احفاظ الرحمن… صحافت کے زرد پتوں پہ بہار

احفاظ تاریخ کے اوراق میں دانستہ،غیردانستہ یا لاعلمی کے سبب لکھی گئی کسی بھی غلطی کو نظرانداز کرنے کے فن سے ناآشنا تھے

Warza10@hotmail.com

چھتیس گڑھ...انقلابی سوچ اور احفاظ مل کر صحافت کے خزاں کی اس بہار کو لوٹانے میں سرگرم رہے،جس کی جڑوں میں طاقت اور سرمائے کی چمک نے مصنوعی چمک کی کھاد ڈال کر آبیاری کرنا چاہی۔ یہ ابتلا و آلام کا وہ دور تھا جہاں ہر سو طاقت کے مہیب سناٹے اپنے تنبوں گاڑنے میں جتے ہوئے تھے،جب کہ طاقت اور بندوق کی کمک ملک کے ہر گلی کوچے میں دندنا رہی تھی،ہر جانب خوف میں لپٹی بے معنی جمہوری اقدار کا ڈھول پیٹا جا رہا تھا۔زمام اقتدار بظاہر عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں دے کر بندوق کی لبلبی پر فیصلے کروانے کا چلن عام سا کردیا گیا تھا۔

اس گنجلک صورتحال کی جان لیوا سفاکی تھی کہ دوست دشمن کی پہچان ایک دشوار عمل بنا دیا گیا تھا۔ یہ وہ سیاہ دور تھا جب صرصر سے صبا کی تازگی اور کوئل کی مدھر کوک کو تہہ تیغ کرنے کے جتن کیے جارہے تھے،بندوق کی نال سے بارود کے بجائے ڈالروں کے نوٹ برآمد ہوکر دستاروں میںاینٹھے جا رہے تھے،صحافت کو ''صداقت'' کے بینر میں لپیٹ کر عوام کو گمراہ کرنے کے تمام ریاستی قلم و صحافت کے حربے جبر کے قبضے میں ''سیاہ کار'' کروا رہا تھا اور عوام کو ایک نئی موہوم صبح کی نوید سنانے کی کوشش زرخرید صحافتی بونوں سے کروائی جا رہی تھی،ایسے میں بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ ''احفاظ الرحمن'' ایسا حرکی اور ''انسانی آزادی'' کے آدرش کی پوجا پاٹ کرنے والا قلم کار اور صحافی بچلے بیٹھ جائے۔

یہ کیسے ممکن تھا کے ریاست کے بے توقیر مذہبی اوتار اور ضیا کے پردے میں ظلمت کے خریدار عوام اور صحافت کے حقوق پر ضرب لگا سکیں۔اس دم احفاظ کی حرکی اور انسان و سماج دوست صلاحیتیں''نکسلائٹ '' فلم کے معمر مگر توانا ''کامریڈ''کی طرح جوالا بن رہی تھیں، احفاظ اس دم اس سخت گیر ''کامریڈ'' کی کیفیت کا عملی کردار بن گیا تھا کہ جس نے محبت کرنے والی کامریڈ سے اس کے نظریاتی غدار عاشق کو گولی سے اڑوا دیا تھا۔

اس سیاہ اور منافقت کے بازار میں احفاظ لرحمن اپنے رہنما منہاج برنا کے آدرشی نظریئے کا عملی کوہ کن بننے پر تلا ہوا تھا،ملک میں انسانی اور جمہوری حقوق غصب کیے جا چکے تھے۔اس موقع پر''الفتح'' کے وہاب صدیقی بقول ''نقاب پوش مودودی نواز جنرل ضیا'' بوٹ تلے آئین کو روند چکا تھا اور بندوق کی لبلبی پر عوام کو منتخب اور سیاسی حکمرانی سے محروم کر چکا تھا۔

جمہوریت کی تاراجی میں خوف زدہ جنرل ضیا نے ملک کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز کو خط روانہ کیا کہ جمہوری آزادیوں کے لیئے سب سے متحرک تحریک صحافیوں کی تنظیم پی ایف یو جے اور ایپنک چلا سکتی ہیں لہذا منہاج برنا اور اس کے کامریڈز پر نظر رکھنے کے ساتھ ان کا دائرہ تنگ کیا جائے تاکہ ہماری غیر آئینی اور آمرانہ قیادت کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہوسکے،یہ صحافی تنظیم کراچی یونین آف جرنلٹس کا وہ دور تھا جب صحافتی قدریں اور صحافی کا کردار ہی تنظیم کی ضمانت ہوا کرتے تھے،یہ کیسے ممکن تھا کہ ملک میں جنرل ضیا مارشل لاء لگائے کے یو جے کے سیکریٹری جنرل احفاظ الرحمن چپکے بیٹھے رہیں۔


سو احفاظ اپنی انقلابی طبیعت کے مطابق جبر کے پنجوں سے زور آزما ہوئے اور 77-78, کی آزادی صحافت کی تحریک میں آئین شکن قوتوں سے صف آرا ہونے کی پاداش میں سر دھنتے ہوئے جیل یاترامیں آزادی اظہار واسطے استقامت کے ساتھ غیر جمہوری قوتوں کی آنکھ میں آنکھ ڈالے قید کاٹی،مگر وہ نا مانا نہ کہا جو آئین شکن آمر منوانا یا کہلوانا چاہتا تھا۔صحافتی آزادی کی تحریک کے ہر اوّل کردار کے محرک احفاظ الرحمن پہلے پنجاب بدر کیے گئے اور بعد کو چھ ماہ تک پنجاب میں داخلے کی پابندی کا ستم بھی سہا۔

اسی تحریک کے دوران احفاظ الرحمن پی ایف یو جے کے نثار عثمانی اور ایپنک کے حفیظ راقب کے ہمراہ روپوشی میں بھی اخباری کارکنوں،مزدور رہنماؤں اور طلبہ تنظیموں سے رابطے میں بنیادی کردار ادا کرتے رہے اور یہی کچھ احفاظ الرحمن نے پی ایف یوجے کے صدر کی حیثیت سے جنرل مشرف کے اس سیاہ دور میں بھی کیا جب بزور طاقت ریاست صحافتی آزادی کو سلب کرناچاہتی تھی،اس تحریک میں بھی احفاظ الرحمن صحافی دوستوں کے ہمراہ قید ہوئے مگر کسی بھی سطح پر صحافتی آزادی اور قلم کی حرمت کا سودا نہ کیا۔

احفاظ الرحمن سے متعلق سخت گیر رویئے کی باتیں اکثر گفتگو کا محور ہوتی ہیں۔ہاں احفاظ سخت گیر تھے کہ انھیں صحافت میں کردار اور قلم و لفظ کی حرمت کی پامالی ہرگز قبول نہ تھی،وہ جملے کی ساخت میں زبان و بیان کی چاشنی و شائستگی قائم رکھنے والے سخت گیر تھے،لفظ کی تراش خراش میں درست اعراب کے نہ ہونے پر سخت گیر ہوجانا ان کا معمول تھا،جملے کی املا کی غلطی کو نظرانداز کرنا ان کے مزاج میں نہ تھا۔

احفاظ نے صحافت میں در آنے والے ہر منفی رویئے کی خم ٹھونک کر مخالفت کی اور بلاخوف و خطر اپنے موقف کا اظہار کیا۔احفاظ تو یہ لکھتے ہوئے بھی نہ چوکے کہ پی ایف یو جے کی کامیاب تحریک جو بندوق اور طاقت کے جبر سے نہ دبائی جاسکی تو انتظامیہ نے صحافت میں حقوق کی جنگ کے ناخنوں کو مصلحت کی چادر میں لپیٹ دیا،وہاب صدیقی، احفاظ الرحمن کی کتاب ''سب سے بڑی جنگ'' میں رقم طراز ہیں کہ ان کے خیال میں انھی حالات کی بنا پر احفاظ الرحمن نے پی ایف یو جے کی روایت کے برعکس دوسری مدت کے لیے صدر کا انتخاب لڑنے سے انکار کردیا۔

احفاظ تاریخ کے اوراق میں دانستہ،غیر دانستہ یا لا علمی کے سبب لکھی گئی کسی بھی غلطی کو نظرانداز کرنے کے فن سے نا آشنا تھے،اپنی کتاب'' سب سے بڑی جنگ'' کے ابتدائیے میں معروف صحافی ضمیر نیازی کی کتاب Press In Chain صحافت پابندِ سلاسل کے صفحات 236،264,265 میں کی گئی غلطیوں کی نشاندہی کی ہے ۔احفاظ الرحمن کے قلم اور عمل کے سچ سے مکمل باخبر ہونے کے لیے ''سب سے بڑی جنگ'' کا مطالعہ اس ابتلا میں پہلے سے زیادہ ضروری ہوچکا ہے۔واقعی سلام ہے چھتیس گڑھ... نکسل وادی اور احفاظ الرحمن پر...
Load Next Story