ایشیا کپ بھارتی لالچ کی بھینٹ چڑھنے لگا
آئی پی ایل کیلیے قربانی کا بکرا نہیں بننے دینا، بورڈکا اصولی فیصلہ،کسی ایک ملک کے مفاد میں ایسا قبول نہیں، سی ای او
ایشیا کپ بھارتی لالچ کی بھینٹ چڑھنے لگا تاہم پاکستان راہ میں حائل ہو گیا۔
بھارتی کرکٹ بورڈ کیلیے بھاری آمدنی کا ذریعہ پریمیئر لیگ کا انعقاد مارچ میں ہونا تھا، کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال میں اسے غیر معینہ مدت کیلیے ملتوی کر دیا گیا، میڈیا رپورٹس کے مطابق بی سی سی آئی دسمبر میں پاکستان کی میزبانی میں ہونے والے ایشیا کپ کو ملتوی کرواکے اسی ونڈو کو آئی پی ایل کیلیے استعمال کرنے کی خواہش رکھتا ہے، یوں بھارتی لیگ کیلیے ایشیائی کرکٹرز کی بڑی تعداد بھی میسر ہوجائے گی لیکن پاکستان نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے ایشیا کپ کو قربانی کا بکرا بنانے سے انکار کر دیا ہے۔
ایک غیرملکی خبررساں ایجنسی کو انٹرویو میں پی سی پی کے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان نے کہاکہ ایشیا کپ ستمبر میں شیڈول ہے، کورونا وائرس کی وجہ سے صحت اور سلامتی کے مسائل نہ ہوئے تو اسے ملتوی کرکے نومبر، دسمبر میں کرانے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی،ہم کبھی یہ بات قبول نہیں کریں گے کہ آئی پی ایل کا انعقاد ممکن بنانے کیلیے ایشیائی ایونٹ کو ملتوی کردیا جائے، کسی ایک ملک کیلیے پہلے سے طے شدہ ٹورنامنٹ کا شیڈول متاثر کرنا درست نہیں، اسے قطعی طور پر ہماری سپورٹ حاصل نہیں ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ نومبر، دسمبر میں پاکستان کو زمبابوے کی میزبانی کرنا اور نیوزی لینڈ کے دورے پر جانا ہے، اس لیے ایشیا کپ کا التوا پلاننگ کا حصہ نہیں بن سکتا۔
وسیم خان نے کہا کہ جمعرات کو آئی سی سی چیف ایگزیکٹیوز کمیٹی کی میٹنگ میں بی سی سی آئی کی جانب سے ایشیا کپ کے التوا اور آئی پی ایل کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی،بہرحال ہمارا موقف واضح ہے کہ اس معاملے میں کسی مصلحت سے کام نہیں لیں گے۔
ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ رواں سال اکتوبر، نومبر میں ہونے والا ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ بند دروازوں کے پیچھے بھی کرایا جاسکتا ہے،اگر میگا ایونٹ نہیں ہوتا تو ہر رکن ملک کو 15 سے 20 ملین ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑ سکتا ہے، حتمی فیصلہ آئی سی سی اور آسٹریلوی کرکٹ بورڈ حکومتوں کی ہدایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کرینگے، ہم بند دروازوں کے پیچھے کرکٹ کیخلاف نہیں ہیں لیکن اس میں کھلاڑیوں اور آفیشلز کی صحت کو کوئی خطرات لاحق نہیں ہونا چاہئیں، اگر ہم تمام تر ضروریات احتیاطی تدابیر اختیار کرکے میچز کرا سکتے ہیں توٹھیک ہے۔
انھوں نے کہا کہ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کیلیے یہ سب سے مشکل وقت ہے کیونکہ اسے رواں برس ویسٹ انڈیز، آسٹریلیا اور پاکستان کی میزبانی کرنا ہے، اگر وہ یہ میچز نہ کرا سکے تو بہت زیادہ مالی نقصان کا سامنا ہو گا۔
وسیم خان نے کہا کہ گرین شرٹس کے آئرلینڈ اور انگلینڈ میں شیڈول میچز بغیر شائقین کے کھیلنے کی تجویز کو خارج از امکان نہیں کہا جا سکتا لیکن اس میں خطرات بھی لاحق ہیں، ٹیم کے سفر اور ہوٹلز میں قیام جیسے اہم پہلوؤں کے بارے میں بھی سوچنا پڑے گا، ہمیں اپنے کھلاڑیوں اور آفیشلز کی صحت کی حفاظت سب سے زیادہ عزیز ہے، اگر آئرلینڈ اور انگلینڈ کے کرکٹ بورڈز بند اسٹیڈیمز میں کھیلنے کی بات کرتے ہیں تو پی سی بی تمام پہلوؤں کا بغور جائزہ لے گا۔
بھارتی کرکٹ بورڈ کیلیے بھاری آمدنی کا ذریعہ پریمیئر لیگ کا انعقاد مارچ میں ہونا تھا، کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال میں اسے غیر معینہ مدت کیلیے ملتوی کر دیا گیا، میڈیا رپورٹس کے مطابق بی سی سی آئی دسمبر میں پاکستان کی میزبانی میں ہونے والے ایشیا کپ کو ملتوی کرواکے اسی ونڈو کو آئی پی ایل کیلیے استعمال کرنے کی خواہش رکھتا ہے، یوں بھارتی لیگ کیلیے ایشیائی کرکٹرز کی بڑی تعداد بھی میسر ہوجائے گی لیکن پاکستان نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے ایشیا کپ کو قربانی کا بکرا بنانے سے انکار کر دیا ہے۔
ایک غیرملکی خبررساں ایجنسی کو انٹرویو میں پی سی پی کے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان نے کہاکہ ایشیا کپ ستمبر میں شیڈول ہے، کورونا وائرس کی وجہ سے صحت اور سلامتی کے مسائل نہ ہوئے تو اسے ملتوی کرکے نومبر، دسمبر میں کرانے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی،ہم کبھی یہ بات قبول نہیں کریں گے کہ آئی پی ایل کا انعقاد ممکن بنانے کیلیے ایشیائی ایونٹ کو ملتوی کردیا جائے، کسی ایک ملک کیلیے پہلے سے طے شدہ ٹورنامنٹ کا شیڈول متاثر کرنا درست نہیں، اسے قطعی طور پر ہماری سپورٹ حاصل نہیں ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ نومبر، دسمبر میں پاکستان کو زمبابوے کی میزبانی کرنا اور نیوزی لینڈ کے دورے پر جانا ہے، اس لیے ایشیا کپ کا التوا پلاننگ کا حصہ نہیں بن سکتا۔
وسیم خان نے کہا کہ جمعرات کو آئی سی سی چیف ایگزیکٹیوز کمیٹی کی میٹنگ میں بی سی سی آئی کی جانب سے ایشیا کپ کے التوا اور آئی پی ایل کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی،بہرحال ہمارا موقف واضح ہے کہ اس معاملے میں کسی مصلحت سے کام نہیں لیں گے۔
ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ رواں سال اکتوبر، نومبر میں ہونے والا ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ بند دروازوں کے پیچھے بھی کرایا جاسکتا ہے،اگر میگا ایونٹ نہیں ہوتا تو ہر رکن ملک کو 15 سے 20 ملین ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑ سکتا ہے، حتمی فیصلہ آئی سی سی اور آسٹریلوی کرکٹ بورڈ حکومتوں کی ہدایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کرینگے، ہم بند دروازوں کے پیچھے کرکٹ کیخلاف نہیں ہیں لیکن اس میں کھلاڑیوں اور آفیشلز کی صحت کو کوئی خطرات لاحق نہیں ہونا چاہئیں، اگر ہم تمام تر ضروریات احتیاطی تدابیر اختیار کرکے میچز کرا سکتے ہیں توٹھیک ہے۔
انھوں نے کہا کہ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کیلیے یہ سب سے مشکل وقت ہے کیونکہ اسے رواں برس ویسٹ انڈیز، آسٹریلیا اور پاکستان کی میزبانی کرنا ہے، اگر وہ یہ میچز نہ کرا سکے تو بہت زیادہ مالی نقصان کا سامنا ہو گا۔
وسیم خان نے کہا کہ گرین شرٹس کے آئرلینڈ اور انگلینڈ میں شیڈول میچز بغیر شائقین کے کھیلنے کی تجویز کو خارج از امکان نہیں کہا جا سکتا لیکن اس میں خطرات بھی لاحق ہیں، ٹیم کے سفر اور ہوٹلز میں قیام جیسے اہم پہلوؤں کے بارے میں بھی سوچنا پڑے گا، ہمیں اپنے کھلاڑیوں اور آفیشلز کی صحت کی حفاظت سب سے زیادہ عزیز ہے، اگر آئرلینڈ اور انگلینڈ کے کرکٹ بورڈز بند اسٹیڈیمز میں کھیلنے کی بات کرتے ہیں تو پی سی بی تمام پہلوؤں کا بغور جائزہ لے گا۔