مساجد اور امام بارگاہوں کو ’’رول ماڈل‘‘ بنانے کیلیے انتظامات مکمل
مساجد اور امام بارگاہوں میں نمازیوں کے درمیان سماجی فاصلے کو یقینی بنانے کے لیے گول دائرے بھی بنائے گئے ہیں
KARACHI:
کورونا سے محفوظ رہنے کے لیے کراچی کی کئی مساجد اور امام بارگاہوں کو ''رول ماڈل'' بنانے کے لیے انتطامات مکمل کرلیے ہیں،شہر کی بیشتر مساجداور امام بارگاہوں کی انتظامیہ نے تمام مکاتب فکر علمائے کرام کی ہدایات کی روشنی میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ایس او پیز پر عمل در آمدکا آغاز کردیا ہے،تاکہ حکومت کے ساتھ معاملات طے ہوتے ہی مساجد اور امام بارگاہوں میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے ساتھ نماز جمعہ اور رمضان میں تراویح کا اہتمام کیا جاسکے۔
اس حوالے سے کراچی کے ضلع وسطی میں واقع جامع مسجد وسطیٰ کے سیکریٹری آصف اقبال نے ایکسپریس ٹریبون کو بتایا کہ ان ایس او پیز کے تحت بیشترمساجد اور امام بارگاہوں میں قالین ہٹادیے گئے ہیں جبکہ ان کے داخلی دروازوں پر سینیٹائزر گیٹس کی تنصیب،وضو خانوں اور بیت الخلامیں ہینڈواش،صابن اور سینیٹائزر رکھے گئے ہیں،کئی مساجد اور امام بارگاہوں میں نماز کی ادائیگی سے قبل پیشگی اقدامات کے تحت درجہ حرارت چیک کرانے کے لیے ٹمپریچر آلے بھی خریدے گئے ہیں تاکہ نمازیوں کا درجہ حرارت چیک کرانے کے بعد ان کو داخلے کی اجازت دی جاسکے،مساجد اور امام بارگاہوں کے اندرونی حصوں اور صحن میں نمازیوں کے درمیان سماجی فاصلے کو یقینی بنانے کے لیے گول دائرے بھی بنائے گئے ہیں۔
کئی اوقات میں مشینوں کے ذریعے جراثیم کش اسپرے بھی کیا جارہاہے، ان تمام تر پیشگی اقدامات کا مقصد مساجد اور امام بارگاہوں میں ایس او پیز کے مطابق عوامی باجماعت نماز کی ادائیگی کا عمل شروع ہوتے ہی کورونا سے محفوظ رہنے کے لیے حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانا ہے۔مسجد کے سیکریڑی نے بتایا کہ یہ تمام تر اخراجات مخیر حضرات کے تعاون سے کیے گئے ہیں، مساجد اور امام بارگاہوں کی انتظامیہ ''حکومت اور علمائے کرام کے درمیان'' باجماعت نماز کی ادائیگی کے لیے متوقع معاہدہ کے اعلان کے منتظر ہیں،اس اعلان کے بعد تمام مساجد اور امام بارگاہوں میں ایس اوپیز کے مطابق باجماعت نماز کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔
انھوں نے بتایا کہ مساجد اور امام بارگاہوں میں یہ اقدام مرحلہ وار ہورہے ہیں،انشا اللہ جلد علاقائی سطح پر اہم مساجد اور امام بارگاہوں کو کورونا سے محفوظ رکھنے کے لیے رول ماڈل بنانے کا کام ایس او پیز کے مطابق مکمل کرلیا جائے گا،انہوں نے کہا کہ ہماری ترجیح ہوگی کہ اگر مساجد اور امام بارگاہوں میں باجماعت نمازکی ادائیگی کا عمل شروع ہوتا ہے تو فرض نماز ادا مسجد میں اداہو اور باقی نماز اور عبادات کی ادائیگی لوگ گھروں پر کریں،انھوں نے کہا کہ ان ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے تقریبا ایک سے دولاکھ روپے تک اضافی اخراجات کا سامنا ہے۔
چھوٹے مدرسے بھی بند، قاری اور قاریہ تنخواہ سے محروم
کراچی کی کئی مساجد اور امام بارگاہوں کے ساتھ ''مدرسہ'' بھی ہوتا ہے،یہ چھوٹا مدرسہ ہوتا ہے ، ان مساجد مدرسوں میں محلوں کے بچوں کوبلامعاوضہ قرآن پاک ناظرہ اور حفظ کی تعلیم دی جاتی ہے ، بچوں اور بچیوں کے مدرسہ الگ الگ ہوتے ہیں ، لڑکوں کو قاری صاحبان اور لڑکیوں کو قاریہ دینی تعلیم دیتے ہیں،ان قاری اور قاریہ کو تنخوائیں مساجد وامام بارگاہوں کی کمیٹی ادا کرتی ہے،کئی مساجد کے موذن قاری کے فرائض انجام دیتے ہیں،ان قاریہ اور قاری کو ماہانہ 8سے12ہزار ادا کیے جاتے ہیں،جبکہ بعض موذن کو اضافی معاوضہ بھی دیا جاتا ہے،کورونا کے سبب یہ چھوٹے مدرسے بھی بند ہیں،ان کے قاری اور قاریہ کوتنخواہیں ادا نہیں ہوسکی ہیں۔
مساجد اور امام بارگاہوں کے عوامی چندے میں 70فیصد کمی آگئی
کورونا سے محفوظ رہنے کے لیے لاک ڈاؤن کے تحت ''عوامی باجماعت نماز کی ادائیگی پر پابندی'' کے سبب کراچی کی بیشترمساجد وامام بارگاہوں کے خطیب وامام،موزن اور خادمین کی تنخواؤں کی ادائیگی مشکل ہوگئی ہے اور یوٹیلٹی بلز بھرے نہیں جاسکے ہیں،اس حوالے سے مقامی مسجد کے سیکریٹری آصف اقبال نے بتایا کہ مساجد اور امام بارگاہوں کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ''عوامی چندہ'' ہے،یہ چندہ جمعہ کی نماز،ماہانہ بنیادوں پر محلے اور مارکیٹ کی سطح کے ساتھ مساجدوامام بارگاہوں میں نصب باکس اور مخیر حضرات کے تعاون سے حاصل ہوتا ہے،لاک ڈاؤن کی وجہ سے عوامی باجماعت نماز کی ادائیگی کا عمل بند ہے،نماز جمعہ نہ ہونے اور کورونا کی وجہ سے عوام کو درپیش مالی مشکلات کی وجہ سے مساجد اور امام بارگاہوں کے چندے میں 70فیصد کمی ہوگئی ہے۔
اس وجہ سے مساجد اور امام بارگاہوں کے عملہ کو تنخواؤں کی ادائیگی میں مشکل ہوگئی ہے،لیکن کسی مسجد و امام بارگاہ سے عملہ کو نوکری سے فارغ نہیں کیا گیا ہے،کئی مخیر حضرات نے ان عملے کی خاموشی سے مدد کی ہے،انہوں نے کہا کہ ایک مسجد تقریبا ایک امام وخطیب،ایک موذن،دوخادمین،ایک خاکروب اور دیگر عملہ ہوتا ہے،مساجد وامام بارگاہوں میں عملہ علاقائی سطح پر یہ بڑی یا چھوٹی ہونے کی بنیاد پر رکھا جاتا ہے،بڑی مساجد وامام بارگاہوں میں زیادہ اورچھوٹی میں کم عملہ ہوتا ہے،ہر علاقے کی حیثیت کے مطابق مساجد وامام بارگاہوں کے عملہ کو تنخواہ دی جاتی ہے،امام کی تنخواہ کی 15ہزار سے لیکر 30ہزار یا زائد،موذن 12ہزار سے لیکر 20ہزار سے زائد اورخادمین کی تنخواہ 10ہزار سے 18ہزار تک ہوتی ہے،ان تنخواؤں کو طے ہر مسجد اورامام بارگاہ کی انتظامیہ مشاورت اور آمدنی کے حصول کے مطابق طے کرتی ہے۔یہ انتظامیہ کمیٹی کہلاتی ہے جو علاقائی معززین پر مشتمل ہوتی ہے۔
مساجداور امام بارگاہوں کے کم ازکم اخراجات بمعہ یوٹیلٹی بلز اور دیگر ماہانہ ڈیڑھ سے دو لاکھ اور زیادہ سے زیادہ تین لاکھ یا اس سے زائد ہوتے ہیں،تاہم ہر مسجد اور امام بارگاہ اپنے اخراجات آمدنی کے ذرائع کے مطابق کرتی ہے،چندہ کم ہونے کے سبب یہ اخراجات مخیر حضرات پورے کرتے ہیں،رمضان میں کئی مساجد وامام بارگاہوں میں نئے قالین،دریاں،جائے نماز اور پردوں و لاؤڈ اسپیکردیگر سامان کی تبدیلی وتنصیب اور افطاری کا اہتمام سمیت عملے کو بونس مخیرحضرات کے تعاون سے پورا کیا جاتا ہے،اس عملے کو رہائش مساجد اور امام بارگاہوں کے احاطے میں اتنظامیہ کی جانب سے دی جاتی ہے۔
کورونا سے محفوظ رہنے کے لیے کراچی کی کئی مساجد اور امام بارگاہوں کو ''رول ماڈل'' بنانے کے لیے انتطامات مکمل کرلیے ہیں،شہر کی بیشتر مساجداور امام بارگاہوں کی انتظامیہ نے تمام مکاتب فکر علمائے کرام کی ہدایات کی روشنی میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ایس او پیز پر عمل در آمدکا آغاز کردیا ہے،تاکہ حکومت کے ساتھ معاملات طے ہوتے ہی مساجد اور امام بارگاہوں میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے ساتھ نماز جمعہ اور رمضان میں تراویح کا اہتمام کیا جاسکے۔
اس حوالے سے کراچی کے ضلع وسطی میں واقع جامع مسجد وسطیٰ کے سیکریٹری آصف اقبال نے ایکسپریس ٹریبون کو بتایا کہ ان ایس او پیز کے تحت بیشترمساجد اور امام بارگاہوں میں قالین ہٹادیے گئے ہیں جبکہ ان کے داخلی دروازوں پر سینیٹائزر گیٹس کی تنصیب،وضو خانوں اور بیت الخلامیں ہینڈواش،صابن اور سینیٹائزر رکھے گئے ہیں،کئی مساجد اور امام بارگاہوں میں نماز کی ادائیگی سے قبل پیشگی اقدامات کے تحت درجہ حرارت چیک کرانے کے لیے ٹمپریچر آلے بھی خریدے گئے ہیں تاکہ نمازیوں کا درجہ حرارت چیک کرانے کے بعد ان کو داخلے کی اجازت دی جاسکے،مساجد اور امام بارگاہوں کے اندرونی حصوں اور صحن میں نمازیوں کے درمیان سماجی فاصلے کو یقینی بنانے کے لیے گول دائرے بھی بنائے گئے ہیں۔
کئی اوقات میں مشینوں کے ذریعے جراثیم کش اسپرے بھی کیا جارہاہے، ان تمام تر پیشگی اقدامات کا مقصد مساجد اور امام بارگاہوں میں ایس او پیز کے مطابق عوامی باجماعت نماز کی ادائیگی کا عمل شروع ہوتے ہی کورونا سے محفوظ رہنے کے لیے حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانا ہے۔مسجد کے سیکریڑی نے بتایا کہ یہ تمام تر اخراجات مخیر حضرات کے تعاون سے کیے گئے ہیں، مساجد اور امام بارگاہوں کی انتظامیہ ''حکومت اور علمائے کرام کے درمیان'' باجماعت نماز کی ادائیگی کے لیے متوقع معاہدہ کے اعلان کے منتظر ہیں،اس اعلان کے بعد تمام مساجد اور امام بارگاہوں میں ایس اوپیز کے مطابق باجماعت نماز کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔
انھوں نے بتایا کہ مساجد اور امام بارگاہوں میں یہ اقدام مرحلہ وار ہورہے ہیں،انشا اللہ جلد علاقائی سطح پر اہم مساجد اور امام بارگاہوں کو کورونا سے محفوظ رکھنے کے لیے رول ماڈل بنانے کا کام ایس او پیز کے مطابق مکمل کرلیا جائے گا،انہوں نے کہا کہ ہماری ترجیح ہوگی کہ اگر مساجد اور امام بارگاہوں میں باجماعت نمازکی ادائیگی کا عمل شروع ہوتا ہے تو فرض نماز ادا مسجد میں اداہو اور باقی نماز اور عبادات کی ادائیگی لوگ گھروں پر کریں،انھوں نے کہا کہ ان ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے تقریبا ایک سے دولاکھ روپے تک اضافی اخراجات کا سامنا ہے۔
چھوٹے مدرسے بھی بند، قاری اور قاریہ تنخواہ سے محروم
کراچی کی کئی مساجد اور امام بارگاہوں کے ساتھ ''مدرسہ'' بھی ہوتا ہے،یہ چھوٹا مدرسہ ہوتا ہے ، ان مساجد مدرسوں میں محلوں کے بچوں کوبلامعاوضہ قرآن پاک ناظرہ اور حفظ کی تعلیم دی جاتی ہے ، بچوں اور بچیوں کے مدرسہ الگ الگ ہوتے ہیں ، لڑکوں کو قاری صاحبان اور لڑکیوں کو قاریہ دینی تعلیم دیتے ہیں،ان قاری اور قاریہ کو تنخوائیں مساجد وامام بارگاہوں کی کمیٹی ادا کرتی ہے،کئی مساجد کے موذن قاری کے فرائض انجام دیتے ہیں،ان قاریہ اور قاری کو ماہانہ 8سے12ہزار ادا کیے جاتے ہیں،جبکہ بعض موذن کو اضافی معاوضہ بھی دیا جاتا ہے،کورونا کے سبب یہ چھوٹے مدرسے بھی بند ہیں،ان کے قاری اور قاریہ کوتنخواہیں ادا نہیں ہوسکی ہیں۔
مساجد اور امام بارگاہوں کے عوامی چندے میں 70فیصد کمی آگئی
کورونا سے محفوظ رہنے کے لیے لاک ڈاؤن کے تحت ''عوامی باجماعت نماز کی ادائیگی پر پابندی'' کے سبب کراچی کی بیشترمساجد وامام بارگاہوں کے خطیب وامام،موزن اور خادمین کی تنخواؤں کی ادائیگی مشکل ہوگئی ہے اور یوٹیلٹی بلز بھرے نہیں جاسکے ہیں،اس حوالے سے مقامی مسجد کے سیکریٹری آصف اقبال نے بتایا کہ مساجد اور امام بارگاہوں کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ''عوامی چندہ'' ہے،یہ چندہ جمعہ کی نماز،ماہانہ بنیادوں پر محلے اور مارکیٹ کی سطح کے ساتھ مساجدوامام بارگاہوں میں نصب باکس اور مخیر حضرات کے تعاون سے حاصل ہوتا ہے،لاک ڈاؤن کی وجہ سے عوامی باجماعت نماز کی ادائیگی کا عمل بند ہے،نماز جمعہ نہ ہونے اور کورونا کی وجہ سے عوام کو درپیش مالی مشکلات کی وجہ سے مساجد اور امام بارگاہوں کے چندے میں 70فیصد کمی ہوگئی ہے۔
اس وجہ سے مساجد اور امام بارگاہوں کے عملہ کو تنخواؤں کی ادائیگی میں مشکل ہوگئی ہے،لیکن کسی مسجد و امام بارگاہ سے عملہ کو نوکری سے فارغ نہیں کیا گیا ہے،کئی مخیر حضرات نے ان عملے کی خاموشی سے مدد کی ہے،انہوں نے کہا کہ ایک مسجد تقریبا ایک امام وخطیب،ایک موذن،دوخادمین،ایک خاکروب اور دیگر عملہ ہوتا ہے،مساجد وامام بارگاہوں میں عملہ علاقائی سطح پر یہ بڑی یا چھوٹی ہونے کی بنیاد پر رکھا جاتا ہے،بڑی مساجد وامام بارگاہوں میں زیادہ اورچھوٹی میں کم عملہ ہوتا ہے،ہر علاقے کی حیثیت کے مطابق مساجد وامام بارگاہوں کے عملہ کو تنخواہ دی جاتی ہے،امام کی تنخواہ کی 15ہزار سے لیکر 30ہزار یا زائد،موذن 12ہزار سے لیکر 20ہزار سے زائد اورخادمین کی تنخواہ 10ہزار سے 18ہزار تک ہوتی ہے،ان تنخواؤں کو طے ہر مسجد اورامام بارگاہ کی انتظامیہ مشاورت اور آمدنی کے حصول کے مطابق طے کرتی ہے۔یہ انتظامیہ کمیٹی کہلاتی ہے جو علاقائی معززین پر مشتمل ہوتی ہے۔
مساجداور امام بارگاہوں کے کم ازکم اخراجات بمعہ یوٹیلٹی بلز اور دیگر ماہانہ ڈیڑھ سے دو لاکھ اور زیادہ سے زیادہ تین لاکھ یا اس سے زائد ہوتے ہیں،تاہم ہر مسجد اور امام بارگاہ اپنے اخراجات آمدنی کے ذرائع کے مطابق کرتی ہے،چندہ کم ہونے کے سبب یہ اخراجات مخیر حضرات پورے کرتے ہیں،رمضان میں کئی مساجد وامام بارگاہوں میں نئے قالین،دریاں،جائے نماز اور پردوں و لاؤڈ اسپیکردیگر سامان کی تبدیلی وتنصیب اور افطاری کا اہتمام سمیت عملے کو بونس مخیرحضرات کے تعاون سے پورا کیا جاتا ہے،اس عملے کو رہائش مساجد اور امام بارگاہوں کے احاطے میں اتنظامیہ کی جانب سے دی جاتی ہے۔