حکمران کی نیکیاں
ہماری آج کی حکومت کیسی ہے اس کا پتہ ہمیں عمائدین سلطنت سے نہیں مل سکتا۔
نصف صدی سے زائد پر محیط اپنی صحافتی زندگی میں کئی حکمران دیکھے ہیںاور ان کو بھگتا بھی ہے، ان کی اچھائیاں اور برائیاں عوام بھگتتے رہے ہیں ۔ بطورایک اخبار نویس ہر حکمران سے تعلق بھی رہا ہے، اپنی عقل سمجھ کے مطابق اپنے کالموں کے ذریعے اور بالمشافہ ملاقاتوں میں ان کو اپنی یعنی عوام کی بات سمجھانے کی کوشش کی ۔ کسی نے ہماری سن لی اور کوئی ہماری سمجھ نہ سکا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو بھی حکمران مل سکا، میں نے یہی عرض کیا کہ آپ حکمرانوں والی نیکیاں کریں اور خلق خدا کو ان نیکیوں کی برکات سے مستفید ہونے دیں۔ مرحوم و مغفور صدر ضیاء الحق جو یونیفارم میں قتل کیے گئے اور فقہ کے مطابق بلاشبہ شہید ہیں، نماز روزہ کے پابند انسان تھے اور ان کی ذات کے ساتھ کوئی بدی منسوب نہیں تھی ۔ میری ان سے پہلی ملاقات قومی اسمبلی کی عمارت میں ہوئی جسکے بعد وہ مجھے اپنے ساتھ راولپنڈی لے گئے جہاں صدر صاحب کی رہائش گاہ تھی۔
مرحوم صدیق سالک بطور پریس سیکریٹری سامنے کی نشست پر بیٹھے تھے، اس پہلی ملاقات میں دوران گفتگوعرض کیا کہ جناب صدر آپکی عبادت آپکی ذات کے لیے ہے لیکن ایک حکمران کی نیکی وہ ہے جو عوام تک پہنچے اور عوام اس کی حکومت کی برکات سے مستفید ہوں ۔ صدیق سالک کا خیال تھا کہ میں نے ضیاء الحق کو پہلی ہی ملاقات میں ناراض کردیا ہے لیکن میرا خیال یہ تھا کہ میں نے غلط بات نہیں کی تھی کہ وہ ناراض ہوں گے، وہ مجھ سے زیادہ اس بات کو سمجھتے ہیں ۔ بعد میں میرا خیال درست ثابت ہوا اور مرحوم ضیاء الحق خصوصی شفقت فرماتے رہے۔
بات اس پر ختم نہیں ہوتی کہ کوئی کتنا عرصہ اقتدار میں رہا ،کیسے اقتدار میں آیا اورکیسے اقتدار سے رخصت ہوا ، اصل بات یہ ہے کہ کس نے ایک عام آدمی کے لیے کیا کیا ۔ وہ آدمی جو غریب ہے، بے سفارش ہے، بے اثر ہے اور سیاستدانوں کو جسکی ضرورت کبھی کبھار یعنی الیکشن میں پڑتی ہے، جب وہ اس سے ووٹ لینے کے لیے اس سے بات کرتے ہیں یا اس کے کسی علاقے کے کسی بااثر آدمی سے جسکے حکم پر وہ ووٹ دیا کرتا ہے ۔ کسی حکومت کی کامیابی یا ناکامی کا معیار یہ ہے کہ خلق خدا کو اس کے راج میں کتنا سکھ ملا کتنا دکھ ۔یہی وہ دکھ سکھ ہیں جو حکمرانوں اور خدا کے درمیان جزا یا سزا کا باعث بنتے ہیں۔
ہماری آج کی حکومت کیسی ہے اس کا پتہ ہمیں عمائدین سلطنت سے نہیں مل سکتا ۔ افسروں سے بھی اس کا پتہ نہیں چلتا اور نہ ہی حکومت کے اجرتی دانشور ہمیں اس کا پتہ دے سکتے ہیں ۔ ہمیں ا س کا پتہ اپنے آپ سے چلتا ہے، ہماری اپنی ذات ہمیں بتاتی ہے کہ حکومت کیسی ہے اور کیسے چل رہی ہے کیونکہ اقتدار کی ہر تان عوام پر آ کر ٹوٹتی ہے۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے بار بار ''الناس'' کی بات کی ہے یعنی انسانوں کی جس میں کسی مذہب اور عقیدے کا ذکر نہیں بلکہ فرمایا ہے کہ انسانوں کو کس کے اقتدار میں نفع ملتا ہے اور اﷲ تعالیٰ نے اپنے آپ کو'الناس' کے رب سے یاد کیا ہے کیونکہ وہ انسانوں کا خدا ہے، صرف مومنین کا خدا نہیں ہے ۔ الناس یعنی عوام کے دل جانتے ہیں کہ ان کی حکومت کیسی ہے اور حکمران اگر اپنے دل میں جھانک کر دیکھیں تو ان پر بھی روشن ہے کہ ان کی حکومت کیسی ہے کیونکہ انسان کا دل کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔
کوئی حکمران ظاہر میں انسانوں کی نظروں میں بہت نیک ہو سکتا ہے، لوگ دیکھتے ہیں کہ وہ نمازیں پڑھتا ہے روزے رکھتا ہے اور کھلی برائیوں سے دور دکھائی دیتا ہے لیکن کسی حکمران کی نیکی اس کی نماز روزہ نہیں ہے اس کی نیکی یہ ہے کہ اس سے عام انسانوں کو کیا نفع ملتا ہے ۔ نماز روزہ جیسی عبادات کسی کی ذات کے لیے ہوتی ہیں ، ان کا ثواب کسی دوسرے کو نہیں مل سکتا، حکمران کی نیکی وہ ہے کہ اس کی برکت عوام تک پہنچے۔
جدید دور کے حکمرانوں میں کشکول توڑمیاں نواز شریف ہوں یا روٹی کپڑا مکان کی علمبردارشہید محترمہ بینظیر بھٹو ، سب سے پہلے پاکستان والے پرویز مشرف ہوں یا حادثاتی حکمران آصف زرداری اور نئے پاکستان والے عمران خان ، سب سے بطور اخبار نویس تعلق رہا اور اسی تعلق کی بنا پر میں ان کی خدمت میں عرض کرتا رہا کہ وہ بقائے اقتدار کی خاطر اپنے حواریوں کو راضی کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ عوام پر بھی توجہ دیں جن کی زندگی دکھوں سے بھر گئی ہے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ سڑکوں پر سر عام گاڑیوں والوں سے چھینا جھپٹی شروع ہو گئی ہے۔
میں لاہور کی ایک متمول آبادی ڈیفنس میں رہتا ہوں جسکی سڑکیںاور چوراہے بھی محفوظ نہیں رہے اور پہلی دفعہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے ۔ میں یہ اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ عوام کی روزمرہ مشکلات اب یہاں تک بڑھ گئی ہیں کہ لاہومیںپوش ایریاز بھی محفوظ نہیں رہے، عوام مصائب کا شکار ہیں، زندگی مشکل ہو گئی ہے، اس لیے غریب لوگ چھینا جھپٹی پر مجبور ہو گئے ہیں۔
میں اپنے موجودہ حکمران عمران خان سے عرض کرونگا کہ وہ عوام سے لاپروا نہ کوئی روایتی جاگیردار ہیں اور نہ کسی غیر ملک سے آئے ہیں بلکہ وہ تو لاہور کے زمان پارک میں پلے بڑھے ہیں اور کرکٹ میں عروج حاصل کرنے کے بعد پاکستانی عوام نے ان کو اقتدار کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے ۔ انھوں نے پاکستان کے سب سے پہلے کینسر اسپتال کی بنیاد رکھی اور اس کو کامیابی سے مکمل کیا اس لیے وہ عوام کے مسائل ماضی کے کسی بھی حکمران سے زیادہ سمجھ سکتے ہیں ۔
بین الاقوامی دنیا میں ان کی پذیرائی کی جاتی ہے، ان کو اپنے مقام و مرتبے کو استعمال کرتے ہوئے عوام کے دکھوں کا مداوا کرنا چاہیے، اگر ان کو بھی عوام کی پروا نہیں ہو گی تو پھر کون کس کے پاس فریاد لے کر جائے ۔ حکمران کو عوام کے بھلائی کے کاموں سے نیکیاں سمیٹنی چاہئیں، وہ اپنی کمزورسیاسی اپوزیشن سے مطمئن نہ رہیں، عوام کی اپوزیشن کو دھیان میں رکھیں جو حدسے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اور خاص طور پر موجودہ حالات میں جب سب کچھ بند کر دیا گیا ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو بھی حکمران مل سکا، میں نے یہی عرض کیا کہ آپ حکمرانوں والی نیکیاں کریں اور خلق خدا کو ان نیکیوں کی برکات سے مستفید ہونے دیں۔ مرحوم و مغفور صدر ضیاء الحق جو یونیفارم میں قتل کیے گئے اور فقہ کے مطابق بلاشبہ شہید ہیں، نماز روزہ کے پابند انسان تھے اور ان کی ذات کے ساتھ کوئی بدی منسوب نہیں تھی ۔ میری ان سے پہلی ملاقات قومی اسمبلی کی عمارت میں ہوئی جسکے بعد وہ مجھے اپنے ساتھ راولپنڈی لے گئے جہاں صدر صاحب کی رہائش گاہ تھی۔
مرحوم صدیق سالک بطور پریس سیکریٹری سامنے کی نشست پر بیٹھے تھے، اس پہلی ملاقات میں دوران گفتگوعرض کیا کہ جناب صدر آپکی عبادت آپکی ذات کے لیے ہے لیکن ایک حکمران کی نیکی وہ ہے جو عوام تک پہنچے اور عوام اس کی حکومت کی برکات سے مستفید ہوں ۔ صدیق سالک کا خیال تھا کہ میں نے ضیاء الحق کو پہلی ہی ملاقات میں ناراض کردیا ہے لیکن میرا خیال یہ تھا کہ میں نے غلط بات نہیں کی تھی کہ وہ ناراض ہوں گے، وہ مجھ سے زیادہ اس بات کو سمجھتے ہیں ۔ بعد میں میرا خیال درست ثابت ہوا اور مرحوم ضیاء الحق خصوصی شفقت فرماتے رہے۔
بات اس پر ختم نہیں ہوتی کہ کوئی کتنا عرصہ اقتدار میں رہا ،کیسے اقتدار میں آیا اورکیسے اقتدار سے رخصت ہوا ، اصل بات یہ ہے کہ کس نے ایک عام آدمی کے لیے کیا کیا ۔ وہ آدمی جو غریب ہے، بے سفارش ہے، بے اثر ہے اور سیاستدانوں کو جسکی ضرورت کبھی کبھار یعنی الیکشن میں پڑتی ہے، جب وہ اس سے ووٹ لینے کے لیے اس سے بات کرتے ہیں یا اس کے کسی علاقے کے کسی بااثر آدمی سے جسکے حکم پر وہ ووٹ دیا کرتا ہے ۔ کسی حکومت کی کامیابی یا ناکامی کا معیار یہ ہے کہ خلق خدا کو اس کے راج میں کتنا سکھ ملا کتنا دکھ ۔یہی وہ دکھ سکھ ہیں جو حکمرانوں اور خدا کے درمیان جزا یا سزا کا باعث بنتے ہیں۔
ہماری آج کی حکومت کیسی ہے اس کا پتہ ہمیں عمائدین سلطنت سے نہیں مل سکتا ۔ افسروں سے بھی اس کا پتہ نہیں چلتا اور نہ ہی حکومت کے اجرتی دانشور ہمیں اس کا پتہ دے سکتے ہیں ۔ ہمیں ا س کا پتہ اپنے آپ سے چلتا ہے، ہماری اپنی ذات ہمیں بتاتی ہے کہ حکومت کیسی ہے اور کیسے چل رہی ہے کیونکہ اقتدار کی ہر تان عوام پر آ کر ٹوٹتی ہے۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے بار بار ''الناس'' کی بات کی ہے یعنی انسانوں کی جس میں کسی مذہب اور عقیدے کا ذکر نہیں بلکہ فرمایا ہے کہ انسانوں کو کس کے اقتدار میں نفع ملتا ہے اور اﷲ تعالیٰ نے اپنے آپ کو'الناس' کے رب سے یاد کیا ہے کیونکہ وہ انسانوں کا خدا ہے، صرف مومنین کا خدا نہیں ہے ۔ الناس یعنی عوام کے دل جانتے ہیں کہ ان کی حکومت کیسی ہے اور حکمران اگر اپنے دل میں جھانک کر دیکھیں تو ان پر بھی روشن ہے کہ ان کی حکومت کیسی ہے کیونکہ انسان کا دل کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔
کوئی حکمران ظاہر میں انسانوں کی نظروں میں بہت نیک ہو سکتا ہے، لوگ دیکھتے ہیں کہ وہ نمازیں پڑھتا ہے روزے رکھتا ہے اور کھلی برائیوں سے دور دکھائی دیتا ہے لیکن کسی حکمران کی نیکی اس کی نماز روزہ نہیں ہے اس کی نیکی یہ ہے کہ اس سے عام انسانوں کو کیا نفع ملتا ہے ۔ نماز روزہ جیسی عبادات کسی کی ذات کے لیے ہوتی ہیں ، ان کا ثواب کسی دوسرے کو نہیں مل سکتا، حکمران کی نیکی وہ ہے کہ اس کی برکت عوام تک پہنچے۔
جدید دور کے حکمرانوں میں کشکول توڑمیاں نواز شریف ہوں یا روٹی کپڑا مکان کی علمبردارشہید محترمہ بینظیر بھٹو ، سب سے پہلے پاکستان والے پرویز مشرف ہوں یا حادثاتی حکمران آصف زرداری اور نئے پاکستان والے عمران خان ، سب سے بطور اخبار نویس تعلق رہا اور اسی تعلق کی بنا پر میں ان کی خدمت میں عرض کرتا رہا کہ وہ بقائے اقتدار کی خاطر اپنے حواریوں کو راضی کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ عوام پر بھی توجہ دیں جن کی زندگی دکھوں سے بھر گئی ہے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ سڑکوں پر سر عام گاڑیوں والوں سے چھینا جھپٹی شروع ہو گئی ہے۔
میں لاہور کی ایک متمول آبادی ڈیفنس میں رہتا ہوں جسکی سڑکیںاور چوراہے بھی محفوظ نہیں رہے اور پہلی دفعہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے ۔ میں یہ اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ عوام کی روزمرہ مشکلات اب یہاں تک بڑھ گئی ہیں کہ لاہومیںپوش ایریاز بھی محفوظ نہیں رہے، عوام مصائب کا شکار ہیں، زندگی مشکل ہو گئی ہے، اس لیے غریب لوگ چھینا جھپٹی پر مجبور ہو گئے ہیں۔
میں اپنے موجودہ حکمران عمران خان سے عرض کرونگا کہ وہ عوام سے لاپروا نہ کوئی روایتی جاگیردار ہیں اور نہ کسی غیر ملک سے آئے ہیں بلکہ وہ تو لاہور کے زمان پارک میں پلے بڑھے ہیں اور کرکٹ میں عروج حاصل کرنے کے بعد پاکستانی عوام نے ان کو اقتدار کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے ۔ انھوں نے پاکستان کے سب سے پہلے کینسر اسپتال کی بنیاد رکھی اور اس کو کامیابی سے مکمل کیا اس لیے وہ عوام کے مسائل ماضی کے کسی بھی حکمران سے زیادہ سمجھ سکتے ہیں ۔
بین الاقوامی دنیا میں ان کی پذیرائی کی جاتی ہے، ان کو اپنے مقام و مرتبے کو استعمال کرتے ہوئے عوام کے دکھوں کا مداوا کرنا چاہیے، اگر ان کو بھی عوام کی پروا نہیں ہو گی تو پھر کون کس کے پاس فریاد لے کر جائے ۔ حکمران کو عوام کے بھلائی کے کاموں سے نیکیاں سمیٹنی چاہئیں، وہ اپنی کمزورسیاسی اپوزیشن سے مطمئن نہ رہیں، عوام کی اپوزیشن کو دھیان میں رکھیں جو حدسے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اور خاص طور پر موجودہ حالات میں جب سب کچھ بند کر دیا گیا ہے۔