سندھ میں لاک ڈاؤن پر عملدرآمد میں مشکلات بازاروں میں ہجوم
پی ٹی آئی کے صوبائی رہنماؤں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ سندھ میں وزیراعلیٰ کی نالائقیاں چل رہی ہیں
سندھ حکومت کی جانب سے صوبے میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے جاری لاک ڈاؤن کو تقریبا ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے۔لاک ڈاؤن کے اس مرحلے میں سندھ حکومت نے ایس او پیز پر عمل درآمد کرنے کی یقین دہانی کے بعد وفاقی حکومت کے احکامات کی روشنی میں کئی صنعتی یونٹس کو کام کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
صنعتی یونٹس کھل جانے کے سبب مزدوروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ دوسری جانب حکومت سندھ اور تاجروں میں کامیاب مذاکرات کے بعد مختلف اشیاء کی مارکیٹوں کو مرحلہ وار کھولنے کی اجازت دی جائے گی،اس حوالے سے مختلف تجاویز پر مشتمل پلان تشکیل دیا گیا ہے،امکان ہے وزیراعلیٰ سندھ کی منظوری کے بعد شہر کی مارکیٹوں کو اس پلان میں شامل تجاویز اور ایس او پیز کے مطابق شام کے مخصوص کئے جانے والے اوقات تک کھولنے کی اجازت دی جائے گی۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی انتہائی ضروری ہو گی کہ جو احتیاطیں طے کی جائیں اُن پر ایس او پیز کے تحت عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے اور تاجروں کے ساتھ خریدار بھی تعاون کریں تاکہ کرونا وباء کے خاتمے کی صورت پیدا ہو سکے۔
شہر میں صنعتیں ر کھلنے سے ایک جانب بے روزگاری میں کمی آئے گی اور ملکی معیشت پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔وفاق اور سندھ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ غریب اور روزانہ اجرت پر کام کرنے والے افراد اور ان کے اہل خانہ کو مذید ریلیف پیکیجز دیں اور راشن کی شفاف تقسیم کے لیے مربوط میکنزم بنایا جائے۔
حکومت سندھ کی جانب سے کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤن کو شہریوں نے مذاق بنا لیا ہے۔وزیراعلی سندھ کے احکامات کے باوجود شہر کے مختلف علاقوں میں عوام کا ٹولیوں کی شکل میں بیٹھنا اور گھومنا پھرنا روز کا معمول ہے اور اب شہر میں باربر شاپس، الیکٹریشن، مکینک، چائے کے ہوٹل اور دیگر بند کاروبار کُھلنے شروع ہوگئے ہیں۔ گلیوں میں رات گئے تک مختلف دکانیں کھلی رہتی ہیں۔ شام پانچ بجے کے بعد دکانیں بند کرانے کی پاپندی پر بھی انتظامیہ اور پولیس اس طرح متحرک نظر نہیں آرہی جیسے لاک ڈاؤن کے پہلے ہفتہ میں سختی کی گئی تھی۔شہری ماسک پہننے کی لازمی پاپندی پر بھی عمل درآمد نہیں کر رہے۔
محدود اوقات میں کُھلنے والے لازمی کاروبار اور دکانوں پر سماجی فاصلوں کو یقینی بنانے کے لیے کوئی عملی اقدامات بھی نظر نہیں آرہے۔ شہر میں حکومتی لاک ڈاؤن صرف زبانی حد تک نافذ ہے عملی طور پر اس پر عمل درآمدکرانا شہریوں کے عدم تعاون کے سبب انتظامیہ کے لیے نہ ممکن ہوگیا ہے۔ حکومت سندھ نے ڈبل سواری سے متعلق صحافیوں،خواتین اور دیگر کو حاصل استشنیٰ کو ختم کردیا ہے،استشنیٰ ختم ہونے کی وجہ سے میڈیا کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشکلات کا سامنا ہے جبکہ شہر کے کئی علاقوں میں ڈبل سواری کی پاپندی پر بھی موثر عمل نہیں ہو رہا ہے۔
بیشتر موٹر سائیکلوں پر مردوں کے ساتھ خواتین اور بچے موجود ہوتے ہیں۔لاک ڈاؤن پر موثر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے شہر کے مضافاتی اور گنجان آبادی والے علاقوں میں کورونا کی وباء مذید پھیلنے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔اس حوالے سے کمشنر کراچی افتخار شالوانی کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں لاک ڈاؤن کے احکامات کی خلاف ورزی ہو رہی ہے وہاں ضلعی انتظامیہ،پولیس اور دیگرقانون نافذکرنے والے اداروں کو سخت کارروائی کے لیے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کا سلسلہ صوبے کے دیگرکئی اضلاع میں بھی جاری ہے۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ کراچی کے ضلع وسطی میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے، لیاری میں بھی بہت سارے کیسز آگئے ہیں جبکہ کیسز میں اضافہ میرے لیے پریشانی کی بات ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ کی زیرصدارت ڈویڑنل کمشنرز و ڈپٹی کمشنرز کا اجلاس ہو ا، مراد علی شاہ نے ہر ضلع میں کورونا مریضوں کی تعداد، سہولیات، ٹیسٹنگ سے متعلق معلومات سے آگاہی حاصل کی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے متعلقہ ڈی سیز کو زیادہ کیسز والے علاقوں میں وائرس کو کنٹرول کرنے کی ہدایت کی کہ وہ اپنے اپنے ضلعوں میں علاقوں کی نشاندہی کرکے ٹیسٹنگ شروع کروائیں، ٹیسٹنگ کٹس کی کوئی قلت نہیں ہے، لوگوں کو ماسک پہننے کی ہدایات کریں اور تمام ڈی سیز کورونا کے خلاف لڑائی میں مدد کریں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی وفاقی وزیر برائے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) اسد عمر کی وڈیو کانفرنس میں وزیراعلیٰ ہاؤس سے شرکت کی۔اجلاس میں کورونا وائرس کے حوالے سے نیشنل ڈیٹا بیس قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا، ترجمان وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق یہ ڈیٹا بیس قومی، صوبائی، ڈویڑنل اور ضلعی سطح پر باہم منسلک ہوگا۔
وفاق اور سندھ سرکار ہو یا تمام سیاسی وپارلیمانی جماعتیں اس وقت کورونا کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک قومی پلان پر متفق نہیں ہو سکی ہیں۔ سندھ کی صوبائی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں محاذ آرائی کا سلسلہ جاری ہے۔ تحریک انصاف کے صوبائی رہنماؤں نے ایک پریس کانفرنس میں کہنا ہے کہ سندھ میں وزیراعلیٰ کی طرف سے نالائقیاں چل رہی ہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ سندھ کے اندر دو نمبر لاک ڈاؤن چل رہا ہے۔ ڈبل سواری کے قانون کی سخت مذمت کرتے ہیں اس قانون کو ختم کیا جائے۔انہوں نے وزیر صحت سندھ کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ پی ٹی آئی رہنماؤں نے الزام عائد کیا کہ صوبے میں جو مرتا ہے سندھ حکومت اس پر اسٹمپ لگا دیتی ہے کہ وہ کورونا سے مرا۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنما سینیٹر شیری رحمن نے کہا ہے کہ یو این او کے مطابق پاکستان میں کرونا کی صورتحال خطرناک ہوسکتی ہے ایسے میں وفاق اور صوبوں کا ایک ہی بیانیہ ہونا چاہیے۔ ہمیں کورونا سے لڑنا ہے آپس میں نہیں۔ ہم بھی تنقید کا جواب دے سکتے ہیں مگر بلاول بھٹو نے وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بنانے سے منع کیا ہے۔
وفاقی حکومت اور علمائے کرام کی جانب سے عبادات کے لیے ایس او پیز طے ہونے کے بعد کراچی سمیت سندھ بھر کی مساجد اور امام بارگاہوں میں با جماعت نماز کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے پارٹی کے اہم رہنما اور مستعفیٰ رکن قومی اسمبلی انجینئر نجیب ہارون کو منانے کاسلسلہ جاری ہے،کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ اپنی قومی اسمبلی کی نشست پر دیے گئے استعفیٰ کو واپس لے لیں، ان کا استعفیٰ تاحال منظور نہیں کیا گیا ہے۔
صنعتی یونٹس کھل جانے کے سبب مزدوروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ دوسری جانب حکومت سندھ اور تاجروں میں کامیاب مذاکرات کے بعد مختلف اشیاء کی مارکیٹوں کو مرحلہ وار کھولنے کی اجازت دی جائے گی،اس حوالے سے مختلف تجاویز پر مشتمل پلان تشکیل دیا گیا ہے،امکان ہے وزیراعلیٰ سندھ کی منظوری کے بعد شہر کی مارکیٹوں کو اس پلان میں شامل تجاویز اور ایس او پیز کے مطابق شام کے مخصوص کئے جانے والے اوقات تک کھولنے کی اجازت دی جائے گی۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی انتہائی ضروری ہو گی کہ جو احتیاطیں طے کی جائیں اُن پر ایس او پیز کے تحت عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے اور تاجروں کے ساتھ خریدار بھی تعاون کریں تاکہ کرونا وباء کے خاتمے کی صورت پیدا ہو سکے۔
شہر میں صنعتیں ر کھلنے سے ایک جانب بے روزگاری میں کمی آئے گی اور ملکی معیشت پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔وفاق اور سندھ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ غریب اور روزانہ اجرت پر کام کرنے والے افراد اور ان کے اہل خانہ کو مذید ریلیف پیکیجز دیں اور راشن کی شفاف تقسیم کے لیے مربوط میکنزم بنایا جائے۔
حکومت سندھ کی جانب سے کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤن کو شہریوں نے مذاق بنا لیا ہے۔وزیراعلی سندھ کے احکامات کے باوجود شہر کے مختلف علاقوں میں عوام کا ٹولیوں کی شکل میں بیٹھنا اور گھومنا پھرنا روز کا معمول ہے اور اب شہر میں باربر شاپس، الیکٹریشن، مکینک، چائے کے ہوٹل اور دیگر بند کاروبار کُھلنے شروع ہوگئے ہیں۔ گلیوں میں رات گئے تک مختلف دکانیں کھلی رہتی ہیں۔ شام پانچ بجے کے بعد دکانیں بند کرانے کی پاپندی پر بھی انتظامیہ اور پولیس اس طرح متحرک نظر نہیں آرہی جیسے لاک ڈاؤن کے پہلے ہفتہ میں سختی کی گئی تھی۔شہری ماسک پہننے کی لازمی پاپندی پر بھی عمل درآمد نہیں کر رہے۔
محدود اوقات میں کُھلنے والے لازمی کاروبار اور دکانوں پر سماجی فاصلوں کو یقینی بنانے کے لیے کوئی عملی اقدامات بھی نظر نہیں آرہے۔ شہر میں حکومتی لاک ڈاؤن صرف زبانی حد تک نافذ ہے عملی طور پر اس پر عمل درآمدکرانا شہریوں کے عدم تعاون کے سبب انتظامیہ کے لیے نہ ممکن ہوگیا ہے۔ حکومت سندھ نے ڈبل سواری سے متعلق صحافیوں،خواتین اور دیگر کو حاصل استشنیٰ کو ختم کردیا ہے،استشنیٰ ختم ہونے کی وجہ سے میڈیا کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشکلات کا سامنا ہے جبکہ شہر کے کئی علاقوں میں ڈبل سواری کی پاپندی پر بھی موثر عمل نہیں ہو رہا ہے۔
بیشتر موٹر سائیکلوں پر مردوں کے ساتھ خواتین اور بچے موجود ہوتے ہیں۔لاک ڈاؤن پر موثر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے شہر کے مضافاتی اور گنجان آبادی والے علاقوں میں کورونا کی وباء مذید پھیلنے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔اس حوالے سے کمشنر کراچی افتخار شالوانی کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں لاک ڈاؤن کے احکامات کی خلاف ورزی ہو رہی ہے وہاں ضلعی انتظامیہ،پولیس اور دیگرقانون نافذکرنے والے اداروں کو سخت کارروائی کے لیے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کا سلسلہ صوبے کے دیگرکئی اضلاع میں بھی جاری ہے۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ کراچی کے ضلع وسطی میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے، لیاری میں بھی بہت سارے کیسز آگئے ہیں جبکہ کیسز میں اضافہ میرے لیے پریشانی کی بات ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ کی زیرصدارت ڈویڑنل کمشنرز و ڈپٹی کمشنرز کا اجلاس ہو ا، مراد علی شاہ نے ہر ضلع میں کورونا مریضوں کی تعداد، سہولیات، ٹیسٹنگ سے متعلق معلومات سے آگاہی حاصل کی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے متعلقہ ڈی سیز کو زیادہ کیسز والے علاقوں میں وائرس کو کنٹرول کرنے کی ہدایت کی کہ وہ اپنے اپنے ضلعوں میں علاقوں کی نشاندہی کرکے ٹیسٹنگ شروع کروائیں، ٹیسٹنگ کٹس کی کوئی قلت نہیں ہے، لوگوں کو ماسک پہننے کی ہدایات کریں اور تمام ڈی سیز کورونا کے خلاف لڑائی میں مدد کریں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی وفاقی وزیر برائے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) اسد عمر کی وڈیو کانفرنس میں وزیراعلیٰ ہاؤس سے شرکت کی۔اجلاس میں کورونا وائرس کے حوالے سے نیشنل ڈیٹا بیس قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا، ترجمان وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق یہ ڈیٹا بیس قومی، صوبائی، ڈویڑنل اور ضلعی سطح پر باہم منسلک ہوگا۔
وفاق اور سندھ سرکار ہو یا تمام سیاسی وپارلیمانی جماعتیں اس وقت کورونا کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک قومی پلان پر متفق نہیں ہو سکی ہیں۔ سندھ کی صوبائی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں محاذ آرائی کا سلسلہ جاری ہے۔ تحریک انصاف کے صوبائی رہنماؤں نے ایک پریس کانفرنس میں کہنا ہے کہ سندھ میں وزیراعلیٰ کی طرف سے نالائقیاں چل رہی ہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ سندھ کے اندر دو نمبر لاک ڈاؤن چل رہا ہے۔ ڈبل سواری کے قانون کی سخت مذمت کرتے ہیں اس قانون کو ختم کیا جائے۔انہوں نے وزیر صحت سندھ کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ پی ٹی آئی رہنماؤں نے الزام عائد کیا کہ صوبے میں جو مرتا ہے سندھ حکومت اس پر اسٹمپ لگا دیتی ہے کہ وہ کورونا سے مرا۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنما سینیٹر شیری رحمن نے کہا ہے کہ یو این او کے مطابق پاکستان میں کرونا کی صورتحال خطرناک ہوسکتی ہے ایسے میں وفاق اور صوبوں کا ایک ہی بیانیہ ہونا چاہیے۔ ہمیں کورونا سے لڑنا ہے آپس میں نہیں۔ ہم بھی تنقید کا جواب دے سکتے ہیں مگر بلاول بھٹو نے وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بنانے سے منع کیا ہے۔
وفاقی حکومت اور علمائے کرام کی جانب سے عبادات کے لیے ایس او پیز طے ہونے کے بعد کراچی سمیت سندھ بھر کی مساجد اور امام بارگاہوں میں با جماعت نماز کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے پارٹی کے اہم رہنما اور مستعفیٰ رکن قومی اسمبلی انجینئر نجیب ہارون کو منانے کاسلسلہ جاری ہے،کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ اپنی قومی اسمبلی کی نشست پر دیے گئے استعفیٰ کو واپس لے لیں، ان کا استعفیٰ تاحال منظور نہیں کیا گیا ہے۔