منگنی۔۔۔ کچا ہے بہت یہ بندھن
مستقبل میں نکاح کرنے کے وعدے کا نام منگنی ہے
HALLE, GERMANY:
'' میں یہ منگنی توڑنا چاہتا ہوں۔'' فیضان نے ماں کو اپنا فیصلہ سنایا
''تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے۔ پورے چار سال تمہاری یہ منگنی رہی ہے۔ تم نے پورے خاندان سے لڑ کر سویرا سے رشتہ جوڑا تھا۔ اب جب کہ ہم شادی کا سوچ رہے ہیں، تو تم منگنی توڑنے کی بات کررہے ہو۔'' فاطمہ کا دماغ بیٹے کی بات سن کر گھوم گیا۔
''اچھا ہے نا، امی! یہ بات پہلے ہی ختم ہو رہی ہے، اگر شادی کے بعد ایسا ہوتا تو، سویرا کا زیادہ نقصان ہوتا۔'' فیضان کا چہرہ بے تاثر تھا۔
''میں وجہ پوچھ سکتی ہوں کہ تم یہ رشتہ کیوں ختم کرنا چاہتے ہو، جو تمہاری ہی ایما پر قائم ہوا تھا۔'' فاطمہ نے بیٹے کو جھنجھوڑا۔
''میں اس پر ساری زندگی اعتبار نہیں کرسکوں گا، جب وہ میرے ساتھ گھوم پھر سکتی ہے تو۔۔۔۔۔'' فیضان یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
منگنی ایک رسم ہے، جو شادی سے قبل ادا کی جاتی ہے، جس میں ایک لڑکا لڑکی کی بات طے کرکے انھیں شادی کے بندھن میں باندھ دینے کے ارادے کا پختہ اظہار کیا جاتا ہے۔ منگنی کی کوئی شرعی اور قانونی حیثیت تو نہیں، مگر یہ ایک معاشرتی رسم ہے۔ مستقبل میں نکاح کرنے کے وعدے کا نام منگنی ہے۔ اس کے ٹوٹنے کا خدشہ بھی رہتا ہے۔ کچھ مائیں نکاح سے قبل اسی لیے منگنی کی حمایت کرتی ہیں، تاکہ دو خاندان ایک دوسرے کو اچھی طرح سے پرکھ لیں، اگر کوئی خرابی نظر آئے تو منگنی نکاح کے مقابلے میں ختم کرنا زیادہ آسان ہوتی ہے، یا یوں کہہ لیں کہ یہ ایک کچا دھاگا ہوتا ہے۔
ہمارا معاشرہ آزادی کی اندھا دھند دوڑ میں شامل ہو گیا ہے، چناں چہ کچھ مائیں بھول چکی ہیں کہ بیٹی کے حوالے سے ان پر کتنی بڑی ذمے داری عاید ہے۔ منگنی ایک عارضی بندھن ہوتا ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی آنکھیں بند کرلیتی ہیں۔ بیٹی کی بات طے یا منگنی ہوجانے کے بعد اسے پوری آزادی دے دیتی ہیں کہ وہ اپنے منگیتر کے ساتھ آزادانہ گھومے پھرے، پارکوں میں جائے، موبائل پر پوری پوری رات باتیں کرے، تصویریں کھنچوائے۔
منگنی کے بعد دی جانے والی آزادی کا منفی پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ اسی لڑکے سے شادی ہوجائے جس کے ساتھ رشتہ طے پایا گیا تھا تو خیر ہے، مگر خدا نہ خواستہ اگر یہ رشتہ ختم ہوجائے، تو زیادہ نقصان لڑکی کے کھاتے میں آتا ہے۔ مائوں کو چاہیے کہ وہ سمجھ داری سے کام لیں اور اپنی بیٹیوں کو غلط اور صحیح بات سے روشناس کرائیں۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ''بعد کے رونے سے پہلے کا رونا اچھا ہے۔''
منگنی صرف ایک وعدہ ہوتا ہے، اگر خدا نہ خواستہ آگے جا کر رشتے کا یہ سلسلہ ٹوٹ جائے، تو اس کا خمیازہ بے چاری لڑکی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس کا دل تو ٹوٹتا ہی اور معاشرے کے منفی رویے کا سامنا بھی اسی کو کرنا پڑتا ہے۔
ماضی میں معاشرتی اقدار میں اس بات کا تصور بھی نہیں تھا کہ والدین کے درمیان آپس میں بات طے ہوجانے کے بعد لڑکیاں اپنے منگیتر کے ساتھ آزادانہ طور پر گھومیں پھریں یا حد سے زیادہ بات چیت کریں۔ آج بھی عقل مند مائیں، بیٹی کی ازدواجی زندگی کو کام یاب بنانے کے لیے اپنی بیٹیوں کو یوں آزادانہ میل جول کی اجازت نہیں دیتیں۔
ماضی کے مقابلے میں اب نوجوانوں کو بے انتہا مواقع میسر آگئے ہیں۔ موبائل پر ایس ایم ایس اور فری کال پیکیجز نے بھی ان کا کام آسان کردیا ہے۔ پھر میڈیا کی آزادی نے بھی لڑکے لڑکیوں کے دل و دماغ کو مسمرائز کردیا ہے۔ ایک ہی چیز تواتر سے بنا سنوار کے پیش کی جائے، تو وہ معاشرے میں اپنی جگہ بناہی لیتی ہے۔ پھر برائی برائی نہیں لگتی۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں، اس طرح ملنے جلنے کو شخصی آزادی کا نام دیتے ہیں۔
ناعاقبت اندیش مائیں یہ موقف اپناتی ہیں کہ منگنی سے پہلے ملاقاتوں سے لڑکے لڑکی کو شادی کے بعد ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔ یوں ''سب کہہ دو'' کے طرز پر وہ سب کہہ دیا جاتا ہے کہ پھر ان کے پاس بعد میں کہنے کے لیے کچھ نہیں بچتا، اور وہ ایک دوسرے سے بیزار ہونے لگتے ہیں۔ اس صورت حال کا انجام کبھی کبھی رشتے کا خاتمہ ہوتا ہے، جس کے باعث دو خاندانوں کے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں، بدنامی ہوتی ہے اور لڑکی اپنے آس پاس رہنے والوں اور رشتے داروں کی نظروں میں مطعون ٹھہرائی جاتی ہے۔
مائوں کو خود اپنی بیٹیوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنا دوست بنائیں، تاکہ وہ اپنے مسائل پر اپنے والدین خصوصاً اپنی ماں سے تبادلہ خیال کر سکیں۔ مائوں کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو صرف ایک حد میں رہتے ہوئے اپنے منگیتر سے بات چیت کرنے کی آزادی دیں، اس مسئلے کا بہترین حل یہ ہے کہ منگنی اور شادی کے درمیان کا وقفہ بہت مختصر ہو، تاکہ معاشرہ بڑی خرابیوں سے بچا رہے۔
'' میں یہ منگنی توڑنا چاہتا ہوں۔'' فیضان نے ماں کو اپنا فیصلہ سنایا
''تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے۔ پورے چار سال تمہاری یہ منگنی رہی ہے۔ تم نے پورے خاندان سے لڑ کر سویرا سے رشتہ جوڑا تھا۔ اب جب کہ ہم شادی کا سوچ رہے ہیں، تو تم منگنی توڑنے کی بات کررہے ہو۔'' فاطمہ کا دماغ بیٹے کی بات سن کر گھوم گیا۔
''اچھا ہے نا، امی! یہ بات پہلے ہی ختم ہو رہی ہے، اگر شادی کے بعد ایسا ہوتا تو، سویرا کا زیادہ نقصان ہوتا۔'' فیضان کا چہرہ بے تاثر تھا۔
''میں وجہ پوچھ سکتی ہوں کہ تم یہ رشتہ کیوں ختم کرنا چاہتے ہو، جو تمہاری ہی ایما پر قائم ہوا تھا۔'' فاطمہ نے بیٹے کو جھنجھوڑا۔
''میں اس پر ساری زندگی اعتبار نہیں کرسکوں گا، جب وہ میرے ساتھ گھوم پھر سکتی ہے تو۔۔۔۔۔'' فیضان یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
منگنی ایک رسم ہے، جو شادی سے قبل ادا کی جاتی ہے، جس میں ایک لڑکا لڑکی کی بات طے کرکے انھیں شادی کے بندھن میں باندھ دینے کے ارادے کا پختہ اظہار کیا جاتا ہے۔ منگنی کی کوئی شرعی اور قانونی حیثیت تو نہیں، مگر یہ ایک معاشرتی رسم ہے۔ مستقبل میں نکاح کرنے کے وعدے کا نام منگنی ہے۔ اس کے ٹوٹنے کا خدشہ بھی رہتا ہے۔ کچھ مائیں نکاح سے قبل اسی لیے منگنی کی حمایت کرتی ہیں، تاکہ دو خاندان ایک دوسرے کو اچھی طرح سے پرکھ لیں، اگر کوئی خرابی نظر آئے تو منگنی نکاح کے مقابلے میں ختم کرنا زیادہ آسان ہوتی ہے، یا یوں کہہ لیں کہ یہ ایک کچا دھاگا ہوتا ہے۔
ہمارا معاشرہ آزادی کی اندھا دھند دوڑ میں شامل ہو گیا ہے، چناں چہ کچھ مائیں بھول چکی ہیں کہ بیٹی کے حوالے سے ان پر کتنی بڑی ذمے داری عاید ہے۔ منگنی ایک عارضی بندھن ہوتا ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی آنکھیں بند کرلیتی ہیں۔ بیٹی کی بات طے یا منگنی ہوجانے کے بعد اسے پوری آزادی دے دیتی ہیں کہ وہ اپنے منگیتر کے ساتھ آزادانہ گھومے پھرے، پارکوں میں جائے، موبائل پر پوری پوری رات باتیں کرے، تصویریں کھنچوائے۔
منگنی کے بعد دی جانے والی آزادی کا منفی پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ اسی لڑکے سے شادی ہوجائے جس کے ساتھ رشتہ طے پایا گیا تھا تو خیر ہے، مگر خدا نہ خواستہ اگر یہ رشتہ ختم ہوجائے، تو زیادہ نقصان لڑکی کے کھاتے میں آتا ہے۔ مائوں کو چاہیے کہ وہ سمجھ داری سے کام لیں اور اپنی بیٹیوں کو غلط اور صحیح بات سے روشناس کرائیں۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ''بعد کے رونے سے پہلے کا رونا اچھا ہے۔''
منگنی صرف ایک وعدہ ہوتا ہے، اگر خدا نہ خواستہ آگے جا کر رشتے کا یہ سلسلہ ٹوٹ جائے، تو اس کا خمیازہ بے چاری لڑکی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس کا دل تو ٹوٹتا ہی اور معاشرے کے منفی رویے کا سامنا بھی اسی کو کرنا پڑتا ہے۔
ماضی میں معاشرتی اقدار میں اس بات کا تصور بھی نہیں تھا کہ والدین کے درمیان آپس میں بات طے ہوجانے کے بعد لڑکیاں اپنے منگیتر کے ساتھ آزادانہ طور پر گھومیں پھریں یا حد سے زیادہ بات چیت کریں۔ آج بھی عقل مند مائیں، بیٹی کی ازدواجی زندگی کو کام یاب بنانے کے لیے اپنی بیٹیوں کو یوں آزادانہ میل جول کی اجازت نہیں دیتیں۔
ماضی کے مقابلے میں اب نوجوانوں کو بے انتہا مواقع میسر آگئے ہیں۔ موبائل پر ایس ایم ایس اور فری کال پیکیجز نے بھی ان کا کام آسان کردیا ہے۔ پھر میڈیا کی آزادی نے بھی لڑکے لڑکیوں کے دل و دماغ کو مسمرائز کردیا ہے۔ ایک ہی چیز تواتر سے بنا سنوار کے پیش کی جائے، تو وہ معاشرے میں اپنی جگہ بناہی لیتی ہے۔ پھر برائی برائی نہیں لگتی۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں، اس طرح ملنے جلنے کو شخصی آزادی کا نام دیتے ہیں۔
ناعاقبت اندیش مائیں یہ موقف اپناتی ہیں کہ منگنی سے پہلے ملاقاتوں سے لڑکے لڑکی کو شادی کے بعد ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔ یوں ''سب کہہ دو'' کے طرز پر وہ سب کہہ دیا جاتا ہے کہ پھر ان کے پاس بعد میں کہنے کے لیے کچھ نہیں بچتا، اور وہ ایک دوسرے سے بیزار ہونے لگتے ہیں۔ اس صورت حال کا انجام کبھی کبھی رشتے کا خاتمہ ہوتا ہے، جس کے باعث دو خاندانوں کے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں، بدنامی ہوتی ہے اور لڑکی اپنے آس پاس رہنے والوں اور رشتے داروں کی نظروں میں مطعون ٹھہرائی جاتی ہے۔
مائوں کو خود اپنی بیٹیوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنا دوست بنائیں، تاکہ وہ اپنے مسائل پر اپنے والدین خصوصاً اپنی ماں سے تبادلہ خیال کر سکیں۔ مائوں کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو صرف ایک حد میں رہتے ہوئے اپنے منگیتر سے بات چیت کرنے کی آزادی دیں، اس مسئلے کا بہترین حل یہ ہے کہ منگنی اور شادی کے درمیان کا وقفہ بہت مختصر ہو، تاکہ معاشرہ بڑی خرابیوں سے بچا رہے۔