لاک ڈاؤن کراچی میں بیروزگار مزدوروں کو آبائی علاقے جانے میں مشکلات
مزدوروں کی اپنے آبائی علاقوں کی جانب روانگی ایک ماہ سے جاری ہے،بیشتر مجبوراً طویل سفرکیلیے رکشاکابھی استعمال کرنے لگے
کراچی میں لاک ڈاؤن کے باعث بے روزگار والے مزدوروں کی اپنے آبائی علاقوں کی جانب روانگی کا عمل ایک مہینہ گزرجانے کے بعد بھی جاری ہے جب کہ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے باعث انہیں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
گزشتہ 11 سال سے کراچی ملک کے مختلف شروں کے لیے ایمبولینس چلانے والے ایدھی فاؤنڈیشن کے ڈرائیور جاوید نے ایکسپریس کو بتایا کہ کراچی میں لاک ڈاؤن بالخصوص پبلک ٹرانسپورٹ معطل ہونے کے بعد ہائی ویز پر آٹو رکشا کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جن کے ذریعے کراچی میں کام کرنے والا مزدور طبقہ بے روزگار ہونے کے بعد اپنے علاقوں کو جا رہے ہوتے ہیں، ان میں بعض لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ بھی جارہے ہوتے ہیں، اوران کا سامان رکشا کی چھتوں پر رسیوں کی مدد سے باندھا ہوا ہوتا ہے۔
جاوید نے بتایا کہ انھوں نے اسی ہفتے کراچی حیدرآباد موٹر وے پر جاتے ہوئے ایک رکشا میں سوار خاندان کو دیکھا جو رکشا میں بہاولپور جارہا تھا، ہائی و ے پر رکشا کی سواری کرنا انتہائی خطرناک ہوتا ہے، تین دن قبل نوابشاہ جاتے ہوئے انھوں نے تین چار رکشا دیکھے جو ایک دوسرے کے آگے پیچھے جارہے تھے، اچانک ایک چلتے ہوئے رکشا سے ایک 12 سالہ بچہ گر گیا تاہم وہ خوش قسمتی سے بچ گیا کیونکہ اس وقت ان کے پیچھے کوئی گاڑی نہیں تھی۔
واضح رہے کہ حکومت سندھ کی جانب سے کرونا وائرس کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے کراچی سمیت صوبے بھر میں لاک ڈاؤن کرنے کے باعث شہر میں کام کرنے والے لاکھوں کی تعداد میں مزدور بے روزگار ہوگئے جو گزشتہ مہینے سے اپنے اپنے علاقوں کی طرف جارہے ہیں، ان کے لیے مشکلات میں اس وقت اضافہ ہوا جب 19 مارچ کو صوبے بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ بھی بند ہوگئی جس کے بعد 25 مارچ کو پاکستان ریلوے نے بھی ٹرین سروس بند کردی۔
ٹرین سروس بند ہونے کے آخری دن ہزاروں لوگوں کو ٹرینوں میں کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں ملی تھی جس کے باعث ہزاروں لوگوں نے ٹرینوں کی چھتوں پر سفر کیا تھا، مزدور رہنما ناصر منصور کے مطابق کراچی میں ملک کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے مزدوروں وں کی تعداد 20 لاکھ سے زیادہ ہے۔
ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ جو کپڑے کی ملوں، گارمنٹ فیکٹریوں، شادی ہال، چائے اور کھانے کے ریسٹورنٹ، دکانوں اور دیگر جگہوں پر کام کرتے تھے، لاک ڈاؤن کے بعد وہ بے روزگار ہوگئے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ان مزدوروں کی اکثریت کے پاس یہاں رہنے کے لیے اپنے گھر میں نہیں ہیں اور وہ چھوٹے چھوٹے کمرے کرائے پر لے کر ایک ایک کمرے میں کئی افراد رہتے تھے، بسیں اور ٹرینیں بند ہوجانے کے بعد ان کی بڑی تعداد کراچی میں تھی جبکہ لاک ڈاؤن کا دورانیہ بڑھنے کے بعد دیگرباقی لوگ بھی اپنے اپنے علاقوں کی جانب جارہے ہیں، طویل سفر کے لیے کار مناسب متبادل ہے لیکن مزدور طبقہ اسے افورڈ نہیں کرسکتے یہ ہی وجہ ہے کہ وہ رکشا جیسی خطرناک سواری پر جارہے ہیں۔
گزشتہ 11 سال سے کراچی ملک کے مختلف شروں کے لیے ایمبولینس چلانے والے ایدھی فاؤنڈیشن کے ڈرائیور جاوید نے ایکسپریس کو بتایا کہ کراچی میں لاک ڈاؤن بالخصوص پبلک ٹرانسپورٹ معطل ہونے کے بعد ہائی ویز پر آٹو رکشا کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جن کے ذریعے کراچی میں کام کرنے والا مزدور طبقہ بے روزگار ہونے کے بعد اپنے علاقوں کو جا رہے ہوتے ہیں، ان میں بعض لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ بھی جارہے ہوتے ہیں، اوران کا سامان رکشا کی چھتوں پر رسیوں کی مدد سے باندھا ہوا ہوتا ہے۔
جاوید نے بتایا کہ انھوں نے اسی ہفتے کراچی حیدرآباد موٹر وے پر جاتے ہوئے ایک رکشا میں سوار خاندان کو دیکھا جو رکشا میں بہاولپور جارہا تھا، ہائی و ے پر رکشا کی سواری کرنا انتہائی خطرناک ہوتا ہے، تین دن قبل نوابشاہ جاتے ہوئے انھوں نے تین چار رکشا دیکھے جو ایک دوسرے کے آگے پیچھے جارہے تھے، اچانک ایک چلتے ہوئے رکشا سے ایک 12 سالہ بچہ گر گیا تاہم وہ خوش قسمتی سے بچ گیا کیونکہ اس وقت ان کے پیچھے کوئی گاڑی نہیں تھی۔
واضح رہے کہ حکومت سندھ کی جانب سے کرونا وائرس کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے کراچی سمیت صوبے بھر میں لاک ڈاؤن کرنے کے باعث شہر میں کام کرنے والے لاکھوں کی تعداد میں مزدور بے روزگار ہوگئے جو گزشتہ مہینے سے اپنے اپنے علاقوں کی طرف جارہے ہیں، ان کے لیے مشکلات میں اس وقت اضافہ ہوا جب 19 مارچ کو صوبے بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ بھی بند ہوگئی جس کے بعد 25 مارچ کو پاکستان ریلوے نے بھی ٹرین سروس بند کردی۔
ٹرین سروس بند ہونے کے آخری دن ہزاروں لوگوں کو ٹرینوں میں کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں ملی تھی جس کے باعث ہزاروں لوگوں نے ٹرینوں کی چھتوں پر سفر کیا تھا، مزدور رہنما ناصر منصور کے مطابق کراچی میں ملک کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے مزدوروں وں کی تعداد 20 لاکھ سے زیادہ ہے۔
ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ جو کپڑے کی ملوں، گارمنٹ فیکٹریوں، شادی ہال، چائے اور کھانے کے ریسٹورنٹ، دکانوں اور دیگر جگہوں پر کام کرتے تھے، لاک ڈاؤن کے بعد وہ بے روزگار ہوگئے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ان مزدوروں کی اکثریت کے پاس یہاں رہنے کے لیے اپنے گھر میں نہیں ہیں اور وہ چھوٹے چھوٹے کمرے کرائے پر لے کر ایک ایک کمرے میں کئی افراد رہتے تھے، بسیں اور ٹرینیں بند ہوجانے کے بعد ان کی بڑی تعداد کراچی میں تھی جبکہ لاک ڈاؤن کا دورانیہ بڑھنے کے بعد دیگرباقی لوگ بھی اپنے اپنے علاقوں کی جانب جارہے ہیں، طویل سفر کے لیے کار مناسب متبادل ہے لیکن مزدور طبقہ اسے افورڈ نہیں کرسکتے یہ ہی وجہ ہے کہ وہ رکشا جیسی خطرناک سواری پر جارہے ہیں۔