دوسری شادی
اگر عورت طلاق یافتہ ہو تو اس کے کردار پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے
ہمارے معاشرے میں ایک مرد اپنی بیوی کی وفات کے بعد یا علیحدگی کے بعد دوسری شادی کرتا ہے تو لوگ اس کے فیصلے کو سراہتے اور درست قرار دیتے ہیں۔
کیوں کہ ان کے نزدیک اس کی اور گھر کی دیکھ بھال کے لیے اور اگر بچے ہوں تو ان کی پرورش کے لیے دوسری شادی کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بیوہ یا طلاق یافتہ عورت دوسری شادی کر لیتی ہے تو اس پر طرح طرح کے الزامات عاید کر دیے جاتے ہیں ۔ مثلاً اگر عورت بیوہ ہے تو اس پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس کے شوہر کو مرے ہوئے ابھی زیادہ وقت بھی نہیں گزرا یا اس کے شوہر کا ابھی تو کفن بھی میلا نہیں ہوا کہ اس بے وفا نے دوسری شادی رچالی حالاں اسے دوسری شادی کی ضرورت ہی کیا تھی وغیرہ وغیرہ۔
اور اگر عورت طلاق یافتہ ہو تو اس کے کردار پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے کہ اسی مرد کے لیے اس نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی ، اس کے ساتھ چکر چل رہا تھا۔ یا اس عورت کا کردار اچھا نہیں تھا۔ اس لیے اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی۔ یعنی جتنی زبانیں اتنی باتیں۔
دوسری صورت میں کوئی بیوہ یا طلاق یافتہ خاتون اپنے ماں باپ کے گھر یااپنے بھائی کے گھر رہنا چاہتی ہے تو رشتے دار ، پڑوسی اور دیگر افراد اس پر انگلیاں اٹھاتے ہیں اور اسے طعنے دیے جاتے ہیں کہ واپس گھر آکر بیٹھ گئی ہے۔ پھر سے والدین اور بھائیوں پر بوجھ بن گئی ہے اور اگر وہ خاتون بچوں والی ہو تو اس کا جینا دوبھر کر دیا جاتا ہے۔
اس پر اس کے بچوں پر ظلم کیا جاتا ہے یا سے طعنے دیے جاتے ہیں کہ خود کمائے اور خود اپنا اور اپنے بچوں کا خرچ اٹھائے۔ یہاں ہمارا اپنا پورا نہیں پڑتا۔ ان طعنوں سے بچنے کے لیے، اپنا اور اپنے بچوں کا بوجھ خود اٹھانے کے لیے کوئی بیوہ یا طلاق یافتہ عورت گھر سے باہر مجبوراً نکلتی ہے، تو اسے کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ باہر کے لوگوں کو جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ عورت اکیلی ہے تو اسے ان کی خراب نظروں اور جھلسا دینے والے جملوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
ایسی صورت میں جب اپنے بچوں کو لے کر الگ گھر میں رہتی ہے تو اسے اپنے تحفظ اور بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بڑی تگ و دو کرنی پڑتی ہے ۔ معاشی مشکلات اپنی جگہ ، رشتے دار اور محلے والے مدد کرنے کے بجائے نہ صرف اس کی ہر حرکت پر کڑی نظر رکھتے ہیں بلکہ اس پر تنقید بھی کرتے رہتے ہیں۔
ہمارے دوہرے رویے والے معاشرے نے عورت کو مشکلات میں مبتلا کر رکھا ہے جب کہ ہمارے سامنے حضور اکرمﷺ کی حیاتِ طیبہ اور ان کے ارشادات موجود ہیں ۔ ایک حدیث کے مطابق حضور ﷺ نے فرمایا،''میں تمھیں بتائوں کہ بڑی فضیلت والا صدقہ کون ساہے؟ اپنی اس بچی پر احسان کرنا جو بیوہ ہونے یا طلاق دیے جانے کی وجہ سے تمہاری طرف لوٹا دی گئی ہو او راس کا تمہارے سوا کوئی کفیل اور بار اٹھانے والا نہ رہا ہو۔''
اس حدیث مبارکہ کے برعکس ہمارا رویہ اور سلوک ایسی مجبور اور بے بس عورتوں کے ساتھ ناروا اور خود غرضانہ ہوتا ہے۔ اپنی معاشی اور معاشرتی صورت حال سے گھبرا کر جب کوئی بیوہ یا طلاق یافتہ عورت دوسری شادی کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کے فیصلے پر اپنی رائے مسلط کی جاتی ہے۔ اسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دوسری شادی مرد ہو یا عورت دونوں کا شرعی حق ہے۔ دوسری شادی کے بعد بعض خواتین اور مرد حضرات بھی بہت خوش گوار زندگی بسر کرتے ہیں، جب کہ کچھ مرد و عورتوں کو دوسری شادی ایک نئے امتحان میں ڈال دیتی ہے۔
دوسری شادی جائز ہے، مگر ایک مشکل فیصلہ ہے۔ مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کے یکساں محتاج ہیں نہ مرد عورت سے بے نیاز ہے اور نہ عورت مرد کے بغیر رہ سکتی ہے۔ عورت کے طبعی حالات مرد کے طبعی حالات سے مختلف ہیں۔ اس لیے اسلام میں یہ درست نہیں سمجھا جاتا کہ ایک عورت اگر بیوہ یا طلاق یافتہ ہے تو اکیلے یا تنہا زندگی بسر کرے یا معاشی حالات سے تنگ آکر غلط راہ پر چل نکلے۔
چناںچہ ایسی عورتوں کے لیے دین اسلام نے دوسری شادی کی تاکید کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ اور آپﷺ کے خلفائے راشدین کے دور میں عورتوں کے عقد ثانی کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ حضور ﷺ اور خلفائے راشدین کے دور میں عورت کے لیے نکاح ثانی معیوب یا ناپسندیدہ ہونے کا کوئی تصور نہیں تھا، جیسا کہ بعض دوسرے مذاہب اور سماجوں میں پایا جاتا ہے۔ اس لیے اس زمانے میں خواتین کے ایک سے زاید نکاح کی بکثرت مثالیں موجود ہیں ۔
اﷲ تعالی نے نکاح ثانی کی اجازت دی ہے، چاہے وہ عورت ہو یا مرد، چناںچہ ہمارے معاشرے کو آج ایک عورت کی دوسرے شادی کے حق کو تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنا چاہیے، بلکہ جب عورت دوسری شادی کے بعد دوسرے گھر میں جاتی ہے تو وہاں مقیم افراد کو چاہیے کہ وہ اس کا بھرپور استقبال کریں۔ بلاشبہہ ماں اور باپ کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا، مگر گھر کا نظم و نسق چلانے اور بچوں کی پرورش کرنے کے لیے اور معاشی معاملات کو احسن طریقے سے نبھانے کے لیے مرد اور اکیلی عورت کو کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان حالات کی وجہ سے دوسری شادی کرلینا ضرورت بن جاتی ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ ایسے حالات میں دوسری شادی میں سب سے بڑی رکاوٹ بچے ہوتے ہیں۔ بچے اپنی ماں اور باپ کی جگہ کسی اور کو دینے پر تیار نہیں ہوتے۔ حالاں کہ اس معاملے میں بچوں کو خود غرض نہیں ہونا چاہیے، بلکہ حقیقت کی روشنی میں فیصلہ کرنا چاہیے۔ اگر بچے چھوٹے ہوں اور ناسمجھ ہوں تو پھر بات بن جاتی ہے اور کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی، لیکن اگر بچے سمجھ دار اور باشعور ہیں تو انھیں حقیقت حال کا جائزہ لینے کے بعد درست فیصلہ کرنا چاہیے۔
یہ درست ہے کہ بہت چھوٹے بچوں کو سنبھالنے اور ان کی پرورش کرنے کے لیے ایک عورت کا وجود زیادہ ضروری ہے، لیکن بڑے اور سمجھ دار بچے جو بلوغت کی عمر کو پہنچ چکے ہوں یا پہنچنے والے ہوں، انھیں بھی بہت زیادہ دیکھ بھال اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، ایک ماں ہی انھیں زمانے کے سرد و گرم سے بچا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ وہ مرد جو بیوی کے مرنے سے تنہا رہ گیا ہو اس کی بھی کئی ضروریات اور تقاضے ہیں۔ اسے ایک ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس کے دکھ سکھ بانٹ سکے اور پھر بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ تنہائی کا احساس زیادہ شدید ہوتا جاتا ہے۔ لہٰذا مرد نکاح کرکے کسی عورت کو اپنے گھر اور اپنی زندگی میں شامل کرلے تو زیادہ بہتر ہے۔ اس طرح بچوں کو بھی تحفظ مل جاتا ہے اور گھر کا نظام بھی بہتر انداز سے چلنے لگتا ہے۔
اسی طرح اگر کوئی کوئی عورت بیوہ ہے یا طلاق یافتہ ہے، تو اس کے بچوں کو بھی باپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاص طور پر اگر اس کے بچے چھوٹے ہوں اور معاشی مسائل بھی ہوں تو ایسی عورت کے لیے دوسری شادی کرنا ضروری ہو جاتا ہے، تاکہ نہ صرف عورت کو تحفظ مل سکے بلکہ اس کے بچوں کو بھی باپ کا سایہ مل جائے۔
اس ضمن میں اگر یہ کوشش کی جائے کہ مرد کی دوسری شادی کے لیے ایسی عورت کا انتخاب کیا جائے جو بیوہ یا طلاق یافتہ ہو، اسی طرح بیوہ یا طلاق یافتہ عورت کے لیے ایسے مرد کو چنا جائے جو بیوی کے مرنے کے بعد یا اسے طلاق دینے کے بعد اب دوسری شادی کا خواہش مند ہے، تو یہ زیادہ مناسب ہوگا، کیوں کہ اس طرح دونوں فریق ایک دوسرے کی مجبوریوں اور مسائل کو سمجھ سکیں گے۔
کیوں کہ دیکھا یہ گیا ہے کہ دوسری شادی مرد کی ہو یا عورت کی اگر بچوں والے مرد کی شادی ایک کم عمر اور کنواری لڑکی کے ساتھ کر دی جائے یا ایک جوان عمر عورت کی دوسری ایک بوڑھے مرد کے ساتھ کر دی جائے تو گھریلو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کے مسائل اور معاملات کو سمجھ نہیں پاتے۔ اس لیے بچوں والے مرد کی دوسری شادی کسی کنواری لڑکی کے بجائے بچوں والی عورت سے کی جائے، تاکہ دونوں طرف کے بچوں کو ماں اور باپ مل جائیں۔ دوسری شادی کے بعد مرد اور عورت کو اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھانی چاہییں۔
اس لیے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہوں اور تعاون کریں۔ بلاشبہہ دوسری شادی کا فیصلہ مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن ہرگز نہیں، اس جائز فیصلے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔
کیوں کہ ان کے نزدیک اس کی اور گھر کی دیکھ بھال کے لیے اور اگر بچے ہوں تو ان کی پرورش کے لیے دوسری شادی کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بیوہ یا طلاق یافتہ عورت دوسری شادی کر لیتی ہے تو اس پر طرح طرح کے الزامات عاید کر دیے جاتے ہیں ۔ مثلاً اگر عورت بیوہ ہے تو اس پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس کے شوہر کو مرے ہوئے ابھی زیادہ وقت بھی نہیں گزرا یا اس کے شوہر کا ابھی تو کفن بھی میلا نہیں ہوا کہ اس بے وفا نے دوسری شادی رچالی حالاں اسے دوسری شادی کی ضرورت ہی کیا تھی وغیرہ وغیرہ۔
اور اگر عورت طلاق یافتہ ہو تو اس کے کردار پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے کہ اسی مرد کے لیے اس نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی ، اس کے ساتھ چکر چل رہا تھا۔ یا اس عورت کا کردار اچھا نہیں تھا۔ اس لیے اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی۔ یعنی جتنی زبانیں اتنی باتیں۔
دوسری صورت میں کوئی بیوہ یا طلاق یافتہ خاتون اپنے ماں باپ کے گھر یااپنے بھائی کے گھر رہنا چاہتی ہے تو رشتے دار ، پڑوسی اور دیگر افراد اس پر انگلیاں اٹھاتے ہیں اور اسے طعنے دیے جاتے ہیں کہ واپس گھر آکر بیٹھ گئی ہے۔ پھر سے والدین اور بھائیوں پر بوجھ بن گئی ہے اور اگر وہ خاتون بچوں والی ہو تو اس کا جینا دوبھر کر دیا جاتا ہے۔
اس پر اس کے بچوں پر ظلم کیا جاتا ہے یا سے طعنے دیے جاتے ہیں کہ خود کمائے اور خود اپنا اور اپنے بچوں کا خرچ اٹھائے۔ یہاں ہمارا اپنا پورا نہیں پڑتا۔ ان طعنوں سے بچنے کے لیے، اپنا اور اپنے بچوں کا بوجھ خود اٹھانے کے لیے کوئی بیوہ یا طلاق یافتہ عورت گھر سے باہر مجبوراً نکلتی ہے، تو اسے کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ باہر کے لوگوں کو جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ عورت اکیلی ہے تو اسے ان کی خراب نظروں اور جھلسا دینے والے جملوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
ایسی صورت میں جب اپنے بچوں کو لے کر الگ گھر میں رہتی ہے تو اسے اپنے تحفظ اور بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بڑی تگ و دو کرنی پڑتی ہے ۔ معاشی مشکلات اپنی جگہ ، رشتے دار اور محلے والے مدد کرنے کے بجائے نہ صرف اس کی ہر حرکت پر کڑی نظر رکھتے ہیں بلکہ اس پر تنقید بھی کرتے رہتے ہیں۔
ہمارے دوہرے رویے والے معاشرے نے عورت کو مشکلات میں مبتلا کر رکھا ہے جب کہ ہمارے سامنے حضور اکرمﷺ کی حیاتِ طیبہ اور ان کے ارشادات موجود ہیں ۔ ایک حدیث کے مطابق حضور ﷺ نے فرمایا،''میں تمھیں بتائوں کہ بڑی فضیلت والا صدقہ کون ساہے؟ اپنی اس بچی پر احسان کرنا جو بیوہ ہونے یا طلاق دیے جانے کی وجہ سے تمہاری طرف لوٹا دی گئی ہو او راس کا تمہارے سوا کوئی کفیل اور بار اٹھانے والا نہ رہا ہو۔''
اس حدیث مبارکہ کے برعکس ہمارا رویہ اور سلوک ایسی مجبور اور بے بس عورتوں کے ساتھ ناروا اور خود غرضانہ ہوتا ہے۔ اپنی معاشی اور معاشرتی صورت حال سے گھبرا کر جب کوئی بیوہ یا طلاق یافتہ عورت دوسری شادی کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کے فیصلے پر اپنی رائے مسلط کی جاتی ہے۔ اسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دوسری شادی مرد ہو یا عورت دونوں کا شرعی حق ہے۔ دوسری شادی کے بعد بعض خواتین اور مرد حضرات بھی بہت خوش گوار زندگی بسر کرتے ہیں، جب کہ کچھ مرد و عورتوں کو دوسری شادی ایک نئے امتحان میں ڈال دیتی ہے۔
دوسری شادی جائز ہے، مگر ایک مشکل فیصلہ ہے۔ مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کے یکساں محتاج ہیں نہ مرد عورت سے بے نیاز ہے اور نہ عورت مرد کے بغیر رہ سکتی ہے۔ عورت کے طبعی حالات مرد کے طبعی حالات سے مختلف ہیں۔ اس لیے اسلام میں یہ درست نہیں سمجھا جاتا کہ ایک عورت اگر بیوہ یا طلاق یافتہ ہے تو اکیلے یا تنہا زندگی بسر کرے یا معاشی حالات سے تنگ آکر غلط راہ پر چل نکلے۔
چناںچہ ایسی عورتوں کے لیے دین اسلام نے دوسری شادی کی تاکید کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ اور آپﷺ کے خلفائے راشدین کے دور میں عورتوں کے عقد ثانی کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ حضور ﷺ اور خلفائے راشدین کے دور میں عورت کے لیے نکاح ثانی معیوب یا ناپسندیدہ ہونے کا کوئی تصور نہیں تھا، جیسا کہ بعض دوسرے مذاہب اور سماجوں میں پایا جاتا ہے۔ اس لیے اس زمانے میں خواتین کے ایک سے زاید نکاح کی بکثرت مثالیں موجود ہیں ۔
اﷲ تعالی نے نکاح ثانی کی اجازت دی ہے، چاہے وہ عورت ہو یا مرد، چناںچہ ہمارے معاشرے کو آج ایک عورت کی دوسرے شادی کے حق کو تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنا چاہیے، بلکہ جب عورت دوسری شادی کے بعد دوسرے گھر میں جاتی ہے تو وہاں مقیم افراد کو چاہیے کہ وہ اس کا بھرپور استقبال کریں۔ بلاشبہہ ماں اور باپ کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا، مگر گھر کا نظم و نسق چلانے اور بچوں کی پرورش کرنے کے لیے اور معاشی معاملات کو احسن طریقے سے نبھانے کے لیے مرد اور اکیلی عورت کو کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان حالات کی وجہ سے دوسری شادی کرلینا ضرورت بن جاتی ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ ایسے حالات میں دوسری شادی میں سب سے بڑی رکاوٹ بچے ہوتے ہیں۔ بچے اپنی ماں اور باپ کی جگہ کسی اور کو دینے پر تیار نہیں ہوتے۔ حالاں کہ اس معاملے میں بچوں کو خود غرض نہیں ہونا چاہیے، بلکہ حقیقت کی روشنی میں فیصلہ کرنا چاہیے۔ اگر بچے چھوٹے ہوں اور ناسمجھ ہوں تو پھر بات بن جاتی ہے اور کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی، لیکن اگر بچے سمجھ دار اور باشعور ہیں تو انھیں حقیقت حال کا جائزہ لینے کے بعد درست فیصلہ کرنا چاہیے۔
یہ درست ہے کہ بہت چھوٹے بچوں کو سنبھالنے اور ان کی پرورش کرنے کے لیے ایک عورت کا وجود زیادہ ضروری ہے، لیکن بڑے اور سمجھ دار بچے جو بلوغت کی عمر کو پہنچ چکے ہوں یا پہنچنے والے ہوں، انھیں بھی بہت زیادہ دیکھ بھال اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، ایک ماں ہی انھیں زمانے کے سرد و گرم سے بچا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ وہ مرد جو بیوی کے مرنے سے تنہا رہ گیا ہو اس کی بھی کئی ضروریات اور تقاضے ہیں۔ اسے ایک ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس کے دکھ سکھ بانٹ سکے اور پھر بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ تنہائی کا احساس زیادہ شدید ہوتا جاتا ہے۔ لہٰذا مرد نکاح کرکے کسی عورت کو اپنے گھر اور اپنی زندگی میں شامل کرلے تو زیادہ بہتر ہے۔ اس طرح بچوں کو بھی تحفظ مل جاتا ہے اور گھر کا نظام بھی بہتر انداز سے چلنے لگتا ہے۔
اسی طرح اگر کوئی کوئی عورت بیوہ ہے یا طلاق یافتہ ہے، تو اس کے بچوں کو بھی باپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاص طور پر اگر اس کے بچے چھوٹے ہوں اور معاشی مسائل بھی ہوں تو ایسی عورت کے لیے دوسری شادی کرنا ضروری ہو جاتا ہے، تاکہ نہ صرف عورت کو تحفظ مل سکے بلکہ اس کے بچوں کو بھی باپ کا سایہ مل جائے۔
اس ضمن میں اگر یہ کوشش کی جائے کہ مرد کی دوسری شادی کے لیے ایسی عورت کا انتخاب کیا جائے جو بیوہ یا طلاق یافتہ ہو، اسی طرح بیوہ یا طلاق یافتہ عورت کے لیے ایسے مرد کو چنا جائے جو بیوی کے مرنے کے بعد یا اسے طلاق دینے کے بعد اب دوسری شادی کا خواہش مند ہے، تو یہ زیادہ مناسب ہوگا، کیوں کہ اس طرح دونوں فریق ایک دوسرے کی مجبوریوں اور مسائل کو سمجھ سکیں گے۔
کیوں کہ دیکھا یہ گیا ہے کہ دوسری شادی مرد کی ہو یا عورت کی اگر بچوں والے مرد کی شادی ایک کم عمر اور کنواری لڑکی کے ساتھ کر دی جائے یا ایک جوان عمر عورت کی دوسری ایک بوڑھے مرد کے ساتھ کر دی جائے تو گھریلو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کے مسائل اور معاملات کو سمجھ نہیں پاتے۔ اس لیے بچوں والے مرد کی دوسری شادی کسی کنواری لڑکی کے بجائے بچوں والی عورت سے کی جائے، تاکہ دونوں طرف کے بچوں کو ماں اور باپ مل جائیں۔ دوسری شادی کے بعد مرد اور عورت کو اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھانی چاہییں۔
اس لیے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہوں اور تعاون کریں۔ بلاشبہہ دوسری شادی کا فیصلہ مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن ہرگز نہیں، اس جائز فیصلے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔