دُنیا بھی اک پتلی گھر ہے سمجھو تو ۔۔۔۔

ہم نے خود اپنے لیے جہنّم بنا لی ہے یہ زمین، ہم خود ہیں اس کے ذمّے دار، سب کچھ برباد ہو گیا، ہر طرف تباہی ہے۔

ہم نے خود اپنے لیے جہنّم بنا لی ہے یہ زمین، ہم خود ہیں اس کے ذمّے دار، سب کچھ برباد ہو گیا، ہر طرف تباہی ہے۔ بس ایک ہی راہ رہ گئی ہے ہمارے پاس، ہمارے آنسو!

امید و یقین پر قائم ہے یہ دنیا، یہ فانی جہاں۔ امید و یقین ہی تو امنگ ہے جینے کی، یہی تو خوش خبری ہے، اور امید و یقین ہی سنبھالتی ہے انسان کو۔۔۔۔ شکست دیتی ہے مایوسی کو۔ میرا سوہنا رب کہتا ہے ناں امید و یقین کا دامن تھامے رہو، میں کروں گا تمہاری مرادوں کو پورا، میں ہی تو کرسکتا ہوں تمہاری آرزوؤں کی تکمیل، میں ہی تو کرسکتا ہوں تمہیں آسودہ، میں ہی تو بنا سکتا ہوں تمہیں تونگر اور میں ہی تو بدل سکتا ہوں حالات کو، مخلوق کے دلوں کو، میں ہی تو کارسازِ حقیقی ہوں۔

میں ہی ہوں دلوں کا پھیرنے والا، چراغِ محبت روشن کرنے والا، تمہارے دوستوں کو بڑھاوا دینے والا اور تمہارے دشمنوں کے چہروں کو خاک آلود کرنے والا، انہیں نابود کردینے والا۔ میں ہی ہوں ہر شے پر قادر، قادرِ مطلق۔۔۔۔! سب ہیں میرے محتاج، میں تو کسی کا بھی محتاج نہیں ہوں۔ مجھ سے کون پُوچھ سکتا ہے! میں جسے عزت دینا چاہوں کون اس کی تذلیل کرسکتا ہے؟ اور میں ہی کسی کو ذلیل کردوں تو کون ہے جو اس کی تکریم کرے؟

ہاں جو میرے لیے ذلّت برداشت کرے تب اُس کا مقام بلند ہے، جو میرے لیے ٹھکرا دیا جائے اس کا کیا کہنا، جو میرے لیے محروم کردیا جائے اُس کی شان مت پوچھو۔ رب امید و یقین ہے اور ابلیس مایوسی و ناامیدی۔ تم جانتے ہو شیطان کا نام ابلیس ہے۔ ابلیس، مایوس کردینے والا۔ مایوسی کو پھیلانے والا۔ تنہا کردینے والا۔ خوف دلانے والا۔ وسوسے پیدا کرنے والا۔ ہر طرح کا خوف۔۔۔۔ رزق کا خوف، موت کا خوف، بھوک و پیاس کا۔ جب نام ہی ابلیس تو مایوسی ہی پھیلائے گا ناں! بندگانِ رب کبھی مایوس نہیں ہوتے۔ کسی بھی حالت میں خوف کا شکار نہیں ہوتے۔ تُو بس بندۂ رب بن، اور شیطان ابلیس کو دُھتکار دے۔ لعنت بھیج دے اُس پر!

ہمارے خُلد مکیں بابا جی حضور بہت دُکھ سے کہتے تھے: ''مجھے اس غریب پر حیرت ہوتی ہے، بہت رحم آتا ہے جو مفلس ہوکر بھی رب کی طرف نہ پلٹے، رب کا دامن نہ تھامے۔ امیر کا تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ دولت کے نشے میں مدہوش ہوکر بُھول جائے رب کو۔ غریب کیوں نہیں رب سے مانگتا، کیوں نہیں اپنے رب کا در پکڑتا، کیوں آہ و زاری نہیں کرتا، مجھے حیرت ہے ایسے غریب و مفلس پر!''

ہاں! فقیر کو ازبر ہیں ان کی باتیں۔ آبِ زر سے لکھی جانے والی دانش و بصیرت افروز۔ ہمارے اردگرد بھی ایسی وبا پھیلی کہ حالات بہت بگڑ گئے۔ خاک بسر روٹی ڈھونڈ رہے ہیں۔۔۔۔ رشتے ناتے ٹوٹ گئے، دلوں کی دنیا اُجڑ گئی، موت کا ہرکارہ ہر طرف گھوم رہا ہے، نوجوان مایوس ہیں، پہلے تو اپنوں کے لیے فرصت نہیں تھی اور اب گھر میں رہتے ہوئے بھی اجنبی ہوگئے سب۔۔۔۔ کسی سے مسئلہ پوچھو تو وہ ''یہ میرا ذاتی مسئلہ ہے'' کہہ کر بیٹھ جاتا ہے، اور وہ بتاتا اس لیے نہیں کہ اعتبار ہی نہیں رہا۔ بندہ اعتبار کرے بھی تو کس پر؟ اندر کچھ، باہر کچھ۔۔۔۔۔!

یہ عذاب نہیں! بالکل بھی نہیں کہ عذاب میں تو کوئی کبھی کسی صورت بچ ہی نہیں سکتا۔ ہمارے آقا و مولاؐ کی دعا ہمارے حق میں قبول کی گئی ہے کہ میری اُمّت کو کبھی عذاب نہ دیا جائے۔ رب تعالی کریم و رحیم کا وعدہ پکّا ہے کہ اُمّت رسول کریمؐ کبھی عذاب سے دوچار نہیں کی جائے گی۔

یہ آزمائش و امتحان و تنبیہ ہے بس! کتنی بڑی آزمائش میں آگئے ہم، جی آزمائش میں! کتنے دُکھی ہوگئے، تنہا ہوگئے، بے یار و مددگار ہوگئے، بے دست و پا ہوگئے ۔۔۔۔! ہمارے شہر اجڑ گئے، بستیاں ویران ہوگئیں۔۔۔۔۔ اداسی اور تنہائی اوڑھے ہوئے ہیں ہم۔ اتنے بڑے ہجوم میں ہر ایک تنہا۔

لیکن فقیر کے بابا جی نے تو بتایا تھا کہ یہ سب کچھ رحمت ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ ہم اپنی اصل کی طرف لوٹ جائیں۔ اپنے مالک حقیقی کو پہچان لیں، اسے منائیں، آہ و زاری کریں۔۔۔۔ ہم سے بہت بڑا ظلم ہوگیا، ہم گم راہ ہوگئے تھے، ہم سے گناہِ عظیم ہو گیا، تُو ہمیں معاف کردے، ہمارے گناہوں کو نہ دیکھ اپنی رحمت کو دیکھ، اپنے پیارے حبیبؐ کے صدقے، اپنی رحمت کے طفیل ہمیں معاف کردے، ہم سے درگزر فرما دے، ہم بے سہارا ہیں، بس تُو ہی تو ہے ہمارا سہارا۔ اور دیکھ تُو ہمیں معاف نہیں کرے گا تو ہم ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔ ہم پر رحم کردے!

ہاں ہمیں وعدہ کرنا چاہیے تھا کہ آیندہ نہیں ہوگا اس طرح۔ ہم نہیں چھوڑیں گے تیرا دامن۔ ہم در در کے بھکاری بن گئے، اپنے غیبی خزانے ہم پر کھول دے، ہمیں رسوا نہ کر، ہاں ہم آیندہ تیرا در نہیں چھوڑیں گے۔ لیکن کتنے دُکھ کی بات ہے، کتنی محرومی ہے کہ ہم اس مصیبت میں بھی اُسے بُھول گئے ہیں۔

بہت خراب ہیں، بہت زیادہ خراب ہیں حالات۔ ہر پل نیا حادثہ، نیا واقعہ۔ بندہ بشر اپنی وقعت کھو بیٹھا ہے، تکریمِ انسانیت دم توڑ گئی ہے، اعتبار ختم ہو گیا ہے۔ حد ہے انسان، انسان سے خوف زدہ ہے، بے کل ہے، بے چین ہے، کوئی جائے اماں نہیں، سائباں نہیں۔ نفسانفسی ہے۔ کہیں چھینا جھپٹی ہے، معمولی سی چیز پر قتل و غارت گری ہے، شہر اجڑ رہے اور شہر خموشاں میں بدل رہے ہیں۔ کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔ بہت ابتر ہیں حالات۔ رونا ہے، آہیں ہیں، سسکیاں ہیں، نالے ہیں۔ کوئی نہیں ہے اپنا، بے گانے بن گئے سب۔

کیوں ہوا ایسا! کبھی سوچا ہم نے؟ سوچ لیں گھڑی دو گھڑی۔ آپ کیا سوچتے ہیں، فقیر کیا جانے! بڑے بڑے دانش وروں کو دیکھتا ہے۔ وہ نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔۔۔۔! اس نے یہ کر دیا، ہم نے تو یوں کیا تھا، اب ایسا کرلو، وہ ہیں ذمے دار، فلاں نے بیج بویا تھا۔۔۔۔۔ پھر تلخ کلامی، الزامات، یہ جا وہ جا۔ چھوڑیں جانے دیں، آپ بہت سمجھ دار ہیں۔

فقیر کو لگتا ہے۔۔۔۔ لگتا کیا ہے۔۔۔۔! یقین ہے، ہم اجتماعی گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ہم رب کے باغی ہیں۔ ہم نے رب کی نعمتوں کا کفران کیا ہے۔ ہم غیروں پر بھروسا کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سہارے تلاش کیے۔ انہیں پُوجا۔ رب نے ہمیشہ کرم کیا، ہمیشہ معاف کیا۔ ہمارے بابے کہتے ہیں، انسان کی گُھٹی میں پڑا ہوا ہے گناہ، نافرمانی، سرکشی اور نہ جانے کیا کیا۔ گناہ ہو جائے تو رب کے سامنے ندامت سے سر کو جھکاؤ، آنسو بہاؤ، وہ معاف کرتا رہے گا، اپنی نعمتیں برساتا رہے گا۔

اور ہم نے کیا کیا! سرکشی کی اور اس پر اترائے، گناہ کیے اور ان پر فخر کیا، بغاوت کی اور اس پر اکڑے۔ کون سا گناہ ہے جو ہم نے نہیں کیا! ہم پر سے رب کا حفاظتی حصار اٹھ گیا ہے۔ بس ایک ہی در ہے، بس ایک ہی ذاتِ باری ہے جو ہمیں بچا سکتی ہے۔۔۔۔۔ اﷲ جی۔۔۔۔۔! بس وہی اور کوئی نہیں، کوئی بھی نہیں۔ ہم تو سوچتے بھی نہیں ہیں۔ گھڑی دو گھڑی سوچیے!

دل کی دھڑکن، خون کی گردش دھوکا ہے

تن من سارا خاک نگر ہے' جانو تو

ان دیکھی اک ڈوری کا سب کھیل ہے یہ

دنیا بھی اک پُتلی گھر ہے' جانو تو

جی لینا بھی فن تھا' اب تو عزّت سے

مر سکنا بھی ایک ہنر ہے! جانو تو

علم و دانش کسی کی بھی میراث نہیں ہے۔ بس مومن کی میراث ہے، میرے آقا و مولاؐ کا ارشاد گرامی ہے حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے۔ جہاں سے بھی ملے، اور یہ جو مراکزِ علم و دانش ہیں یہ بہت ضروری ہیں، ان میں تشنگانِ علم و فن بہت قابل قدر ہیں لائق تحسین ہیں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ اگر کوئی ان علمی مراکز میں نہیں رہا، وہ نرا جاہل رہ گیا۔ ایسا نہیں ہے، فطرت نے علم کا دائرہ بہت وسیع کیا ہے، حدود و قیود سے بالاتر، پوری کائنات اور اس کے مظاہر علم کا سرچشمہ ہیں۔ بس غور کرنے کی دیر ہے، اسرار کائنات کھلنے لگتے ہیں۔


فقیر بہت سے لوگوں کو جانتا ہے، پہچانتا ہے، ان میں رہا ہے، وہ کسی بھی مکتب میں نہیں رہے۔ کتاب کو چُھوا تک نہیں۔ بس غور کیا، فکر کیا، رب کی عنایت سے وہ جانتے ہیں، پہچانتے ہیں اور بیان کرتے ہیں۔ جب ان سے بڑے بڑے مسائل کو پلک جھپکتے حل ہوتا دیکھتے ہیں تو دانتوں تلے پسینہ آجاتا ہے۔ بہت ہی سادہ الفاظ، عجز و انکسار کا پیکر واہ کیا بات ہے ان کی! میرا وہ دوست بھی بالکل ان پڑھ ہے، کسی اسکول کی شکل نہیں دیکھی، عسرت و تنگ دستی میں آنکھ کھولی۔

مزدوری کی، بہت محنت سے موٹر مکینک بنا اور پھر گاڑی ہم وار راستوں پر روانہ ہوئی۔ اپنے کام کا ماہر، کسی بھی قسم کا انجن ہو اس کا کیڑا۔ کتنے ہی آوارہ لڑکوں کو مارپیٹ کر کام سکھایا اب سب اسے دعائیں دیتے ہیں۔ وہ ہے ہی دعاؤں کے لائق، پیار کے قابل۔ ایک دن میں اس کے ورکشاپ میں بیٹھا ہوا تھا اور وہ ایک انجن پر جُھکا ہوا تھا۔ پھر نہ جانے اسے کیا ہوا۔ کہنے لگا: یار بابے! جاپانیوں نے جو انجن بنائے ہیں کمال کے ہیں لیکن جو جرمن نے بنائے ہیں ان کی تو ٹور ہی نرالی ہے۔

میں نے کہاں ہاں۔ پھر وہ کہنے لگا: ہر گاڑی کے ساتھ، ہر انجن کے ساتھ، ہر مشین کے ساتھ چاہے وہ چھوٹی ہو بڑی ہو۔ ایک کتاب آتی ہے جس میں لکھا ہوا ہے اسے استعمال کرنے سے پہلے یہ کتاب پڑھو اور جس طرح ہم کہہ رہے ہیں اسے استعمال کرو، یہ خراب نہیں ہوگی ہماری گارنٹی ہے لیکن۔۔۔۔۔ لیکن کیا؟ میں نے پوچھا۔ لیکن یہ کہ ہم کبھی وہ کتاب کھول کے بھی نہیں دیکھتے وہ تو بس پلاسٹک کی تھیلی میں بند رہتی ہے اور ہم اپنی تگڑم لڑاتے رہتے ہیں۔ مشین چل تو جاتی ہے۔ لیکن دیرپا نہیں رہتی اور خراب ہو جاتی ہے۔

اگر مشین خراب ہوجائے تو ہم وارنٹی کلیم کرتے ہیں اور جب مشین بنانے والے اس مشین کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں آپ نے اسے غلط استعمال کیا ہے۔ اب خراب ہوگئی تو ہم جواب دہ نہیں ہیں۔ ہم اس وقت ذمے دار تھے جب آپ اسے ہماری ہدایات پر استعمال کرتے پھر ہم اس کے لیے ذمے داری قبول کرتے۔ اب تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ میں نے بے زار ہوکر پوچھا: یار تُو عجیب آدمی ہے، میں کیا کروں پھر؟ پتا نہیں کیا بکواس لے کر بیٹھ گیا۔ تب اس کی آواز گونجی: چھوٹے! بیٹا ذرا کڑک سی چائے لا۔ خان کا میٹر گھوم گیا ہے جا میرا بیٹا جلدی سے۔ وہ پھر انجن کو ٹھک ٹھک کرنے لگا۔

ہاں تو خان صاحب کا میٹر صحیح ہوگیا۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا، کیا پھر بکواس کرے گا؟ میں نے اس کی بات کاٹی۔ میری بات تو سن لے یار، ہر کسی سے تو میں نہیں کہتا ناں۔ ویسے تو تم لوگ لیکچر دیتے رہتے ہو سب کی سنو اور حال یہ ہے تمہارا۔ اچھا بول، کر اپنی بکواس۔ ہاں یہ ہوئی ناں بات، اب بول بھی چُک۔ تو میں کہہ رہا تھا مشینیں بنانے والے کی بات نہ سنو تو مشین خراب ہو جاتی ہے اور ہمارے گلے پڑ جاتی ہے۔

اب دیکھو یہ جو انسان ہے ناں۔ یہ اﷲ تعالیٰ نے بنایا ہے۔ اور اسے ٹھیک ٹھیک انسان بننے کے لیے ایک کتاب دی ہے کہ یہ لو۔ اس طرح رہو گے تو ٹھیک رہو گے اور ساری زندگی سُکھی گزرے گی اور ہماری ذمّے داری میں رہو گے۔ تمہاری ہر چیز کا ذمّے دار میں خود ہوں۔ تم بے فکر رہو اور اگر اپنی مرضی کرنا ہے تو ذمے داری بھی خود قبول کرو میں بری الذّمہ ہوں۔ انسان نے اپنی مرضی کی اب نتیجا سامنے ہے۔ اب رو رہا ہے۔ اب تو اﷲ تعالیٰ کی ذمّے داری نہیں ہے ناں۔ اب جو بویا ہے وہ کاٹو اپنا خود کیا ہے یہ نقصان تو رونا کس بات کا؟ واہ چَریا! تُونے یہ کہاں سے سیکھی ؟ میں نے پوچھا۔ اِدھر اُدھر سے سُن سن کر سیکھ لیں بس۔ پھر ہم کیا کریں اب؟ یہ تو میں نہیں جانتا۔ وہ پھر سے انجن پر جُھک گیا۔

فقیر کو یاد آیا ایک دن ہمارے بابے جی نے بتایا تھا۔ رونے دھونے سے بگڑے کام بن جاتے ہیں، ناکامی کام یابی بن جاتی ہے، چیخیں قہقہوں میں بدل جاتی ہیں۔ دُکھ، سُکھ کی جون بدل لیتے ہیں۔ تکلیف راحت اوڑھ لیتی ہے، اداسی مسکراہٹ بن جاتی ہے، تنہائی محفل ہو جاتی ہے، روٹھے ہوئے جاں نثار کرتے اور واری جاتے ہیں، سب کچھ ہو سکتا ہے، ہر کام چاہے ناممکن ہو، بن جاتا ہے سنور جاتا ہے۔ رونے دھونے سے، بس ایک چھوٹے سے فرق کے ساتھ، مخلوق کے سامنے نہیں رونا، خالق کے سامنے رونا ہے، مخلوق کے آگے دست سوال نہیں دراز کرنا، خالق کے سامنے کرنا ہے۔ آہ و زاری کرنا ہے، خوشامد کرنی ہے۔ آنسوؤں کے نذرانے پیش کرنے ہیں۔

بس اپنے رب کے سامنے صرف اپنے خالق کے سامنے، یہ آنسو کوئی معمولی شے نہیں ہیں۔ یہ آنکھوں سے برسنے والے لعل و گوہر ہیں۔ نمکین پانی کی بوندیں نہیں ہیں۔ بے وقعت تو ہرگز نہیں ہیں۔ ہزار لفظوں پر بھاری ہیں۔ یہ آنسو، یہ موتی مناجاتوں کی قبولیت کا نشان ہیں۔ انہیں بس ویسے ہی نہ سمجھو، یہ بہت انمول ہیں، بہت نایاب ہیں۔

میں نے اپنا حال بتانا چاہا بھی

لیکن آنسو مجھ سے پہلے بول دیا

قوسِ قزح سی حد نظر تک بکھرا دی

اشکوں نے جو رنگ دیا انمول دیا

انکھیوں میں آنسو کیوں امڈ آتے ہیں۔ نیناں رم جھم، رم جھم کیوں برستے ہیں۔ یہ ساون بھادوں کیوں برستا ہے۔ اس لیے کہ آنسو علامت ہیں، بے بسی کے! آنسو اعلان ہیں بے چارگی کے! آنسو نشان ہیں اعتراف کے! یہ بہت انمول ہیں! بہت زیادہ قیمتی اور بے مثال!

ہمارے پاس بس ایک ہی راہ رہ گئی ہے ہم نے خود اپنے لیے جہنم بنا لی ہے یہ زمین، ہم خود ہیں اس کے ذمے دار، ہمارے چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے۔ سب کچھ برباد ہو گیا ہے ہر طرف تباہی ہے۔ بس ایک ہی راہ رہ گئی ہے ہمارے پاس ہمارے آنسو، مجھے آپ سے زیادہ دیر بات نہیں کرنا، بس رونے دھونے سے بگڑے کام بن جاتے ہیں ناکامی، کام یابی بن جاتی ہے۔ سب کچھ ہو سکتا ہے۔ ہم پھر سے فلاح پا سکتے ہیں۔ خالق کے سامنے رونے سے، اعتراف سے، رب کے ساتھ ناتا جوڑنے سے اور کوئی راہ نہیں ہے۔ کوئی بھی نہیں۔

فقیر کا کام تو صدا لگانا ہے جی! جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا۔ یقین رکھیے اور چاہے تو لکھ لیجیے فقیر کی بات کہ بہت جلد ہم اس آزمائش سے سُرخ رُو نکل جائیں گے۔ بس دعا کیجیے کہ مالک کبھی تنہا اور بے یار و مددگار نہ چھوڑے، مالک ہم پر رحم کرے۔ اور ہمیں یہ سمجھ دے، یہ توفیق دے کہ مالک حقیقی کو پہچانیں، زمینی خداؤں کا انکار کردیں اور اپنے رب سے اپنا رشتہ جوڑ لیں۔ دو پل کا جینا ہے اور پھر اندھیری رات سجنو! کچھ بھی تو نہیں رہے گا۔

بس نام رہے گا اﷲ کا

مایوسیوں کے گھور اندھیروں میں روشنی

غم کے سمندروں میں کنارا ہے تیرا نام

تنظیم مری بکھری ہوئی ذات کی ہوئی

جب روح و دل سے میں نے گزارا ہے تیرا نام
Load Next Story