ہر دل لہولہان
وفاقی اور صوبائی حکومتیں یہ اعلان کیوں نہیں کرتیں کہ وہ عوام کی جان اور مال کا تحفظ نہیں کر سکتیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں یہ اعلان کیوں نہیں کرتیں کہ وہ عوام کی جان اور مال کا تحفظ نہیں کر سکتیں۔ قوم کو یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ پولیس فورس اتنی ہی ہے جو صرف وی آئی پی اور وی وی آئی پیز کی حفاظت کر سکتی ہے۔ سرکاری خرچ پر بلٹ پروف جیکٹس اور بم پروف گاڑیاں استعمال کرنے کا استحقاق بھی صرف حکمرانوں، ان کے عزیز رشتہ داروں اور با اثر شخصیات کو حاصل ہے اور ہو سکے تو یہ بھی بتا دیں کہ دہشتگردوں پر قابو پانا حکومت کی ذمے داری نہیں ہے۔کم از کم عوام کویہ تو پتہ چل جائے گا کہ حکومت ان سے سچ بول رہی ہے۔
بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل چلانے پر پابندی ہے۔ میں اکثر ٹریفک سگنلز پر دیکھتا ہوں کہ ٹریفک پولیس کے اہلکارہیڈ گیئر کے بغیر موٹر سائیکل چلانے والوں کو روک کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ان بے چاروں کو چالان کٹوانا پڑتا ہے یا ''مفاہمت'' کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر پولیس اہلکاروں کی مدد کرنا پڑتی ہے۔ مفاہمت کی پالیسی نے اس ملک کی جتنی ''خدمت'' کی ہے اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔ ٹریفک پولیس اپنا کام کرتی رہے، مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے تاہم میں عوام کی ''محافظ'' پولیس کو ایک مفت لیکن بڑا قیمتی مشورہ دینا چاہتا ہوں۔ چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت کے رہائشیوں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ جب بھی پیدل گھر سے نکلیں بلٹ پروف جیکٹ پہن کر نکلا کریں۔ کوئی حکم عدولی کرے تو اسے فوری طور پر حوالات میں بند کر دیا جائے۔
اس کی ضمانت اسی صورت میں لی جائے جب وہ یہ یقین دہانی کرانے میں کامیاب ہو جائے کہ اگلی دفعہ بلٹ پروف جیکٹ کے بغیر گھر سے قدم نہیں نکالے گا۔ یہ پابندی صرف ان غریبوں پر عائد کی جائے جو سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے کی ''عیاشی'' کے ''مجرم'' ہیں۔ اس سطح سے اوپر لوئر اور اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ''امیرزادوں'' اور ''امیر زادیوں'' پر بلٹ پروف جیکٹ پہننے کے ساتھ ساتھ یہ پابندی بھی لگائی جائے کہ وہ بم پروف گاڑی کے بغیر گھر سے نہ نکلیں۔ اس اپر کلاس کا کوئی فردحکمنامے پر عمل نہ کرے تواسے کم از کم چھ ماہ قید با مشقت کی سزا دی جائے۔ وہ ایک بار سزا بھگتنے کے بعد دوبارہ یہ جرم کرے تو پھر اسے عمر بھر کے لیے جیل میں سڑنے کے لیے بھجوا دیا جائے۔ یوں ان کی حفاظت بھی ہو جائے گی اور حکمران اپنے فرائض بطریق احسن ادا کر سکیں گے۔ مڈل کلاس پر یہ پابندی لگانا زیادہ آسان ہے۔ یہ اس معاشرے کا وہ طبقہ ہے جو تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ جس رفتار سے مہنگائی بڑھتی ہے' ان کی آمدنی اس رفتار سے نہیں بڑھتی اور یہ تیزی سے غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتے ہیں۔ میرے دیکھتے دیکھتے کئی مڈل کلاس گھرانے غریبوں میں شمار ہونے لگے ہیں۔
دہشت گردوں سے ویسے تو کوئی بھی محفوظ نہیں لیکن جب بات آپ کے اپنے گھر تک پہنچ جائے تو پھر تپش کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔ ہم اس خود غرض معاشرے کے خود غرض افراد ہیں۔ دوسروں کے گھر جلتے رہیں تو ہمیں زیادہ احساس نہیں ہوتا۔ ہم تو اس وقت فکر مند ہوتے ہیں جب آگ ہمارے اپنے گھر کے درودیوار تک پہنچ جاتی ہے۔ کراچی میں ایکسپریس میڈیا گروپ کے دفاتر پر ساڑھے تین ماہ میں دوسرا حملہ ہو گیا ہے۔ پہلا حملہ کس نے اور کیوں کیا تھا' یہ ابھی تک معمہ ہے۔ اب پولیس کہتی ہے کہ وہ دوسرے حملے کے مجرموں تک جلد پہنچ جائے گی تو اس پر کیسے اعتبار کیا جائے۔ حکمرانوں کا شکریہ کہ انھوں نے اس حملے کی بھی مذمت کر کے اپنا فرض پورا کر دیا۔ اس لیے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتے ہیں؟ ہمارے محترم احفاظ الرحمٰن جو کولیگ سے زیادہ استاد کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ ان کی تحریر' شاعری اور گفتگو سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ وہ چونکہ کراچی میں رہائش پذیر ہیں اس لیے وہ اہل شہر کا دکھ ہم سیکڑوں میل دور بیٹھے ہوئوں سے بہتر سمجھتے ہیں۔اس دکھ کا اظہار وہ اپنی تحریروں اور نظموں میں اکثر کرتے رہتے ہیں۔ ان کی نظموں کی تازہ کتاب ''زندہ ہے زندگی'' کی ایک نظم حسب حال ہے، آپ کو پیش کر کے رخصت چاہتا ہوں۔اس نظم کا عنوان ہے ہر دل لہولہان۔
ہر دل لہولہان
گلیوں میں اور بازاروں میں
کانٹوں کا لشکر
زہریلی پھنکاروں والے سانپوں کا لشکر
دور تلک ہر ایک سڑک پر
دہشت گرد کا راج
موت اگلتی، خوف اگاتی، بندوقوں کا راج
آگ کا دریا چاروں جانب، دھواں دھواں ہر شکل
ہر دیوار پہ خون سے لکھی اک خونیں تحریر
ہر پائوں سے لپٹی بھاری فولادی زنجیر
صبح سویرے بسوں کے اندر ٹھنسے ٹھنسائے لوگ
شام ڈھلے پھر بسوں کے اندر گھسے گھسائے لوگ
رزق کمانے باہر نکلیں، دل دھڑ دھڑ دھڑکے
گھر آئیں تو موت کی آوازیں سینہ چیریں
کیسے گھر سے نکلیں، کیسے گھر واپس آئیں
لوٹ ماراور خون ریزی کا روز نیا عنوان
...............
ماردھاڑ اور چھینا جھپٹی کا اندھا طوفان
بچ کر کوئی نکل نہ پائے، ہر جانب کہرام
ہر سینے میں خوف کی لرزش، ہر دل لہولہان
چھوٹے چھوٹے گھروں کے اندر سمٹے سہمے لوگ
باہر سناٹے میں گونجتی گولیوں کی بوچھاڑ
بچے، بوڑھے سب کی آنکھیں دہشت سے ویران
گلیوں میں بازاروں میں سانپوں کا لشکر
آگ کا دریا چاروں جانب، دھواں دھواں ہر شکل
...............
اونچے محلوں والے اونچی اونچی بات کریں
عید منائیں روزانہ، ہر شب شبرات کریں
عیش اڑائیں، ناچیں گائیں، سینہ تان جئیں
طاقت اور پیسے کے بل پہ ہم پر راج کریں
اپنی حرص بڑھائیں،
ہم کو صبر کا پھل کھلوائیں
آگ لگائیں نفرت کی اور گوتم بدھ بن جائیں
بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل چلانے پر پابندی ہے۔ میں اکثر ٹریفک سگنلز پر دیکھتا ہوں کہ ٹریفک پولیس کے اہلکارہیڈ گیئر کے بغیر موٹر سائیکل چلانے والوں کو روک کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ان بے چاروں کو چالان کٹوانا پڑتا ہے یا ''مفاہمت'' کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر پولیس اہلکاروں کی مدد کرنا پڑتی ہے۔ مفاہمت کی پالیسی نے اس ملک کی جتنی ''خدمت'' کی ہے اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔ ٹریفک پولیس اپنا کام کرتی رہے، مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے تاہم میں عوام کی ''محافظ'' پولیس کو ایک مفت لیکن بڑا قیمتی مشورہ دینا چاہتا ہوں۔ چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت کے رہائشیوں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ جب بھی پیدل گھر سے نکلیں بلٹ پروف جیکٹ پہن کر نکلا کریں۔ کوئی حکم عدولی کرے تو اسے فوری طور پر حوالات میں بند کر دیا جائے۔
اس کی ضمانت اسی صورت میں لی جائے جب وہ یہ یقین دہانی کرانے میں کامیاب ہو جائے کہ اگلی دفعہ بلٹ پروف جیکٹ کے بغیر گھر سے قدم نہیں نکالے گا۔ یہ پابندی صرف ان غریبوں پر عائد کی جائے جو سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے کی ''عیاشی'' کے ''مجرم'' ہیں۔ اس سطح سے اوپر لوئر اور اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ''امیرزادوں'' اور ''امیر زادیوں'' پر بلٹ پروف جیکٹ پہننے کے ساتھ ساتھ یہ پابندی بھی لگائی جائے کہ وہ بم پروف گاڑی کے بغیر گھر سے نہ نکلیں۔ اس اپر کلاس کا کوئی فردحکمنامے پر عمل نہ کرے تواسے کم از کم چھ ماہ قید با مشقت کی سزا دی جائے۔ وہ ایک بار سزا بھگتنے کے بعد دوبارہ یہ جرم کرے تو پھر اسے عمر بھر کے لیے جیل میں سڑنے کے لیے بھجوا دیا جائے۔ یوں ان کی حفاظت بھی ہو جائے گی اور حکمران اپنے فرائض بطریق احسن ادا کر سکیں گے۔ مڈل کلاس پر یہ پابندی لگانا زیادہ آسان ہے۔ یہ اس معاشرے کا وہ طبقہ ہے جو تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ جس رفتار سے مہنگائی بڑھتی ہے' ان کی آمدنی اس رفتار سے نہیں بڑھتی اور یہ تیزی سے غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتے ہیں۔ میرے دیکھتے دیکھتے کئی مڈل کلاس گھرانے غریبوں میں شمار ہونے لگے ہیں۔
دہشت گردوں سے ویسے تو کوئی بھی محفوظ نہیں لیکن جب بات آپ کے اپنے گھر تک پہنچ جائے تو پھر تپش کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔ ہم اس خود غرض معاشرے کے خود غرض افراد ہیں۔ دوسروں کے گھر جلتے رہیں تو ہمیں زیادہ احساس نہیں ہوتا۔ ہم تو اس وقت فکر مند ہوتے ہیں جب آگ ہمارے اپنے گھر کے درودیوار تک پہنچ جاتی ہے۔ کراچی میں ایکسپریس میڈیا گروپ کے دفاتر پر ساڑھے تین ماہ میں دوسرا حملہ ہو گیا ہے۔ پہلا حملہ کس نے اور کیوں کیا تھا' یہ ابھی تک معمہ ہے۔ اب پولیس کہتی ہے کہ وہ دوسرے حملے کے مجرموں تک جلد پہنچ جائے گی تو اس پر کیسے اعتبار کیا جائے۔ حکمرانوں کا شکریہ کہ انھوں نے اس حملے کی بھی مذمت کر کے اپنا فرض پورا کر دیا۔ اس لیے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتے ہیں؟ ہمارے محترم احفاظ الرحمٰن جو کولیگ سے زیادہ استاد کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ ان کی تحریر' شاعری اور گفتگو سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ وہ چونکہ کراچی میں رہائش پذیر ہیں اس لیے وہ اہل شہر کا دکھ ہم سیکڑوں میل دور بیٹھے ہوئوں سے بہتر سمجھتے ہیں۔اس دکھ کا اظہار وہ اپنی تحریروں اور نظموں میں اکثر کرتے رہتے ہیں۔ ان کی نظموں کی تازہ کتاب ''زندہ ہے زندگی'' کی ایک نظم حسب حال ہے، آپ کو پیش کر کے رخصت چاہتا ہوں۔اس نظم کا عنوان ہے ہر دل لہولہان۔
ہر دل لہولہان
گلیوں میں اور بازاروں میں
کانٹوں کا لشکر
زہریلی پھنکاروں والے سانپوں کا لشکر
دور تلک ہر ایک سڑک پر
دہشت گرد کا راج
موت اگلتی، خوف اگاتی، بندوقوں کا راج
آگ کا دریا چاروں جانب، دھواں دھواں ہر شکل
ہر دیوار پہ خون سے لکھی اک خونیں تحریر
ہر پائوں سے لپٹی بھاری فولادی زنجیر
صبح سویرے بسوں کے اندر ٹھنسے ٹھنسائے لوگ
شام ڈھلے پھر بسوں کے اندر گھسے گھسائے لوگ
رزق کمانے باہر نکلیں، دل دھڑ دھڑ دھڑکے
گھر آئیں تو موت کی آوازیں سینہ چیریں
کیسے گھر سے نکلیں، کیسے گھر واپس آئیں
لوٹ ماراور خون ریزی کا روز نیا عنوان
...............
ماردھاڑ اور چھینا جھپٹی کا اندھا طوفان
بچ کر کوئی نکل نہ پائے، ہر جانب کہرام
ہر سینے میں خوف کی لرزش، ہر دل لہولہان
چھوٹے چھوٹے گھروں کے اندر سمٹے سہمے لوگ
باہر سناٹے میں گونجتی گولیوں کی بوچھاڑ
بچے، بوڑھے سب کی آنکھیں دہشت سے ویران
گلیوں میں بازاروں میں سانپوں کا لشکر
آگ کا دریا چاروں جانب، دھواں دھواں ہر شکل
...............
اونچے محلوں والے اونچی اونچی بات کریں
عید منائیں روزانہ، ہر شب شبرات کریں
عیش اڑائیں، ناچیں گائیں، سینہ تان جئیں
طاقت اور پیسے کے بل پہ ہم پر راج کریں
اپنی حرص بڑھائیں،
ہم کو صبر کا پھل کھلوائیں
آگ لگائیں نفرت کی اور گوتم بدھ بن جائیں