دست طلب بڑھاؤ کہ رمضان آگیا دوسرا اور آخری حصہ
اس اعلامیہ کے نتیجے میں اللہ کے گھر عبادت کے لیے ملک بھر میں کھل گئے ہیں
BERLIN:
ماہ رمضان کی آمد آمد ہے اس برکتوں والے مہینے میں مساجدکی رونقیں معمول سے کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ گنہگار سے گنہگار مسلمان بھی اللہ کی رحمت کا طلب گار بن جاتا ہے اور مساجد کا رخ کرتا ہے۔ اسی لیے مساجد کھولنے کے مطالبہ میں شدت آئی اور حکومت بھی تمام مکاتب فکر کے علماء کے ساتھ سر جوڑ کربیٹھ گئی۔
گزشتہ ہفتے ایوان صدرمیں اجلاس ہوا۔ جس میں حکومت اور علمائے کرام کے درمیان رمضان المبارک میں تراویح، نمازوں اور اعتکاف کے حوالے سے مشروط اتفاق ہو گیا، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اجلاس کے بعد 20 نکاتی متفقہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔ ڈاکٹر عارف علوی کی سربراہی میں ہونے والے اس اجلاس میں تمام صوبوں سے علماء نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شرکت کی۔ ایوان صدر میں جو شخصیات موجود تھیں ان میں وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز، مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا،مفتی تقی عثمانی ، مفتی منیب الرحمٰن، پیر امین الحسنات، علامہ راجا ناصر عباس، پیر چراغ الدین شاہ، علامہ عارف واحدی، مفتی گلزار نعیمی، علامہ امین شہیدی، ڈاکٹر ساجد الرحمن، پیر نقیب الرحمن سمیت دیگر علماء و مشائخ شامل تھے۔
علماء کے ساتھ طویل مشاورتی اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ کانفرنس میں 20 نکات پر اتفاق کرلیا گیا اور جب تمام مکاتب فکر کے درمیان اتفاق ہوجائے تو اس کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔ بیس نکات میں یہ بات طے کی گئی ہے کہ مساجد میں قالین یا دریاں نہیں بچھائی جائیں گی، صاف فرش پر نماز پڑھی جائے گی۔
اگر کچا فرش ہو تو صاف چٹائی بچھائی جا سکتی ہے۔جو لوگ گھر سے اپنی جائے نماز لا کر اس پر نماز پڑھنا چاہیں، وہ ایسا ضرور کریں۔نماز سے پیشتر اور بعد میں مجمع لگانے سے گریز کیا جائے۔ جن مساجد میں صحن موجود ہوں وہاں ہال کے اندر نہیں بلکہ صحن میں نماز پڑھائی جائے۔50 سال سے زائد عمر کے لوگ، نابالغ بچے اور کھانسی نزلہ زکام وغیرہ کے مریض مساجد میں نہ آئیں۔مسجد اور امام بارگاہ کے احاطہ کے اندر نماز اور تراویح کا اہتمام کیا جائے، سڑک اور فٹ پاتھ پر نماز پڑھنے سے اجتناب کیا جائے۔
مسجد کے فرش کو صاف کرنے کے لیے پانی میں کلورین کا محلول بنا کر دھویا جائے۔اسی محلول کو استعمال کر کے چٹائی کے اوپر نماز سے پہلے چھڑکاؤ بھی کر لیا جائے۔ مسجد اور امام بارگاہ میں صف بندی کا اہتمام اس انداز سے کیا جائے کہ نمازیوں کے درمیان 6 فٹ کا فاصلہ رہے، مسجد انتظامیہ یا ذمے دار افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کو یقینی بنا سکے۔
مسجد کے منتظمین اگر فرش پر نمازیوں کے کھڑے ہونے کے لیے صحیح فاصلوں کے مطابق نشان لگا دیں تو نمازیوں کی اقامت میں آسانی ہو گی۔وضو گھر سے کر کے مسجد تشریف لائیں، صابن سے 20 سیکنڈ ہاتھ دھو کر آئیں۔لازم ہے کہ ماسک پہن کر مسجد میں تشریف لائیں اور کسی سے ہاتھ نہیں ملائیں اور نہ بغل گیر ہوں۔اپنے چہرے کو ہاتھ لگانے سے گریز کریں، گھر واپسی پر ہاتھ دھو کر یہ کر سکتے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں بہتر یہ ہے کہ گھر پر اعتکاف کیا جائے۔مسجد میں اجتماعی افطار اور سحر کا انتظام نہ کیا جائے۔ مساجد انتظامیہ، آئمہ اور خطیب ضلعی وصوبائی حکومتوں اور پولیس سے رابطہ اور تعاون رکھیں۔مساجد کی انتظامیہ کو ان احتیاطی تدابیر کے ساتھ مشروط اجازت دی جا رہی ہے۔اگر رمضان کے دوران حکومت یہ محسوس کرے کہ ان احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں ہو رہا ہے یا متاثرین کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے تو حکومت دوسرے شعبوں کی طرح مساجد کے بارے میں پالیسی پر نظر ثانی کرے گی، اس بات کا بھی حکومت کو اختیار ہے کہ شدید متاثرہ مخصوص علاقہ کے لیے احکامات اور پالیسی تبدیل کی جا سکتی ہے۔
یہ اعلامیہ متفقہ ہے ، اس اعلامیہ کے نتیجے میں اللہ کے گھر عبادت کے لیے ملک بھر میں کھل گئے ہیں، اب بنیادی ذمے داری علماء و خطباء ، آئمہ کرام اور مساجد کی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے، انھیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ مساجد کھلوانے کے لیے علماء ومشائخ نے دن رات محنت کی ہے، اب ایسا نہ ہو کہ ان کی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے۔ ہر جگہ ہر مسجد میں ان احتیاطی تدابیر کو اپنایا جائے۔
جن علاقوں میں کورونا کیسز کی تعداد زیادہ ہے یا جن مساجد میں مقررہ فاصلہ اختیار کرنے سے محدود نمازیوں کو ہی باجماعت نماز کا موقع مل سکتا ہے وہاں لوگ اپنے اپنے گھروں باجماعت نماز کا ماحول بنائیں، خاص طور پر نماز تراویح گھروں میں پڑھیں اس سے گھر سے نحوست کے سائے ختم ہوجائیں گے اور اللہ کے رحمت اور برکتوں کا نزول ہوگا۔ گھروں میں نماز کے لیے بھی احتیاطی تدابیر کا خیال رکھیں۔ ذکر واذکار اور خصوصی دعاؤں کا ماحول بنائیں، قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے کی جائے۔آج نفسا نفسی کے اس دور میں ایسا ماحول ختم ہوتا جارہا ہے، اللہ پاک نے ہمیں ایک موقع دیا ہے ہم اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوبارہ اس ماحول کو زندہ کرسکتے ہیں۔ ہرشخص دست طلب بڑھائے کیونکہ رمضان آگیا ہے۔
شیخ القرآن والحدیث حضرت مولانا حمد اللہ جان ڈاگئی باباجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ہرمسلمان رمضان المبارک میں صلوۃ التوبہ کا اہتمام کرے۔ پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سوۃ الکافرون پڑھی جائے دوسری رکعت میں سورۃ الاخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھی جائے ،دعا میں پہلے درود ابرہیمی پڑھیں پھر توبہ و استغفار کریں اللہ سے اپنے اور امت کے گناہوں کی بخشش مانگیں اور رحم کی درخواست کریں، آخر میں پھر درود ابراہیمی پڑھیں۔ حضرت ڈاگئی باباجی رحمۃ اللہ فرماتے تھے کہ اللہ تبارک وتعالی درود ضرور قبول کرتا ہے اور جس دعا کے اول و آخر میں درود پڑھا جائے، اسے رد کرنا اس کی شان کریمی کے خلاف ہے۔ اللہ کریم ہمیں اس ماہ صیام کی برکتیں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
ماہ رمضان کی آمد آمد ہے اس برکتوں والے مہینے میں مساجدکی رونقیں معمول سے کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ گنہگار سے گنہگار مسلمان بھی اللہ کی رحمت کا طلب گار بن جاتا ہے اور مساجد کا رخ کرتا ہے۔ اسی لیے مساجد کھولنے کے مطالبہ میں شدت آئی اور حکومت بھی تمام مکاتب فکر کے علماء کے ساتھ سر جوڑ کربیٹھ گئی۔
گزشتہ ہفتے ایوان صدرمیں اجلاس ہوا۔ جس میں حکومت اور علمائے کرام کے درمیان رمضان المبارک میں تراویح، نمازوں اور اعتکاف کے حوالے سے مشروط اتفاق ہو گیا، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اجلاس کے بعد 20 نکاتی متفقہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔ ڈاکٹر عارف علوی کی سربراہی میں ہونے والے اس اجلاس میں تمام صوبوں سے علماء نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شرکت کی۔ ایوان صدر میں جو شخصیات موجود تھیں ان میں وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز، مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا،مفتی تقی عثمانی ، مفتی منیب الرحمٰن، پیر امین الحسنات، علامہ راجا ناصر عباس، پیر چراغ الدین شاہ، علامہ عارف واحدی، مفتی گلزار نعیمی، علامہ امین شہیدی، ڈاکٹر ساجد الرحمن، پیر نقیب الرحمن سمیت دیگر علماء و مشائخ شامل تھے۔
علماء کے ساتھ طویل مشاورتی اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ کانفرنس میں 20 نکات پر اتفاق کرلیا گیا اور جب تمام مکاتب فکر کے درمیان اتفاق ہوجائے تو اس کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔ بیس نکات میں یہ بات طے کی گئی ہے کہ مساجد میں قالین یا دریاں نہیں بچھائی جائیں گی، صاف فرش پر نماز پڑھی جائے گی۔
اگر کچا فرش ہو تو صاف چٹائی بچھائی جا سکتی ہے۔جو لوگ گھر سے اپنی جائے نماز لا کر اس پر نماز پڑھنا چاہیں، وہ ایسا ضرور کریں۔نماز سے پیشتر اور بعد میں مجمع لگانے سے گریز کیا جائے۔ جن مساجد میں صحن موجود ہوں وہاں ہال کے اندر نہیں بلکہ صحن میں نماز پڑھائی جائے۔50 سال سے زائد عمر کے لوگ، نابالغ بچے اور کھانسی نزلہ زکام وغیرہ کے مریض مساجد میں نہ آئیں۔مسجد اور امام بارگاہ کے احاطہ کے اندر نماز اور تراویح کا اہتمام کیا جائے، سڑک اور فٹ پاتھ پر نماز پڑھنے سے اجتناب کیا جائے۔
مسجد کے فرش کو صاف کرنے کے لیے پانی میں کلورین کا محلول بنا کر دھویا جائے۔اسی محلول کو استعمال کر کے چٹائی کے اوپر نماز سے پہلے چھڑکاؤ بھی کر لیا جائے۔ مسجد اور امام بارگاہ میں صف بندی کا اہتمام اس انداز سے کیا جائے کہ نمازیوں کے درمیان 6 فٹ کا فاصلہ رہے، مسجد انتظامیہ یا ذمے دار افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کو یقینی بنا سکے۔
مسجد کے منتظمین اگر فرش پر نمازیوں کے کھڑے ہونے کے لیے صحیح فاصلوں کے مطابق نشان لگا دیں تو نمازیوں کی اقامت میں آسانی ہو گی۔وضو گھر سے کر کے مسجد تشریف لائیں، صابن سے 20 سیکنڈ ہاتھ دھو کر آئیں۔لازم ہے کہ ماسک پہن کر مسجد میں تشریف لائیں اور کسی سے ہاتھ نہیں ملائیں اور نہ بغل گیر ہوں۔اپنے چہرے کو ہاتھ لگانے سے گریز کریں، گھر واپسی پر ہاتھ دھو کر یہ کر سکتے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں بہتر یہ ہے کہ گھر پر اعتکاف کیا جائے۔مسجد میں اجتماعی افطار اور سحر کا انتظام نہ کیا جائے۔ مساجد انتظامیہ، آئمہ اور خطیب ضلعی وصوبائی حکومتوں اور پولیس سے رابطہ اور تعاون رکھیں۔مساجد کی انتظامیہ کو ان احتیاطی تدابیر کے ساتھ مشروط اجازت دی جا رہی ہے۔اگر رمضان کے دوران حکومت یہ محسوس کرے کہ ان احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں ہو رہا ہے یا متاثرین کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے تو حکومت دوسرے شعبوں کی طرح مساجد کے بارے میں پالیسی پر نظر ثانی کرے گی، اس بات کا بھی حکومت کو اختیار ہے کہ شدید متاثرہ مخصوص علاقہ کے لیے احکامات اور پالیسی تبدیل کی جا سکتی ہے۔
یہ اعلامیہ متفقہ ہے ، اس اعلامیہ کے نتیجے میں اللہ کے گھر عبادت کے لیے ملک بھر میں کھل گئے ہیں، اب بنیادی ذمے داری علماء و خطباء ، آئمہ کرام اور مساجد کی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے، انھیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ مساجد کھلوانے کے لیے علماء ومشائخ نے دن رات محنت کی ہے، اب ایسا نہ ہو کہ ان کی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے۔ ہر جگہ ہر مسجد میں ان احتیاطی تدابیر کو اپنایا جائے۔
جن علاقوں میں کورونا کیسز کی تعداد زیادہ ہے یا جن مساجد میں مقررہ فاصلہ اختیار کرنے سے محدود نمازیوں کو ہی باجماعت نماز کا موقع مل سکتا ہے وہاں لوگ اپنے اپنے گھروں باجماعت نماز کا ماحول بنائیں، خاص طور پر نماز تراویح گھروں میں پڑھیں اس سے گھر سے نحوست کے سائے ختم ہوجائیں گے اور اللہ کے رحمت اور برکتوں کا نزول ہوگا۔ گھروں میں نماز کے لیے بھی احتیاطی تدابیر کا خیال رکھیں۔ ذکر واذکار اور خصوصی دعاؤں کا ماحول بنائیں، قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے کی جائے۔آج نفسا نفسی کے اس دور میں ایسا ماحول ختم ہوتا جارہا ہے، اللہ پاک نے ہمیں ایک موقع دیا ہے ہم اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوبارہ اس ماحول کو زندہ کرسکتے ہیں۔ ہرشخص دست طلب بڑھائے کیونکہ رمضان آگیا ہے۔
شیخ القرآن والحدیث حضرت مولانا حمد اللہ جان ڈاگئی باباجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ہرمسلمان رمضان المبارک میں صلوۃ التوبہ کا اہتمام کرے۔ پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سوۃ الکافرون پڑھی جائے دوسری رکعت میں سورۃ الاخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھی جائے ،دعا میں پہلے درود ابرہیمی پڑھیں پھر توبہ و استغفار کریں اللہ سے اپنے اور امت کے گناہوں کی بخشش مانگیں اور رحم کی درخواست کریں، آخر میں پھر درود ابراہیمی پڑھیں۔ حضرت ڈاگئی باباجی رحمۃ اللہ فرماتے تھے کہ اللہ تبارک وتعالی درود ضرور قبول کرتا ہے اور جس دعا کے اول و آخر میں درود پڑھا جائے، اسے رد کرنا اس کی شان کریمی کے خلاف ہے۔ اللہ کریم ہمیں اس ماہ صیام کی برکتیں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)