پیداوار میں یومیہ کمی اور تیل قیمتیں
دنیا کے امیر اور طاقتور ممالک نے گٹھ جوڑ کر کے تیل کی قیمتوں کو سہارا دینے کے لیے پیداوار میں کمی کر لی ہے۔
اوپیک تنظیم میں شامل کچھ ممالک خاص کر خلیجی تعاون کونسل کے ممبر ممالک سعودی عرب،کویت اور متحدہ عرب امارات کی معیشت کا بڑا انحصار تیل کی پیداوار اور مارکیٹ میں تیل کی عالمی قیمتوں سے جڑا ہے۔پچھلے کچھ عرصے سے کورونا وائرس کے پھیلائو کے نتیجے میں روڈ،ریل ، فضائی ٹریفک اور صنعتی پہیہ بہت حد تک معطل ہونے سے تیل کی یومیہ طلب میں خاصی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
تیل کی طلب میں کمی نے عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کو سر کے بل نیچے گرا دیا ہے۔قیمتوں میں یہ کمی اس وجہ سے بھی ہوئی کہ اوپیک سے باہر کے تیل پیدا کرنے والے ممالک خاص کر روس اوپیک کے چیئرمین سعودی عرب کی تجویز پر یومیہ پیداوار میں گلوبلی 10لاکھ بیرل کمی کرنے پر راضی نہیں ہو رہا تھا۔
امریکا اپنے اتحادیوںسعودی عرب،کویت اور متحدہ عرب امارات کی مدد کے لیے بہت ہاتھ پائوں مار رہا تھا کیونکہ یہ ممالک ہر عالمی معاملہ خاص کر عرب اسرائیل تنازعہ میں امریکی لائن لیتے ہیں اسی طرح گاہے بگاہے جب بھی امریکا اشارہ کرتا ہے یہ ممالک کسی خریداری معاہدے کی شکل میں امریکی خزانے میں بہت کچھ ڈال دیتے ہیں۔
جمعہ کے دن سعودی عرب کے توانائی کے وزیر عبدالعزیز بن سلمان نے ایک ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اوپیک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ روس سے معاملات طے پا گئے ہیں،سعودی توانائی وزیر نے یہ اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ تیل پیدا کرنے والے تمام ممالک اس بات پر راضی ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی اپنی تیل کی پیداوار میں یومیہ اس طرح کٹوتی کریں گے کہ عالمی سظح پر تیل کی یومیہ پیداوار میں 9.7ملین بیرل کی مجموعی کمی واقع ہوجائیگی۔اس ڈیل کو تیل کی تاریخ میں سب سے بڑی پیداواری کٹوتی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔تیل کی پیداوار میں یہ کمی، یہ کٹوتی تیل کی گلوبل پیداوار کا تقریباً دس فی صد کے نزدیک ہے جس سے انرجی سیکٹر پر قیمتوں کی بے حد کمی کی وجہ سے شدید دبائو کو کم کیا جا سکے گا۔
اوپیک کے ایک اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مئی جون 2020میں تیل کی پیداوار میں یومیہ 9.7ملین بیرل کمی کی جائے گی۔جولائی سے دسمبر 2020کے دوران یہ کٹوتی کم کر کے 7.7ملین بیرل یومیہ پر لائی جائے گی،جب کہ جنوری 2021سے شروع کر کے اپریل 2022تک یہ کٹوتی 5.8ملین بیرل یومیہ کی بنیاد پر کی جائے گی۔23ملکوں کے اس گروپ کی اگلی میٹنگ 10جون کو ہونی قرار پائی ہے جس میں صورتحال کا جائزہ لے کر آیندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا اور ضروری فوری نوعیت کے اقدامات اُٹھائے جائیں گے۔
تیل سے وابستہ ایک ادارے کے ایک ماہر Ed Morseنے اس موقع پر کہا کہ کورونا وائرس کے وسیع پیمانے پر پھیلائو کی وجہ سے تیل کی طلب ماند پڑ گئی ہے۔یہ غیر معمولی حالات ہیں اور غیر معمولی حالات اس بات کے مقتضی ہیں کہ غیر معمولی اقدامات اٹھائے جائیں۔تیل کی پیداوار میں کمی کرکے کوشش کی جا رہی ہے کہ سال 2020کے آخر تک تیل کی قیمتیں 40 ڈالر فی بیرل کے ارد گرد رکھی جائیں۔ یہ اقدامات بہت پہلے اٹھا لیے جانے ضروری تھے اور اگر یہ بروقت اٹھا لیے جاتے تو تیل کی قیمت میں اتنی کمی نہ ہوتی۔بہت وقت ضایع ہو نے کی وجہ سے خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ تیل کی قیمتیں کریش کرکے جس طرح نیچے جا رہی تھیں کہیں یہ 10 ڈالر فی بیرل نہ ہو جائیں۔
میگنس نسوین جو کہ ایسے ہی ایک ادارے میں تجزیاتی شعبے کی سربراہ ہیں انھوں نے کہا کہ تیل کی پیداوار میں کمی کی یہ ڈیل عالمی منڈی میں کساد بازاری کو روکنے کے لیے جز وقتی قدم اور ریلیف ہے۔اس سے انرجی سیکٹر اور گلوبل اکانومی کو سہارا ملے گا۔میگنس نے مزید بتایا کہ تیل کی قیمتوں کو سہارا دینے کے لیے پیداوار میںجتنی کمی ہونی چاہیے تھی پیداوار میں یہ کمی اس سے بہت کم ہے لیکن اس سے وقتی طور پر کم ترین قیمتوں سے بچنے اور بڑھاوا دینے میں مدد ملنے کی توقع ہے۔
اوپیک کے ایک آفیشل نے خبردار کرتے ہوئے باور کرایا کہ اگر اس پیداواری کمی سے مسئلہ حل نہ ہوا تو مزید کمی کی تجویز دی جا سکتی ہے اور دس فی صد سے بڑھا کر بیس فی صد کرنے کی تجویز دی جائے گی لیکن اس کے ممکن العمل ہونے کا سارا انحصار اس بات پر ہو گا کہ غیر اوپیک ممالک تعاون کرتے ہیں یا نہیں اور اگر تعاون کرتے ہیں تو مزید کتنی کمی کی تجویز پر اتفاقِ رائے ہوتا ہے۔
روس اور سعودی عرب کی ڈیل ہوتے ہی Brent Crude جو کہ عالمی پیمانہ سمجھا جاتا ہے اس کی فی بیرل قیمت میں8فیصد بڑھوتی دیکھنے میں آئی۔ویسٹ ٹیکساس اِنٹر میڈیٹ جس کو امریکی پیمانہ گردانہ جاتا ہے اس کی فی بیرل قیمت میں 8.7 فی صد اضافہ دیکھنے کو ملا لیکن سوموار کو پھر تیل کی قیمتیں0.44سے0.76فی صد نیچے آ گئیں اور اس طرح تیل کی فی بیرل قیمت 22.88ڈالر رہی۔ ہر لمحہ بدلتی صورتحال میں تیل کے تاجر مخمصے میں پڑے ہوئے ہیں اور انھیں شک ہے کہ اوپیک تیل کی قیمت جہاں رکھنا چاہتی ہے وہاں رکھ سکے گی یا نہیں کیونکہ کورونا کے بڑھتے پھیلائو کی وجہ سے تیل کی ڈیمانڈ بڑھنی مشکل ہی نہیں وقتی طور پر نا ممکن نظر آتی ہے۔
پیداوار میںاس ڈیل کے تحت دس فیصد کمی ہو گی جب کہ ڈیمانڈ میں کمی30فیصدسے زیادہ ہو چکی ہے، اوپیک میں شامل ممالک اور اوپیک سے باہر تیل پیدا کرنے والے گروپوں جن میں روس بھی ہے۔ان سب کے درمیان جمعرات کو معاہدہ طے پا گیا تھا جسے امریکا اور G-20 ممالک کی حمایت حاصل تھی لیکن یہ نافذ نہ ہو سکا کیونکہ میکسیکواپنے حصے کی پوری تیل کٹوتی کے لیے تیار نہیں تھا۔ امریکا نے سعودی عرب پر دبائو ڈال کر میکسیکو کو اس کی اجازت دلوا دی کہ وہ ذرا تھوڑی کمی کر لے۔یہی وجہ ہے کہ مجوزہ دس ملین کے مقابلے میں اب کٹوتی 9.7ملین ہو گی۔
امریکی صدر ٹرمپ نے اس ڈیل کا بہت خیر مقدم کیا ہے۔ٹرمپ نے ٹیلیفون پر روس کے صدر ولادی میر پوٹن اور سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز سے بات کی،دونوں کو مبارکباد دی کہ دونوں نے بڑی فراست کا ثبوت دیتے ہوئے اس ڈیل کو مکمل کیا۔اس ڈیل سے امریکی انرجی سیکٹر سے جڑی لاکھوں ملازمتیں بچانے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب انرجی سیکٹر مضبوط ہو کر دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے قابل ہو جائے گالیکن ایک اور ماہر کی نگاہ میں روس اور سعودی عرب کے درمیان تنازعہ کے حل کی وجہ سے تیل کی قیمتیں کچھ اوپر تو ضرور جائیں گی لیکن آخر کار قیمتیں دوبارہ نیچے آ کر رہیں گی اور شاید یہ 20 ڈالر فی بیرل کے ارد گرد رہیں۔
اوپیک کا خیال ہے کہ غیر اوپیک ممالک جیسے امریکا، ناروے اور کینیڈا اپنی تیل کی پیداوار میں خاطر خواہ کمی پر راضی ہو جائیں گے تاکہ قیمتیں بڑھانے میں مدد ملے۔ امریکا کے انرجی سیکریٹری)وزیرِ توانائی( نے جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ امریکا کو اپنی پیداوار میں سے دو لاکھ بیرل روزانہ مارکیٹ سے ہٹانا ہو گا تاکہ عالمی معیشت کو سہارا دیا جاسکے۔امریکا،چین،جاپان،بھارت اور جنوبی کوریا جیسے تیل کے بڑے خریدار ملک اس بات کی تیاری کر رہے ہیں کہ وہ بہت سا تیل خرید کر اپنے ذخائر بڑھا لیں تا کہ ان کی خریداری کے نتیجے میں تیل کی طلب میں کمی واقع نہ ہو،تیل کی قیمتیں اوپر رہیں اور تیل کی مارکیٹ کریش نہ کرے۔
قارئینِ کرام آپ نے دیکھ لیا ہو گا کہ دنیا کے امیر اور طاقتور ممالک نے گٹھ جوڑ کر کے تیل کی قیمتوں کو سہارا دینے کے لیے پیداوار میں کمی کر لی ہے۔تیل کی قیمتیں نیچے گرنے سے چھوٹی معیشت والے ممالک کو تیل کی مد میں کم ادائیگیاں کرنی پڑتیں اور عوام کو سستا تیل میسر آتا لیکن عوام کو ریلیف ملنے کی توقع ختم ہوتی نظر آتی ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا تیل کی قیمتیں کم رہتیں،پاکستان کا امپورٹ بل کم ہوتا اور مہنگائی کچھ کم ہو جاتی۔
تیل کی طلب میں کمی نے عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کو سر کے بل نیچے گرا دیا ہے۔قیمتوں میں یہ کمی اس وجہ سے بھی ہوئی کہ اوپیک سے باہر کے تیل پیدا کرنے والے ممالک خاص کر روس اوپیک کے چیئرمین سعودی عرب کی تجویز پر یومیہ پیداوار میں گلوبلی 10لاکھ بیرل کمی کرنے پر راضی نہیں ہو رہا تھا۔
امریکا اپنے اتحادیوںسعودی عرب،کویت اور متحدہ عرب امارات کی مدد کے لیے بہت ہاتھ پائوں مار رہا تھا کیونکہ یہ ممالک ہر عالمی معاملہ خاص کر عرب اسرائیل تنازعہ میں امریکی لائن لیتے ہیں اسی طرح گاہے بگاہے جب بھی امریکا اشارہ کرتا ہے یہ ممالک کسی خریداری معاہدے کی شکل میں امریکی خزانے میں بہت کچھ ڈال دیتے ہیں۔
جمعہ کے دن سعودی عرب کے توانائی کے وزیر عبدالعزیز بن سلمان نے ایک ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اوپیک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ روس سے معاملات طے پا گئے ہیں،سعودی توانائی وزیر نے یہ اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ تیل پیدا کرنے والے تمام ممالک اس بات پر راضی ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی اپنی تیل کی پیداوار میں یومیہ اس طرح کٹوتی کریں گے کہ عالمی سظح پر تیل کی یومیہ پیداوار میں 9.7ملین بیرل کی مجموعی کمی واقع ہوجائیگی۔اس ڈیل کو تیل کی تاریخ میں سب سے بڑی پیداواری کٹوتی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔تیل کی پیداوار میں یہ کمی، یہ کٹوتی تیل کی گلوبل پیداوار کا تقریباً دس فی صد کے نزدیک ہے جس سے انرجی سیکٹر پر قیمتوں کی بے حد کمی کی وجہ سے شدید دبائو کو کم کیا جا سکے گا۔
اوپیک کے ایک اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مئی جون 2020میں تیل کی پیداوار میں یومیہ 9.7ملین بیرل کمی کی جائے گی۔جولائی سے دسمبر 2020کے دوران یہ کٹوتی کم کر کے 7.7ملین بیرل یومیہ پر لائی جائے گی،جب کہ جنوری 2021سے شروع کر کے اپریل 2022تک یہ کٹوتی 5.8ملین بیرل یومیہ کی بنیاد پر کی جائے گی۔23ملکوں کے اس گروپ کی اگلی میٹنگ 10جون کو ہونی قرار پائی ہے جس میں صورتحال کا جائزہ لے کر آیندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا اور ضروری فوری نوعیت کے اقدامات اُٹھائے جائیں گے۔
تیل سے وابستہ ایک ادارے کے ایک ماہر Ed Morseنے اس موقع پر کہا کہ کورونا وائرس کے وسیع پیمانے پر پھیلائو کی وجہ سے تیل کی طلب ماند پڑ گئی ہے۔یہ غیر معمولی حالات ہیں اور غیر معمولی حالات اس بات کے مقتضی ہیں کہ غیر معمولی اقدامات اٹھائے جائیں۔تیل کی پیداوار میں کمی کرکے کوشش کی جا رہی ہے کہ سال 2020کے آخر تک تیل کی قیمتیں 40 ڈالر فی بیرل کے ارد گرد رکھی جائیں۔ یہ اقدامات بہت پہلے اٹھا لیے جانے ضروری تھے اور اگر یہ بروقت اٹھا لیے جاتے تو تیل کی قیمت میں اتنی کمی نہ ہوتی۔بہت وقت ضایع ہو نے کی وجہ سے خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ تیل کی قیمتیں کریش کرکے جس طرح نیچے جا رہی تھیں کہیں یہ 10 ڈالر فی بیرل نہ ہو جائیں۔
میگنس نسوین جو کہ ایسے ہی ایک ادارے میں تجزیاتی شعبے کی سربراہ ہیں انھوں نے کہا کہ تیل کی پیداوار میں کمی کی یہ ڈیل عالمی منڈی میں کساد بازاری کو روکنے کے لیے جز وقتی قدم اور ریلیف ہے۔اس سے انرجی سیکٹر اور گلوبل اکانومی کو سہارا ملے گا۔میگنس نے مزید بتایا کہ تیل کی قیمتوں کو سہارا دینے کے لیے پیداوار میںجتنی کمی ہونی چاہیے تھی پیداوار میں یہ کمی اس سے بہت کم ہے لیکن اس سے وقتی طور پر کم ترین قیمتوں سے بچنے اور بڑھاوا دینے میں مدد ملنے کی توقع ہے۔
اوپیک کے ایک آفیشل نے خبردار کرتے ہوئے باور کرایا کہ اگر اس پیداواری کمی سے مسئلہ حل نہ ہوا تو مزید کمی کی تجویز دی جا سکتی ہے اور دس فی صد سے بڑھا کر بیس فی صد کرنے کی تجویز دی جائے گی لیکن اس کے ممکن العمل ہونے کا سارا انحصار اس بات پر ہو گا کہ غیر اوپیک ممالک تعاون کرتے ہیں یا نہیں اور اگر تعاون کرتے ہیں تو مزید کتنی کمی کی تجویز پر اتفاقِ رائے ہوتا ہے۔
روس اور سعودی عرب کی ڈیل ہوتے ہی Brent Crude جو کہ عالمی پیمانہ سمجھا جاتا ہے اس کی فی بیرل قیمت میں8فیصد بڑھوتی دیکھنے میں آئی۔ویسٹ ٹیکساس اِنٹر میڈیٹ جس کو امریکی پیمانہ گردانہ جاتا ہے اس کی فی بیرل قیمت میں 8.7 فی صد اضافہ دیکھنے کو ملا لیکن سوموار کو پھر تیل کی قیمتیں0.44سے0.76فی صد نیچے آ گئیں اور اس طرح تیل کی فی بیرل قیمت 22.88ڈالر رہی۔ ہر لمحہ بدلتی صورتحال میں تیل کے تاجر مخمصے میں پڑے ہوئے ہیں اور انھیں شک ہے کہ اوپیک تیل کی قیمت جہاں رکھنا چاہتی ہے وہاں رکھ سکے گی یا نہیں کیونکہ کورونا کے بڑھتے پھیلائو کی وجہ سے تیل کی ڈیمانڈ بڑھنی مشکل ہی نہیں وقتی طور پر نا ممکن نظر آتی ہے۔
پیداوار میںاس ڈیل کے تحت دس فیصد کمی ہو گی جب کہ ڈیمانڈ میں کمی30فیصدسے زیادہ ہو چکی ہے، اوپیک میں شامل ممالک اور اوپیک سے باہر تیل پیدا کرنے والے گروپوں جن میں روس بھی ہے۔ان سب کے درمیان جمعرات کو معاہدہ طے پا گیا تھا جسے امریکا اور G-20 ممالک کی حمایت حاصل تھی لیکن یہ نافذ نہ ہو سکا کیونکہ میکسیکواپنے حصے کی پوری تیل کٹوتی کے لیے تیار نہیں تھا۔ امریکا نے سعودی عرب پر دبائو ڈال کر میکسیکو کو اس کی اجازت دلوا دی کہ وہ ذرا تھوڑی کمی کر لے۔یہی وجہ ہے کہ مجوزہ دس ملین کے مقابلے میں اب کٹوتی 9.7ملین ہو گی۔
امریکی صدر ٹرمپ نے اس ڈیل کا بہت خیر مقدم کیا ہے۔ٹرمپ نے ٹیلیفون پر روس کے صدر ولادی میر پوٹن اور سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز سے بات کی،دونوں کو مبارکباد دی کہ دونوں نے بڑی فراست کا ثبوت دیتے ہوئے اس ڈیل کو مکمل کیا۔اس ڈیل سے امریکی انرجی سیکٹر سے جڑی لاکھوں ملازمتیں بچانے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب انرجی سیکٹر مضبوط ہو کر دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے قابل ہو جائے گالیکن ایک اور ماہر کی نگاہ میں روس اور سعودی عرب کے درمیان تنازعہ کے حل کی وجہ سے تیل کی قیمتیں کچھ اوپر تو ضرور جائیں گی لیکن آخر کار قیمتیں دوبارہ نیچے آ کر رہیں گی اور شاید یہ 20 ڈالر فی بیرل کے ارد گرد رہیں۔
اوپیک کا خیال ہے کہ غیر اوپیک ممالک جیسے امریکا، ناروے اور کینیڈا اپنی تیل کی پیداوار میں خاطر خواہ کمی پر راضی ہو جائیں گے تاکہ قیمتیں بڑھانے میں مدد ملے۔ امریکا کے انرجی سیکریٹری)وزیرِ توانائی( نے جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ امریکا کو اپنی پیداوار میں سے دو لاکھ بیرل روزانہ مارکیٹ سے ہٹانا ہو گا تاکہ عالمی معیشت کو سہارا دیا جاسکے۔امریکا،چین،جاپان،بھارت اور جنوبی کوریا جیسے تیل کے بڑے خریدار ملک اس بات کی تیاری کر رہے ہیں کہ وہ بہت سا تیل خرید کر اپنے ذخائر بڑھا لیں تا کہ ان کی خریداری کے نتیجے میں تیل کی طلب میں کمی واقع نہ ہو،تیل کی قیمتیں اوپر رہیں اور تیل کی مارکیٹ کریش نہ کرے۔
قارئینِ کرام آپ نے دیکھ لیا ہو گا کہ دنیا کے امیر اور طاقتور ممالک نے گٹھ جوڑ کر کے تیل کی قیمتوں کو سہارا دینے کے لیے پیداوار میں کمی کر لی ہے۔تیل کی قیمتیں نیچے گرنے سے چھوٹی معیشت والے ممالک کو تیل کی مد میں کم ادائیگیاں کرنی پڑتیں اور عوام کو سستا تیل میسر آتا لیکن عوام کو ریلیف ملنے کی توقع ختم ہوتی نظر آتی ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا تیل کی قیمتیں کم رہتیں،پاکستان کا امپورٹ بل کم ہوتا اور مہنگائی کچھ کم ہو جاتی۔