کورونا کونسی بیماریاں چھوڑ جائے گا

کورونا کے بعد لوگ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں

کورونا کے بعد لوگ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔ فوٹو: فائل

چینی کہاوت ہے کہ ''آفات کبھی بھی تنہا نہیں آتیں'' یہ اپنے ساتھ کئی بلائیں لے کر آتی ہیں۔ جلد یا بدیر وہ خود تو ٹل جاتی ہیں، مگر اپنے ساتھ مزید بلاؤں جوکہ کبھی بیماریوں کی صورت تو کبھی بھوک کی، پیچھے چھوڑ جاتی ہیں۔ جن کے اثرات تادیر غالب رہتے ہیں۔

مسائل اور پریشانیوں کا پیش خیمہ یہ آفات انسان کے بس میں تو نہیں ہوتی مگر انسان کہیں نہ کہیں ان کا ذمہ دار ضرور ہوتا ہے اور ان آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا بھی خود انسان ہی ہے۔ قدرتی آفات کی بات کی جائے تو موجودہ صورتحال میں کورونا وائرس نے دنیا بھر میں تباہی مچاکر رکھ دی ہے۔ یہ ہفتوں نہیںبلکہ دنوں میں لاکھوں زندگی نگل گیا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ہر شخص خوف کے سائے تلے جی رہا ہے جس کی وجہ کورونا وائرس ہے۔

اس وباء کے حوالے سے انتہائی خطرناک بات یہ ہے کہ یہ تیزی سے پھیلتی ہے۔ ہر فرد اس وباء کے نشانے پر ہے اور اسے روکنے کے لیے ماہرین ابھی تک تحقیق میں الجھے ہیں لیکن کوئی حفاظتی دوا نہیں تیار کرسکے، سوائے حفاظتی اقدامات تجویز کرنے کے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد جہاں کثیر ہے ونہی اس کے خوف میں دنیا بھر کی آبادی مبتلا ہے۔

فی الحال تو کچھ یقین سے کہا نہیں جاسکتا کہ یہ کب تک دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھے گا اور کتنی جانوں کا خراج لے کر جائے گا۔ مگر اہل فکر کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ کرونا اگر چلا بھی جاتا ہے تو یہ اپنے پیچھے چند خوفناک اور اذیت ناک یادیں اور ذہنی بیماریاں چھوڑ کر جائے گا۔ اس عالمی وباء کے اثرات دیر پا رہیں گے جس سے تمام افراد پر کسی نہ کسی صورت میں اثر پڑے گا۔

ماہرین نفسیات اس حوالے سے فکر مند ہیں کہ چند ایسی نفسیاتی کیفیات جوکہ سنگین ذہنی عارضوں کا روپ دھار لیتی ہیں کورونا کے بعد لوگوں کوبڑی تعداد میں متاثر کریں گی۔ ان میں مندرجہ ذیل اہم ہیں۔

آبسیسو کمپیلسیوڈس آرڈر (OCD)

بعض اوقات کچھ چیزیں ہم بار بار کرتے ہیں جس کے پیچھے ہماری ضرورت یا خواہش کارفرما ہوتی ہے جوکہ قعطاً غیر معمولی بات نہیں، لیکن اکثر اوقات ہم ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں یا ان سے ملتے ہیں جو کسی عادت یا کام کو بے تحاشہ سرانجام دیتے ہیں جس کے پیچھے ان کی ضرورت یا خواہش کارفرما نہیں بلکہ لاشعوری طور پر وہ ایسا کرتے ہیں۔

جیسے کسی کو ڈرامے دیکھنے کا جنون سوار ہو اور وہ بھوک پیاس فراموش کرکے بس ڈرامے ہی دیکھے یا کوئی جھوٹ بے حد بولتا ہو، بے وجہ بولتا ہو۔ ایسے لوگوں کے رویے کی سمجھ سامنے والے کو نہیں آرہی ہوتی۔ کچھ کاموں میں یہ مددگار بھی ثابت ہوسکتا ہے مگر باربار دہرائے جانے کا یہ عمل تکلیف دہ ہوسکتا ہے۔

اگر ذہن میں بار بار کوئی تکلیف دہ خیالات آتے ہوں یا کوئی ایک ہی کام کرنے کا تقاضا دل بار بار کرے تو یہ آبسیوکمپلسیوڈس آرڈر (او۔سی۔ڈی) ہوسکتا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس نفسیاتی کیفیت کا کورونا وائرس یا اس کے بعد کی صورتحال سے بھلا کیا تعلق ہوسکتا ہے تو جیسا کہ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر میں ہاتھ دھونا اور بار بار ہاتھ دھونا اس سے بچاسکتا ہے۔

ایسے میں باربار ہاتھ دھونا لوگوں کی ضرورت بن گئی ہے اور اس تناظر میں یہ عادت بھی بن جائے گی، جوکہ ایک حد تک اچھی بات ہے مگر اگر یہ صورتحال طوالت اختیار کرجاتی ہے تو اکثریت اس ذہنی بیماری کی کیفیت میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ جیسے وہم کے خیالات میرے ہاتھ گندے ہوگئے بار بار ہاتھوں کو دھونا، پانی کا گلاس صاف نہیں۔ بیٹھنے کی جگہ صاف نہیں۔ ایسے کاموں کو کرنے کے لیے مریض خود کو بے بس پاتا ہے۔ اس موضوع کے انتخاب کے بعد صفحہ قرطاس پر بکھرنے سے پہلے جب اس سلسلے میں سروے کیا گیا تو اس دوران ایک نجی ادارے میں کام کرنے والی خاتون آمنہ (فرضی نام) کا کہنا تھا کہ ''میں اس وقت شدید ذہنی اذیت سے گزر رہی ہوں۔

ڈیوٹی کے بعد گھر جاتی ہوں تو بار بار اپنے اور اپنے بچوں کے ہاتھ دھوتی ہوں۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں میں یا میرے بچے اور گھر والے کورونا وائرس کا شکار نہ ہوجائیں۔ حتیٰ الامکان کوشش ہوتی ہے کہ گھر سے باہر نہ نکلنا پڑے۔ کھانا پکانے کے دوران بھی بار بار ہاتھ دھوتی ہوں۔ شوہر گھر آتے ہیں تو تفصیل سے پوچھتی ہوں کہ وہ کہاں کہاں گئے ،تاکہ پتہ چل سکے کہ کسی ایس جگہ تو نہیں گئے جہاں بیماری لگنے کا اندیشہ تھا۔ انہیں جوتے گھر کے اندر نہیں لے کر آنے دیتی اور مجبور کرتی ہوں کہ نہائیں اور فوراً کپڑے بدلیں۔ مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں بے انتہا وہمی ہورہی ہوں مگر خوف ہر چیز پر حاوی ہوجاتا ہے۔ گوکہ گھروالوں کو اس سے بہت مسئلہ ہوتا ہے مگر میں خود کو بے بس پاتی ہوں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ہاتھ دھونے والی اور وہم والی عادت مزید پختہ ہورہی ہے۔''

ماہرین کی نگاہ میں معمول میں اگر کوئی مرد یا عورت ایسا کرتا کرتا یا کرتی ہے تو کوئی زیادہ پریشان کن بات نہیں مگر اگر وہ انہی خیالات میں اپنے گھر والوں کو شامل کرنے کی کوشش کرے تو وہ ایک پریشان کن بات ہوسکتی ہے آو۔سی۔ڈی کا شکار افراد عام طور پر ذہنی لحاظ سے بالکل صحیح ہوتے ہیں لیکن اس بیماری کا اظہار کرتے ہچکچکاتے ہیں کہ لوگ انہیں پاگل نہ سمجھیں اور یہ عموماً بیس یا بائیس برس کی عمر میں ہوتا ہے۔ اگر اس کا علاج نہ کروایا جائے تو ذہنی دباؤ اور ڈپریشن جیسے سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

کیا کرنا چاہیئے؟

اوسی ڈی عموماً موروثی، ذہنی دباؤ، زندگی میں اچانک تبدیلیوں، ذہنی تبدیلی اور شخصیت میں بدلاؤ کے نتیجے میں لاحق ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو جو لوگ اس کے خاتمے کے لیے کوشش کرتے ہیں وہ اس کا مزید شکار ہوجاتے ہیں، کیونکہ وہی خیالات بار بار ان کے دماغ میں آتے ہیں۔ ایسے صحیح خیالات ذہن میں لانا جو بڑے خیالات کے خاتمے کا سبب بنیں، ہی اس سے جان چھڑانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔

ایک بہت اہم کام جو کیا جاسکتا ہے وہ شاید سننے میں عجیب لگے مگر وہ ہے اپنی مدد آپ کرنا، اپنے آبسپشنز کا سامنا کرنا، اپنے ڈر کو بار بار ریکارڈ کریں اور سنیں یا لکھ لیں اور بار بار پڑھیں۔ ایک باقاعدگی سے روزانہ آدھے گھنٹے پر عمل دہرایا جائے اور تب تک جب تک گھبراہٹ کم نہ ہو تو یہ بہت مدد دے گا۔ سنگین صورتحال میں کاگنٹییو تھراپی ایک نفسیاتی علاج ہے جس سے پیچیدگیوں کو کم کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ادویات اور ای۔آر۔پی سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ اس مرض کے علاج کے لیے ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بہتر یہی ہے کہ اپنے دل سے ڈر اور خوف کو نکال پھینکیں اور وہم میں مبتلا نہ ہوں۔

تھینیٹو فوبیا(Thanato phobia)

موت کا خوف یا تھینٹوفوبیا (Thonatophobia) اینگزائٹی یا اضطراب کی ایسی شکل کا نام ہے جس میں انسان خود اپنی یا اپنے کسی پیارے کی موت سے خوف زدہ ہونے لگتا ہے۔ یہ بذات خود پیدا ہونے والی ذہنی کیفیت نہیں بلکہ اس کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں جیسے کہ ذہنی دباؤ، ڈپریشن یا اینگزائٹی۔ اس صورت میں فرد انتہائی اضطراب اور ڈر کا شکار ہوتا ہے جس میں کسی اپنے سے جدائی، کھو دینے کا ڈر اور اپنے پیاروں کو چھوڑ دینے کا ڈر غالب ہوتا ہے۔ موت سے خوف زدہ ہونا کوئی انوکھی یا بڑی بات نہیں، کوئی بھی نارمل انسان موت سے خوف کھائے گا مگر اس خوف کا حد سے بڑھ جانا اور اسے سر پر سوار کرلینا پیچیدگیوں کو جنم دیتا ہے۔ جب موت کا یہ خوف انسانی ذہن پر اس قدر حاوی ہوجائے کہ روزمرہ زندگی کے معاملات اس سے متاثر ہونے لگیں تو ایسے میں خبردار ہونے کی ضرورت پیش آتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے بھلا تھینٹوفوبیا کا کیا لینا دینا تو ماہرین نفسیات کے مطابق اس وقت دنیا میں کورونا وائرس کے نتیجے میں ہونے والی اموات نے لوگوں کو بے حد خوف زدہ کردیا ہے،اور امکان یہ ہے کہ لوگوں میں Fear of death جیسی ذہنی کیفیات سنگین روپ دھار سکتی ہیں۔ خاص طور پر وہ افراد جو (Covid-19) کوویڈ۔19 سے بلواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہوئے یا جن کے قریبی و عزیز اس عالمی وباء کا شکار ہوئے ان میں تھینٹوفوبیا پیدا ہونے کے واضح امکانات ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق نوجوان افراد اس کا وسیع شکار ہوتے ہیں جبکہ ایک اور تحقیق سے یہ بات واضح ہوئی کہ مردوں کی نسبت خواتین تھینٹوفوبیا سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں جس سے مزید نفسیاتی مسائل جیسے کہ فوبیا کی دوسری اقسام، پینک ڈس آڈریا اینگزائٹی بھی جنم لے سکتے ہیں۔


کیا کرنا چایئے؟

موت کے خوف میں مبتلا ہوجانے والوں کے لیے بہت سے نفسیاتی طریقہ کار موجود ہیں جن کی مدد سے وہ اپنے اس خوف پر قابو پاسکتے ہیں۔ اس ضمن میں ٹاک تھراپی بہت کارگر ثابت ہوتی ہے جس میں اپنے معالج کو اپنے خوف اور اس سے جڑی جزویات کے حوالے سے آگاہ کرنا نفسیاتی طور پر راحت بخش ثابت ہوتا ہے۔

اسی طرح کاگنیٹو بیہیورل تھراپی بھی معاونت فراہم کرتی ہے ،کیونکہ اس کا مقصد ذہنی دھارے کو مثبت روش پر ڈھلنا ہوتا ہے۔ اس سے موت کا پنپتا ہوا خوف کم ہوسکتا ہے اور زندگی نارمل روٹین کی جانب لوٹ سکتی ہے۔اس کے علاوہ مراقبہ اور لمبے سانس لینے کی تجاویز بھی کارآمد ہوتی ہے کیونکہ اس سے انسان ذ ہنی و جسمانی طور پر پرسکون ہوجاتا ہے۔ ساری باتوں کا لب لباب دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اندر پیدا ہوجانے والے ڈر اس کی نفسیاتی کیفیات کے ساتھ اس کے ایمان کی کمزوری کی علامت ہوتے ہیں۔ دراصل جب انسان حال کے بجائے مستقبل میں رہنا شروع کردے تو اس کا حال بے حال ہوجاتا ہے۔ اس بات میں شک نہیں کہ دنیا اس وقت مشکل دور سے گزر رہی ہے مگر انسان پر امید رہے تو وہ بہترین زندگی گزار سکتا ہے۔

اینگزائٹی/ گھبراہٹ

انسان کی زندگی میں کبھی نہ کبھی مشکل یا کڑا وقت ضرور آتا ہے۔ ایسے وقت میں گھبراہٹ کا شکار ہوجانا انسانی فطری احساسات کا حصہ ہے۔ عام طور پر چوکنا ہونے، خطرات سے بچاؤ اور مسائل کا سامنا کرنے پرخوف اور گھبراہٹ مفید ہوسکتے ہیں مگر جب یہ احساسات شدید ہوجائیں یا ان کا دورانیہ طویل عرصے پر محیط ہوجائے تو زندگی تکلیف دہ ہوسکتی ہے۔

گھبراہٹ کی ذہنی و جسماین علامات کی وجہ سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید انہیں کو شدید جسمانی بیماری ہوگئی ہے جس سے اس کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ گھبراہٹ یا اینگزائٹی کے ایسے دور ے پینک اٹیک (Panic Attack) کہلاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ڈپریشن بھی حملہ آور ہوجاتا ہے۔ گھبراہٹ کی ذہنی علامات کچھ یوں ہیں۔

ہر وقت پریشانی کا احساس، تھکن کا احساس، توجہ مرکوز نہ کرپانا، چڑچڑے پن کا احساس، نیند کے مسائل جبکہ اس کی جسمانی علامات میں دل کی دھڑکن تیز محسوس ہونا، زیادہ پسینہ آنا، پٹھوں میں کھنچاؤ اور درد رہنا، سانس کا تیزی سے چلنا، سر چکرانا، بے ہوش ہوجانے کا ڈر، بدہضمی اور اسہال سرفہرست ہیں۔ تحقیق کے مطابق ہر دس میں سے ایک شخص کبھی نہ کبھی اینگزائٹی یا گھبراہٹ کا شکار ضرور بنتا ہے مگر وہ اس کے علاج کی خاطر ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتے۔ گو تحقیق یہ بتاتی ہے کہ گھبراہٹ کا یہ احساس بعض لوگوں کو وراثت میں ملتا ہے اور وہ ہر وقت پریشانی کا شکار رہتے ہیں،تاہم زندگی میں درپیش آنے والے سخت حالات نارمل انسانوں کو بھی گھبراہٹ میں مبتلا کرسکتے ہیں۔

جیسے کہ موجودہ صورتحال میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہر فرد انفرادی و اجتماعی سطح پر گھبراہٹ کا شکار ہے جوکہ فطری امر ہے مگر بعض ماہرین کے خیال میں یہ گھبراہٹ مستقل ان کے رویے کا حصہ بن سکتی ہے۔ عمومی طور پر تو گھبراہٹ کا دورانیہ مختصر ہوتا ہے اور جیسے ہی حالات معمول پر آتے ہیں وہ گھبراہٹ ختم ہوجاتی ہے لیکن بعض اوقات وہ حالات اتنے خوفناک اور تکلیف دہ ہوتے ہیں کہ ان سے پیدا ہونے والی گھبراہٹ طویل شکل اختیار کرجاتی ہے اور وہ ان واقعات کے زیر اثر رہتے ہیں۔

جیسے اگر کوئی شخص کسی حادثے کا شکار ہوا ہو جیسے ایکسیڈنٹ یا آگ لگ جانا تو چاہے اس کی جان بچ گئی ہو اور اسے کوئی چوٹ نہ آئی ہو وہ گھبراہٹ اور پریشانی سالوں تک لاحق رہتی ہے۔ ایسی علامات کو پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ اس وقت پوری دنیا کورونا کے خوف میں مبتا ہے۔ نجانے کب یہ خطرناک وائرس ختم ہوگا لیکن اس دوران جو ذہنی کیفیات خصوصاً گھبراہٹ اور بے چینی ہے وہ ان کے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑیں گی اور امکان یہ ہے کہ لوگ وباء کا زور تھم جانے کے بعد بھی خوف اور گھبراہٹ کا شکار رہیں گے کہ کہیں انہیں کورونا وائرس نہ ہوجائے۔

کیا کرنا چاہیے؟

اس ذہنی کیفیت میں عموماً انسان پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے کہ آخر کس سے بات کی جائے؟ اور کیا کیا جائے؟مثلاً اگر شادی ناکام چل رہی ہو، گھر میں بیماری ہو یا روزگار چھوٹ جائے تو ایسی صورت میں عموماً دوستوں یا رشتہ داروں سے یہ سوچ کر مسائل پر بات چیت کی جاتی ہے کہ شاید وہ بھی ایسے حالات سے گزرے ہوں اور کوئی بہتر حل تجویز کرسکیں، تو اس میں کوئی غلط بات نہیں مسائل کو ان افراد سے شیئر کرنا چاہیے جوکہ مخلص اور قابل اعتماد ہوں۔ کورونا وائرس کے حوالے سے اینگزائٹی کے شکار افراد کو چاہیے کہ وہ پرسکون رہیں۔

گھر پر رہنے سے گو کہ وہ خود کو قیدی سا تصور کررہے ہیں مگر اس بات کو سمجھیں کہ اسی میں بہتری پنہاں ہے۔ اگر پرسکون رہنے میں بذات خود مدد نہیں مل پارہی تو اس سلسلے میں ماہرین کی مدد لی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ کتابوں اور ویڈیوز کے ذریعے بھی سیکھا جاسکتا ہے۔ اگر صورتحال قابو سے باہر ہوجائے تو ایسی صورت میں سائیکو تھراپی، ادویات اور خصوصاً اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کا بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اینگزائٹی کو معمولی مت سمجھیں اور اس میں شدت کی صورت فوری ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

اپنے اندر یقین پیدا کر نے اور رب سے تعلق مضبوط کرنے سے مسائل حل ہوسکتے ہیں، ماہرِنفسیات

روزنامہ ایکسپریس نے کورونا وائرس کے خدشے کے پیش نظر پیدا ہونے والے ذہنی مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے ماہر نفسیات ارسہ فاطمہ مخدوم سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ''یہ واقعتاً ایک خوفزدہ کردینے والی صورتحال ہے، مگر اس سب سے نمٹنے کے لیے جو سب سے بڑا نفسیاتی ہتھیار ہے وہ ہے اپنے مذہب سے لگاؤ، آپ جتنے زیادہ مذہبی ہوں، جتنا زیادہ اپنے رب سے تعلق مضبوط ہوگا اور جتنا یہ یقین رکھیں گے کہ زندگی صرف دنیا کی ہی کی نہیں بلکہ اس کے بعد بھی ایک زندگی ہے آپ اس ساری مشکل صورتحال سے باآسانی نکل سکتے ہیں۔ آپ ڈیٹھ اینگزائٹی سے نکل سکتے ہیں۔ اس ضمن میں پوزیٹو سیکالوجی سے مدد لی جاسکتی ہے۔ شکر گزاری اختیار کریں۔ لوگوں سے اور خصوصاً اللہ سے۔ جب اللہ کا شکر ادا کریں گے تو اس حوالے سے بہت سی پریشانیاں دور ہوجائیں گی۔''

اس حوالے سے ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ ''ایک اور بہت اہم چیز ہے ''سیکالوجیکل سٹرینتھ'' جس میں سیکلوجیکل کیپٹل آتا ہے جوکہ انسان کی مجموعی ذہنی استعداد کو مضبوط کرتا ہے۔ جس میں امید، مثبت انداز فکر، خود آفادیت اور سیلف ریزلینس کا مرقع ہے۔ جس سے آپ یہ یقین رکھتے ہیں کہ آپ یہ کرسکتے ہیں۔

جب یہ یقین مضبوط ہوتا ہے تو پھر اس ساری صورتحال سے باہر نکلنا ممکن ہوجاتا ہے۔ جب آپ کے اندر یہ یقین ہوگا کہ اس وائرس سے بہتر طریقے سے لڑسکے ہیں، خود کو بچاسکتے ہیں تو آپ اس اینگزائٹی سے ڈپریشن سے نکل آئیں گے۔ جہاں ریزلینس کی بات کریں تو اس سے مراد یہ ہے کہ کسی مشکل صورتحال سے کس طرح نکل سکتے ہیں جب اسے بڑھائیں گے تو تمام پریشان کن حالات سے نکل پائیں گے۔ بالکل اسی طرح اگر آپ مستقبل کے حوالے سے پر امید رہیں گے کہ یہ برا وقت جلد گزر جائے گا اور مثبت انداز میں سوچیں گے تو اس سب سے نکلنے میں مدد ملے گی۔

اب لڑنے اور مشکلات سے نکلنے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ ایک مثبت اور ایک منفی انداز۔ آپ نے منفی کے بجائے مثبت انداز اپنانا ہے، ان سارے حالات کو نظر انداز نہیں کرنا بلکہ اس کے مثبت پہلوؤں پر غور کرنا ہے اور انہیں بڑھانا ہے۔

جیسے اگر آپ بار بار ہاتھ دھورہے ہیں تو اس سے یہ مراد لیں کہ اپنی بہتری کے لیے ایسا کررہے ہیں جوکہ فائدہ دے گا ناکہ نقصان'' اس خوف کے اثرات کو زائل کرنے کے بارے میں ارسہ فاطمہ کا کہنا تھا کہ ''اس ساری صورتحال میں ایک چیز جو ہم کہتے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہ فلاں نہیں کرنا، فلاں نہیں کرنا، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس پر توجہ دیں جوہم کرسکتے ہیں۔ جیسے گھر کے اندر رہتے ہوئے کیا کرنا چاہیے۔ایسا کرنے سے بہت سے نفسیاتی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اس دوران آپ اپنے اندر کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھار سکتے ہیں۔ وہ سارے کام وہ ساری اسائمنٹس جو پہلے نہیں کرسکے انہیں نجام دے سکتے ہیں۔ یوں کورونا آپ کے لیے وبال جان نہیں بنے گا۔''
Load Next Story