حکومت کے اچھے فیصلے
حکومت کو گزشتہ روز عالمی مالیاتی اداروں کی جانب قرضوں میں واپسی کے لیے ایک سال کا ریلیف بھی ملا ہے۔
وفاقی حکومت نے ملکی معیشت کو استحکام کی راہ پر گامزن کرنے کے حوالے سے تعمیراتی شعبے کے لیے مراعاتی پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ یہ اقدام لائق تحسین ہے کیونکہ اس سے محنت کش طبقے کو روزگار ملے گا اور تعمیراتی صنعت سے وابستہ دیگر شعبے بھی فعال ہوجائیں گے۔
وزیراعظم پاکستان ایک دردمند دل رکھنے والے انسان ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے غریب اور متوسط طبقے کے لیے روزگار کے مواقعے محدود پیمانے پر ہی سہی کھول دیے جائیں، تاکہ بھوک سے اموات کے سلسلہ شروع ہونے سے پہلے ہی روکا جاسکے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد تعمیراتی شعبے کے لیے مراعات اور ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کے آرڈیننسوں پر دستخط کر دیے ہیں۔ بلڈرز اور ڈویلپرز کے لیے فکسڈ ٹیکس رجیم متعارف کرایا گیا ہے، فی مرِبع فٹ / فی مربع گز کی بنیاد پر فکسڈ ٹیکس کا نفاذ کیا گیا ہے۔ تعمیراتی منصوبوں میں سرمایہ کاری پر ذرایع آمدن کا نہیں پوچھا جائے گا۔ یہ اقدام بلاشبہ لائق تحسین ہے کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملکی معیشت کا پہیہ جام ہے، اس کو رواں کرنے کے لیے یہ پہلا بڑا اور مستحسن اقدام ہے۔
حکومت کو گزشتہ روز عالمی مالیاتی اداروں کی جانب قرضوں میں واپسی کے لیے ایک سال کا ریلیف بھی ملا ہے۔ جب کہ گزشتہ روز آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے نئے قرضے کی منظوری کا اعلامیہ جاری کیا ہے جوکہ زرمبادلہ کے ذخائر کو سنبھالا دینے میں معاون ہوگا اور پاکستان کو بجٹ کے لیے درکار فنانسنگ میں مدد ملے گی۔ اس بات کا کریڈٹ وزیراعظم عمران خان کو جاتا ہے جنھوں نے امیر ممالک سے ترقی پذیر ملکوں کی مدد اور قرضوں کی ادائیگی میں آسانیاں پیدا کرنے کی اپیل کی تھی۔ ان کی اس اپیل پر جی 20 ممالک کا ردعمل انتہائی حوصلہ افزا رہا، ادائیگی کی قسطوں میں ایک سال کی چھوٹ بڑا ملکی معیشت کے لیے بڑا سہارا ہے اور اس کے مثبت اثرات اسٹاک مارکیٹ میں بہتری کی صورت میں نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔
روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہونے سے معیشت بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں جب کہ اسٹیٹ بینک نے انٹرسٹ ریٹ کم کیا ہے، جو اب نو فیصد ہوگیا ہے ، پاکستان کے لیے ایک 1.4بلین ڈالر کا ایمرجنسی فنڈ بھی منظور کیا گیا ہے، جس کی بدولت پاکستان کو بجٹ کے لیے درکار فنانسنگ میں مدد ملے گی۔ یہاں حکومت کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ یہ ریلیف عوام کو بھی منتقل ہونا چاہیے تاکہ ان کی مشکلات کم ہوسکیں۔ عالمی اداروں کی جانب سے قرضوں کی وصولی موخر کرنے سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے، اور اسٹاک ایکس چینج میں بھرپور تیزی کا رجحان رہا۔
کے ایس ای 30انڈیکس 5فیصد بڑھنے پر مارکیٹ کا حفاظتی مکینزم متحرک ہوگیا، ٹریڈنگ بحالی کے بعد بھی تیزی کا رجحان برقرار رہا، مجموعی طور پر کے ایس ای 100انڈیکس32ہزار پوائنٹس کی نفسیاتی حد بحال کرتے ہوئے1502.37پوائنٹس کے اضافے سے32831.83پوائنٹس کی سطح پر پہنچ گیا جب کہ88.12فیصد کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
دوسری جانب خوش آیند خبر یہ ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ 20 ارب ڈالرز کے معاہدوں کی منظوری دے دی، دونوں ممالک کے درمیان آئل، توانائی، متبادل انرجی اور معدنیات کے 4 بڑے معاہدے ہوئے ہیں، آئل ریفائنری کے منصوبے 5 سال ، متبادل انرجی میں ونڈ اور سولر کے منصوبے 3 برس میں مکمل ہوں گے۔ زرمبادلہ پر غیرملکی قرضوں کی ادائیگیوں کا بوجھ اور درآمدی بل میں کمی کی بدولت ذخائر میں اضافے کے رجحان نے روپے کی گرتی قدر کو مستحکم کردیا اور ڈالر3.50روپے سستا ہوگیا۔ یہ سارے مثبت اشارے ملکی معیشت کے حوالے سے ہیں حکومت کو بھی عوام کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔
انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (ایاٹا) نئے اعداد وشمار جاری کیے ہیں، جن کے مطابق کورونا وائرس نے پوری ایئرلائن انڈسٹری کو مزید نقصان سے دوچار کردیا ہے، عالمی طور ایئرلائن انڈسٹری کی 2020 میں آمدنی 55فیصد کم ہوگئی، کورونا وائرس کی وجہ سے حالیہ جمود کے باعث دنیا بھر میں ایئرلائنز کا نقصان 314 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے، اس سے قبل ایاٹا نے 252 ارب ڈالر کے ایئرلائن انڈسٹری کو نقصان کے اعداد و شمار کا اندازہ لگایا تھا، ایاٹا کے مطابق حکومتیں اپنی ایئرلائنز کو سپورٹ کرنے کے لیے انھیں فنڈز جاری کریں۔
اس وقت ملک بھر میں کورونا وائرس کے ڈیڑھ سو قریب مریض جاں بحق ہوچکے ہیں، جب کہ اتنی ہی تعداد میں مزید مریضوں کی زندگی خطرے میں ہے جب کہ متاثر مریضوں کی تعداد سات ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ ہمیں ہر حال میں کورونا وائرس کو شکست دے کر زندگی معمول پر لانی ہوگی۔ انھوں نے مزید کہا کہ میو اسپتال سے کورونا سے مزید 25 مریض صحت یاب ہوگئے، اس کے علاوہ شہر کے مختلف اسپتالوں سے ابھی تک کورونا کے 168مریض صحت یاب ہوچکے ہیں، اس طرح صوبے میں ابھی تک کورونا سے صحت یاب ہونے والوں کی تعداد 650 سے زائد ہوچکی ہے۔
لاہور سمیت پنجاب کے تمام سرکاری اسپتالوں کے او پی ڈیز فعال ہیں، کورونا مریضوں کے اعداد و شمار کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لیا جارہا ہے، ٹیسٹس کی صلاحیت بڑھانے سے کورونا وائرس پر قابو پانے اور مریضوں کے علاج میں سہولت حاصل ہوگی، پنجاب میں کورونا کے تشخیصی ٹیسٹ کی صلاحیت بہت حد تک بڑھا دی گئی ہے، صوبے میں اب تک کورونا کے 52 ہزار 500 ٹیسٹ کیے جاچکے ہیں۔ بلاشبہ وزیر صحت کی باتیں انتہائی امید افزا ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے صوبے کے مختلف علاقوں میں 10 ہزار بستروں پر مشتمل فیلڈ اسپتالوں کے قیام کا فیصلہ کرلیا ہے، نئی حکمت عملی کے تحت ہاٹ اسپاٹ جہاں کورونا کے مزید کیسز کا پتہ چل رہا ہے اسے مکمل طور پر بند کردیا جائے گا، جب کہ خیبرپختونخوا میں کورونا وائرس سے مزید پانچ افراد جاں بحق ہو گئے، 93 نئے مریضوں میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق صوبے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 45 ہوگئی، جب کہ مصدقہ مریضوں کی مجموعی تعداد 1077 تک پہنچ گئی ہے، نئے مریضوں میں صوبائی دارالحکومت پشاور سے سب سے زیادہ 37 کورونا کیسز سامنے آئے ہیں جہاں مریضوں کی تعداد 292 ہوگئی ہے۔ پاکستان کے تمام صوبوں میں صورتحال دن بدن سنگین ہوتی جارہی ہے۔ اسی تناظر میں چیئرمین پیپلز پارٹی، بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے عالمی وباء کے دوران اگلے محاذوں پر خدمات سرانجام دینے والے ڈاکٹروں اور نرسوں کے لیے امدادی پیکیج کا اعلان اب تک نہیں ہوا اور نہ ہی یومیہ اجرت پر انحصار کرنیوالوں کے لیے امدادی پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان کی باتیں توجہ طلب ہیں، وفاقی حکومت کو اس جنگ کے خلاف لڑنے والے ہراول دستے کے مسائل پر بھرپور اور فوری توجہ دینی چاہیے۔
دوسری جانب اس وقت بے سہارا اور غرباء کی امداد اور ان کا مسائل کے حل کی ضرورت ہے۔ بحیثیت قوم مل کر کورونا جیسی آفت سے نمٹا ہو گا۔ لوگوں کو گھروں میں رہنا چاہیے۔ حکومت ترجیحی بنیادوں پر لوگوں تک امداد اور راشن کی فراہمی کو یقینی بنائے، راشن کی تقسیم کے دوران حفاظتی انتظامات کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ راشن کے حصول کے لیے لگی ہوئی جو طویل قطاریں نظر آتی ہیں وہ بھی دراصل کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتی ہیں۔
راشن مستحقین کے گھروں پر پہنچایا جائے ، سڑکوں پر ہزاروں افراد کے ہجوم میں بھگدڑ مچنے سے اموات بھی ہوئی ہیں جو انتہائی افسوس ناک امر ہے۔ امدادی سامان کی تقسیم کے لیے مناسب اور درست طریقہ اپنایا جائے اور فوٹو سیشن کے لیے عوام کو جمع نہ کیا جائے، جو بھی حکومتی ادارے ، سیاسی وسماجی شخصیات راشن تقسیم کرتی ہیں وہ عام آدمی کی عزت نفس کو بھی مجروح نہ کریں اور طبی ماہرین کی بتائی ہوئی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے راشن اور امدادی سامان کی تقسیم کی جائے۔ نہ جانے ایسا تاثر کیوں ابھر رہا ہے کہ حکومتی ایوانوں میں بیٹھے وزیر اب بھی سیاست چمکانے میں لگے ہیں۔ انھیں اب بھی پوائنٹ اسکورنگ کی پڑی ہے۔
وفاقی وزراء اور مشیر، سندھ حکومت پر برس رہے ہیں جب کہ سندھ کے وزراء بھی تلخ لہجے میں جواب دے رہے ہیں۔ یہ وقت سیاسی چپقلش سے پرہیز کرنے اور عوام کی خدمت بجا لانے کا ہے ہمارے سیاستدان اور سیاسی پارٹیوں کو اس سلسلے میں بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں یہ بات کیوں بھول رہی ہیں کہ ملک کا غریب اور مستحق طبقہ جو ملک کی اکثریت میں ہے وہ پریشانی میں مبتلا ہے، انھیں اپنی اداؤں پر غور کرنا چاہیے اور اپنی ساری توجہ عوام کی خدمت پر مرکوز کرنی چاہیے۔
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی چوہدری فواد نے بتایا ہے کہ پاکستان، کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کے کلینیکل ٹرائل کا پہلا مرحلہ جلد شرو ع کرے گا۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کووڈ۔19کی عالمی وباء کے باعث شرح اموات میں کمی کے لیے عالمی کوششوں میں پاکستان کا یہ پہلا اقدام ہے۔ جلد ہی پاکستان کورونا وائرس کو شکست دینے والے ممالک فہرست میں شامل ہوگا۔
ڈاکٹر عطا الرحمٰن کی زیر قیادت ایک ٹیم کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے عالمی ادارہ صحت کے ساتھ تعاون کررہی ہے۔ بلاشبہ یہ اطلاع اور کاوش انتہائی خوش کن ہے کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لیے۔ حکومت اور عوام کورونا وائرس پر مکمل قابو پانے کے لیے ایک پیج پر آجائیں تو انشاء اللہ آخری فتح انسانیت کی ہوگی۔
وزیراعظم پاکستان ایک دردمند دل رکھنے والے انسان ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے غریب اور متوسط طبقے کے لیے روزگار کے مواقعے محدود پیمانے پر ہی سہی کھول دیے جائیں، تاکہ بھوک سے اموات کے سلسلہ شروع ہونے سے پہلے ہی روکا جاسکے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد تعمیراتی شعبے کے لیے مراعات اور ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کے آرڈیننسوں پر دستخط کر دیے ہیں۔ بلڈرز اور ڈویلپرز کے لیے فکسڈ ٹیکس رجیم متعارف کرایا گیا ہے، فی مرِبع فٹ / فی مربع گز کی بنیاد پر فکسڈ ٹیکس کا نفاذ کیا گیا ہے۔ تعمیراتی منصوبوں میں سرمایہ کاری پر ذرایع آمدن کا نہیں پوچھا جائے گا۔ یہ اقدام بلاشبہ لائق تحسین ہے کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملکی معیشت کا پہیہ جام ہے، اس کو رواں کرنے کے لیے یہ پہلا بڑا اور مستحسن اقدام ہے۔
حکومت کو گزشتہ روز عالمی مالیاتی اداروں کی جانب قرضوں میں واپسی کے لیے ایک سال کا ریلیف بھی ملا ہے۔ جب کہ گزشتہ روز آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے نئے قرضے کی منظوری کا اعلامیہ جاری کیا ہے جوکہ زرمبادلہ کے ذخائر کو سنبھالا دینے میں معاون ہوگا اور پاکستان کو بجٹ کے لیے درکار فنانسنگ میں مدد ملے گی۔ اس بات کا کریڈٹ وزیراعظم عمران خان کو جاتا ہے جنھوں نے امیر ممالک سے ترقی پذیر ملکوں کی مدد اور قرضوں کی ادائیگی میں آسانیاں پیدا کرنے کی اپیل کی تھی۔ ان کی اس اپیل پر جی 20 ممالک کا ردعمل انتہائی حوصلہ افزا رہا، ادائیگی کی قسطوں میں ایک سال کی چھوٹ بڑا ملکی معیشت کے لیے بڑا سہارا ہے اور اس کے مثبت اثرات اسٹاک مارکیٹ میں بہتری کی صورت میں نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔
روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہونے سے معیشت بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں جب کہ اسٹیٹ بینک نے انٹرسٹ ریٹ کم کیا ہے، جو اب نو فیصد ہوگیا ہے ، پاکستان کے لیے ایک 1.4بلین ڈالر کا ایمرجنسی فنڈ بھی منظور کیا گیا ہے، جس کی بدولت پاکستان کو بجٹ کے لیے درکار فنانسنگ میں مدد ملے گی۔ یہاں حکومت کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ یہ ریلیف عوام کو بھی منتقل ہونا چاہیے تاکہ ان کی مشکلات کم ہوسکیں۔ عالمی اداروں کی جانب سے قرضوں کی وصولی موخر کرنے سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے، اور اسٹاک ایکس چینج میں بھرپور تیزی کا رجحان رہا۔
کے ایس ای 30انڈیکس 5فیصد بڑھنے پر مارکیٹ کا حفاظتی مکینزم متحرک ہوگیا، ٹریڈنگ بحالی کے بعد بھی تیزی کا رجحان برقرار رہا، مجموعی طور پر کے ایس ای 100انڈیکس32ہزار پوائنٹس کی نفسیاتی حد بحال کرتے ہوئے1502.37پوائنٹس کے اضافے سے32831.83پوائنٹس کی سطح پر پہنچ گیا جب کہ88.12فیصد کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
دوسری جانب خوش آیند خبر یہ ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ 20 ارب ڈالرز کے معاہدوں کی منظوری دے دی، دونوں ممالک کے درمیان آئل، توانائی، متبادل انرجی اور معدنیات کے 4 بڑے معاہدے ہوئے ہیں، آئل ریفائنری کے منصوبے 5 سال ، متبادل انرجی میں ونڈ اور سولر کے منصوبے 3 برس میں مکمل ہوں گے۔ زرمبادلہ پر غیرملکی قرضوں کی ادائیگیوں کا بوجھ اور درآمدی بل میں کمی کی بدولت ذخائر میں اضافے کے رجحان نے روپے کی گرتی قدر کو مستحکم کردیا اور ڈالر3.50روپے سستا ہوگیا۔ یہ سارے مثبت اشارے ملکی معیشت کے حوالے سے ہیں حکومت کو بھی عوام کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔
انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (ایاٹا) نئے اعداد وشمار جاری کیے ہیں، جن کے مطابق کورونا وائرس نے پوری ایئرلائن انڈسٹری کو مزید نقصان سے دوچار کردیا ہے، عالمی طور ایئرلائن انڈسٹری کی 2020 میں آمدنی 55فیصد کم ہوگئی، کورونا وائرس کی وجہ سے حالیہ جمود کے باعث دنیا بھر میں ایئرلائنز کا نقصان 314 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے، اس سے قبل ایاٹا نے 252 ارب ڈالر کے ایئرلائن انڈسٹری کو نقصان کے اعداد و شمار کا اندازہ لگایا تھا، ایاٹا کے مطابق حکومتیں اپنی ایئرلائنز کو سپورٹ کرنے کے لیے انھیں فنڈز جاری کریں۔
اس وقت ملک بھر میں کورونا وائرس کے ڈیڑھ سو قریب مریض جاں بحق ہوچکے ہیں، جب کہ اتنی ہی تعداد میں مزید مریضوں کی زندگی خطرے میں ہے جب کہ متاثر مریضوں کی تعداد سات ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ ہمیں ہر حال میں کورونا وائرس کو شکست دے کر زندگی معمول پر لانی ہوگی۔ انھوں نے مزید کہا کہ میو اسپتال سے کورونا سے مزید 25 مریض صحت یاب ہوگئے، اس کے علاوہ شہر کے مختلف اسپتالوں سے ابھی تک کورونا کے 168مریض صحت یاب ہوچکے ہیں، اس طرح صوبے میں ابھی تک کورونا سے صحت یاب ہونے والوں کی تعداد 650 سے زائد ہوچکی ہے۔
لاہور سمیت پنجاب کے تمام سرکاری اسپتالوں کے او پی ڈیز فعال ہیں، کورونا مریضوں کے اعداد و شمار کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لیا جارہا ہے، ٹیسٹس کی صلاحیت بڑھانے سے کورونا وائرس پر قابو پانے اور مریضوں کے علاج میں سہولت حاصل ہوگی، پنجاب میں کورونا کے تشخیصی ٹیسٹ کی صلاحیت بہت حد تک بڑھا دی گئی ہے، صوبے میں اب تک کورونا کے 52 ہزار 500 ٹیسٹ کیے جاچکے ہیں۔ بلاشبہ وزیر صحت کی باتیں انتہائی امید افزا ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے صوبے کے مختلف علاقوں میں 10 ہزار بستروں پر مشتمل فیلڈ اسپتالوں کے قیام کا فیصلہ کرلیا ہے، نئی حکمت عملی کے تحت ہاٹ اسپاٹ جہاں کورونا کے مزید کیسز کا پتہ چل رہا ہے اسے مکمل طور پر بند کردیا جائے گا، جب کہ خیبرپختونخوا میں کورونا وائرس سے مزید پانچ افراد جاں بحق ہو گئے، 93 نئے مریضوں میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق صوبے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 45 ہوگئی، جب کہ مصدقہ مریضوں کی مجموعی تعداد 1077 تک پہنچ گئی ہے، نئے مریضوں میں صوبائی دارالحکومت پشاور سے سب سے زیادہ 37 کورونا کیسز سامنے آئے ہیں جہاں مریضوں کی تعداد 292 ہوگئی ہے۔ پاکستان کے تمام صوبوں میں صورتحال دن بدن سنگین ہوتی جارہی ہے۔ اسی تناظر میں چیئرمین پیپلز پارٹی، بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے عالمی وباء کے دوران اگلے محاذوں پر خدمات سرانجام دینے والے ڈاکٹروں اور نرسوں کے لیے امدادی پیکیج کا اعلان اب تک نہیں ہوا اور نہ ہی یومیہ اجرت پر انحصار کرنیوالوں کے لیے امدادی پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان کی باتیں توجہ طلب ہیں، وفاقی حکومت کو اس جنگ کے خلاف لڑنے والے ہراول دستے کے مسائل پر بھرپور اور فوری توجہ دینی چاہیے۔
دوسری جانب اس وقت بے سہارا اور غرباء کی امداد اور ان کا مسائل کے حل کی ضرورت ہے۔ بحیثیت قوم مل کر کورونا جیسی آفت سے نمٹا ہو گا۔ لوگوں کو گھروں میں رہنا چاہیے۔ حکومت ترجیحی بنیادوں پر لوگوں تک امداد اور راشن کی فراہمی کو یقینی بنائے، راشن کی تقسیم کے دوران حفاظتی انتظامات کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ راشن کے حصول کے لیے لگی ہوئی جو طویل قطاریں نظر آتی ہیں وہ بھی دراصل کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتی ہیں۔
راشن مستحقین کے گھروں پر پہنچایا جائے ، سڑکوں پر ہزاروں افراد کے ہجوم میں بھگدڑ مچنے سے اموات بھی ہوئی ہیں جو انتہائی افسوس ناک امر ہے۔ امدادی سامان کی تقسیم کے لیے مناسب اور درست طریقہ اپنایا جائے اور فوٹو سیشن کے لیے عوام کو جمع نہ کیا جائے، جو بھی حکومتی ادارے ، سیاسی وسماجی شخصیات راشن تقسیم کرتی ہیں وہ عام آدمی کی عزت نفس کو بھی مجروح نہ کریں اور طبی ماہرین کی بتائی ہوئی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے راشن اور امدادی سامان کی تقسیم کی جائے۔ نہ جانے ایسا تاثر کیوں ابھر رہا ہے کہ حکومتی ایوانوں میں بیٹھے وزیر اب بھی سیاست چمکانے میں لگے ہیں۔ انھیں اب بھی پوائنٹ اسکورنگ کی پڑی ہے۔
وفاقی وزراء اور مشیر، سندھ حکومت پر برس رہے ہیں جب کہ سندھ کے وزراء بھی تلخ لہجے میں جواب دے رہے ہیں۔ یہ وقت سیاسی چپقلش سے پرہیز کرنے اور عوام کی خدمت بجا لانے کا ہے ہمارے سیاستدان اور سیاسی پارٹیوں کو اس سلسلے میں بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں یہ بات کیوں بھول رہی ہیں کہ ملک کا غریب اور مستحق طبقہ جو ملک کی اکثریت میں ہے وہ پریشانی میں مبتلا ہے، انھیں اپنی اداؤں پر غور کرنا چاہیے اور اپنی ساری توجہ عوام کی خدمت پر مرکوز کرنی چاہیے۔
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی چوہدری فواد نے بتایا ہے کہ پاکستان، کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کے کلینیکل ٹرائل کا پہلا مرحلہ جلد شرو ع کرے گا۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کووڈ۔19کی عالمی وباء کے باعث شرح اموات میں کمی کے لیے عالمی کوششوں میں پاکستان کا یہ پہلا اقدام ہے۔ جلد ہی پاکستان کورونا وائرس کو شکست دینے والے ممالک فہرست میں شامل ہوگا۔
ڈاکٹر عطا الرحمٰن کی زیر قیادت ایک ٹیم کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے عالمی ادارہ صحت کے ساتھ تعاون کررہی ہے۔ بلاشبہ یہ اطلاع اور کاوش انتہائی خوش کن ہے کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لیے۔ حکومت اور عوام کورونا وائرس پر مکمل قابو پانے کے لیے ایک پیج پر آجائیں تو انشاء اللہ آخری فتح انسانیت کی ہوگی۔