کورونامہ

وبا میں لوگ گھر بیٹھے بیٹھے اکتا چکے ہیں

فوٹو : فائل

٭اور کورونا نے بالکونیاں پھر سے آباد کردیں: یہ سچ ہے کہ کورونا کی عالم گیر وبا نے پوری دنیا میں گھروں کی بالکنیاں پھر سے آباد کر دی ہیں۔ یہ بالکنیاں وقت کی دھول میں اپنی رونق کھو بیٹھی تھیں۔ مکینوں کے پاس اتنا وقت ہی کب رہا تھا کہ بالکنی میں آئیں اور ایک دوسرے کا حال احوال پوچھیں۔ گزرے وقت میں بالکنیاں سماجی رابطے کا ایک بڑا ذریعہ تھیں۔

شہر کے حالات سے لے کر کھانا پکانے کی ترکیبوں تک سارے معاملات عورتیں بالکنیوں میں زیربحث لاتیں۔ اکثر تو گھر کے مرد بھی ان بالکنیوں میں ہونے والے مباحثوں اور مذاکروں میں حصہ لیتے یا پھر اندر سے ہی خاتون ِ خانہ کو لقمے دے کر گفتگو کا مزہ لیتے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مکینوں کی بے پناہ مصروفیت سے بالکنیوں میں سناٹے نے ڈیرے ڈال لیے۔ اب تو وہ وقت آگیا تھا کہ اکثر یہ خبر ہی نہ ہوتی کہ ساتھ والی بالکنی آخر ہے کس کی؟

کورونا کی وبا نے دنیا میں بے شک بے شمار مسائل پیدا کیے ہیں وہ اپنی جگہ لیکن سچ ہے کہ بالکنیوں کو ان کی گم شدہ رونق لوٹا دی ہے ۔ دنیا کے بے شمار ممالک سے ہم تک پہنچننے والی یہ تصاویر دیکھ کر وبا کے پریشان کن دور میں بھی ہونٹوں پہ بے اختیار مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے۔ یورپ اور ایشیا کے بے شمار ممالک میں تنہا رہ رہ کر لوگ اکتا چکے ہیں۔ ایسے میں اب بالکنیاں ہی ہیں جو انہیں دوبارہ ایک دوسرے سے شناسا کر رہی ہیں۔

میڈیکل اسٹاف کو خراج تحسین پیش کرنا ہو، موسیقی سے لطف اندوز ہونا ہو، مل کر مشروبات پینے ہوں، کوئی نئی تخلیق کرنی ہو، ایک دوسرے کو سال گرہ کی مبارک باد دینی ہو، اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرنا ہو۔۔۔۔ غرض انسان کی انسان سے جُڑے رہنے کی سماجی بھوک مٹانے کے لیے بالکنیوں کا ناقابل، فراموش استعمال ایک بار پھر لوٹ آیا ہے۔ اٹلی وہ پہلا ملک تھا جہاں بالکنیوں کو سماجی رابطے کے ایک بڑے اور بنیادی ذریعے کے طور پر استعمال میں لایا گیا۔ اکثر ممالک میں لوگوں نے بالکنیوں پر آنے کے اوقات مقرر کر رکھے ہیں۔ جن گھروں میں بالکنیاں نہیں ان کے مکین اپنی کھڑکیوں میں بیٹھ کر لوگوں کے ساتھ اپنی تنہائی بانٹتے ہیں۔ وبا کا دور توگزر جائے گا لیکن بالکنی کے راستے جُڑنے والے یہ رشتے وبا کے بعد مزید مضبوط ہوجائیں گے۔

٭کورونا نے محبت کے دیے جلا دیے:

یہ تصویر امریکی ریاست فلوریڈا کے ٹیمپا جنرل اسپتال کی ہے۔ یہاں کام کرنے والے نرسنگ اسٹاف کے یہ دو ممبر مائینڈی بروک اور بین کایر میاں بیوی ہیں۔ وبا کے اس مشکل وقت میں یہ مل کر انسانیت کی خدمت بھی کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ اس ضمن میں بھرپور تعاون بھی۔ ذمہ داریوں نے انہیں وقتی طور پر تو دور کردیا لیکن اس وبا نے ان کے بندھن کو مزید مضبوط کیا ہے۔

ڈیوٹی کے دوران ان دونوں کا سامنا ہوا تو بے اختیار ایک دوسرے کے چہرے کو تھام لیا۔ تمام حفاظتی سامان سے لیس دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں کو تک رہے ہیں۔ محبت کے اس خوب صورت لمحے کو ڈیوٹی پر موجود چیف نرس نے اپنے کیمرے میں قید کرلیا۔ کورونا نے محبت کی ایسی بے شمار داستانوں کو جنم دیا ہے جو ذہنوں میں کبھی دھند لائیں گی نہیں۔

٭مسکرانا اہم ہے۔۔۔ آپ بھی مسکرائیے:

کہتے ہیں ڈاکٹر کی ایک نرم مسکراہٹ اور پیار بھرا لہجہ آدھا مریض کی آدھی تکلیف ختم کردیتا ہے۔ لیکن اب اس خطرناک وبا کا کیا کیا جائے جس نے سب چہروں کو ماسک کے پیچھے چھپا دیا ہے۔ اب ڈاکٹر اپنے مریض کو دیکھ کر کتنا بھی مسکرالے لیکن مریض اس مسکراہٹ کو دیکھنے سے محروم ہے۔ سان ڈیاگو کے اسکرپس مرسی اسپتال میں کام کرنے والے ایک سانس کے معالج نے مسکراہٹ کے اظہار کا کیا خوب حل نکالا ہے۔

انہوں نے حفاظتی لباس کے اوپر اپنی ایک ہنستی مسکراتی تصویر ٹیپ سے چپکا لی ہے ۔ اب وہ کورونا میں مبتلا جس مریض کے پاس جاتے ہیں وہ لباس کے اوپر چپکی ڈاکٹر کی اس مسکراتی تصویر کو دیکھ کر ہی مسکرا پڑتا ہے۔ مریض کو اپنی مسکراہٹ دکھانے کا یہ نیا ٹرینڈ سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پہ بے حد مقبول ہوا اور اسے پینتیس ہزار سے زائد لوگوں نے لائک کیا اور اسے Share Your Smile کا ہیش ٹیگ دیا گیا۔

٭کورونا میں دوسری جنگ عظیم کے سپاہی کی سال گرہ:

وبا کا دور ہے۔ ہر کوئی سہما ہوا ہے لیکن زندگی کے معاملات کا کیا کیا جائے جو نہیں جانتے کہ وبا کیا ہے اور کتنی خطرناک ہے۔ لوگ ہنسنا بھی چاہتے ہیں اور اپنی خوشیاں منانا بھی۔ وبا ہے تو کیا ہوا، بھلا اپنے قومی ہیروز اور ان کی خدمات کو کیسے فراموش کردیا جائے۔ اب اسی تصویر میں دیکھ لیں نیویارک پولیس کے سپاہی دوسری جنگ عظیم کے ایک سپاہی کے گھر کے باہر جمع ہیں اور اس سپاہی کی نناویں سال گرہ پر خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے سیلوٹ کر رہے ہیں۔ سماجی دوری کے اصول کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا ہے اور اپنے قومی ہیرو کی سال گرہ کا دن بھی منانا ہے۔ سو ایسے ہی سہی۔

٭وبا میں دادا اور پوتی کی محبت کا خوب صورت انداز:

کہتے ہیں اصل سے زیادہ سود پیارا ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ ہر وہ فرد کر سکتا ہے جس نے اولاد کی اولاد کو اپنے سینے میں بھینچا ہو۔ کورونا کے دور میں امریکی ریاست مشی گن میں ایک دادا روز اپنی نومولود پوتی کو دیکھنے آتے ہیں، لیکن ان کی محبت اس وقت پوتی کو سینے سے لگانے کے بجائے اس سے دور رہنے کی متقاضی ہے۔ یوں میلوں پیدل سفر طے کر کے بھی وہ اپنی پوتی کو چھو نہیں پاتے بلکہ شیشے کی دروازے کے پار سے اس کی صورت دیکھ کر اور کھڑے کھڑے اس کے ساتھ کچھ وقت گزار کر چلے جاتے ہیں۔

٭کورونا نے سُجھائے ماسک بنانے کے نت نئے طریقے:

ماسک ہوگا تو سانس کی آس بھی رہ جائے گی۔ بس اسی لیے وبا سے بچنے کے لیے ماسک کا استعمال ہر ایک نے خود پر لازم کرلیا ہے۔ ایک عام ماسک سے ہٹ کر دنیا میں لوگوں نے ایسے ایسے ماسک تخلیق کر ڈالے کہ کبھی تو عقل حیران ہوئی اور کبھی ہونٹوں پر مسکراہٹ پریشاں۔

اب دیکھیے ناں، برازیل کے فوٹو گرافر مارشیو روڈریگس نے پلاسٹک ویسٹ کا ہی ماسک بنا ڈالا۔ انہوں نے اس طرح دنیا کو لاحق بیک وقت دو خطرات کی نشان دہی کی ایک کورونا کی وبا اور دوسرے ماحولیات۔ حکومت کی طرف سے بیس دن کے لاک ڈاؤن کے بعد انہوں نے دیکھا کہ سڑکوں پر کچرا جمع ہورہا ہے اور اسے کوئی سمیٹنے والا نہیں تو انہوں نے پلاسٹک کی بوتلوں، کین، ڈھکنوں اور دیگر ویسٹ کی مدد سے ایک ماسک بناکر حکومت کو پیغام دیا کہ وبا کے دور میں ماحول کی طرف سے آنکھیں بند نہ کریں۔ فوٹو گرافر کا کہنا ہے کہ اگر صورت حال یہی رہی تو وہ اس ویسٹ سے پورا لباس بھی تیار کریں گے۔

دوسری تصویر ایک فلسطینی بچے کی ہے جس نے کورونا کی وبا سے بچنے کے لیے بند گوبھی کے پتے سے ماسک تیار کر کے پہن رکھا ہے۔ نیویارک میں تو اک عمر رسیدہ آدمی نے بچوں کے ڈائپر کو ہی ماسک بنا کر پہن لیا۔ لندن میں ایک عورت کی پارک میں بیٹھ کر کتاب پڑھنے کی تصویر بھی وائرل ہوئی جس میں اس نے ملکہ الزبتھ دوم کی شکل کا ماسک پہن رکھا ہے۔ یہ ماسک اس نے کورونا میں مبتلا ہونے والی ملکہ الزبتھ کی صحت یابی کے بعد پہنا۔ بچوں کی تو ہر چیز بڑوں سے الگ ہوتی ہے پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ بڑوں کی طرح ماسک پہن لیں۔ انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتا میں ایک آٹھ سالہ بچے نے خوب صورت فَر کا ماسک پہن رکھا ہے جس پر جانور کا کارٹون بنا ہے۔ یہ اب تک منظر عام پر آنے ولا سب سے پیارا ماسک ہے۔

٭کورونا نے بچوں کے کھلونے بھی بد ل ڈالے:


وبا کے بعد کی دنیا کئی اعتبار سے دوبارہ جنم لے گی۔ نظریوں سے لے کر طریقوں تک ہر چیز میں کافی حد تک تبدیلی آئے گی، پھر کیسے ممکن ہے کہ بچوں کے کھلونے پرانے ہی رہ جائیں۔ جمہوریہ چیک میں بچوں کے کھلونے تیار کرنے والی کمپنیوں نے اب کھلونوں کو بھی ماسک پہنا ڈالے ہیں۔

٭کورونا دور کا سنیما کلچر:

وبا میں لوگ گھر بیٹھے بیٹھے اکتا چکے ہیں۔ ہر جگہ بھیڑ کی وجہ سے پابندی۔ لیکن لوگوں کی تفریح اور وقت گزاری کی خاطر اب سنیما کلچر تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ ڈرائیو ان سنیما پوری دنیا میں مقبول ہورہے ہیں جہاں لوگوں کے لیے چوڑی سڑکوں پر سنیما اسکرین لگا دی گئی ہے اور لوگ اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر سنیما کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ زیرنظر تصویر جنوبی کوریا کے شہر سیؤل کی ہے۔ آؤٹ دور اسکرین کے باہر گاڑیاں پارک کی گئی ہیں اور شائقین فلم دیکھنے میں مصروف ہیں۔

٭جنگل کے بادشاہ کی حکومت اب سڑکوں پر بھی:

یہ حیرت انگیز منظر ہے۔ جنوبی افریقا کے کروگر نیشنل پارک کا، جہاںشیر سڑک کے بیچوں بیچ آلیٹے ہیں۔ وبا سے پہلے اس سڑک سے سیاحوں کی گاڑیاں گزرتی تھیں۔ دیگر پر ہجوم جگہوں کی طرح یہ پارک بھی لوگوں کے لیے بند کیا جاچکا ہے۔ شیروں نے اپنی سلطنت میں دخل دینے والے انسان کی غیرموجودگی کا خوب فائدہ اٹھایا اور اب سڑکوں پر یوں پاؤں پھیلائے لیٹے ہیں گویا انسان سے جان ہی چھوٹی جس نے جنگل کے بادشاہ کو ایک خاص حصے تک محدود کر کے سخت اذیت دے رکھی تھی۔

٭کورونا سے لڑنا ہے تو درختوں کو گلے لگائیے:

یہ پیغام دیا ہے آئس لینڈ کے محکمۂ قومی جنگلات نے، جس کا کہنا ہے کہ درختوں کو گلے لگا کر کورونا وائرس سے بچا جا سکتا ہے۔ اس مشکل وقت میں جب ہر فرد تنہا ہے اور کسی سے ہاتھ بھی نہیں ملا سکتا ایسے مشکل وقت میں درخت ایک بار پھر انسان دوستی کا حق ادا کر رہے ہیں۔ محکمہ جنگلات کا کہنا ہے کہ اس بات کا خیال رکھیں کہ درختوں کو صرف گلے نہیں لگانا ہے بلکہ ان سے لپٹ کر انتظار کرنا ہے جب تک وہ آپ کے وجود کو محسوس نہ کرنے لگیں۔

پھر دیکھیے گا کہ درخت اور انسان کے درمیان کیسی مثبت توانائی رواں ہوتی ہے جو کورونا وائرس سے نجات میں مددگار ثابت ہوگی۔ صرف یہی نہیں بلکہ آئس لینڈ میں لوگوں کی درختوں اور جنگلوں تک بہ آسانی رسائی کے لیے سڑکوں اور راستوں کو صاف کرنے کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ محکمۂ جنگلات ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ ایک ہی درخت کو زیادہ لوگ گلے نہ لگائیں بلکہ وہ اس میں بھی سماجی دوری کے اصول کا خیال رکھیں۔

٭حضرت عیسیٰ ؑ کا مجسمہ اور ڈاکٹروں کو خراج تحسین:

برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں حضرت عیسیٰ ؑ کے آرٹ ڈیکو مجسمے کو روشن کیا گیا جس کا مقصد کورونا وائرس سے نمٹنے والے نرسوں اور ڈاکٹروں کو ایسٹر پر خراجِ تحسین پیش کرنا تھا۔ یہ مجسمہ برازیل کے سب سے بڑے شہر میں واقع کورکوڈو پہاڑ پر ہے اس کی لمبائی ایک سو پچیس فٹ ہے۔ اس مجسمے کا خالق ایک فرانسیسی مجسمہ ساز پال لانڈوسکی تھا۔ اس مجسمے کو، کورونا وبا میں انسانیت کی خدمت کرنے والے مسیحاؤں کی تصاویر اور ان کے لیے نیک خواہشات کے پیغامات سے سجایا گیا۔

٭اب ٹشو رول صرف استعمال نہیں کیجیے ان کی شکل کا کیک بھی کھائیے:

جرمنی کی مشہور بیک پیراڈائز بیکری نے وبا کے دور میں ٹشو پیپر رول کی بڑھتی ہوئی طلب کو دیکھتے ہوئے اسی شکل کا کیک ہی متعارف کروا ڈالا۔ بیکری کے مالک ٹم کورٹیم کا کہنا ہے کہ کریم میں لپٹا ان کا یہ اسپیشل کیک کورونا وبا کے دوران بیسٹ سیلر کیک بن چکا ہے۔

٭وبا اور ماں سے محبت کی تجدید کا دن:

یہ تصویر ہے لبنان کے ساحلی شہر جونیا کی۔ ایک عورت، بالکنی میں کھڑی اپنے بچوں کی طرف سے بھیجے گئے گلاب کے پھول کو پکڑ رہی ہے جو انہوں نے مدر ڈے پر ڈرون کے ذریعے اپنی ماں کو پہنچائے ہیں۔ عورت کے چہرے کی خوشی کو تصویر میں صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ وبا نے اپنوں سے محبت کے اظہار کے جو نت نئے طریقے متعارف کروائے ہیں، انہیں اگلی نسلیں کہانیوں کا حصہ ضرور بنائیں گی۔ لبنان نے کئی ماؤں کو اسی طرح ان کی اولاد نے ڈرون کے ذریعے پھول بھیجے۔ واضح رہے کہ لبنان میں ہر سال اکیس مارچ کو ماؤں کا دن منایا جاتا ہے۔

٭اور وبا میں مجسموں نے بھی ماسک پہن لیا:

مانچسٹر میں کورونا وائرس میں مبتلا مریضوں کے چورانوے کنفرم کیسز سامنے آنے پر ملکہ وکٹوریا کے مجسمے کو بھی علامتی طور پر ماسک پہنا دیا گیا، جب کہ نیویارک اسٹاک ایکسچینج کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیشِ نظر ایکسچینج کے باہر نصب Fearless Girl کے مجسمے کا منہ بھی ماسک سے ڈھک دیا گیا۔ دنیا کے دیگر کئی شہروں میں نصب مجسموں کو بھی ماسک پہنا دیے گئے ہیں۔

٭میڈیکل اسٹاف کی محبت میں مبتلا کتے کا مالک کے ساتھ جانے سے انکار:

یہ پڑھ کر آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ چین کے ایک اسپتال میں گولڈن ریٹرائیور نسل کے ایک کتے نے میڈیکل اسٹاف کو چھوڑ کر مالک کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ کتے کے مالک کوکورونا لاک ڈاؤن کے باعث گھر سے باہر جانے کی اجازت نہ ملی۔ اس دوران پالتو کتا اس سے بچھڑ گیا لیکن وہ سخت پابندیوں کی وجہ سے اس کی تلاش میں نہ جا سکا، گم شدگی کے ان پچاس دنوں میں کتے کی دیکھ بھال اسپتال کے میڈیکل اسٹاف نے کی۔

وبا پر قابو پانے کے بعد لاک ڈاؤن نرم ہوا تو مالک کو اپنے پالتو کتے کے بارے میں پتا چلا۔ مالک کتے کو لینے اسپتال گیا، لیکن کتا مالک کے پاس سے بھاگ کر میڈیکل اسٹاف کے پاس چلا گیا۔ وہ اپنے ان نئے دوستوں سے اس قدر مانوس ہوگیا کہ ان کو چھوڑ کر جانے کو تیار ہی نہیں۔ مالک سے ملنے اور پھر بھاگ کر میڈیکل اسٹاف تک جانے کی ویڈیو دیکھ کر ہر ایک کی آنکھ نم ہوگئی۔ وبا کے اس دور میں انسانی ہم دردی کے بے شمار ایسے واقعات کو کیمرے کی آنکھ نے اپنے اندر اتار ا ہے جو کئی دہائیوں تک یادوں سے دھندلائیں گے نہیں۔
Load Next Story