یہ نازک دور زندگی کا
نو عمر لڑکیوں میں مثبت رویے کیسے پروان چڑھ سکتے ہیں؟
غم، خوشی، محبت، نفرت اور لڑائی جھگڑا انسانی فطرت کا حصہ ہے جس کا اظہار وہ موقع محل کی مناسبت سے کرتا ہے۔
اگر ہم اپنے اردگرد لوگوں کے رویوں اور مزاجوں کا تجزیہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ نو عمر لڑکیوں اور لڑکوں کے رویے اور مزاج ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ عام طور پر 14 سے 16 سال کی عمر کی لڑکیاں گروپ کی شکل میں رہنا پسند کرتی ہیں۔ ان کی اولین ترجیح یہی ہوتی ہے کہ ان کی پسندیدہ ترین لڑکی ان کے گروپ میں شامل ہو۔
یہی وجہ ہے کہ ہائی اسکول میں زیرِتعلیم لڑکیوں میں بحث و مباحثے کا زیادہ تر موضوع یہی ہوتا ہے کہ فلاں لڑکی کو گروپ میں شامل کرنا ہے اور فلاں کو نہیں۔ لڑکیوں میں گروپ بندی کے رجحان کی بڑی وجہ عدم تحفظ کا احساس ہے۔ اس عمر کی زیادہ تر لڑکیاں شرمیلی ہوتی ہیں۔ وہ اپنے بارے میں بہت کچھ چھپانا چاہتی ہیں۔ یوں سمجھیں ان کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ گویا کسی کے بازو پر کوئی زخم یا گھائو لگا ہو اور وہ اسے سب سے چھپانا چاہتا ہو۔
ایک طالبہ سے جب اس کی ہم جماعتوں کے رویوں پر بات کی گئی تو اس نے بتایا کہ میں اس بات سے بالکل بے فکر رہتی ہوں کہ میں نے کیا پہن رکھا ہے اور میں کیسی نظر آرہی ہوں، جب کہ میری ہم جماعتوں کا اس سلسلے میں رویہ بالکل مختلف ہے۔ ان کی اولین خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ سب سے منفرد اور خوب صورت نظر آئیں چناںچہ وہ اکثر نت نئے فیشن ٹرینڈ پر بات کرتی نظر آتی ہیں۔ دوسری اہم چیز یہ ہے کر اگر انہی ساتھیوں میں سے کسی کی کوئی بات ناگوار گزرے، تو فوراً آپے سے باہر ہوجاتی ہیں۔ بعض اوقات نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے اور وہ دیوانوں جیسی حرکتیں کرنے لگتی ہیں۔
اگر خد انہ خواستہ بحث بڑھ جائے تو کسی بھی لمحے حالات مزید بگڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے، کیوںکہ اسی صورت ہر لڑکی صورت حال کو اپنے نقطۂ نظر سے دیکھتی ہے اور دوسروں کی رائے سننے پر کسی طور پر تیار نہیں ہوتی اور بنا سوچے سمجھے الٹا سیدھا بولتی رہتی ہے، جس کے نتیجہ قطع تعلق کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔
اساتذہ کے مطابق لڑکوں اور اور لڑکیوں میں حسد اور لڑائی اور لڑائی کی وجوہات ڈرامائی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ لڑکیوں میں ایک عجیب و غریب عادت پائی جاتی ہے۔ وہ یہ کہ اکثر اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ زبردست لڑائی جھگڑے کے بعد بھی دوبارہ اچھی دوست بن جاتی ہیں اور پرانی لڑائی اور اس کی وجوہات کو بھول جاتی ہیں۔
یعنی لڑکیوں کا غصہ بلبلوں کی طرح ہوتا ہے، ایک دم آتا ہے اور جلد ہی ختم ہوجاتا ہے، جب کہ لڑکوں کا رویہ اس طرح کی صورت حال میں بالکل مختلف ہوتا ہے۔ لڑکیاں عام حالات میں ایک دوسرے سے کس طرح کا برتائو کرتی ہیں اور شدید غصے کے عالم میں ان کا کیا عمل ہوتا ہے، اس چیز کی خوب صورت عکاسی ہالی ووڈ کی فلم ''فین گرل'' میں کی گئی ہے۔
مذکورہ فلم کا بنیادی طور پر موضوع ہے شہرت اور دوستی کے حصول کے لیے لڑکیوں کے دوستانہ تعلقات کس طرح انتقام کے جذبات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ عام طور پر یہ بات مشاہدے میں آتی ہے کہ اگر دو لڑکوں کے مابین لڑائی ہوجائے تو وہ جلد ہی اپنے غصہ کا اظہار بلند آواز میں چیخ چلا کر کرنے لگتے ہیں، جب کہ لڑکیاں اس کے بالکل برعکس اپنے غصیلے جذبات کا اظہار کرتی ہیں، جس کی مثال ایک لڑکی سحر کے تجربے سے لی جاسکتی ہے۔
جب اس نے اسکول تبدیل کیا تو نئے اسکول میں اس کا سامنا اپنے بڑے بھائی کی سابقہ منگیتر سے ہوگیا۔ کچھ دن تک وہ اسے قہر آلود نگاہوں سے دیکھتی رہی۔ پھر پاس سے گزرتے ہوئے برے القابات سے پکارنے لگی۔ اسی طرح ایک دن بات بڑھی اور بات بڑھ کر ہاتھ پائی تک پہنچی گئی اور دونوں نے اسکول کے لان میں ایک دوسرے کے بال نوچے اور خوب پٹائی کی۔
ایک ماہر نفسیات کے مطابق لڑکیاں فطری طور پر حاسد ہوتی ہیں اور تلخ جملوں کی ادائیگی میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ اسی وجہ سے ان کے قریب رہنے والے لوگ اکثر نالاں نظر آتے ہیں۔ ایک انگریز مصنف ''کیرول وسٹن'' جس نے نوعمر نوجوان کی رویوں پر دس کتابیں تنصیف کی ہیں، کے مطابق لڑکیوں میں انفرادی لڑائیاں شاذونادر ہی ہوتی ہیں۔ زیادہ تر لڑائیاں گروپ کے درمیان ہوتی ہیں، جس میں تمام سہیلیاں اتحادی کے طور پر شریک ہوتی ہیں۔
عموماً لڑکیوں کے مابین لڑائی کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ غیرضروری طور پر ایک دوسرے کا ساتھ دیتی اور طرف داری کرتی ہیں اور اکثر اوقات بغیر تصدیق کیے دوسروں کی باتوں پر یقین کرلیتی ہیں۔
لڑکیوں کی ہاتھا پائی والی لڑائیاں لڑکوں کی لڑائیوں کی نسبت زیادہ تکلیف دہ اور نقصان پہنچانے والی ہوتی ہیں۔
وہ عموماً ہاتھ پائی کے دوران ایک دوسرے کے بال نوچتی ہیں۔ دوسرا ان کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح موقع پر موجود لوگوں کی حمایت حاصل ہوجائے، مگر یہاں افسوس ناک پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ اکثر مواقع پر موجود لڑکے کسی بھی لڑکی یا گروپ کی حمایت کرنے سے گریز کرتے ہیں اور لڑکیوں کو مزید لڑائی پر اکساتے ہیں، کیوںکہ وہ اسے ایک تفریح کے طور پر لے رہے ہوتے ہیں اور اگر خدانہ خواستہ لڑائی جونیئرز اور سنیئرز کے مابین ہورہی ہو، تو عموماً ہر کوئی اپنے آپ کو اس سے الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
کچھ نو عمر لڑکیاں حالات کو بہت اچھی طرح سمجھتی ہیں اور اس بات سے بھی بخوبی آگاہ ہوتی ہیں کہ ان کی دوست صرف انہی کی دوست ہو اور کسی اور سے بات نہ کرے ۔ یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے۔ ایک لڑکی نے اپنی دوست کو فون کیا اور کسی تیسری دوست کو خوب برا بھلا کہا، عین اسی وقت وہ دوست سامنے آگئی تو اس کا رویہ بالکل مختلف ہوگیا اور وہ دوستانہ ماحول میں باتیں کرنے لگیں اور پھر کسی تیسری دوست کو ڈسکس کرنے لگیں۔
ایسے ہی لمحے لڑکیوں کو یہ باور کرادیا جائے کہ ان کے اس رویے کے بارے میں لوگوں کی رائے کیا قائم ہوتی ہوگی، تو ان کے رویے میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔ اور اگر ایسا ہوتا رہے تو انسان ایسی ہی غلطیوں سے سبق سیکھتا ہے۔ اگر اس کوشش میں تھوڑی سی بھی کام یابی حاصل ہوجائے تو بڑھتی عمر کی لڑکیاں عمر کے اس نازک دور میں اپنی شخصیت بہتر بناسکتی ہیں۔
نو عمر لڑکوں اور لڑکیوں کے رویے میں سب سے واضح فرق خود اعتمادی کا ہے۔ اس عمر کی لڑکیاں گروپ کی شکل میں اس لیے رہنا پسند کرتی ہیں کیوںکہ تنہا وہ خود کو غیر محفوظ اور کم زور خیال کرتی ہیں۔ اس میں زیادہ تر کردار ہماری معاشرتی اقدار کا ہے، جن کے مطابق ہمارے ہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان ہر سطح پر تفریق روا رکھی جاتی ہے۔
تربیت سے لے کر تعلیم تک لڑکیوں کو مناسب آزادی اور سہولتیں بھی میسر نہیں، جب کہ لڑکوں کو عموماً کچھ زیادہ ہی آزادی دے دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے انہیں تجربات کے مواقع ملتے ملتے رہتے ہیں، جن کے باعث ان میں خود اعتمادی کی کمی نہیں ہوتی۔ بلاشبہہ ہمارے معاشرے میں اس تفریق کو ایک دود ن میں ختم نہیں کیا جاسکتا، لیکن ہم یہ ضرور کرسکتے ہیں کہ ہم جس کسی رشتے میں بھی خواتین سے جڑے ہوئے ہیں، ان رشتوں کے مطابق انہیں اعتماد دیں اور انہیں وہ تمام سہولتیں اور مناسب آزادی ضرور دیں، جو ہم اپنے لڑکوں یا مرد رشتے داروں کے لیے تجویز کرتے ہیں۔
نوعمر لڑکیوں میں خوداعتمادی پیدا کرنے کے لیے ان پر اعتبار اور ان سے جڑے رشتوں کو اعتماد دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر گھروں میں رشتے نامکمل اور ادھورے ملیں، تو نوعمر لڑکیاں رہ جانے والی کمی کے لیے گھر سے باہر رشتے تلاش کرنے لگتی ہیں، جب کہ بے اعتباری ان میں بغاوت پیدا کرتی ہے۔ کوشش کریں کہ گھر میں دوستی کا ماحول رہے۔ گھر کے اور خاندان کے ہلکے پھلکے معاملات میں ان سے مشورہ کریں اور ان کی رائے کو اہمیت دیں اس سے ان میں خود اعتمادی پیدا ہوگی، جو انہیں کام یابیوں کی طرف لے کر جائے گی۔
نوعمر لڑکیوں کی سہیلیوں کے معاملے میں خیال رکھیں کہ ان کے گروپ کی دیگر لڑکیاں ان ان کی ہم عمر ہوں، تاکہ ان کی ترجیحات ایک جیسی ہوں اور دوستی دیرپا رہے۔ نوعمر لڑکیوں کو سچ بولنے کی عادت ڈالیں۔ اس سے ان میں اعتماد آئے گا۔ اور ایسا اسی صورت ممکن ہے جب آپ ان کے سامنے خود جھوٹ نہ بولیں۔ ورنہ ان کی شخصیت میں کھوکھلا پن آجائے گا۔ ہر وہ کام جو چھپا کے کرنا پڑے یا کرکے چھپانا پڑے، وہ شخصیت کو کم زور کردیتا ہے۔
کھیل میں دل چسپی بھی نو عمر لڑکیوں میں مثبت رویوں کو فروغ دیتی ہے۔ درحقیقت انسان منفی رویے اس وقت اپناتا ہے جب اس پر محرومی کا خیال غالب آجاتا ہے۔ اگر پہلے سے دوران تربیت ان کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جائے اور غیر محسوس انداز میں انہیں باور کرادیا جائے کہ چھوٹی موٹی محرومیاں زندگی کا حصہ ہیں، مسلسل جدوجہد اور لگن کے ساتھ اہداف حاصل بھی کیے جاسکتے ہیں، تو حادثات ان کے لیے قابل برداشت ہوجائیں گے اور ان میں مثبت رویے پروان چڑھیں گے۔
اگر ہم اپنے اردگرد لوگوں کے رویوں اور مزاجوں کا تجزیہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ نو عمر لڑکیوں اور لڑکوں کے رویے اور مزاج ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ عام طور پر 14 سے 16 سال کی عمر کی لڑکیاں گروپ کی شکل میں رہنا پسند کرتی ہیں۔ ان کی اولین ترجیح یہی ہوتی ہے کہ ان کی پسندیدہ ترین لڑکی ان کے گروپ میں شامل ہو۔
یہی وجہ ہے کہ ہائی اسکول میں زیرِتعلیم لڑکیوں میں بحث و مباحثے کا زیادہ تر موضوع یہی ہوتا ہے کہ فلاں لڑکی کو گروپ میں شامل کرنا ہے اور فلاں کو نہیں۔ لڑکیوں میں گروپ بندی کے رجحان کی بڑی وجہ عدم تحفظ کا احساس ہے۔ اس عمر کی زیادہ تر لڑکیاں شرمیلی ہوتی ہیں۔ وہ اپنے بارے میں بہت کچھ چھپانا چاہتی ہیں۔ یوں سمجھیں ان کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ گویا کسی کے بازو پر کوئی زخم یا گھائو لگا ہو اور وہ اسے سب سے چھپانا چاہتا ہو۔
ایک طالبہ سے جب اس کی ہم جماعتوں کے رویوں پر بات کی گئی تو اس نے بتایا کہ میں اس بات سے بالکل بے فکر رہتی ہوں کہ میں نے کیا پہن رکھا ہے اور میں کیسی نظر آرہی ہوں، جب کہ میری ہم جماعتوں کا اس سلسلے میں رویہ بالکل مختلف ہے۔ ان کی اولین خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ سب سے منفرد اور خوب صورت نظر آئیں چناںچہ وہ اکثر نت نئے فیشن ٹرینڈ پر بات کرتی نظر آتی ہیں۔ دوسری اہم چیز یہ ہے کر اگر انہی ساتھیوں میں سے کسی کی کوئی بات ناگوار گزرے، تو فوراً آپے سے باہر ہوجاتی ہیں۔ بعض اوقات نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے اور وہ دیوانوں جیسی حرکتیں کرنے لگتی ہیں۔
اگر خد انہ خواستہ بحث بڑھ جائے تو کسی بھی لمحے حالات مزید بگڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے، کیوںکہ اسی صورت ہر لڑکی صورت حال کو اپنے نقطۂ نظر سے دیکھتی ہے اور دوسروں کی رائے سننے پر کسی طور پر تیار نہیں ہوتی اور بنا سوچے سمجھے الٹا سیدھا بولتی رہتی ہے، جس کے نتیجہ قطع تعلق کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔
اساتذہ کے مطابق لڑکوں اور اور لڑکیوں میں حسد اور لڑائی اور لڑائی کی وجوہات ڈرامائی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ لڑکیوں میں ایک عجیب و غریب عادت پائی جاتی ہے۔ وہ یہ کہ اکثر اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ زبردست لڑائی جھگڑے کے بعد بھی دوبارہ اچھی دوست بن جاتی ہیں اور پرانی لڑائی اور اس کی وجوہات کو بھول جاتی ہیں۔
یعنی لڑکیوں کا غصہ بلبلوں کی طرح ہوتا ہے، ایک دم آتا ہے اور جلد ہی ختم ہوجاتا ہے، جب کہ لڑکوں کا رویہ اس طرح کی صورت حال میں بالکل مختلف ہوتا ہے۔ لڑکیاں عام حالات میں ایک دوسرے سے کس طرح کا برتائو کرتی ہیں اور شدید غصے کے عالم میں ان کا کیا عمل ہوتا ہے، اس چیز کی خوب صورت عکاسی ہالی ووڈ کی فلم ''فین گرل'' میں کی گئی ہے۔
مذکورہ فلم کا بنیادی طور پر موضوع ہے شہرت اور دوستی کے حصول کے لیے لڑکیوں کے دوستانہ تعلقات کس طرح انتقام کے جذبات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ عام طور پر یہ بات مشاہدے میں آتی ہے کہ اگر دو لڑکوں کے مابین لڑائی ہوجائے تو وہ جلد ہی اپنے غصہ کا اظہار بلند آواز میں چیخ چلا کر کرنے لگتے ہیں، جب کہ لڑکیاں اس کے بالکل برعکس اپنے غصیلے جذبات کا اظہار کرتی ہیں، جس کی مثال ایک لڑکی سحر کے تجربے سے لی جاسکتی ہے۔
جب اس نے اسکول تبدیل کیا تو نئے اسکول میں اس کا سامنا اپنے بڑے بھائی کی سابقہ منگیتر سے ہوگیا۔ کچھ دن تک وہ اسے قہر آلود نگاہوں سے دیکھتی رہی۔ پھر پاس سے گزرتے ہوئے برے القابات سے پکارنے لگی۔ اسی طرح ایک دن بات بڑھی اور بات بڑھ کر ہاتھ پائی تک پہنچی گئی اور دونوں نے اسکول کے لان میں ایک دوسرے کے بال نوچے اور خوب پٹائی کی۔
ایک ماہر نفسیات کے مطابق لڑکیاں فطری طور پر حاسد ہوتی ہیں اور تلخ جملوں کی ادائیگی میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ اسی وجہ سے ان کے قریب رہنے والے لوگ اکثر نالاں نظر آتے ہیں۔ ایک انگریز مصنف ''کیرول وسٹن'' جس نے نوعمر نوجوان کی رویوں پر دس کتابیں تنصیف کی ہیں، کے مطابق لڑکیوں میں انفرادی لڑائیاں شاذونادر ہی ہوتی ہیں۔ زیادہ تر لڑائیاں گروپ کے درمیان ہوتی ہیں، جس میں تمام سہیلیاں اتحادی کے طور پر شریک ہوتی ہیں۔
عموماً لڑکیوں کے مابین لڑائی کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ غیرضروری طور پر ایک دوسرے کا ساتھ دیتی اور طرف داری کرتی ہیں اور اکثر اوقات بغیر تصدیق کیے دوسروں کی باتوں پر یقین کرلیتی ہیں۔
لڑکیوں کی ہاتھا پائی والی لڑائیاں لڑکوں کی لڑائیوں کی نسبت زیادہ تکلیف دہ اور نقصان پہنچانے والی ہوتی ہیں۔
وہ عموماً ہاتھ پائی کے دوران ایک دوسرے کے بال نوچتی ہیں۔ دوسرا ان کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح موقع پر موجود لوگوں کی حمایت حاصل ہوجائے، مگر یہاں افسوس ناک پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ اکثر مواقع پر موجود لڑکے کسی بھی لڑکی یا گروپ کی حمایت کرنے سے گریز کرتے ہیں اور لڑکیوں کو مزید لڑائی پر اکساتے ہیں، کیوںکہ وہ اسے ایک تفریح کے طور پر لے رہے ہوتے ہیں اور اگر خدانہ خواستہ لڑائی جونیئرز اور سنیئرز کے مابین ہورہی ہو، تو عموماً ہر کوئی اپنے آپ کو اس سے الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
کچھ نو عمر لڑکیاں حالات کو بہت اچھی طرح سمجھتی ہیں اور اس بات سے بھی بخوبی آگاہ ہوتی ہیں کہ ان کی دوست صرف انہی کی دوست ہو اور کسی اور سے بات نہ کرے ۔ یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے۔ ایک لڑکی نے اپنی دوست کو فون کیا اور کسی تیسری دوست کو خوب برا بھلا کہا، عین اسی وقت وہ دوست سامنے آگئی تو اس کا رویہ بالکل مختلف ہوگیا اور وہ دوستانہ ماحول میں باتیں کرنے لگیں اور پھر کسی تیسری دوست کو ڈسکس کرنے لگیں۔
ایسے ہی لمحے لڑکیوں کو یہ باور کرادیا جائے کہ ان کے اس رویے کے بارے میں لوگوں کی رائے کیا قائم ہوتی ہوگی، تو ان کے رویے میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔ اور اگر ایسا ہوتا رہے تو انسان ایسی ہی غلطیوں سے سبق سیکھتا ہے۔ اگر اس کوشش میں تھوڑی سی بھی کام یابی حاصل ہوجائے تو بڑھتی عمر کی لڑکیاں عمر کے اس نازک دور میں اپنی شخصیت بہتر بناسکتی ہیں۔
نو عمر لڑکوں اور لڑکیوں کے رویے میں سب سے واضح فرق خود اعتمادی کا ہے۔ اس عمر کی لڑکیاں گروپ کی شکل میں اس لیے رہنا پسند کرتی ہیں کیوںکہ تنہا وہ خود کو غیر محفوظ اور کم زور خیال کرتی ہیں۔ اس میں زیادہ تر کردار ہماری معاشرتی اقدار کا ہے، جن کے مطابق ہمارے ہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان ہر سطح پر تفریق روا رکھی جاتی ہے۔
تربیت سے لے کر تعلیم تک لڑکیوں کو مناسب آزادی اور سہولتیں بھی میسر نہیں، جب کہ لڑکوں کو عموماً کچھ زیادہ ہی آزادی دے دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے انہیں تجربات کے مواقع ملتے ملتے رہتے ہیں، جن کے باعث ان میں خود اعتمادی کی کمی نہیں ہوتی۔ بلاشبہہ ہمارے معاشرے میں اس تفریق کو ایک دود ن میں ختم نہیں کیا جاسکتا، لیکن ہم یہ ضرور کرسکتے ہیں کہ ہم جس کسی رشتے میں بھی خواتین سے جڑے ہوئے ہیں، ان رشتوں کے مطابق انہیں اعتماد دیں اور انہیں وہ تمام سہولتیں اور مناسب آزادی ضرور دیں، جو ہم اپنے لڑکوں یا مرد رشتے داروں کے لیے تجویز کرتے ہیں۔
نوعمر لڑکیوں میں خوداعتمادی پیدا کرنے کے لیے ان پر اعتبار اور ان سے جڑے رشتوں کو اعتماد دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر گھروں میں رشتے نامکمل اور ادھورے ملیں، تو نوعمر لڑکیاں رہ جانے والی کمی کے لیے گھر سے باہر رشتے تلاش کرنے لگتی ہیں، جب کہ بے اعتباری ان میں بغاوت پیدا کرتی ہے۔ کوشش کریں کہ گھر میں دوستی کا ماحول رہے۔ گھر کے اور خاندان کے ہلکے پھلکے معاملات میں ان سے مشورہ کریں اور ان کی رائے کو اہمیت دیں اس سے ان میں خود اعتمادی پیدا ہوگی، جو انہیں کام یابیوں کی طرف لے کر جائے گی۔
نوعمر لڑکیوں کی سہیلیوں کے معاملے میں خیال رکھیں کہ ان کے گروپ کی دیگر لڑکیاں ان ان کی ہم عمر ہوں، تاکہ ان کی ترجیحات ایک جیسی ہوں اور دوستی دیرپا رہے۔ نوعمر لڑکیوں کو سچ بولنے کی عادت ڈالیں۔ اس سے ان میں اعتماد آئے گا۔ اور ایسا اسی صورت ممکن ہے جب آپ ان کے سامنے خود جھوٹ نہ بولیں۔ ورنہ ان کی شخصیت میں کھوکھلا پن آجائے گا۔ ہر وہ کام جو چھپا کے کرنا پڑے یا کرکے چھپانا پڑے، وہ شخصیت کو کم زور کردیتا ہے۔
کھیل میں دل چسپی بھی نو عمر لڑکیوں میں مثبت رویوں کو فروغ دیتی ہے۔ درحقیقت انسان منفی رویے اس وقت اپناتا ہے جب اس پر محرومی کا خیال غالب آجاتا ہے۔ اگر پہلے سے دوران تربیت ان کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جائے اور غیر محسوس انداز میں انہیں باور کرادیا جائے کہ چھوٹی موٹی محرومیاں زندگی کا حصہ ہیں، مسلسل جدوجہد اور لگن کے ساتھ اہداف حاصل بھی کیے جاسکتے ہیں، تو حادثات ان کے لیے قابل برداشت ہوجائیں گے اور ان میں مثبت رویے پروان چڑھیں گے۔