قوم متحد ہو کر کورونا کو شکست دے
وائرس کے خلاف ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ قوم ان کے کردارکو سلام پیش کرتی ہے۔
لاہور:
کورونا وائرس ایک ایسی عالمی وبا کی صورت اختیارکرچکا ہے، جس کے اثرات دنیا پر ایک طویل عرصے تک رہیں گے۔ اس وقت درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پاکستان نے سارک وزراء صحت کی ویڈیوکانفرنس کا اہتمام کیا،جس میں اس وبا سے مقابلہ کرنے کے لیے مل جل کرکام کرنے اورصحت کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیاگیا۔ یہ اقدام انتہائی لائق تحسین ہے،کیونکہ سارک ممالک کے درمیان باہمی تعاون کو فروغ دینے اور مسائل کے حل میں فوری مدد ملے گی۔
جنوبی ایشیا کی صورتحال اس لیے بھی زیادہ حساس ہے کہ یہاں آبادیاں گنجان مگرانتہائی کمزور نظام صحت موجود ہے،اگر خدانخواستہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی آتی ہے تو انسانی آبادی کا بہت بڑا حصہ لقمہ اجل بن سکتا ہے۔کانفرنس کے دوران میڈیکل یونیورسٹیوں اورتحقیقی اداروںکے درمیان رابطوں کی تجاویزکا زیرغور آنا اس لیے بھی مستحسن قدم ہے کہ پاکستان اوربھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث سارک طویل عرصے سے غیرفعال رہی تاہم کورونا وائرس نے رکن ممالک کو باہمی تعاون پر مجبورکر دیا ہے۔
سارک ممالک کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے جو بھی اقدامات اٹھائیں گے، اس سے انسانیت کا بچاؤ ممکن بنایا جاسکے گا، اس پلیٹ فارم کو عوام کی زندگیاں بچانے کے لیے فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔
دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مکمل لاک ڈاؤن بھی کرلیں توکورونا نہیں رکے گا،ہمیں اب اسمارٹ لاک ڈاؤن کی طرف جانا پڑے گا۔گزشتہ روز وزیراعظم نے احساس ٹیلی تھون میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹرزکی باتیں سمجھتا ہوں، دنیا میں اس تیزی سے پھیلنے والا وائرس کبھی پہلے نہیں آیا۔ وزیراعظم کے خیالات اور اقدامات بلاشبہ قابل ستائش ہیں۔ وہ پہلے دن سے ایک بات دہرا رہے ہیں کہ وہ لاک ڈاؤن کے ذریعے عوام کا معاشی قتل عام نہیں چاہتے، کیونکہ مسلسل اور طویل لاک ڈاؤن کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقے کے لیے جینا انتہائی مشکل ہوجائے گا ، اگر لاک ڈاؤن کا خوف سرچڑھ کر بولا تو اس بات کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کے کروڑوں دیہاڑی دارمزدور اور ان کے خاندان بھوک کا شکار ہوجائیں گے۔
وزیراعظم انتہائی حساس دل اور دردمندانہ سوچ کے حامل ہیں وہ خلوص نیت سے چاہتے ہیں کہ کچی بستیوں کے رہنے والوں کو ریلیف فراہم کیا جائے۔ وزیراعظم نے یہ بات بھی قوم کو بتائی کہ حکومت کورونا وائرس کے مشتبہ کیسزکا پتہ لگانے کے لیے آئی ایس آئی کی جانب سے فراہم کیا گیا سسٹم استعمال کررہی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے حکومتی رفقاء کے ہمراہ آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرزکا دورہ کیا، جہاں انھیں ملکی سلامتی کو درپیش چیلنجز اورکورونا وائرس کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ اس بحران کے دوران فوج اورحکومت کا ایک پیج پر ہونا خوش آیند امر ہے۔
وزیراعظم نے سابقہ حکومت کے دور میں بجلی ،گیس کے معاہدوں پر نظرثانی کے بعد، نرخوں میں کمی کی امید بھی عوام کو دلوائی ہے جو عوام کے لیے ایک بڑی خوشخبری سے کم نہیں۔ یہ حکومتی اقدامات کا ہی ثمر ہے کہ گزشتہ روز پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں تیزی کے اثرات نظر آئے اور ڈالر مزید سستا ہوکر 160 روپے کا ہوگیا۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم نے خبردارکیا ہے کہ کورونا وائرس پاکستان کے 115 اضلاع میں پھیل چکا ہے اور اگر مؤثر اقدامات نہ کیے گئے توجولائی کے وسط تک پاکستان میں کورونا متاثرین کی تعداد 2 لاکھ سے زائد ہوسکتی ہے۔ عالمی ادارے کی جانب سے جاری انتباہ صورتحال کی سنگینی کی طرف واضح ترین اشارہ ہے۔ ہمیں اس بات کو قطعاً نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ ہمارا نظام صحت انتہائی کمزور ہونے کے بنا کسی بھی دباؤ کا سامنا کرنے کی استعداد نہیں رکھتا۔
عوام کو ہرممکن طور پر احتیاط برتنی چاہیے جب کہ موجودہ وفاقی حکومت کو صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کے مقابلے کے لیے قومی سطح پرمربوط حکمت عملی تشکیل دینا ہوگی، جب کہ '' کووڈ نائنٹین رسپانس پلان'' کی کامیابی کے امکانات آنے والے دنوں میں پاکستانی حکومت، اقوام متحدہ اوراس کے شراکت داروں کی مشترکہ حکمت عملی پر منحصر ہے۔ ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستان میں وزیراعظم عمران خان اور وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سمیت دیگر وزرا بھی کورونا کیسز میں اضافے کا خدشہ ظاہر کرچکے ہیں۔
اس وقت ملک میں کورونا متاثرین کی تعداد گیارہ ہزار سے تجاوز کرچکی ہے، جس میں سے آٹھ ہزار سے زائد فعال کیسز ہیں، 237 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اب ہم بحیثیت قوم کورونا وائرس کے خلاف حالت جنگ میں ہیں، وائرس کے خلاف ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ قوم ان کے کردارکو سلام پیش کرتی ہے لیکن دوسری جانب نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر وزارت قومی صحت نے کہا ہے کہ ملک بھر میں اب تک 124 ڈاکٹرز، 39 نرسز اور 90 ہیلتھ کیئر ورکرزکورونا میں متاثر ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان میں 92 آئسولیشن، 125 اسپتالوں میں زیر علاج جب کہ 33 مریضوں کو ڈسچارج کیا گیا۔ یہ ایک الارمنگ صورتحال ہے،حکومت کو ڈاکٹرزاور پیرامیڈیکل اسٹاف کے لیے حفاظتی سامان کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے خدانخواستہ ہمارے مسیحا اس وائرس کا شکار ہوتے رہے تو پھر یہ جنگ کون لڑے گا؟
کڑوا سچ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک قائم ہونے والی کسی بھی حکومت کی ترجیح شعبہ صحت نہیں رہا ہے، شعبہ صحت کی بربادی اور تباہی کی ذمے داری سب پر عائد ہوتی ہے۔ طبی ماہرین کا یہ خدشہ درست ہے کہ اگر ملک میں وائرس کا پھیلاؤ ہوا تو اس پر قابو پانے کے لیے ہمارے پاس ناکافی سہولتیں ہیں جو بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہیں۔رمضان المبارک کا آغازہوچکا ہے، گوکہ حکومت نے مساجد میں نماز تراویح کی مشروط اجازت دی ہے لیکن اب یہ مساجد انتظامیہ اور عوام کا کڑا امتحان ہے کہ وہ حفاظتی ہدایات پر عمل کرتے ہیں یا نہیں۔
یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ آیندہ بجٹ میں قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے صحت کے لیے خصوصی فنڈز مختص کیے جائیں اور بعض حلقوں کی جانب سے یہ شکوہ بھی کیا گیا ہے کہ حکومت کورونا وائرس کے مسئلے کو غیر سنجیدگی سے ڈیل کر رہی ہے۔ ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں حکومت سنجیدہ نہ ہوئی تو اسپتال بھر جائیں گے۔ کورونا وائرس کے خلاف ڈاکٹرز کی خدمات لائق تحسین ہیں جب کہ میڈیا بھی شعور اجاگر کرنے میں اپنا بھرپورکردار ادا کررہا ہے۔
ملک میں رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی مہنگائی کی شرح میں اضافے کا رجحان شروع ہوگیا ہے۔ وفاقی ادارہ برائے شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ 23 اپریل کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران قیمتوں کے اعشاریہ ( ایس پی آئی) کے لحاظ سے گزشتہ سال کے اسی عرصہ کے مقابلے میں ملک میں مہنگائی کی شرح 7.90 فی صد رہی ہے ۔ حکومت کو اس رجحان کی بیخ کنی کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
خیبرپختونخوا حکومت نے لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے انتظام فوج کے حوالے کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا البتہ اگر عوام نے تعاون نہ کیا تو فوج کو بلایا جا سکتا ہے، صوبائی حکومت کے مطابق کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کے پول ٹیسٹ کرنے کی خیبرمیڈیکل یونیورسٹی نے صلاحیت حاصل کرلی ہے جس سے ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت روزانہ 15 سو تک پہنچ گئی ہے جو یکم مئی تک 2ہزار ہو جائے گی۔
یہ اقدام قابل تعریف ہے کہ جتنے زیادہ ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت بڑھے گی، اتنا ہی وائرس سے متاثرہ مریضوں کا علاج کیا جاسکے گا، جب کہ صوبہ سندھ نے ماہ رمضان کے لیے بھی ایس او پی تیار کرلیا ہے جن کاروبار کو صبح 8 سے شام پانچ تک کی اجازت ہے وہ برقرار رہے گی تاہم تیار کھانوں کی ڈیلیوری کرنے والے کاروبار کو شام پانچ بجے سے رات دس بجے تک اجازت دی جائے گی، ماہ صیام میں سموسے پکوڑے کی دکانیں اور بیکری شام پانچ بجے تک بند کرنا ہونگی۔
مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویزالٰہی نے پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر وکلاء کی مشکلات اور ان کے مسائل کے حل کے لیے فنڈزجاری کرے۔ فنڈز تاخیر سے جاری کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، وکلاء نہ توکوئی کاروبارکر سکتے ہیں نہ ہی نوکری کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا وبائی مرض کورونا وائرس کا شکار ہے، پاکستان میں ہر طبقہ معاشی مشکلات کا شکار ہے۔
پنجاب حکومت احساس پروگرام کے تحت سفید پوش افراد کی مددکررہی ہے، وکلا ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی نے جن خیالات کا اظہارکیا ہے وہ انتہائی صائب ہیں،ان کے اٹھائے گئے نکات اور مطالبات پر حکومت پنجاب کو فوری توجہ دینی چاہیے۔
این ڈی ایم اے کے مطابق چین سے خریدے گئے طبی سامان کی ایک اور کھیپ پاکستان پہنچ گئی ہے،ایئر فورس کا خصوصی طیارہ سامان لے کر اسلام آباد پہنچا ہے، سامان میں بیس بائیوسیفٹی کیبینٹ اور پچاس ہزار وی ٹی ایم کٹس کے علاوہ دیگر اشیاء شامل ہیں۔ ترجمان این ڈی اے کے مطابق چند روز میں تمام صوبوں ، آزاد کشمیر اورگلگت ، بلتستان کو مزید حفاظتی کٹس اور ٹیسٹنگ کٹس مہیا کردی جائیں گی۔
یہ بات سچ ہے کہ چین مشکل کی ہرگھڑی میں ہمارے کام آیا ہے۔اسی لیے پاک چین دوستی دنیا میں ضرب المثل بن چکی ہے۔ حرف آخر، ہمیں بحیثیت قوم کورونا وبا کا مقابلہ مل کرکرنا ہے،کیونکہ ہم ایک زندہ اور پایندہ قوم ہیں۔
کورونا وائرس ایک ایسی عالمی وبا کی صورت اختیارکرچکا ہے، جس کے اثرات دنیا پر ایک طویل عرصے تک رہیں گے۔ اس وقت درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پاکستان نے سارک وزراء صحت کی ویڈیوکانفرنس کا اہتمام کیا،جس میں اس وبا سے مقابلہ کرنے کے لیے مل جل کرکام کرنے اورصحت کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیاگیا۔ یہ اقدام انتہائی لائق تحسین ہے،کیونکہ سارک ممالک کے درمیان باہمی تعاون کو فروغ دینے اور مسائل کے حل میں فوری مدد ملے گی۔
جنوبی ایشیا کی صورتحال اس لیے بھی زیادہ حساس ہے کہ یہاں آبادیاں گنجان مگرانتہائی کمزور نظام صحت موجود ہے،اگر خدانخواستہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی آتی ہے تو انسانی آبادی کا بہت بڑا حصہ لقمہ اجل بن سکتا ہے۔کانفرنس کے دوران میڈیکل یونیورسٹیوں اورتحقیقی اداروںکے درمیان رابطوں کی تجاویزکا زیرغور آنا اس لیے بھی مستحسن قدم ہے کہ پاکستان اوربھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث سارک طویل عرصے سے غیرفعال رہی تاہم کورونا وائرس نے رکن ممالک کو باہمی تعاون پر مجبورکر دیا ہے۔
سارک ممالک کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے جو بھی اقدامات اٹھائیں گے، اس سے انسانیت کا بچاؤ ممکن بنایا جاسکے گا، اس پلیٹ فارم کو عوام کی زندگیاں بچانے کے لیے فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔
دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مکمل لاک ڈاؤن بھی کرلیں توکورونا نہیں رکے گا،ہمیں اب اسمارٹ لاک ڈاؤن کی طرف جانا پڑے گا۔گزشتہ روز وزیراعظم نے احساس ٹیلی تھون میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹرزکی باتیں سمجھتا ہوں، دنیا میں اس تیزی سے پھیلنے والا وائرس کبھی پہلے نہیں آیا۔ وزیراعظم کے خیالات اور اقدامات بلاشبہ قابل ستائش ہیں۔ وہ پہلے دن سے ایک بات دہرا رہے ہیں کہ وہ لاک ڈاؤن کے ذریعے عوام کا معاشی قتل عام نہیں چاہتے، کیونکہ مسلسل اور طویل لاک ڈاؤن کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقے کے لیے جینا انتہائی مشکل ہوجائے گا ، اگر لاک ڈاؤن کا خوف سرچڑھ کر بولا تو اس بات کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کے کروڑوں دیہاڑی دارمزدور اور ان کے خاندان بھوک کا شکار ہوجائیں گے۔
وزیراعظم انتہائی حساس دل اور دردمندانہ سوچ کے حامل ہیں وہ خلوص نیت سے چاہتے ہیں کہ کچی بستیوں کے رہنے والوں کو ریلیف فراہم کیا جائے۔ وزیراعظم نے یہ بات بھی قوم کو بتائی کہ حکومت کورونا وائرس کے مشتبہ کیسزکا پتہ لگانے کے لیے آئی ایس آئی کی جانب سے فراہم کیا گیا سسٹم استعمال کررہی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے حکومتی رفقاء کے ہمراہ آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرزکا دورہ کیا، جہاں انھیں ملکی سلامتی کو درپیش چیلنجز اورکورونا وائرس کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ اس بحران کے دوران فوج اورحکومت کا ایک پیج پر ہونا خوش آیند امر ہے۔
وزیراعظم نے سابقہ حکومت کے دور میں بجلی ،گیس کے معاہدوں پر نظرثانی کے بعد، نرخوں میں کمی کی امید بھی عوام کو دلوائی ہے جو عوام کے لیے ایک بڑی خوشخبری سے کم نہیں۔ یہ حکومتی اقدامات کا ہی ثمر ہے کہ گزشتہ روز پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں تیزی کے اثرات نظر آئے اور ڈالر مزید سستا ہوکر 160 روپے کا ہوگیا۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم نے خبردارکیا ہے کہ کورونا وائرس پاکستان کے 115 اضلاع میں پھیل چکا ہے اور اگر مؤثر اقدامات نہ کیے گئے توجولائی کے وسط تک پاکستان میں کورونا متاثرین کی تعداد 2 لاکھ سے زائد ہوسکتی ہے۔ عالمی ادارے کی جانب سے جاری انتباہ صورتحال کی سنگینی کی طرف واضح ترین اشارہ ہے۔ ہمیں اس بات کو قطعاً نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ ہمارا نظام صحت انتہائی کمزور ہونے کے بنا کسی بھی دباؤ کا سامنا کرنے کی استعداد نہیں رکھتا۔
عوام کو ہرممکن طور پر احتیاط برتنی چاہیے جب کہ موجودہ وفاقی حکومت کو صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کے مقابلے کے لیے قومی سطح پرمربوط حکمت عملی تشکیل دینا ہوگی، جب کہ '' کووڈ نائنٹین رسپانس پلان'' کی کامیابی کے امکانات آنے والے دنوں میں پاکستانی حکومت، اقوام متحدہ اوراس کے شراکت داروں کی مشترکہ حکمت عملی پر منحصر ہے۔ ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستان میں وزیراعظم عمران خان اور وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سمیت دیگر وزرا بھی کورونا کیسز میں اضافے کا خدشہ ظاہر کرچکے ہیں۔
اس وقت ملک میں کورونا متاثرین کی تعداد گیارہ ہزار سے تجاوز کرچکی ہے، جس میں سے آٹھ ہزار سے زائد فعال کیسز ہیں، 237 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اب ہم بحیثیت قوم کورونا وائرس کے خلاف حالت جنگ میں ہیں، وائرس کے خلاف ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ قوم ان کے کردارکو سلام پیش کرتی ہے لیکن دوسری جانب نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر وزارت قومی صحت نے کہا ہے کہ ملک بھر میں اب تک 124 ڈاکٹرز، 39 نرسز اور 90 ہیلتھ کیئر ورکرزکورونا میں متاثر ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان میں 92 آئسولیشن، 125 اسپتالوں میں زیر علاج جب کہ 33 مریضوں کو ڈسچارج کیا گیا۔ یہ ایک الارمنگ صورتحال ہے،حکومت کو ڈاکٹرزاور پیرامیڈیکل اسٹاف کے لیے حفاظتی سامان کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے خدانخواستہ ہمارے مسیحا اس وائرس کا شکار ہوتے رہے تو پھر یہ جنگ کون لڑے گا؟
کڑوا سچ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک قائم ہونے والی کسی بھی حکومت کی ترجیح شعبہ صحت نہیں رہا ہے، شعبہ صحت کی بربادی اور تباہی کی ذمے داری سب پر عائد ہوتی ہے۔ طبی ماہرین کا یہ خدشہ درست ہے کہ اگر ملک میں وائرس کا پھیلاؤ ہوا تو اس پر قابو پانے کے لیے ہمارے پاس ناکافی سہولتیں ہیں جو بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہیں۔رمضان المبارک کا آغازہوچکا ہے، گوکہ حکومت نے مساجد میں نماز تراویح کی مشروط اجازت دی ہے لیکن اب یہ مساجد انتظامیہ اور عوام کا کڑا امتحان ہے کہ وہ حفاظتی ہدایات پر عمل کرتے ہیں یا نہیں۔
یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ آیندہ بجٹ میں قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے صحت کے لیے خصوصی فنڈز مختص کیے جائیں اور بعض حلقوں کی جانب سے یہ شکوہ بھی کیا گیا ہے کہ حکومت کورونا وائرس کے مسئلے کو غیر سنجیدگی سے ڈیل کر رہی ہے۔ ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں حکومت سنجیدہ نہ ہوئی تو اسپتال بھر جائیں گے۔ کورونا وائرس کے خلاف ڈاکٹرز کی خدمات لائق تحسین ہیں جب کہ میڈیا بھی شعور اجاگر کرنے میں اپنا بھرپورکردار ادا کررہا ہے۔
ملک میں رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی مہنگائی کی شرح میں اضافے کا رجحان شروع ہوگیا ہے۔ وفاقی ادارہ برائے شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ 23 اپریل کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران قیمتوں کے اعشاریہ ( ایس پی آئی) کے لحاظ سے گزشتہ سال کے اسی عرصہ کے مقابلے میں ملک میں مہنگائی کی شرح 7.90 فی صد رہی ہے ۔ حکومت کو اس رجحان کی بیخ کنی کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
خیبرپختونخوا حکومت نے لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے انتظام فوج کے حوالے کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا البتہ اگر عوام نے تعاون نہ کیا تو فوج کو بلایا جا سکتا ہے، صوبائی حکومت کے مطابق کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کے پول ٹیسٹ کرنے کی خیبرمیڈیکل یونیورسٹی نے صلاحیت حاصل کرلی ہے جس سے ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت روزانہ 15 سو تک پہنچ گئی ہے جو یکم مئی تک 2ہزار ہو جائے گی۔
یہ اقدام قابل تعریف ہے کہ جتنے زیادہ ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت بڑھے گی، اتنا ہی وائرس سے متاثرہ مریضوں کا علاج کیا جاسکے گا، جب کہ صوبہ سندھ نے ماہ رمضان کے لیے بھی ایس او پی تیار کرلیا ہے جن کاروبار کو صبح 8 سے شام پانچ تک کی اجازت ہے وہ برقرار رہے گی تاہم تیار کھانوں کی ڈیلیوری کرنے والے کاروبار کو شام پانچ بجے سے رات دس بجے تک اجازت دی جائے گی، ماہ صیام میں سموسے پکوڑے کی دکانیں اور بیکری شام پانچ بجے تک بند کرنا ہونگی۔
مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویزالٰہی نے پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر وکلاء کی مشکلات اور ان کے مسائل کے حل کے لیے فنڈزجاری کرے۔ فنڈز تاخیر سے جاری کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، وکلاء نہ توکوئی کاروبارکر سکتے ہیں نہ ہی نوکری کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا وبائی مرض کورونا وائرس کا شکار ہے، پاکستان میں ہر طبقہ معاشی مشکلات کا شکار ہے۔
پنجاب حکومت احساس پروگرام کے تحت سفید پوش افراد کی مددکررہی ہے، وکلا ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی نے جن خیالات کا اظہارکیا ہے وہ انتہائی صائب ہیں،ان کے اٹھائے گئے نکات اور مطالبات پر حکومت پنجاب کو فوری توجہ دینی چاہیے۔
این ڈی ایم اے کے مطابق چین سے خریدے گئے طبی سامان کی ایک اور کھیپ پاکستان پہنچ گئی ہے،ایئر فورس کا خصوصی طیارہ سامان لے کر اسلام آباد پہنچا ہے، سامان میں بیس بائیوسیفٹی کیبینٹ اور پچاس ہزار وی ٹی ایم کٹس کے علاوہ دیگر اشیاء شامل ہیں۔ ترجمان این ڈی اے کے مطابق چند روز میں تمام صوبوں ، آزاد کشمیر اورگلگت ، بلتستان کو مزید حفاظتی کٹس اور ٹیسٹنگ کٹس مہیا کردی جائیں گی۔
یہ بات سچ ہے کہ چین مشکل کی ہرگھڑی میں ہمارے کام آیا ہے۔اسی لیے پاک چین دوستی دنیا میں ضرب المثل بن چکی ہے۔ حرف آخر، ہمیں بحیثیت قوم کورونا وبا کا مقابلہ مل کرکرنا ہے،کیونکہ ہم ایک زندہ اور پایندہ قوم ہیں۔