قطرہ قطرہ زندگی

وجاہت علی عباسی

وجاہت علی عباسی

میڈیسن میں انسانی تاریخ کی ایک بہت بڑی کامیابی یہ ہے کہ دنیا سے پولیو تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ پولیو نہایت خطرناک وائرس ہے اور اِس کی تاریخ کم سے کم پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ اہرامِ مصر میں بنی تصویروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں بھی اُس وقت پولیو تھا۔ پولیو ایسا وائرس ہے جو باآسانی ایک شخص سے دوسرے کو لگ سکتا ہے، کسی کو اگر پولیو کے وائرس کا حملہ ہوجائے تو وہ جس فضا میں سانس لیتا ہے، اُس کے ذریعے یا پھر جھوٹے پانی یا جھوٹے برتن استعمال کرنے سے بھی پولیو کے جراثیم ایک دوسرے کو لگ سکتے ہیں۔

پولیو کا وائرس عموماً ان علاقوں میں پایا جاتا ہے، جہاں نکاسیٔ آب یعنی سینی ٹیشن کا صحیح نظام نہیں ہوتا، جیسے ترقی پذیر ممالک کے چھوٹے علاقے جہاں گندگی ہونے کے زیادہ مواقعے ہوتے ہیں۔ وائرس عموماً اُن چھوٹے بچوں کو ہوتا ہے جن کا دفاعی نظام کمزور ہوتا ہے یا پھر حاملہ خواتین یا پھر کسی ایسے شخص کو جو جسمانی طور پر کمزور ہو۔ ہر اُس شخص کو پولیو ہونے کا خطرہ ہے، جسے بچپن میں پولیو سے بچائو کے لیے ٹیکے نہیں لگے یا قطرے نہیں پلائے گئے۔

پولیو سے بچائو کی صورت تو موجود ہے لیکن ایک بار یہ ہوجائے تو مکمل صحت یابی ممکن نہیں، پولیو ہوجانے کی صورت میں فالج، سانس لینے میں تکلیف، یہاں تک کہ موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ پولیو کی مختلف اقسام ہیں جن میں سے Spinal Polio ریڑھ کی ہڈی پر اثرانداز ہو کر ہاتھ اور پیروں کو مفلوج کردیتا ہے۔ ''بلبر پولیو'' میں وائرس ذائقے، کھانا نگلنے اور سانس لینے کی صلاحیتوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ انسان پچھلے ایک سو ستر (170) سال سے اِس خطرناک مرض کو ختم کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ 1840 سے 1950 تک کی مستقل کوششوں کے بعد پولیو کے ٹیکے ایجاد ہوئے جو بچپن میں انجیکشن یا قطروں کی صورت دیے جاتے ہیں۔ پولیو ویکسینیشن کے آنے کے بعد ہی پولیو کے کیسز میں کمی نظر آئی اور دنیا سے پولیو مستقل کم ہوتا گیا، یہاں تک کہ 1979 کے بعد سے امریکا میں ایک بھی پولیو کیس سامنے نہیں آیا ہے، اِسی طرح برطانیہ میں بھی 1991 کے بعد سے کوئی پولیو کا شکار نہیں ہوا ہے، دنیا کے مختلف ملکوں میں آپس کی دشمنیوں کے باوجود پولیو کے خلاف کیمپین ایک ایسی جدوجہد تھی، جس میں سب نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔

بڑی بڑی طاقتیں جیسے مائیکرو سافٹ کے بل گیٹس نے بلین آف ڈالرز خرچ کیے ہیں، تاکہ پولیو کو دنیا سے پوری طرح ختم کیا جاسکے اور اِس کوشش کی وجہ سے انڈیا جہاں چالیس سال پہلے سب سے زیادہ پولیو موجود تھا، آج وہاں جنوری 2011 کے بعد سے پولیو کا کوئی کیس رجسٹر نہیں کیا گیا ہے۔ پولیو سے بچنے کا واحد طریقہ بچّوں میں ویکسینیشن ہے اور اِس کی وجہ سے دنیا میں پولیو پوری طرح سے ختم ہوگیا ہے، سوائے افغانستان، پاکستان اور نائیجریا کے۔ نائیجریا کی آبادی کا ایک بڑا حصّہ اِس علاج کو اپنے مذہب کے خلاف سمجھتا ہے بلکہ وہ ہر قسم کے علاج کو اپنے مذہب کے نقطۂ نظر سے غلط سمجھتا ہے، اسی لیے پولیو ویکسینیشن نہ ہونا اور بچّوں میں پولیو پھیلنا وہاں عام بات ہے۔
اِس سال پاکستان میں پولیو کے صرف بائیس کیسز رجسٹر کیے گئے ہیں، اب تک، پچھلے سال اِتنے ہی عرصے میں یعنی سال کے پہلے چھ مہینے میں 52 کیسز سامنے آچکے تھے اور پورے سال میں 198 یعنی ہمارے یہاں بھی پولیو میں کمی آرہی تھی، لیکن اب لگتا ہے کہ پولیو ہمارے ملک سے ختم ہونے کا خواب صرف خواب رہ جائے گا۔

خبروں کے مطابق مارچ اور اپریل 2011 میں ایبٹ آباد میں ڈاکٹر شکیل آفریدی نے ویکسینیشن کی آڑ میں بن لادن کی جاسوسی کی جب کہ وہ اسامہ بن لادن کا ڈی این اے لانے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے لیکن پھر بھی اُس کی اطلاعات کی وجہ سے امریکن نیوی سیل ٹیم نے مئی 2011 کو ایبٹ آباد کے ایک گھر میں گھس کر اپنے بقول اسامہ بن لادن کو مارا اور راتوں رات پانی میں بہادیا۔
ڈاکٹر آفریدی کو ٹرائل کورٹ کی طرف سے 33 سال کی سزا ہوگئی، اپنے ملک کے خلاف مخبری کرنے پر اور ہمیں لگا کہ یہ قصّہ وہیں ختم ہوگیا لیکن نہیں ڈاکٹر آفریدی نے اُس وقت اپنی سمجھ میں صحیح کیا یا غلط لیکن اُن کے ایسا کرنے سے آج ہمارے پاکستان کے ایک لاکھ اکسٹھ ہزار بچّوں کی جانیں خطرے میں ہیں۔ پاکستان کے کئی معصوم بچّے پولیو کا شکار ہوسکتے ہیں۔


ڈاکٹر آفریدی کے پچھلے سال ویکسینیشن کے بہانے آکر مخبری کرنے کی وجہ سے پاکستان کے ٹرائبل بیلٹ کے طالبان گروپ شوریٰ مجاہدین کے لیڈر حفیظ گل بہادر نے اعلان کیا ہے کہ وہ نارتھ وزیرستان کے علاقے میں کسی کو ویکسینیشن نہیں کرنے دیں گے اور پولیو ویکسینیشن تب تک نہیں ہوگی، جب تک سی آئی اے اپنے ڈرون حملے بند نہیں کردیتا۔ یہ فیصلہ اُس علاقے میں پولیو ویکسینیشن شروع ہونے سے فوراً پہلے کیا گیا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں غربت کی وجہ سے سینی ٹیشن کا بندوبست نہیں ہے اور وہاں موجود بچّوں کا پولیو میں مبتلا ہوجانے کا رِسک بہت زیادہ ہے۔

یونیسیف کے مطابق وہ اِس علاقے میں اِس سال اپنی پولیو کیمپین سے تقریباً ایک لاکھ اکسٹھ ہزار بچوں کو پولیو ڈراپس دینے والے تھے۔ وہ بچّے جو پانچ سال سے کم ہیں، یہ کیمپین ایسے موقعے پر روک دی گئی جب پاکستانی حکومت کو احساس ہورہا تھا کہ پولیو کے خاتمے کی طرف بہتر کام ہورہا ہے۔

وہ ویسٹرن ایڈ ورکرز جو پاکستان میں بچّوں کو پولیو کے قطرے دینے کے لیے موجود تھے، اُنھوں نے سی آئی اے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ میڈیکل پرسنالس کو اِس کام کے لیے مقرر کرنا درست نہیں تھا۔ اِس سے پاکستان کے لاکھوں لوگوں کا اعتماد باہر سے آنے والے میڈیکل عملے سے اُٹھ گیا۔

وہ میڈیکل کا عملہ جو اِن جگہوں پر واحد ذریعہ ہے، اِن غریبوں لوگوں کی مدد کا۔ ڈاکٹر محمد صدیق جو کہ نارتھ وزیرستان کے سرجن جنرل ہیں نے پریس کو بتایا کہ ہمیں طالبان کی طرف سے آرڈر آچکا ہے، کیمپین کینسل کرنے کا اور اِس سچویشن میں ہم پولیو ڈرائیو جاری نہیں رکھ سکتے۔

پاکستان میں زندگی ویسے ہی قطرہ قطرہ ملتی ہے، روٹی، چھت، تعلیم، تحفظ سب تھوڑا تھوڑا دل بھر کر ہمارا سسٹم ہمیں کچھ بھی حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ایسے میں اگر وہ دو قطرے ہمارے معصوم بچّوں کی زندگیوں سے نکال دیے جائیں گے، جس سے ہمارے بچّوں کو پولیو سے تحفظ ملتا ہے تو ہمارے لیے زندگی اور بھی مشکل ہوجائے گی۔

1950 کے بعد پہلی بار ایسا ہوگا کہ کسی ملک میں اِتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی پولیو کیمپین بند کی گئی ہو۔ نہ بنیں ہم آنے والے کل میں بڑی طاقتوں میں سے ایک ہمیں فرق نہیں پڑتا۔ فرق پڑتا ہے تو آج وہ دو قطرہ زندگی سے جس سے شاید ہمارے ملک کے ہزاروں بچّے محروم رہ جائیں اور ہمارا ملک دوسرے ملکوں سے 70 سال پیچھے ہوجائے گا۔
Load Next Story