کورونا وائرس ویکسین امید کی کرن

عالمی ادارہ صحت کے مطابق، یہ دنیا میں کووڈ 19 کی پہلی ویکسین ہے جو کلینیکل ٹرائلز کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوئی ہے

عالمی ادارہ صحت کے مطابق، یہ دنیا میں کووڈ 19 کی پہلی ویکسین ہے جو کلینیکل ٹرائلز کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوئی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کورونا وائرس کے خلاف چین کی جدوجہد میں تحقیق اب تجربے سے ہم آہنگ ہوا چاہتی ہے۔ چین نے کووڈ 19 کے خلاف مزید تین ویکسینز کے کلینیکل ٹرائلز کی اجازت دے دی ہے۔ محققین کی کوشش ہے کہ اس حوالے سے دنیا کو جلد اچھی خبر دی جائے۔ چین کے انسٹی ٹیوٹ آف ملٹری میڈیسن کی جانب سے تیار کی جانے والی ایک ویکسین کا کلینیکل ٹرائل پہلے ہی جاری ہے۔

اس ویکسین کے کلینیکل ٹرائل کا پہلا مرحلہ مارچ کے آخر میں مکمل ہوا اور دوسرا مرحلہ 12 اپریل کو شروع ہوا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، یہ دنیا میں کووڈ 19 کی پہلی ویکسین ہے جو کلینیکل ٹرائلز کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوئی ہے۔

13 اپریل کو ووہان کے ایک 84 سالہ بزرگ جیانگ زینگ جن اپنی بیٹی کے ہمراہ کلینک میں تشریف لائے۔ وہ پہلے عمر رسیدہ ترین رضاکار بن گئے ہیں جنہیں کلینیکل ٹرائل کے دوسرے مرحلے میں کووڈ 19 کے خلاف مدافعت مضبوط بنانے کےلیے ویکسین دی گئی۔ ویکسین تیار کرنے والی ٹیم کے سربراہ نے کہا کے کووڈ 19 کا سب سے زیادہ شکار عمر رسیدہ افراد ہوئے ہیں۔ یہ ویکسین انہیں وبا کے خلاف تحفظ فراہم کرے گی۔

یہ ایک ''ویکٹر ویکسین'' ہے جس کی تیاری میں کورونا وائرس کی بیرونی سطح پر موجود کانٹے نما ابھاروں (اسپائکس) میں موجود پروٹین کے جینز کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ یہ پروٹین انسان کے جسم میں داخل ہوتے ہی جسم میں موجود مدافعتی نظام کے ساتھ مل کر کووڈ 19 وائرس کے خلاف ایک حفاظتی حصار تعمیر کرتی ہے جس سے وبا کے خلاف مدافعت کا نظام نہایت مؤثر اور مضبوط ہو جاتا ہے۔

جب کسی بھی ویکسین لینے والے شخص پر کورونا وائرس حملہ آور ہوگا تو انسانی جسم کوورنا وائرس کے پر موجود ان کانٹے نما ابھاروں کو شناخت کرکے اس کا حملہ پسپا کر دے گا۔



اس ویکسین کے کلینیکل ٹرائل کے پہلے مرحلے میں اسے 108 رضا کاروں پر استعمال کیا گیا۔ یہ ٹرائل کامیابی کے ساتھ 27 مارچ کو مکمل ہوا تھا۔ ایسے تمام رضاکار جن پر ویکسین استعمال کی گئی، انہیں سخت طبی حفاظتی حصار میں ماہرین کے زیر نگرانی رکھا گیا جو ان کے مسلسل ٹیسٹ کرتے رہے۔ یہ بات نہایت خوش آئند اور تسلی بخش ہے کہ ان افراد پر اس ویکسین کے کسی بھی قسم کے منفی اثرات نہیں دیکھے گئے۔


دوسرے مرحلے میں 500 رضاروں پر اس ویکسین کو استعمال کیا جائے گا۔ دوسرے مرحلے کے آغاز ہی میں 13 اپریل کی شام پانچ بجے تک 273 رضاروں کو ابتدائی طور پر یہ ویکسین دی گئی۔ امید ہے کہ یہ دوسرا ٹرائل بھی کامیابی کے ساتھ جلد مکمل ہوگا۔ اسی طرح چائنا نیشنل فارماسیوٹیکل گروپ کے زیر نگرانی ووہان کے انسٹی ٹیوٹ آف وائرالوجی کی جانب سے تیار کی جانے والی ان ایکٹیویٹڈ ویکسین کو بھی 12 اپریل سے کلینیکل ٹرائل کی منظوری دے گئی۔

بیجنگ میں کام کرنے والے تحقیقی ادارے سائنو ویک کو بھی 13 اپریل کو ایک ان ایکٹیویٹڈ ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز کی اجازت دی گئی۔

واضح رہے کہ ان ایکٹیویٹڈ ویکسین میں مطلوبہ وائرس/ پیتھوجن کو غیر مؤثر کرکے انسانی جسم میں داخل کیا جاتا ہے۔ پیتھوجن کی پروٹین انسان کے مدافعتی نظام کو تقویت پہنچانے کے ساتھ ساتھ باہر سے جسم میں داخل ہونے والے وائرس کے خلاف ہتھیار کا کام کرتی ہے۔

دنیا بھر کی طرح چین میں بھی ویکسین تیاری اعلیٰ حفاظتی معیارات کی حامل P3 لیبارٹریز میں سخت نگرانی کے ماحول میں کی جاتی ہے۔ ابتدائی مراحل میں ان ویکسینز کو جانوروں پر استعمال کیا جاتا ہے۔ باربار استعمال کے بعد ان ویکسینز کے زہریلے اور مضر اثرات کو کم سے کم کیا جاتا ہے۔ کلینیکل ٹرائل سے پہلے انہیں کئی بار اس طرح کے حفاظتی اور تجرباتی مدارج سے گزارا جاتا ہے۔ یہی وہ حفاظتی اقدامات ہیں جن کی وجہ سے ویکسین کی تیاری میں اتنا وقت لگ رہا ہے۔ ان مراحل کے بعد چین کی ''نیشنل میڈیکل پروڈکٹس ایڈمنسٹریشن'' کے ماہرین مکمل مطالعہ اور تسلی کے بعد ان ویکسینز کے استعمال کی اجازت دیتے ہیں۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران چین نے ویکسین کی تیاری اور تحقیق کے شعبے میں کام کے طریقہ کار کو بہت زیادہ مضبوط اور مؤثر بنایا ہے۔ چین کی جانب سے ہیپاٹائٹس کے خلاف تیار کی جانے والی ایکٹیویٹڈ ویکیسن دنیا بھر میں اپنے معیار کو منوا چکی ہے۔ اس طرح چین کی جانب سے تیار کی جانے والی انفلوئنز اور پولیو ویکسینز بھی نہایت مؤثر اور معیاری ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجود دوست چین میں وبا کے خلاف اختیار کئے جانے والے اقدامات کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ چین نے وبا کے کنٹرول، وبا کے شکار مریضوں کے علاج اور معمولات زندگی کی بحالی کے حوالے سے نہایت احسن اقدامات اختیار کیے ہیں۔ اب ویکسین کی تیاری دنیا بھر کےلیے تازہ ہوا کا جھونکا اور امید کی کرن ثابت ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story