یہ ہے وہ ماہ مبین جس کے ہر لمحے میں ہر زہر کا تریاق چُھپا ہے

ہم نے ابلیس کو جو مایوسی کا مُبلّغ ہے، کو دھتکارنا اور اسے اپنی زندگی سے بے دخل کرنا ہے۔۔۔۔۔ اور جپنا ہے۔

ہم نے ابلیس کو جو مایوسی کا مُبلّغ ہے، کو دھتکارنا اور اسے اپنی زندگی سے بے دخل کرنا ہے۔۔۔۔۔ اور جپنا ہے۔ فوٹو: رائٹرز / فائل

دردِ قلب و نظر کی دوا کرے کوئی!

جانِ افسردہ کا چارہ گر بنے کوئی۔۔۔ !

ہمارے دردوں کا درمان بنے کوئی۔۔۔!

جیون بھر کے زخموں کی مسیحائی کون کرے گا ۔۔۔ ؟

تشنہ تمناؤں کو آسودہ کیسے اور کون کرے گا۔۔۔ ؟

انسانیت کو موذی وبا سے کون پناہ دے گا۔۔۔۔۔۔؟

ہمیں آنے والے خطرات سے کون بچائے گا۔۔۔۔۔۔؟

زندگی کے تپتے صحرا میں کتنے ہی نخلستان دیکھے جو سراب نکلے، افسوس!

کتنے سہانے خواب تھے، جو تعبیر ہونے سے رہ گئے محروم!

کتنی آرزوئیں تھیں جو سینے ہی میں دم توڑ گئیں!

کتنی ہی خواہشات زخم بن کر رِستی رہیں۔۔۔۔۔ نہ جانے کتنی ہی۔۔۔۔۔۔!

دل ایک ویرانہ بن گیا، جس میں سب کچھ خاک ہوا، اس کھنڈر میں اب سسکیوں اور آہوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔! کچھ بھی تو نہیں۔۔۔۔۔!

کیسے ہوگا اس خسارے کا مداوا۔۔۔۔۔؟ کیسے پائے گا یہ جیون، سُکون و قرار!

جائے اماں کوئی نہیں، کوئی بھی تو نہیں، دُور دُور تلک۔۔۔۔۔!

کھو بیٹھے اسے ہم، اب کہاں اسے تلاش کریں۔۔۔۔! آخر کہاں۔۔۔۔؟

کوئی تو جائے اماں ملے! کوئی تو سہارا بنے، کوئی تو تشنگی کو سیراب کرے۔۔۔۔۔!

کوئی ایسا حیات بخش، سُکوں آور ٹھندا میٹھا پانی۔۔۔۔۔۔! آبِ حیات کہیں جسے!

جسے پیتے ہی دُکھ دُور ہوجائیں، غم پاس نہ آئیں، اندھیرے چھٹ جائیں، سحر آئے، روح قرار پائے اور ہر مسامِ جاں معطر ہوجائے۔۔۔ !

اندر کی سُلگتی زمیں آسودگی پائے، راحت کدۂ جاں بن جائے،

لیکن یہ دل افسردہ۔۔ آہ۔۔۔!

یہ جو خالقِ کائنات ہے ناں! وہ خالق و مالک، داتا و پالن ہار جس نے دل کے لیے، ہر مرض کے لیے، جیون بھر کے لیے، ہر دُکھ کے لیے بنائی ہے دوا۔۔۔! جس نے بتایا ہے ہر روگ، ہر سوگ، ہر بھوگ کا مداوا۔۔۔۔!

کبھی سوچا، کبھی جانا کہ وہ دوا کیا ہے۔۔۔۔؟

ہاں! اگر سوچتے تو جان پاتے کہ خالقِ ارض و سماء، جس کا نام ہے تسکینِ دل و جاں!

وہ تو کسی کو بھی مایوس نہیں کرتا، کسی کو بھی نہیں دُھتکارتا کہ اسے ماں سے زیادہ پیار ہے اپنی مخلوق سے، ہاں چاہے کیسی بھی ہو، کج رو نافرمان ہی سہی!

تو بس طے ہوا کہ قرار جاں اور راحتِ قلب و نظر تو بس اسی کا نام جپنے میں ہے!

بس تُو ہی تُو، بس تُو ہی تُو ۔۔۔۔۔۔! میں نہیں، بس تُو ۔۔۔۔۔۔ !


جی! آپ صحیح سمجھے، جی جی! سب دکھوں کا مداوا ہے۔۔۔ وحی الہی، کلام الہی، راہ ہدایت کا روشن اور تابندہ مینار۔۔۔۔ مینار نور، قرآں کہیں جسے۔۔۔۔!

جو نوید زندگی ہے، جو چراغ راہ ہے، جو دکھی دلوں کا مرہم ہے، جو مایوسی کے اندھیروں میں منبع روشنی ہے، جو راحتِ قلب و نظر ہے، سُکونِ جسم و جاں ہے، جو انسانی روح کو بالیدگی بخشتا ہے۔

تو بس قرآن ہی ہے، کلام ربّی اعلٰی، سُبحان ربّی اعلٰی۔۔۔!

یہی وہ ماہ مبارک و رحمت ہے، جس میں اس نسخۂ کیمیاء قرآن الکریم کو اتارا گیا۔

سال بھر تو ہم دنیا کے جھمیلوں میں جسے بُھولے رہتے ہیں، اسی لیے ہر سال یہ ماہ مقدس نوید زندگی لیے آتا ہے کہ ہمیں بُھولا ہوا سبق یاد دلائے اور بتائے کہ ہمارے سارے روگ، ہمارے سارے سوگ، راحت و سکون میں بدل سکتے ہیں کہ بس اس نسخۂ کیمیا کے عامل بن جائیے۔

پھر آگیا نوید مسرت سنانے، ہماری دنیا اور عاقبت بنانے، ہمارے ہر دکھ کا مداوا۔۔ نیکیوں کا موسم بہار۔۔۔۔ اﷲ کی رحمتوں کی موسلا دھار برسات۔۔۔!

رمضان المبارک، رمضان الکریم۔۔۔۔!

اس درد دل کی دوا لیے، جسے ہم نہ جانے کہاں کہاں تلاش کرتے پھرتے ہیں!

رمضان الکریم! جو ہمیں اپنے خالق و مالک سے رشتہ جوڑ لینے پر اکساتا ہے، اور پھر قرآن حکیم کلام الہی جو خواہشات اور جذبات کے تلاطم میں بہنے سے روکتا، قوت ارادی اور ضبط نفس کو بڑھاتا اور ہمیں پیغام دیتا ہے کہ زندگی خواہشات اور تمناؤں سے مغلوب ہونے کا نام نہیں!

زندگی تو بس رب کے حکم پر تسلیم کا نام ہے۔ تسلیم و رضا ہے زندگی!

رمضان الکریم، اﷲ کا مہمان آئے، اور دل کا کشکول یوں ہی خالی رہ جائے، یہ کم نصیبی نہیں، بدبختی ہے۔۔۔ !

مجھے تو اس مہمان کو اپنے دل کی بیٹھک میں بٹھانا ہے، نہاں خانۂ دل میں قرآن کے نُور سے سویرا کرنا ہے، جو زخم، غم و اندوہ، آبلہ و شکستہ پائی، دل کے روگ بن گئے ہیں، انہیں دل سے بے دخل کرنا ہے، ایک ایسا انساں بننا ہے جو لامتناہی خواہشوں کا اسیر نہ ہو، بل کہ بہ فضل الہی آپ اپنا محتسب ہو!

اگر ہم نے سُرخ رُو ہونا ہے!

اگر ہم نے راحت پانی ہے !

اگر ہم نے تزکیۂ نفس کرنا ہے!

اگر ہم نے اپنے رب کی رحمتیں سمیٹنی ہیں!

اگر ہم نے ابلیس کو جو مایوسی کا مُبلّغ ہے، کو دھتکارنا اور اسے اپنی زندگی سے بے دخل کرنا ہے۔۔۔۔۔!

اگر ہم نے پھر سے ایک نیا انسان اور ایسا انسان جسے رب نے افضل کیا ہے، بننا ہے تو۔۔!

یہ ہے وہ موقع، سنہری موقع! یہ ہے وہ ماہ مبین، جس کے ہر لمحے میں، ہر زہر کا تریاق چُھپا ہے،

جس کے ہر لمحے میں پوشیدہ ہے زندگی۔۔۔۔۔۔۔!

اور ایسی زندگی، کہ جینا کہیں جسے۔۔۔۔۔! جو ہمیں اپنے پالن ہار سے، اپنے پیارے رب سے جسے ہم بُھول بیٹھے ہیں، ملاتا ہے یہ ماہِ مقدّس۔

فیصلہ تو اب ہم نے کرنا ہے کہ آ پہنچی ہے فیصلہ کن گھڑی

تو بس دیر کیسی۔۔۔۔۔!

اپنا نصیبا جگائیے اور ماہ مقدس کی آغوش میں سما جائیے اور رب کی عنایتوں کا لطف اٹھائیے۔

یقین رکھیے! کامل یقین کہ رب تعالی ہمیں ابلیس کے ہتھکنڈوں سے اپنی امان میں رکھے گا۔ وہی بس وہی ہے ہمارا پالن ہار! ہمارا مالک و مختار، ہمارا کفیل اور ہمارا رب رحیم، بس وہی ہے ہمارے لیے کافی کہ وہ ہمیں اپنی کسی بھی مخلوق کا محتاج و دست نگر نہیں بنائے گا اور بس خود ہی کافی ہوجائے گا۔

یقین رکھیے! کامل یقین کہ ایسا ہی ہوگا۔
Load Next Story