہ نہیں ہے اور یہ بھی اطلاع نہیںکہ تربیت کس فن کی دی جانی ہے) تربیت مکمل کرنے کے بعد یہ چیتا فورس بھوکوں میں راشن تقسیم کرے گی، اس عرصے میں بے چارے دیہاڑی دار اور کارخانوں اور مارکیٹوں سے بے روزگار ہونے والے مزدورکہاں سے کھائیں گے؟ اﷲ جانتا ہے۔
سنا ہے ،پاکستان میںہلال احمر نام کی تنظیم بھی ہے، اس کے ممبران کی تعداد18لاکھ ہے جن کے چیئرمین پی ٹی آئی کے ابرارالحق ہیں ، ان کے ہوتے ہوئے جو7لاکھ چیتے بھرتی کیے گئے ہیں، کیا یہ وقت اور پیسے کاضیاع نہیں ہیں؟ یہ بھی سنا پاکستان بوائے اسکاؤٹ کی تعداد تقریباً بیس لاکھ ہے جس کے سربراہ صدر عارف علوی ہیں۔ حکومت کو ان کا بھی پتہ لگانا چاہیے کہ کہاں ہیں؟ بلدیاتی اداروںپر اگر شبہ ہے کہ یہ (ن) لیگ کے باگڑ بلے ہیں تو قومی رضاکار فورسز کو استعمال کیوں نہیں کیا گیا۔ گھر گھربجلی کابل پہنچ جاتا ہے، پولیو کے قطرے ہر دروازے تک حکومتی مشینری پہنچا دیتی ہے،قومی ادارے مردم شماری تک کرڈالتے ہیں، ایسے میںجناب وزیر اعظم کویہ نئی فورس بنانے کی کیا سوجھی۔
اس زلف پہ پھبتی شب دیجورکی سوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
جتنی دیر میں یہ ٹائیگر فورس کی بریانی تیارہونی ہے، اتنی دیر میں آدھے عوام کورونا سے مرتے ہیں یا جیتے ہیں لیکن ذہنی توازن ضرور کھو دیں گے۔ لوگوں کے سروں پر موت مسلط ہے اور وزیراعظم، وزراء اور معاونین ومشیران ہوائی قلعے تعمیر فرما رہے ہیں۔
ہمارے وزیر اعظم اور ان کے ممی ڈیڈی ہمنوا اورحمایتی یہ بھی بتادیںکہ جس غریب کی پہنچ فیس بک تک نہیں بلکہ جس نے کبھی فیس بک چلاکر بھی نہیں دیکھی، وہ جناب کے '' احساس'' تک کیسے رسائی حاصل کرے گا؟ بارہ ہزار روپے کن تک پہنچے ، ان کا کچا چٹھا سیلاب گزر جانے کے بعد کھلے گا۔خداکا واسطہ ہے وزیر اعظم صاحب!!! سفید پوش طبقہ تڑپ اٹھاہے، چیخ پڑاہے، پاگل ہوگیا ہے، مرنے مارنے پر تل گیاہے اور آپ تاحال خیالی باتوں کی دیگ میں قورما پکا رہے ہیں۔نبی پاکؐ نے فرمایاکہ مظلوم کی بددعا سے بچو کیونکہ اس کے اورخداکے درمیان کوئی حجاب نہیںہوتا، وزیر اعظم صاحب! عوام جب تنگ آجائیں تو فرانس کی تاریخ دہرا دی جاتی ہے، پھر پولیس، فوج اور سیکیورٹی گارڈز تک مداخلت نہیںکرتے۔ کرپشن فری پاکستان، دو نہیں ایک پاکستان، نیاپاکستان سب کے سب پر کشش نعرے پٹ چکے ہیں۔
ہمارے پاس شاید دنیاکے واحد سربراہ حکومت ہیں کہ جنہوں نے ایسے حالات میں بھی عوام سے چندہ مانگاہے ، اب اس کاکیاکریں کہ کسی بھی بحران میں آپ کے اندرکا چندہ کلیکٹر بڑاکر بیدارہوجاتا ہے۔ چھوڑیں جی!چلیں، بلیک کامیڈی کا مزہ لیتے ہیں۔ چند مفلوک الحال اور فاقہ زدہ افراد سڑک کنارے امداد کے منتظر بیٹھے تھے، انھیں دور سے ایک خوش پوشاک، اونچے شملے والی پگڑی، پاؤں میں طلائی کھسہ پہنے کوئی چوہدری ٹائپ آدمی نظر آیا، سب مفلوک الحالوں کو امید لگ گئی کہ یہ شخص ضرور ہماری کچھ نہ کچھ مددکرے گا لیکن جونہی وہ چوہدری نما آدمی قریب پہنچا، اس نے سر سے پگڑی اتا رلی اور انھی فاقہ زدوں سے چندہ مانگنا شروع کردیا۔
جناب وزیراعظم نے یہ انکشاف بھی فرمایاکہ پچیس سے پچاس ہزار تک لوگ کورونا وباء کاشکار ہو سکتے ہیں۔ یہ کیا پھر بلیک کامیڈی کا لطیفہ یاد آگیا، ایک لڑکی نے اپنے آشناکے ساتھ گھر سے فرار ہونے کا منصوبہ بنالیا۔ رات کو اس نے اپنی ماں سے کہا، اماں صبح ہمارے گھرمیں سے ایک فرد نہیںہوگا''۔ اسی رات وہ رفو چکرہوگئی۔ اس کی ماں روتی لیکن بار بار کہتی تھی کہ ''نمنانی تھی تو ولی، اس نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ صبح ہمارے گھر کا فرد نہیں ہوگا''،ہمارے وزیر اعظم کو اپنی پالیسیوں فیصلوں اور عملی اقدامات کا بخوبی پتہ ہے اسی لیے موصوف درست پیشین گوئی فرما رہے ہیں جسے ماننا ہی پڑے گا۔
اور ہاں جو احتیاطیں قوم کو ہر دومنٹ بعد ٹی وی پر بتائی جا رہی ہیں، اسکرین پر نظر آنے والے حکومتی نمائندے ان پر عمل پیرا نظر نہیں آ تے، مجال ہے جو ٹی وی پرکسی کوماسک لگائے دیکھا گیا ہو ، گزشتہ دنوں پنجاب کے شیر شاہ سوری اورحاکم تخت لاہور کی بہادری یا تجاہل عارفانہ ملاحظہ فرمائیے کہ ارد گردموجود تمام لوگ حفاظتی ساز وسامان سے آراستہ ہوتے ہیں لیکن جناب آئیسولیشن وارڈمیں بھی ماسک نہیں پہنتے( ہاں واسکٹ پہننا نہیں بھولتے)، شاید کسی بقراط نے بتا دیاہوگاکہ آپ میں قوت مدافعت اس قدر زیادہ ہے کہ آپ کورونا پروف ہیں۔ یاحضرت! آپ پنجاب کے عوام ، وزیر اعظم اورپی ٹی آئی پر رحم فرمائیں، خاکم بدہن اگر آپ کو کچھ ہوگیاتو گلشن سیاست ویران ہوجائے گا۔اس قدر خاموش سیاست دان کی اس سے قبل نہ کبھی زیارت ہوئی ہے اور نہ ہی بعد میںکوئی چانس ہے۔ جناب کی عاجزی او تابعداری کے کیاکہنے کہ چھینک بھی کپتان کی مرضی سے مارتے ہیں۔
پاکستانی تیزی سے کورونا سے متاثرہورہے ہیں لیکن ہمارے وزیر اعظم اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کے لیے اب بھی تیار نہیں ہیں بلکہ ان کا سامناکرنے کی بھی جرات نہیںکر پا رہے ۔جناب ! جان کی امان پاؤں اور عرض کروں کہ جب سے آپ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئے ہیں، ماتھے مبارک سے بل ہی نہیں جاتا، اگر یہ غروراورذاتی انا ہے توخدارا اسے قوم کے لیے قربان کر دیجیے اور اگر کوئی شرعی عذر ہے توکسی مفتی قوی سے رجوع کرکے فتویٰ حاصل کرلیجیے لیکن اس سمسیاکوحل ضرور کریں لیکن سچی بات ایک اور بھی ہے، اس میںصرف آپ کوقصور وار گرداننا بھی زیادتی ہوگی۔
اس میں اپوزیشن کا بھی بہت بڑا کردار ہے جو آپ کو دیکھتے ہی نجانے کیوں آپے سے باہرہو جاتی ہے، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف المعروف ہیٹ والی سرکار کپتان پر برس رہے ہیں، حالانکہ انھوں نے اپنے دور میں اتھارٹیاں بنا بنا کر قومی خزانے کا جو ٹماٹو کیچپ بنایا، اس کا مزہ لینے والے نیب حراست میں آنسو بہا رہے ہیں۔ لیجیے ! میں پھر تلخ ہوگیا، کیا کروں، ماضی اور حال کے حکمرانوں نے ایسی چھترول کی ہے کہ اب ذہن بھی ساتھ نہیں دیتا۔ آخرمیں بلیک کامیڈی تھیٹر میں ایک اور لطیفہ بھی سن لیجیے۔ ایک غریب اور نادارشخص کسی امیر ترین آدمی کے پاس گیا اور اسے اپنی درد بھری کہانی سنائی جسے سن کر امیر آدمی زاروقطار رونے لگا، پھراس نے اپنے خادم خاص کو طلب کیا اور حکم دیاکہ اس غریب بھکاری کو دھکے دے کر باہرنکال دو کیونکہ آج اس نے مجھے بہت رلایاہے۔
گھبرا کر سیکیورٹی گارڈز سے کہا، میری گاڑی یہاں تھی، کہاں گئی؟ وہ بیچارے بھی پریشان ہوگئے۔ ادھر ادھر بھاگے، ایک گارڈ نے کہا کہ سر! تھوڑا آگے چلتے ہیں، کیونکہ آپ گاڑی آگے پارک کرتے ہیں۔ تھوڑا چلے تو گاڑی نظر آگئی۔میں نے سکون کا سانس لیا جب کہ گارڈز ہنس دیے، مجھے صاف نظر آرہا تھا کہ وہ میری ذہنی حالت پر ہنس رہے ہیں۔
ایسے میں پی ٹی آئی کے ہمدردگان مجھ سے نالاں رہتے ہیںکہ مجھے حکومت کے کسی بھی کام میں کوئی مثبت بات نظر ہی نہیں آتی۔ چلیں!مجھے ایک بے عقل اورحالات حاضرہ سے ناواقف، مخبوط الحواس شخص ہی سمجھ لیں لیکن میری یہ گزارشات سن لیں۔ عرض ہے کہ موجودہ لاک ڈاؤن چودہ اپریل سے آگے تک ہے اور وزیر اعظم کی چیتا فورس کی رجسٹریشن یقیناً 10اپریل تک مکمل ہوگئی ہوگی، سنا ہے کہ اب ان چیتوں کو اعلی تربیت کے لیے بھیجاجائے گا(جس کے دورانیے کا کچھ پتہ نہیں ہے اور یہ بھی اطلاع نہیںکہ تربیت کس فن کی دی جانی ہے) تربیت مکمل کرنے کے بعد یہ چیتا فورس بھوکوں میں راشن تقسیم کرے گی، اس عرصے میں بے چارے دیہاڑی دار اور کارخانوں اور مارکیٹوں سے بے روزگار ہونے والے مزدورکہاں سے کھائیں گے؟ اﷲ جانتا ہے۔
سنا ہے ،پاکستان میںہلال احمر نام کی تنظیم بھی ہے، اس کے ممبران کی تعداد18لاکھ ہے جن کے چیئرمین پی ٹی آئی کے ابرارالحق ہیں ، ان کے ہوتے ہوئے جو7لاکھ چیتے بھرتی کیے گئے ہیں، کیا یہ وقت اور پیسے کاضیاع نہیں ہیں؟ یہ بھی سنا پاکستان بوائے اسکاؤٹ کی تعداد تقریباً بیس لاکھ ہے جس کے سربراہ صدر عارف علوی ہیں۔ حکومت کو ان کا بھی پتہ لگانا چاہیے کہ کہاں ہیں؟ بلدیاتی اداروںپر اگر شبہ ہے کہ یہ (ن) لیگ کے باگڑ بلے ہیں تو قومی رضاکار فورسز کو استعمال کیوں نہیں کیا گیا۔ گھر گھربجلی کابل پہنچ جاتا ہے، پولیو کے قطرے ہر دروازے تک حکومتی مشینری پہنچا دیتی ہے،قومی ادارے مردم شماری تک کرڈالتے ہیں، ایسے میںجناب وزیر اعظم کویہ نئی فورس بنانے کی کیا سوجھی۔
اس زلف پہ پھبتی شب دیجورکی سوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
جتنی دیر میں یہ ٹائیگر فورس کی بریانی تیارہونی ہے، اتنی دیر میں آدھے عوام کورونا سے مرتے ہیں یا جیتے ہیں لیکن ذہنی توازن ضرور کھو دیں گے۔ لوگوں کے سروں پر موت مسلط ہے اور وزیراعظم، وزراء اور معاونین ومشیران ہوائی قلعے تعمیر فرما رہے ہیں۔
ہمارے وزیر اعظم اور ان کے ممی ڈیڈی ہمنوا اورحمایتی یہ بھی بتادیںکہ جس غریب کی پہنچ فیس بک تک نہیں بلکہ جس نے کبھی فیس بک چلاکر بھی نہیں دیکھی، وہ جناب کے '' احساس'' تک کیسے رسائی حاصل کرے گا؟ بارہ ہزار روپے کن تک پہنچے ، ان کا کچا چٹھا سیلاب گزر جانے کے بعد کھلے گا۔خداکا واسطہ ہے وزیر اعظم صاحب!!! سفید پوش طبقہ تڑپ اٹھاہے، چیخ پڑاہے، پاگل ہوگیا ہے، مرنے مارنے پر تل گیاہے اور آپ تاحال خیالی باتوں کی دیگ میں قورما پکا رہے ہیں۔نبی پاکؐ نے فرمایاکہ مظلوم کی بددعا سے بچو کیونکہ اس کے اورخداکے درمیان کوئی حجاب نہیںہوتا، وزیر اعظم صاحب! عوام جب تنگ آجائیں تو فرانس کی تاریخ دہرا دی جاتی ہے، پھر پولیس، فوج اور سیکیورٹی گارڈز تک مداخلت نہیںکرتے۔ کرپشن فری پاکستان، دو نہیں ایک پاکستان، نیاپاکستان سب کے سب پر کشش نعرے پٹ چکے ہیں۔
ہمارے پاس شاید دنیاکے واحد سربراہ حکومت ہیں کہ جنہوں نے ایسے حالات میں بھی عوام سے چندہ مانگاہے ، اب اس کاکیاکریں کہ کسی بھی بحران میں آپ کے اندرکا چندہ کلیکٹر بڑاکر بیدارہوجاتا ہے۔ چھوڑیں جی!چلیں، بلیک کامیڈی کا مزہ لیتے ہیں۔ چند مفلوک الحال اور فاقہ زدہ افراد سڑک کنارے امداد کے منتظر بیٹھے تھے، انھیں دور سے ایک خوش پوشاک، اونچے شملے والی پگڑی، پاؤں میں طلائی کھسہ پہنے کوئی چوہدری ٹائپ آدمی نظر آیا، سب مفلوک الحالوں کو امید لگ گئی کہ یہ شخص ضرور ہماری کچھ نہ کچھ مددکرے گا لیکن جونہی وہ چوہدری نما آدمی قریب پہنچا، اس نے سر سے پگڑی اتا رلی اور انھی فاقہ زدوں سے چندہ مانگنا شروع کردیا۔
جناب وزیراعظم نے یہ انکشاف بھی فرمایاکہ پچیس سے پچاس ہزار تک لوگ کورونا وباء کاشکار ہو سکتے ہیں۔ یہ کیا پھر بلیک کامیڈی کا لطیفہ یاد آگیا، ایک لڑکی نے اپنے آشناکے ساتھ گھر سے فرار ہونے کا منصوبہ بنالیا۔ رات کو اس نے اپنی ماں سے کہا، اماں صبح ہمارے گھرمیں سے ایک فرد نہیںہوگا''۔ اسی رات وہ رفو چکرہوگئی۔ اس کی ماں روتی لیکن بار بار کہتی تھی کہ ''نمنانی تھی تو ولی، اس نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ صبح ہمارے گھر کا فرد نہیں ہوگا''،ہمارے وزیر اعظم کو اپنی پالیسیوں فیصلوں اور عملی اقدامات کا بخوبی پتہ ہے اسی لیے موصوف درست پیشین گوئی فرما رہے ہیں جسے ماننا ہی پڑے گا۔
اور ہاں جو احتیاطیں قوم کو ہر دومنٹ بعد ٹی وی پر بتائی جا رہی ہیں، اسکرین پر نظر آنے والے حکومتی نمائندے ان پر عمل پیرا نظر نہیں آ تے، مجال ہے جو ٹی وی پرکسی کوماسک لگائے دیکھا گیا ہو ، گزشتہ دنوں پنجاب کے شیر شاہ سوری اورحاکم تخت لاہور کی بہادری یا تجاہل عارفانہ ملاحظہ فرمائیے کہ ارد گردموجود تمام لوگ حفاظتی ساز وسامان سے آراستہ ہوتے ہیں لیکن جناب آئیسولیشن وارڈمیں بھی ماسک نہیں پہنتے( ہاں واسکٹ پہننا نہیں بھولتے)، شاید کسی بقراط نے بتا دیاہوگاکہ آپ میں قوت مدافعت اس قدر زیادہ ہے کہ آپ کورونا پروف ہیں۔ یاحضرت! آپ پنجاب کے عوام ، وزیر اعظم اورپی ٹی آئی پر رحم فرمائیں، خاکم بدہن اگر آپ کو کچھ ہوگیاتو گلشن سیاست ویران ہوجائے گا۔اس قدر خاموش سیاست دان کی اس سے قبل نہ کبھی زیارت ہوئی ہے اور نہ ہی بعد میںکوئی چانس ہے۔ جناب کی عاجزی او تابعداری کے کیاکہنے کہ چھینک بھی کپتان کی مرضی سے مارتے ہیں۔
پاکستانی تیزی سے کورونا سے متاثرہورہے ہیں لیکن ہمارے وزیر اعظم اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کے لیے اب بھی تیار نہیں ہیں بلکہ ان کا سامناکرنے کی بھی جرات نہیںکر پا رہے ۔جناب ! جان کی امان پاؤں اور عرض کروں کہ جب سے آپ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئے ہیں، ماتھے مبارک سے بل ہی نہیں جاتا، اگر یہ غروراورذاتی انا ہے توخدارا اسے قوم کے لیے قربان کر دیجیے اور اگر کوئی شرعی عذر ہے توکسی مفتی قوی سے رجوع کرکے فتویٰ حاصل کرلیجیے لیکن اس سمسیاکوحل ضرور کریں لیکن سچی بات ایک اور بھی ہے، اس میںصرف آپ کوقصور وار گرداننا بھی زیادتی ہوگی۔
اس میں اپوزیشن کا بھی بہت بڑا کردار ہے جو آپ کو دیکھتے ہی نجانے کیوں آپے سے باہرہو جاتی ہے، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف المعروف ہیٹ والی سرکار کپتان پر برس رہے ہیں، حالانکہ انھوں نے اپنے دور میں اتھارٹیاں بنا بنا کر قومی خزانے کا جو ٹماٹو کیچپ بنایا، اس کا مزہ لینے والے نیب حراست میں آنسو بہا رہے ہیں۔ لیجیے ! میں پھر تلخ ہوگیا، کیا کروں، ماضی اور حال کے حکمرانوں نے ایسی چھترول کی ہے کہ اب ذہن بھی ساتھ نہیں دیتا۔ آخرمیں بلیک کامیڈی تھیٹر میں ایک اور لطیفہ بھی سن لیجیے۔ ایک غریب اور نادارشخص کسی امیر ترین آدمی کے پاس گیا اور اسے اپنی درد بھری کہانی سنائی جسے سن کر امیر آدمی زاروقطار رونے لگا، پھراس نے اپنے خادم خاص کو طلب کیا اور حکم دیاکہ اس غریب بھکاری کو دھکے دے کر باہرنکال دو کیونکہ آج اس نے مجھے بہت رلایاہے۔