دھرنا اسلام آباد میں
مرکز میں بھی دھرنے سے ڈرون حملوں کے خلاف کسی قومی تحریک کے آغاز کی امید نہیں کی جا سکتی۔
پاکستان تحریک انصاف دھرنا سیاست کو اسلام آباد لا رہی ہے۔5 تاریخ کو خیبر پختونخواکے وزیراعلیٰ، چند ایک وزراء اور اراکین تحریک انصاف پارلیمان کے سامنے براجماں ہو جائیں گے۔ منتخب نمایندگان جن کے پاس کرنے کو، ظا ہراً، اور بھی بہت کچھ ہے کی طرف سے احتجاج کا یہ طریقہ صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے۔ پشاور میں نیٹو کی کم ہوتی ہوئی رسد کو 10 دن سے بند کرنے کے بعد تحریک انصاف پر یقینا دبائو بڑھ گیا تھا۔ عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے یہ تنقید کی جا رہی تھی کہ عمران خان، جو میانوالی کے ہونے کے باوجود، پنجابی سمجھے جاتے ہیں، خیبر پختونخوا میں احتجاج کر رہے ہیں۔ جب کہ اسلام آباد میں ان کی جماعت آرام سے بیٹھی ہے۔ پارلیمان کے سامنے دھرنا دے کر تحریک انصاف کی قیادت یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ وہ ڈرون حملوں پر اپنے مطالبات منوانے کے لیے اب ایک صوبے سے نکل کر مرکز میں بھی اپنی کارروائیاں شروع کرے گی۔
اسی طرح شاید اس معاملے کو اس قومی تناظر میں بیان کرنا آسان ہو گا۔ جس کے بارے میں عمران خان نے شروع دن سے ایک مستقل موقف اپنائے رکھا ہے۔ پشاور کا دھرنا کتنا کامیاب ہوا اس کا اندازہ لگانا ابھی ممکن نہیں۔ تحریک انصاف کے ممبران اس احتجاج کو بطور استعارہ استعمال کر رہے ہیں جس کے ذریعے ان کے خیال میں قومی خود مختاری اور امریکی پالیسی کے خلاف اظہار کے لیے نئے مواقعے ملے ہیں۔ پشاور کے یہ رستے جو کابل کے ساتھ تجارت کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں کوئی ایک جماعت کب تک بند رکھ سکتی ہے۔ اس کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں ہے۔ مگر اس قسم کا کوئی بھی لائحۂ عمل ایک طویل عرصہ تک اپنائے رکھنا ممکن نہیں بالخصوص ایسے حالات میں کہ جب اس پر ایک خاص سیاسی نکتہ نظر کی چھاپ بھی لگی ہو۔ تمام تر کوشش کے باوجود پاکستان تحریک انصاف اور اس کے سیاسی اتحادی خیبر پختونخوا میں صوبائی سطح تک تحریر اسکوائر جیسی تحریک چلانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
خیبرپختونخوا میں چائے خانوں سے لے کر بسوں اور ریڑھیوں کے ارد گرد ہونے والی عوامی بات چیت کا ذکر مدہم پڑتا جا رہا ہے۔ لوگ اپنی زندگی ویسے ہی گزار رہے ہیں جیسے پہلے گزار رہے تھے۔ مرکز میں بھی دھرنے سے ڈرون حملوں کے خلاف کسی قومی تحریک کے آغاز کی امید نہیں کی جا سکتی۔ قومی نقطہ فکر بنانے کے صرف دو ہی طریقے ہیں، یا تو بات چیت کے ذریعے مختلف نظریات رکھنے والے گروپوں کی توجہ کسی ایک نکتے پر مرکوز کروائی جائے جو کہ نہیں کیا گیا۔ ڈرون دھرنا پاکستان تحریک انصاف بلکہ عمران خان کی ذاتی رائے اور ملک میں پائی جانے والی عمومی غصے کی لہر سے معرض وجود میں آیا۔ اس پر نہ تو دوسری جماعتوں کو ساتھ ملانے کی کوئی قابل ذکر کوشش ہوئی اور نہ ہی دوسری جماعتوں نے اس کو اپنانے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ بلکہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف اپنے دھرنے کو دوسرے سیاسی گروپوں کی بے بسی اور کمزوری کو ثابت کرنے کے لیے بطور آئینہ بھی استعمال کر رہی ہے۔ اس سے محدود سیاسی فوائد تو حاصل ہو جائیں گے مگر اتفاق رائے سے بننے والی پالیسی سامنے نہیں آ پائے گی۔
اجتماعی قومی فکر کو سامنے لانے کا دوسرا طریقہ اُس قسم کے حالات ہوتے ہیں جن میں لوگ از خود سڑکوں پر کسی کے کہے بغیر نکل پڑتے ہیں۔ غیر منظم عوامی احتجاج اور اس کے شدید اظہار کو کوئی لیڈر اپنا لیتا ہے اور اس طرح ایک کونے سے دوسرے کونے تک ایک نعرہ یا ایک آواز دوسرے تمام معاملات پر بھاری پڑ جاتی ہے اور یہ بھی نہیں ہو سکا۔ پاکستان تحریک انصاف شاید یہ کام انتخابات سے پہلے کر سکتی تھی۔ اُس وقت عوامی غصے اور نئی قیادت کی خواہش دونوں عروج پر تھے۔ مسیحا کی تلاش جاری تھی۔ حقائق نے توقعات کو زیر نہیں کیا تھا، وہ موقع اب نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اس تمام نظام کا اٹوٹ حصہ ہے جس کی ناکافی کارکردگی پر دھرنے دیے جا رہے ہیں۔ احتجاج کرنے والی جماعتیں پارلیمان کے اندر بھی رہنا چاہتی ہیں اور باہر بھی۔ وہ خیبر پختونخوا کو چلانا بھی چاہتی ہیں اور خود ہی احتجاج کر کے ایک حصے کو معطل کیے ہوئے ہیں۔ کسی بھی سیاسی منطق یا عملی و حقیقت پسندانہ نقطہ نظر سے یہ دونوں کا م اکھٹے نہیں کیے جا سکتے ۔
ان میں سے کسی ایک کو اپنا نا ہو گا۔پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کا اصل امتحان یہ نہیں ہے کہ یہ دھرنے کتنی جگہوں پر دیے جا رہے ہیں۔ حقیقی چیلنج کا ایک پہلو اس طریقہ کار کی عوام میں مقبولیت ہوگی۔ اگر عوام نے ہزاروں کی تعداد میں خود سے اس دھرنوں کو بڑھانا شروع کر دیا تو یہ کامیابی کے زمرے میں آئے گا، ورنہ نہیں۔ دوسرا پہلو پہلے سے بھی زیادہ اہم ہے وہ یہ کہ اگر منتخب نمایندگان بشمول حکومت نے اس مسئلے پر روائتی سستی کا رویہ اپنائے رکھا تو کیا تحریک انصاف، عمران خان کی قیادت میں نئے انتخابات کا مطالبہ کرے گی یا نہیں۔ اپنی بات منوانے کے لیے عمران خان کو یا تو ملک کی تمام اہم سڑکوں پر قبضہ کرنا ہوگا یا منتخب اسمبلیوں میں اکثریتی نشستوں پر۔ اس کے علاوہ تبدیلی نہیں آ سکتی۔ ہاں دھرنے دیے جا سکتے ہیں اور وقتی طور پر غصہ نکالا جا سکتا ہے۔
مگر حکومت وقت یعنی پاکستا ن مسلم لیگ نواز کو پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کے محدود اثر پر خوش ہونے کے بجائے سنجیدہ سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈرون حملے اور اس کے ساتھ امریکا کا پاکستان کی طرف آقائوں والا رویہ خارجہ پالیسی کے اہم مسئلے کے طور پر سامنے آ چکا ہے۔ عمران خان اس معاملے پر نواز لیگ کی قیادت سے کوسوں آگے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف جو ہر موقعہ پر ہمیں یہ یاد کرواتے ہیں کہ کس طرح انھوں نے بِل کلنٹن کے کئی ٹیلی فونوں کے باوجود ایٹمی دھماکے کر ڈالے۔ ڈرون حملوں پر واشنگٹن کال کرنے سے زیادہ دیر تک اجتناب نہیں کر پائیں گے اور اگر گریز کریں گے تو خود کو کمزور، بے بس اور کاغذی شیر کے الزام سے نہیں بچا پائیں گے۔ دہشت گردی کی طرح ڈرون حملے بھی ہمارے منہ پر ایک مسلسل طمانچہ ہیں۔ اگر منتخب حکمران ان دونوں مسائل پر ریت میں سر دبانے کی پالیسی جاری رکھیں گے تو مسائل بڑھیں گے کم نہیں ہوں گے۔ نواز لیگ پاکستان تحریک انصاف کے دھرنوں کو غیر موثر ثابت کرنے کے بجائے بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور مسلسل فضائی حملوں پر اپنی کارکردگی کا جائزہ لے تو اس کی خوشی فکر میں بدل جائے گی۔
اسی طرح شاید اس معاملے کو اس قومی تناظر میں بیان کرنا آسان ہو گا۔ جس کے بارے میں عمران خان نے شروع دن سے ایک مستقل موقف اپنائے رکھا ہے۔ پشاور کا دھرنا کتنا کامیاب ہوا اس کا اندازہ لگانا ابھی ممکن نہیں۔ تحریک انصاف کے ممبران اس احتجاج کو بطور استعارہ استعمال کر رہے ہیں جس کے ذریعے ان کے خیال میں قومی خود مختاری اور امریکی پالیسی کے خلاف اظہار کے لیے نئے مواقعے ملے ہیں۔ پشاور کے یہ رستے جو کابل کے ساتھ تجارت کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں کوئی ایک جماعت کب تک بند رکھ سکتی ہے۔ اس کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں ہے۔ مگر اس قسم کا کوئی بھی لائحۂ عمل ایک طویل عرصہ تک اپنائے رکھنا ممکن نہیں بالخصوص ایسے حالات میں کہ جب اس پر ایک خاص سیاسی نکتہ نظر کی چھاپ بھی لگی ہو۔ تمام تر کوشش کے باوجود پاکستان تحریک انصاف اور اس کے سیاسی اتحادی خیبر پختونخوا میں صوبائی سطح تک تحریر اسکوائر جیسی تحریک چلانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
خیبرپختونخوا میں چائے خانوں سے لے کر بسوں اور ریڑھیوں کے ارد گرد ہونے والی عوامی بات چیت کا ذکر مدہم پڑتا جا رہا ہے۔ لوگ اپنی زندگی ویسے ہی گزار رہے ہیں جیسے پہلے گزار رہے تھے۔ مرکز میں بھی دھرنے سے ڈرون حملوں کے خلاف کسی قومی تحریک کے آغاز کی امید نہیں کی جا سکتی۔ قومی نقطہ فکر بنانے کے صرف دو ہی طریقے ہیں، یا تو بات چیت کے ذریعے مختلف نظریات رکھنے والے گروپوں کی توجہ کسی ایک نکتے پر مرکوز کروائی جائے جو کہ نہیں کیا گیا۔ ڈرون دھرنا پاکستان تحریک انصاف بلکہ عمران خان کی ذاتی رائے اور ملک میں پائی جانے والی عمومی غصے کی لہر سے معرض وجود میں آیا۔ اس پر نہ تو دوسری جماعتوں کو ساتھ ملانے کی کوئی قابل ذکر کوشش ہوئی اور نہ ہی دوسری جماعتوں نے اس کو اپنانے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ بلکہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف اپنے دھرنے کو دوسرے سیاسی گروپوں کی بے بسی اور کمزوری کو ثابت کرنے کے لیے بطور آئینہ بھی استعمال کر رہی ہے۔ اس سے محدود سیاسی فوائد تو حاصل ہو جائیں گے مگر اتفاق رائے سے بننے والی پالیسی سامنے نہیں آ پائے گی۔
اجتماعی قومی فکر کو سامنے لانے کا دوسرا طریقہ اُس قسم کے حالات ہوتے ہیں جن میں لوگ از خود سڑکوں پر کسی کے کہے بغیر نکل پڑتے ہیں۔ غیر منظم عوامی احتجاج اور اس کے شدید اظہار کو کوئی لیڈر اپنا لیتا ہے اور اس طرح ایک کونے سے دوسرے کونے تک ایک نعرہ یا ایک آواز دوسرے تمام معاملات پر بھاری پڑ جاتی ہے اور یہ بھی نہیں ہو سکا۔ پاکستان تحریک انصاف شاید یہ کام انتخابات سے پہلے کر سکتی تھی۔ اُس وقت عوامی غصے اور نئی قیادت کی خواہش دونوں عروج پر تھے۔ مسیحا کی تلاش جاری تھی۔ حقائق نے توقعات کو زیر نہیں کیا تھا، وہ موقع اب نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اس تمام نظام کا اٹوٹ حصہ ہے جس کی ناکافی کارکردگی پر دھرنے دیے جا رہے ہیں۔ احتجاج کرنے والی جماعتیں پارلیمان کے اندر بھی رہنا چاہتی ہیں اور باہر بھی۔ وہ خیبر پختونخوا کو چلانا بھی چاہتی ہیں اور خود ہی احتجاج کر کے ایک حصے کو معطل کیے ہوئے ہیں۔ کسی بھی سیاسی منطق یا عملی و حقیقت پسندانہ نقطہ نظر سے یہ دونوں کا م اکھٹے نہیں کیے جا سکتے ۔
ان میں سے کسی ایک کو اپنا نا ہو گا۔پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کا اصل امتحان یہ نہیں ہے کہ یہ دھرنے کتنی جگہوں پر دیے جا رہے ہیں۔ حقیقی چیلنج کا ایک پہلو اس طریقہ کار کی عوام میں مقبولیت ہوگی۔ اگر عوام نے ہزاروں کی تعداد میں خود سے اس دھرنوں کو بڑھانا شروع کر دیا تو یہ کامیابی کے زمرے میں آئے گا، ورنہ نہیں۔ دوسرا پہلو پہلے سے بھی زیادہ اہم ہے وہ یہ کہ اگر منتخب نمایندگان بشمول حکومت نے اس مسئلے پر روائتی سستی کا رویہ اپنائے رکھا تو کیا تحریک انصاف، عمران خان کی قیادت میں نئے انتخابات کا مطالبہ کرے گی یا نہیں۔ اپنی بات منوانے کے لیے عمران خان کو یا تو ملک کی تمام اہم سڑکوں پر قبضہ کرنا ہوگا یا منتخب اسمبلیوں میں اکثریتی نشستوں پر۔ اس کے علاوہ تبدیلی نہیں آ سکتی۔ ہاں دھرنے دیے جا سکتے ہیں اور وقتی طور پر غصہ نکالا جا سکتا ہے۔
مگر حکومت وقت یعنی پاکستا ن مسلم لیگ نواز کو پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کے محدود اثر پر خوش ہونے کے بجائے سنجیدہ سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈرون حملے اور اس کے ساتھ امریکا کا پاکستان کی طرف آقائوں والا رویہ خارجہ پالیسی کے اہم مسئلے کے طور پر سامنے آ چکا ہے۔ عمران خان اس معاملے پر نواز لیگ کی قیادت سے کوسوں آگے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف جو ہر موقعہ پر ہمیں یہ یاد کرواتے ہیں کہ کس طرح انھوں نے بِل کلنٹن کے کئی ٹیلی فونوں کے باوجود ایٹمی دھماکے کر ڈالے۔ ڈرون حملوں پر واشنگٹن کال کرنے سے زیادہ دیر تک اجتناب نہیں کر پائیں گے اور اگر گریز کریں گے تو خود کو کمزور، بے بس اور کاغذی شیر کے الزام سے نہیں بچا پائیں گے۔ دہشت گردی کی طرح ڈرون حملے بھی ہمارے منہ پر ایک مسلسل طمانچہ ہیں۔ اگر منتخب حکمران ان دونوں مسائل پر ریت میں سر دبانے کی پالیسی جاری رکھیں گے تو مسائل بڑھیں گے کم نہیں ہوں گے۔ نواز لیگ پاکستان تحریک انصاف کے دھرنوں کو غیر موثر ثابت کرنے کے بجائے بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور مسلسل فضائی حملوں پر اپنی کارکردگی کا جائزہ لے تو اس کی خوشی فکر میں بدل جائے گی۔