کیا وائرس آنکھوں کے ذریعے پھیل سکتا ہے
آنکھوں کی بیماریوں کے حوالے سے ضروری معلومات پر مبنی تحریر
آنکھیں انسان کی شخصیت کا ایک اہم حصہ ہیں۔ کہا جاتا ہے آنکھیں بولتی ہیں۔لیکن بولتی آنکھوں کی زبان سمجھنا ضروری ہے کیونکہ وہ پیغام جو لفظ پہنچانے سے قاصر رہتے ہیں، وہ آنکھیں لمحوں میں پہنچا دیتی ہیں۔ اہم یہ ہے کہ آنکھوں کا خیال رکھا جائے۔
ہمارے اردگرد ماحول میں گرد وغبار اس قدر موجود ہے کہ ناچایتے ہوئے بھی ہماری آنکھیں اس سے متاثر ہوتی ہیں اور نتیجتاً مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔ آنکھوں اور ان کی صحت و حفاظت سے جڑے کئی سوالات کے جوابات کی تلاش اس انٹرویو کا محرک بنی اور شاہینوں کے شہرسرگودھا سے تعلق رکھنے والے آئی سرجن ڈاکٹر فضل محمود تک لے گئی۔ ان سے کئے ٹیلیفونک انٹرویو کا احوال کچھ یوں ہے؛
ایکسپریس: کیا آنکھوں کے ذریعے کوئی وائرس پھیل سکتا ہے؟
ڈاکٹرفضل: بنیادی طور پر تین جگہوں سے وائرس پھیلتا ہے جوکہ آنکھیں منہ اور ناک ہیں۔ اگر وائرس زدہ ہاتھ آنکھوں کو لگا دیئے جائیں تو وائرس پھیلتا ہے۔
ایکسپریس: عمومی طور پر آنکھوں کی بیماریاں کونسی ہیں؟
ڈاکٹرفضل: آنکھوں کی تو بے شمار بیماریاں ہیں، کچھ الرجیز ہیں، انفکشن ہیں، کچھ Congenital ہیں جوکہ موروثی بیماریاں یا پھر ٹروما کی وجہ سے ہوسکتی ہیں پھر اس میں متعدد عوامل کارفرما ہوتے ہیں، جیسے عمر اور ماحول وغیرہ۔ عموماً ہمارے ہاں الرجی کے مریض بہت زیادہ آتے ہیں، یا جن مریضوں کی بلڈپریشر کی وجہ سے آنکھیں متاثر ہوئی ہیں لیکن زیادہ تر الرجی اور انفکیشن کے مریض ہی زیادہ آتے ہیں۔
ایکسپریس: شوگر کے مریضوں کے آنکھوں میں اکثر خارش اور چھبن رہتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آنکھوں میں ریت چبھ رہی ہو۔ اس کی کیا وجہ ہوتی ہے اور ایسی صورت میں مریض کو کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹرفضل: ہمارے ہاں الرجی کا موسم شروع مارچ سے لے کر جون جولائی تک چلتا ہے جس میں الرجی کے زیادہ کیسز آتے ہیں۔ الرجی کی وجہ سے آنکھوں میں زیادہ خارش ہوتی ہے۔ ایسے میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنی چاہیے۔ عموماً ہمارے ہاں سیلف میڈیکیشن ہوتی ہے۔ لوگ خود سے ہی دوا لیتے ہیں جو قطرے ڈالتے ہیں وہ سٹیرائڈز (Steroids) ہوتے ہیں جن سے فوری طور پر تو خارش میں کمی واقعہ ہوتی ہے مگر اس کے زیادہ استعمال سے کمپلیکیشنز شروع ہوجاتی ہیں۔ جس سے کالا موتیا کے چانس ہوتے ہیں۔ الرجی کے لیے خصوصی دوائیں موجود ہوتی ہیں جنہیں چیک کرواکر ڈاکٹر کے مشورے کے بعد ہی استعمال کرنا چاہیے۔
ایکسپریس: آنکھوں میں خارش کی بڑی وجوہات کیا ہیں اور کچھ لوگوں کی آنکھیں خشک رہنے لگتی ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اور کیا اس سے بینائی بھی متاثر ہوسکتی ہے؟
ڈاکٹرفضل: آنکھوں میں خشکی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ عموماً ہمارا ماحول اور آب و ہوا کیوں کے گرم مرطوب ہے وہ آنکھوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسی طرح لمبے عرصے تک دواؤں کے استعمال سے بھی آنکھوں میں خشک پن آجاتا ہے جیسے کالے موتیے کے مریض ہیں ان کو کیونکہ دوائیں زیادہ عرصے تک استعمال کرنا پڑتی ہیں، یا پھر کچھ مستقل امراض کے مریض جیسے کہ جوڑوں کا درد ان میں بھی یہ مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے اور ایسے میں اگر مصنوعی آنسوؤں کا استعمال نہ کیا جائے اور یہ بڑھ جائے تو مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ آنکھ کا سرفیس خشک ہونا شروع ہوجاتا ہے جو اور کئی مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ ایسے میں بروقت علاج شروع نہ کروایا جائے تو اس سے پیدا ہونے والی پچیدگیوں سے بینائی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔
ایکسپریس: کیا نارمل آئی چیک اپ کے دوران کالے موتیا کی شناخت ہو سکتی ہے؟
ڈاکٹرفضل: بنیادی طور پر پیشنٹ یہ علامات محسوس کرتا ہے کہ اس کی نظر کمزور ہورہی جب ڈاکٹر کے پاس جائے گا تو پھر معلوم ہوگا۔ مگر عموماً ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کو محسوس ہوکہ نظر کمزور ہورہی ہے تو وہ آپٹو مٹرسٹ (Optometrist) ماہر بصارت کے پاس چلے جاتے ہیں۔جہاں وہ کوئی نہ کوئی نمبر گلاسز میں لگادیتے ہیں اور مریض کو لگتا ہے کہ میرا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ جب بھی آپ محسوس کریں کہ آپ کی ویژن کم ہورہی ہے تو آپ ڈاکٹر کو ضرور چیک کروائیں تاکہ وہ اس کو پراپر چیک کرے اور اس کی اصل وجہ تلاش کرسکے۔ نظر کم تو بہت سی وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے جیسے عمر، موتیا اور دیگر وجوہات اس کے پیچھے کار فرما ہوسکتی ہیں۔ سوخالی عینک لگا دینا اس کا حل نہیں ہوسکتا۔
ایکسپریس:موتیا کیوں ہوجاتا ہے اور ایک عام انسان اس کو کیسے سمجھ سکتا ہے؟
ڈاکٹرفضل:موتیا کی دو اقسام ہیں ایک (Catoracts) جسے عام لوگ سفید موتیا کہتے ہیں جس کا علاج ممکن ہے اورآپریشن کے بعد ویژن بلکل صاف ہونے لگتا ہے۔ دوسرا کالا موتیا ہے جس کا پہلے ذکر ہوا اس میں ویژن (بینائی) آہستہ آہستہ متاثر ہوتی ہے یا اچانک سے اس کا اٹیک ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں جو بینائی جاتی ہے وہ واپس نہیں ملتی۔ مریض کا بینائی کی کمزوری کو محسوس کرنا اس کی علامت ہے سو اگر جلدی معلوم ہوجائے تو آج کل جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سرجری کردی جاتی ہے۔ اگر زیادہ مسئلہ ہو تو آرٹیفیشل لینز کا بھی ڈال دیئے جاتے ہیں۔
ایکسپریس: آج کل لیئزر سرجری کا رجحان بہت بڑھ رہا ہے، خصوصاً عینک سے چھٹکارا پانے کے لیے تو کیا اس کے اثرات و نتائج دیرپا ہوتے ہیں اور کیا اس کے کوئی نقصانات ہیں؟
ڈاکٹرفضل: عموماً اٹھارہ یا بیس برس میں نظر سٹیبل ہوجاتی ہے کیونکہ لیئزر سرجری جوکہ گلاسیز ریمو کرنے کے لیے کی جاتی ہے، اس کے لیے نظر کا ایک جگہ ٹھہرنا ضروری ہوتا ہے۔ پھر ایک اور چیز ہے کہ پہلے مختلف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں اور آنکھ کا جو کالا پردہ ہمیں دکھائی دے رہا ہوتا ہے اس کی موٹائی چیک کی جاتی ہے کیونکہ لیئزر کے ساتھ اس کو کاٹا جاتا ہے۔ پھر نمبر دیکھنا ہوتا اس کے ساتھ دوسری بہت سے چیزیں جیسے کہ کوئی بیماری تو نہیں کہ پردہ پیچھے ٹھیک ہیں یا نہیں نمبر ایک جگہ ٹھہرا ہوا ہے کہ نہیں کوئی مورثی بیماری تو نہیں۔ پھر ایک خاص حد تک کے نمبر کے لیے لینز کی جاسکتی ہے۔
7 سے 8 نمبر تک آسانی سے ہٹاسکتے ہیں۔ مریض کا مکمل معائنہ کرنے کے بعد اور ٹیسٹ کرنے کے بعد ہی یہ مشورہ دیا جاتا ہے۔ باقی اس کی اپنی پیچیدگیاں ہیں جیسے جو خشک آنکھوں (Dried eyes) والے مریض ہوتے ہیںان کو سرجری ریکمنڈ نہیں کرتے۔اس کے علاوہ بعد میں ڈرائی نیس فیل ہونا شروع ہوجانی ہے تو اگر ڈرائینس ہو یا الرجی ہو یا کوئی اور آنکھوں کے پردوں کا مسئلہ ہو تو پھر سرجری نہیں کرتے۔ اگرسرجری کرنے کے بعد آنکھوں میں خشکی یا نمبر دوبارہ آجائے تو ایسا مسئلہ بھی ہوسکتا ہے۔
مگر اس کے بہت کم امکانات ہوتے ہیں۔ اس لیئزر سرجری کی تین بنیادی اقسام ہیں۔ پی آر کے، لیسک اور فیمؤبیسک اور آجکل اس کی ایک نئی قسم آئی ہے جوکہ سمائل لیئزر سرجری کہلاتی ہے۔
کچھ ڈاکٹرز کا خیال ہے کہ پی آر کے اس حوالے سے بہتر ہے کیونکہ لیسک میں ایک فلیئر بناتے ہیں جس کی اپنی پیچیدگیاں ہوتی ہیں خصوصاً سرجری کے دوران اور اس کے بعد بھی۔ لیکن زیادہ تر لیسک ہی تجویز کی جاتی ہے کیونکہ اس میں جلد بہتری ہوتی ہے اور درد بھی کم ہوتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پی آر کے میں ریکوری دیر سے ہوتی ہے۔ آنکھوں سے بلیڈنگ ہوتی ہے اور درد رہتا ہے۔ اس کے علاوہ فیمٹو لیسک ہے جس میں ایکوریسی (Accuracy) زیادہ ہے اور نظر بہت جلد بحال ہوجاتی ہے۔ لیئزرٹریٹمینٹ مہنگاہے چونکہ لینز مشین کافی مہنگی ہوتی ہے تو اس حساب سے ان کے چارجز بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
ایکسپریس: آنکھوں کے پردے کمزور ہونے سے کیا مراد ہے؟
ڈاکٹرفضل: آنکھوں کے پردے جسے ہم ریٹینا (Retina) کہتے ہیں اس کو عام طور پر نظر سے جوڑا جاتا ہے لیکن اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی بے شمار بیماریاں ہیں۔ نظر کی کمزوری کے لیے Laymanterm میں کہہ سکتے کہ آنکھوں کے پردے کمزور ہیں۔ اس کی تین لیئرز ہوتی ہیں۔
ایک اندر والی جوکہ نظر کے لیے کام کررہی ہوتی ہے۔ تو لوگوں کو سمجھانے کے لیے کہا جاتا ہے کہ آپ کی نظر کم ہورہی ہے جس سے آپ کے آنکھوں کے پردے کمزور ہورہے ہیں۔ اس کے پیچھے متعدد وجوہات ہوسکتی جیسے گلوکوما ی، موروثی بیماری یاٹروما وغیرہ۔ لیکن اصل وجہ کی شناخت مکمل تشخیص کے بعد ہی ممکن ہے۔
ایکسپریس: نظر کی کمزوری کا آنکھوں کے پردوں پر اثر ہونے کی صورت میں لیئزر ٹریٹمنٹ کیا جاسکتا ہے؟
ڈاکٹرفضل: بعض اوقات گلاسز کا نمبر بہت زیادہ ہوتا ہے تو ریٹینا Stratch ہونا شروع ہوجاتا ہے جس سے اس پر ہلکے ہلکے سلاٹ Slot بنانا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس کا لینز کے ذریعے کنفیکٹڈ ٹریٹمنٹ کرتے ہیں تاکہ ریٹینا ڈی ٹیچ نہ ہو۔ کیونکہ ایسے مریضوں میں رٹینا کے ڈی ٹیچ ہونے کا چانس ہوتا ہے تو لینز کے ذریعے اسے سٹیبل کیا جاتا ہے۔
اسی طرح شوگر کے مریضوں کی آنکھوں کے پردوں میں خون کی نالیاں کمزور ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور ان سے لیکیج ہونا شروع ہوجاتی ہے، جس سے آنکھ کے پردے متاثر ہونے لگتے ہیں تو ان لیکیج یا متاثرہ جگہ کو لیئزر کے ذریعے ٹھیک کرتے ہیں تاکہ بینائی کو بچایا جاسکے۔ اسی طرح بہت سی کنڈیشنز ہوتی ہیں جن میں لیئزر کیا جاتا ہے اور پھر لینز کی بھی بہت سی قسمیں ہوتی ہیں تو بیماری کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ کونسا ٹریٹمنٹ کرنا ہے۔
ایکسپریس: کیا کوئی ایسے ڈراپس بھی ہیں جو ہر وقت فرسٹ ایڈ باکس میں موجود ہونے چاہئیں؟ اگر ایمرجنسی ہوجاتی یا آنکھ میں کچھ چلا جاتا ہے تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹرفضل: اصل میں اللہ تعالیٰ نے قدرتی طور پر ہماری آنکھ کے اندر ایک نظام رکھا ہوا ہے کہ پانی کی ایک لیئر ہوتی ہے جس سے مسلسل پانی بن رہا ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں اینٹی باڈیز بھی رکھی ہیں اور اس میں پروٹکٹیو چیزیں بھی ہیں جوکہ ہماری آنکھ کو محفوظ بنارہی ہوتی ہیں۔ عموماً تو ایسے ڈراپس کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن کیونکہ ہمارا ماحول بہت گرد آلودہ ہے تو باہر نکلنے پر آنکھوں میں دھواں یا مٹی چلی جاتی ہے تو ایسی صورت میں جب بھی گھر واپس آئیں آنکھوں میں ٹھنڈے پانی کے چھینٹے ماریں تو آپ کی آنکھیں صاف ہوجاتی ہیں۔
اگر آنکھوں میں خدا ناخواستہ کوئی کیمیکل چلا جاتا ہے تو ایسی صورت میں آنکھ میںاچھی طرح پانی ڈالیں، اور فوراً ڈاکٹر کو چیک کروائیں کیونکہ کوئی ایسے ڈراپس نہیں جن کے بارے میں کہا جاسکے کہ و ڈالنے سے نقصان نہیں ہوگا۔ ہاں البتہ پانی کے اچھی طرح چھینٹے مارنے سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر تک پہنچنے سے پہلے کم سے کم نقصان ہو۔ ڈراپس بعد میں معالج ہی تجویز کرسکتا ہے۔
ایکسپریس: کچھ لوگوں کو بظاہر کوئی بیماری نہیں ہوتی مگر ان کی آنکھیں سرخ رہتی ہیں تو اس کا کیا راز ہے؟
ڈاکٹرفضل: جیسے ہر شخص کی رنگت الگ ہوتی ہے، اسی طرح آنکھوں کی رنگت بھی جدا ہوتی ہے۔ جیسے کسی کی سرخی مائل، کسی کی زردی مائل اور کسی کی سفیدی مائل اگر قدرتی رنگ ہی ایسا ہو تو پھر پریشانی والی کوئی بات نہیں۔ لیکن اگر خداناخواستہ کوئی چیز چلی جاتی ہے یا انفکشن ہوجاتا ہے تو آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں۔
اگر آنکھوں کا قدرتی رنگ سرخ ہے تو کوئی مسئلہ نہیں، اگر الرجی ہے تو اس کے ڈراپس موجود ہیں اور اگر انفکشن ہے تو دیکھنا ہوگا کہ بیکٹرئیل انفکیشن ہے، وائرل ہے یا کوئی اور قسم ہے تو اس کا ٹریٹمنٹ دیں گے تو اس صورت آنکھوں کی سرخی ختم ہوگی۔اگر وائرل انفکشن ہے تو اس میں عموماً کسی اینٹی باڈی کی ضرورت نہیں ہوتی، اس میں آرٹیفیشل ٹیئرز ڈالیں تو وہ کچھ دنوں کے بعد ٹھیک ہوجاتا ہے۔ بیکٹرئیل انفیکشن کی صورت میں پیٹنٹ اینٹی باڈیز ڈالنے سے پانچ سے سات روز میں آپ کی وہ ریڈنس ختم ہوجائے گی۔
ایکسپریس: آشوب چشم کی کیا وجوہات ہوتی ہیں اور اس میں کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹرفضل: آشوب چشم ایک وائرل انفکشن کی صورت پھیلنے والی وباء ہے جوکہ عموماً ایک سے دوسرے فرد کو لگ سکتی ہے۔ اس میں اگر حفظان صحت کا خیال رکھیں تو کم سے کم متاثر ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ مثلاً ہاتھ اور چہرہ اچھے طریقے سے دھلا ہو اور صاف ہونا چاہیے۔ عموماً گندے ہاتھ منہ پر اور آنکھوں میں لگانے سے یہ انفکشن پھیلتا ہے۔ متاثرہ شخص کی استعمال شدہ اشیاء مثلاً اس کا تولیہ استعمال کرنے سے پھیل سکتا ہے۔
اگر ہائی جین (Hygiene) کا خیال رکھیں، مکمل صفائی رکھیں، متوازن غذا کا اہتمام کریں اور گھروں میں مناسب ہوا کا بندوبست ہو تو اس کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ جن علاقوں میں عموماً سیلاب کے بعد ایسی ایپی ڈیمک (Epidemic) یا وباء پھوٹ پڑتی ہے، تو اگر مناسب حفاظتی اقدامات کریں تو اس سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ کسی دوسرے کی آنکھوں میں دیکھنے سے یہ وباء ہرگز نہیں پھیلتی لیکن اختلاط سے جیسے گھروں میں خواتین جو چھوٹے بچوں کو اٹھاتی اور ان کی دیکھ بھالی کرتی ہیں یا چھوٹے بچے جو آپس میں کھیلتے ہیں یا اگر گھر میں سب ہی افراد ایک ہی تولیے کا استعمال کرتے ہوں یا عینک جو ایک بندے نے لگائی وہ دوسرا بھی لگائے تو یہ فوراً دوسرے شخص کو لگ سکتا ہے۔
ایکسپریس: الرجی کی بہت سی اقسام ہیں۔ ایسی کونسی علامات ہیں جو الرجی کو ظاہر کرتی ہیں؟
ڈاکٹرفضل: عموماً مریض کو آنکھوں میں چبھن ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ آنکھیں سرخ ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور ان میں سوجن ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ تو ان علامات سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ الرجی ہوگئی ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر سے رجوع کریں اور اس کی کافی ادویات موجود ہیں جنہیں استعمال کرنے سے افاقہ ہوتا ہے۔
ایکسپریس: دھندلا دکھائی دینا کس چیز کی جانب اشارہ کرتا ہے؟ عموماً لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نظر کی کمزوری کوئی بہت بڑی بیماری ہے تو اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
ڈاکٹرفضل: نظر کی کمزوری کی متعدد وجوہات ہوتی ہیں عموماً اسی صورت میں عینک کی ضرورت پڑتی ہے۔ آج کل بچوں کی نظر کمزور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی آؤٹ ڈور (Outdoor) ایکٹوٹیز بہت کم ہوتی ہے۔ ہر وقت گیجیٹس استعمال کرنے سے نظر کمزور ہونے کے چانسز بہت زیادہ ہوجاتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ بچوں کو موبائل بہت کم استعمال کردینے دینا چاہیے۔ اس کے علاوہ آؤٹ ڈور ایکٹویٹز بہت ضروری ہیں۔ اگر نظر کمزور ہوگئی ہے تو عینک کے استعمال سے اس روکا جاسکتا ہے۔ اگر عینک استعمال نہیں کریں گے تو نظر کے مزید خراب ہونے کے چانسز ہوں گے۔ کانٹیکٹ لینزز کا مستقل استعمال آنکھوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اگر اپنی ڈائٹ اچھی رکھیں، میک اپ کم سے کم استعمال کریں، آؤٹ ڈور مشاغل اپنائیں تو نظر پر بہتر اثرات مرتب ہوں گے۔ عموماً 18 سے 20 برس تک گروتھ مکمل ہوجاتی ہے اور اس کے بعد ایک عینک سے چھٹکارا پانا چاہیں تو لیئزر بھی کروایا جاسکتا ہے۔
ایکسپریس: کچھ بچوں کی آنکھوں سے پانی آتا ہے صبح اٹھنے کے بعد انہیں آنکھیں کھولنے میں دقت کا سامنا رہتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہوتی ہے اور کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹرفضل: عموماً انفکیشن کی صورت میں ایسا ہوتا ہے صبح اٹھنے پر آنکھوں میں ڈس چارج آیا ہوتا ہے۔ بیکٹریل انفکشن کی وجہ سے کافی ڈسچارج آنا شروع ہوجاتا ہے تو اینٹی باڈیز یوز کریں، پانی کے چھٹے لگائیں یہ ہفتہ دس دن کے اندر اندر ٹھیک ہوجاتا ہے۔
ایکسپریس: آنکھوں کی اچھی صحت کے لیے بطور ماہر امراض چشم کیا ہدایات دینا چاہیں گے؟
ڈاکٹرفضل: سب سے اہم یہ بات ہے کہ اپنی صفائی کا خیال رکھیں۔ اپنے ہاتھوں اورجسم کو صاف رکھیں، اپنے گھروں کو صاف رکھیں، متوازن غذا کا انتخاب کریں، نیند پوری لیں، ورزش کریں تو بہت سی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔ اگر اپنے طرز زندگی کو بہتر بنایا جائے تو ناصرف آنکھوں کی بلکہ بہت سی بیماریاں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی۔ میرے خیال سے کرونا نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ زندگی نان سٹاپ کام کرنے کا ہی نام نہیں، ہمیں کچھ وقت اپنی فیملی کے ساتھ بھی گزارنا چاہیے۔
کالا موتیا سے جانے والی نظر دوبارہ واپس نہیں آتی:ڈاکٹر فضل
ایکسپریس:گلوکوما یعنی کالا موتیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی علاج نہیں کیا یہ درست ہے؟ کیا اس کے علاج کے حوالے سے کسی بڑے بریک تھرو کی توقع کی جاسکتی ہے؟ کیا اس کے حملے کی کوئی پیشگی علامات ہیں جن سے بروقت بینائی بچانے کی کوئی سبیل کرسکے؟
ڈاکٹرفضل: کالے موتیے کی مختلف اقسام ہیں جیسے اس کی ایک قسم Angle Closure Glaucoma ہے۔ اس کے مریض کو شدید درد شروع ہوجاتی ہے۔ خاص طور پر شام کے وقت جب روشنی مدہم پڑتی ہے تو کیونکہ وہ Narrow angle ہوتا ہے تو آنکھ کی پتلیاں پھیلنے لگتی ہیں۔ سو مریض جب ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو وہ تشخیص کرلیا جاتا ہے۔ ایک ہوتا ہے۔
Open Angle Glaucoma جس میں آہستہ آہستہ مریض کی آنکھیں متاثر ہورہی ہوتی ہیں مگر اسے محسوس نہیں ہوتا۔ جب مریض کو لگتا ہے کہ اس کی نظر کم ہورہی ہے تو وہ ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے۔ تب معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ گھمبیر ہوچکا ہے۔ عموماً ایسے مریضوں میں فیملی ہسٹری ہوتی ہے۔ جن کے خاندان میں گلوکوما (کالا موتیا) ہو انہیں وقفے وقفے سے چیک کروانا چاہیے۔ عموماً چالیس برس (40) کے بعد اگر فیملی ہسٹری میں گلوکوما ہو تو آہستگی سے نظر کے متاثر ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ تو اس کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اور وقفے وقفے سے اپنی آنکھوں کا چیک اپ کرواتے رہناچاہئے۔
اب تو میڈیکلی اور سرجیکلی بھی اس کا بروقت علاج ممکن ہے۔ اس میں دوائیں مسلسل استعمال کرنا ہوتی ہیں۔ اگر یہ تشخیص ہوجائے تو ڈاکٹر سے مسلسل دوا لے کر اسے قابو کیا جاسکتا ہے اور دوائوں کے استعمال سے ویژن(بینائی) سٹیبل رہ سکتا ہے۔ اگر کوئی دوا اثر نہیں کرتی تو ڈاکٹر سے چیک اپ کرواکر اسے بدلابھی جاسکتا ہے، جس سے بہتر نتائج آسکتے ہیں۔ لیکن اگر ایک دفعہ کالے موتیے کی وجہ سے نظر چلی گئی تو پھر واپس نہیں آسکتی۔
ہمارے اردگرد ماحول میں گرد وغبار اس قدر موجود ہے کہ ناچایتے ہوئے بھی ہماری آنکھیں اس سے متاثر ہوتی ہیں اور نتیجتاً مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔ آنکھوں اور ان کی صحت و حفاظت سے جڑے کئی سوالات کے جوابات کی تلاش اس انٹرویو کا محرک بنی اور شاہینوں کے شہرسرگودھا سے تعلق رکھنے والے آئی سرجن ڈاکٹر فضل محمود تک لے گئی۔ ان سے کئے ٹیلیفونک انٹرویو کا احوال کچھ یوں ہے؛
ایکسپریس: کیا آنکھوں کے ذریعے کوئی وائرس پھیل سکتا ہے؟
ڈاکٹرفضل: بنیادی طور پر تین جگہوں سے وائرس پھیلتا ہے جوکہ آنکھیں منہ اور ناک ہیں۔ اگر وائرس زدہ ہاتھ آنکھوں کو لگا دیئے جائیں تو وائرس پھیلتا ہے۔
ایکسپریس: عمومی طور پر آنکھوں کی بیماریاں کونسی ہیں؟
ڈاکٹرفضل: آنکھوں کی تو بے شمار بیماریاں ہیں، کچھ الرجیز ہیں، انفکشن ہیں، کچھ Congenital ہیں جوکہ موروثی بیماریاں یا پھر ٹروما کی وجہ سے ہوسکتی ہیں پھر اس میں متعدد عوامل کارفرما ہوتے ہیں، جیسے عمر اور ماحول وغیرہ۔ عموماً ہمارے ہاں الرجی کے مریض بہت زیادہ آتے ہیں، یا جن مریضوں کی بلڈپریشر کی وجہ سے آنکھیں متاثر ہوئی ہیں لیکن زیادہ تر الرجی اور انفکیشن کے مریض ہی زیادہ آتے ہیں۔
ایکسپریس: شوگر کے مریضوں کے آنکھوں میں اکثر خارش اور چھبن رہتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آنکھوں میں ریت چبھ رہی ہو۔ اس کی کیا وجہ ہوتی ہے اور ایسی صورت میں مریض کو کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹرفضل: ہمارے ہاں الرجی کا موسم شروع مارچ سے لے کر جون جولائی تک چلتا ہے جس میں الرجی کے زیادہ کیسز آتے ہیں۔ الرجی کی وجہ سے آنکھوں میں زیادہ خارش ہوتی ہے۔ ایسے میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنی چاہیے۔ عموماً ہمارے ہاں سیلف میڈیکیشن ہوتی ہے۔ لوگ خود سے ہی دوا لیتے ہیں جو قطرے ڈالتے ہیں وہ سٹیرائڈز (Steroids) ہوتے ہیں جن سے فوری طور پر تو خارش میں کمی واقعہ ہوتی ہے مگر اس کے زیادہ استعمال سے کمپلیکیشنز شروع ہوجاتی ہیں۔ جس سے کالا موتیا کے چانس ہوتے ہیں۔ الرجی کے لیے خصوصی دوائیں موجود ہوتی ہیں جنہیں چیک کرواکر ڈاکٹر کے مشورے کے بعد ہی استعمال کرنا چاہیے۔
ایکسپریس: آنکھوں میں خارش کی بڑی وجوہات کیا ہیں اور کچھ لوگوں کی آنکھیں خشک رہنے لگتی ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اور کیا اس سے بینائی بھی متاثر ہوسکتی ہے؟
ڈاکٹرفضل: آنکھوں میں خشکی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ عموماً ہمارا ماحول اور آب و ہوا کیوں کے گرم مرطوب ہے وہ آنکھوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسی طرح لمبے عرصے تک دواؤں کے استعمال سے بھی آنکھوں میں خشک پن آجاتا ہے جیسے کالے موتیے کے مریض ہیں ان کو کیونکہ دوائیں زیادہ عرصے تک استعمال کرنا پڑتی ہیں، یا پھر کچھ مستقل امراض کے مریض جیسے کہ جوڑوں کا درد ان میں بھی یہ مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے اور ایسے میں اگر مصنوعی آنسوؤں کا استعمال نہ کیا جائے اور یہ بڑھ جائے تو مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ آنکھ کا سرفیس خشک ہونا شروع ہوجاتا ہے جو اور کئی مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ ایسے میں بروقت علاج شروع نہ کروایا جائے تو اس سے پیدا ہونے والی پچیدگیوں سے بینائی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔
ایکسپریس: کیا نارمل آئی چیک اپ کے دوران کالے موتیا کی شناخت ہو سکتی ہے؟
ڈاکٹرفضل: بنیادی طور پر پیشنٹ یہ علامات محسوس کرتا ہے کہ اس کی نظر کمزور ہورہی جب ڈاکٹر کے پاس جائے گا تو پھر معلوم ہوگا۔ مگر عموماً ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کو محسوس ہوکہ نظر کمزور ہورہی ہے تو وہ آپٹو مٹرسٹ (Optometrist) ماہر بصارت کے پاس چلے جاتے ہیں۔جہاں وہ کوئی نہ کوئی نمبر گلاسز میں لگادیتے ہیں اور مریض کو لگتا ہے کہ میرا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ جب بھی آپ محسوس کریں کہ آپ کی ویژن کم ہورہی ہے تو آپ ڈاکٹر کو ضرور چیک کروائیں تاکہ وہ اس کو پراپر چیک کرے اور اس کی اصل وجہ تلاش کرسکے۔ نظر کم تو بہت سی وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے جیسے عمر، موتیا اور دیگر وجوہات اس کے پیچھے کار فرما ہوسکتی ہیں۔ سوخالی عینک لگا دینا اس کا حل نہیں ہوسکتا۔
ایکسپریس:موتیا کیوں ہوجاتا ہے اور ایک عام انسان اس کو کیسے سمجھ سکتا ہے؟
ڈاکٹرفضل:موتیا کی دو اقسام ہیں ایک (Catoracts) جسے عام لوگ سفید موتیا کہتے ہیں جس کا علاج ممکن ہے اورآپریشن کے بعد ویژن بلکل صاف ہونے لگتا ہے۔ دوسرا کالا موتیا ہے جس کا پہلے ذکر ہوا اس میں ویژن (بینائی) آہستہ آہستہ متاثر ہوتی ہے یا اچانک سے اس کا اٹیک ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں جو بینائی جاتی ہے وہ واپس نہیں ملتی۔ مریض کا بینائی کی کمزوری کو محسوس کرنا اس کی علامت ہے سو اگر جلدی معلوم ہوجائے تو آج کل جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سرجری کردی جاتی ہے۔ اگر زیادہ مسئلہ ہو تو آرٹیفیشل لینز کا بھی ڈال دیئے جاتے ہیں۔
ایکسپریس: آج کل لیئزر سرجری کا رجحان بہت بڑھ رہا ہے، خصوصاً عینک سے چھٹکارا پانے کے لیے تو کیا اس کے اثرات و نتائج دیرپا ہوتے ہیں اور کیا اس کے کوئی نقصانات ہیں؟
ڈاکٹرفضل: عموماً اٹھارہ یا بیس برس میں نظر سٹیبل ہوجاتی ہے کیونکہ لیئزر سرجری جوکہ گلاسیز ریمو کرنے کے لیے کی جاتی ہے، اس کے لیے نظر کا ایک جگہ ٹھہرنا ضروری ہوتا ہے۔ پھر ایک اور چیز ہے کہ پہلے مختلف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں اور آنکھ کا جو کالا پردہ ہمیں دکھائی دے رہا ہوتا ہے اس کی موٹائی چیک کی جاتی ہے کیونکہ لیئزر کے ساتھ اس کو کاٹا جاتا ہے۔ پھر نمبر دیکھنا ہوتا اس کے ساتھ دوسری بہت سے چیزیں جیسے کہ کوئی بیماری تو نہیں کہ پردہ پیچھے ٹھیک ہیں یا نہیں نمبر ایک جگہ ٹھہرا ہوا ہے کہ نہیں کوئی مورثی بیماری تو نہیں۔ پھر ایک خاص حد تک کے نمبر کے لیے لینز کی جاسکتی ہے۔
7 سے 8 نمبر تک آسانی سے ہٹاسکتے ہیں۔ مریض کا مکمل معائنہ کرنے کے بعد اور ٹیسٹ کرنے کے بعد ہی یہ مشورہ دیا جاتا ہے۔ باقی اس کی اپنی پیچیدگیاں ہیں جیسے جو خشک آنکھوں (Dried eyes) والے مریض ہوتے ہیںان کو سرجری ریکمنڈ نہیں کرتے۔اس کے علاوہ بعد میں ڈرائی نیس فیل ہونا شروع ہوجانی ہے تو اگر ڈرائینس ہو یا الرجی ہو یا کوئی اور آنکھوں کے پردوں کا مسئلہ ہو تو پھر سرجری نہیں کرتے۔ اگرسرجری کرنے کے بعد آنکھوں میں خشکی یا نمبر دوبارہ آجائے تو ایسا مسئلہ بھی ہوسکتا ہے۔
مگر اس کے بہت کم امکانات ہوتے ہیں۔ اس لیئزر سرجری کی تین بنیادی اقسام ہیں۔ پی آر کے، لیسک اور فیمؤبیسک اور آجکل اس کی ایک نئی قسم آئی ہے جوکہ سمائل لیئزر سرجری کہلاتی ہے۔
کچھ ڈاکٹرز کا خیال ہے کہ پی آر کے اس حوالے سے بہتر ہے کیونکہ لیسک میں ایک فلیئر بناتے ہیں جس کی اپنی پیچیدگیاں ہوتی ہیں خصوصاً سرجری کے دوران اور اس کے بعد بھی۔ لیکن زیادہ تر لیسک ہی تجویز کی جاتی ہے کیونکہ اس میں جلد بہتری ہوتی ہے اور درد بھی کم ہوتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پی آر کے میں ریکوری دیر سے ہوتی ہے۔ آنکھوں سے بلیڈنگ ہوتی ہے اور درد رہتا ہے۔ اس کے علاوہ فیمٹو لیسک ہے جس میں ایکوریسی (Accuracy) زیادہ ہے اور نظر بہت جلد بحال ہوجاتی ہے۔ لیئزرٹریٹمینٹ مہنگاہے چونکہ لینز مشین کافی مہنگی ہوتی ہے تو اس حساب سے ان کے چارجز بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
ایکسپریس: آنکھوں کے پردے کمزور ہونے سے کیا مراد ہے؟
ڈاکٹرفضل: آنکھوں کے پردے جسے ہم ریٹینا (Retina) کہتے ہیں اس کو عام طور پر نظر سے جوڑا جاتا ہے لیکن اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی بے شمار بیماریاں ہیں۔ نظر کی کمزوری کے لیے Laymanterm میں کہہ سکتے کہ آنکھوں کے پردے کمزور ہیں۔ اس کی تین لیئرز ہوتی ہیں۔
ایک اندر والی جوکہ نظر کے لیے کام کررہی ہوتی ہے۔ تو لوگوں کو سمجھانے کے لیے کہا جاتا ہے کہ آپ کی نظر کم ہورہی ہے جس سے آپ کے آنکھوں کے پردے کمزور ہورہے ہیں۔ اس کے پیچھے متعدد وجوہات ہوسکتی جیسے گلوکوما ی، موروثی بیماری یاٹروما وغیرہ۔ لیکن اصل وجہ کی شناخت مکمل تشخیص کے بعد ہی ممکن ہے۔
ایکسپریس: نظر کی کمزوری کا آنکھوں کے پردوں پر اثر ہونے کی صورت میں لیئزر ٹریٹمنٹ کیا جاسکتا ہے؟
ڈاکٹرفضل: بعض اوقات گلاسز کا نمبر بہت زیادہ ہوتا ہے تو ریٹینا Stratch ہونا شروع ہوجاتا ہے جس سے اس پر ہلکے ہلکے سلاٹ Slot بنانا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس کا لینز کے ذریعے کنفیکٹڈ ٹریٹمنٹ کرتے ہیں تاکہ ریٹینا ڈی ٹیچ نہ ہو۔ کیونکہ ایسے مریضوں میں رٹینا کے ڈی ٹیچ ہونے کا چانس ہوتا ہے تو لینز کے ذریعے اسے سٹیبل کیا جاتا ہے۔
اسی طرح شوگر کے مریضوں کی آنکھوں کے پردوں میں خون کی نالیاں کمزور ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور ان سے لیکیج ہونا شروع ہوجاتی ہے، جس سے آنکھ کے پردے متاثر ہونے لگتے ہیں تو ان لیکیج یا متاثرہ جگہ کو لیئزر کے ذریعے ٹھیک کرتے ہیں تاکہ بینائی کو بچایا جاسکے۔ اسی طرح بہت سی کنڈیشنز ہوتی ہیں جن میں لیئزر کیا جاتا ہے اور پھر لینز کی بھی بہت سی قسمیں ہوتی ہیں تو بیماری کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ کونسا ٹریٹمنٹ کرنا ہے۔
ایکسپریس: کیا کوئی ایسے ڈراپس بھی ہیں جو ہر وقت فرسٹ ایڈ باکس میں موجود ہونے چاہئیں؟ اگر ایمرجنسی ہوجاتی یا آنکھ میں کچھ چلا جاتا ہے تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹرفضل: اصل میں اللہ تعالیٰ نے قدرتی طور پر ہماری آنکھ کے اندر ایک نظام رکھا ہوا ہے کہ پانی کی ایک لیئر ہوتی ہے جس سے مسلسل پانی بن رہا ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں اینٹی باڈیز بھی رکھی ہیں اور اس میں پروٹکٹیو چیزیں بھی ہیں جوکہ ہماری آنکھ کو محفوظ بنارہی ہوتی ہیں۔ عموماً تو ایسے ڈراپس کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن کیونکہ ہمارا ماحول بہت گرد آلودہ ہے تو باہر نکلنے پر آنکھوں میں دھواں یا مٹی چلی جاتی ہے تو ایسی صورت میں جب بھی گھر واپس آئیں آنکھوں میں ٹھنڈے پانی کے چھینٹے ماریں تو آپ کی آنکھیں صاف ہوجاتی ہیں۔
اگر آنکھوں میں خدا ناخواستہ کوئی کیمیکل چلا جاتا ہے تو ایسی صورت میں آنکھ میںاچھی طرح پانی ڈالیں، اور فوراً ڈاکٹر کو چیک کروائیں کیونکہ کوئی ایسے ڈراپس نہیں جن کے بارے میں کہا جاسکے کہ و ڈالنے سے نقصان نہیں ہوگا۔ ہاں البتہ پانی کے اچھی طرح چھینٹے مارنے سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر تک پہنچنے سے پہلے کم سے کم نقصان ہو۔ ڈراپس بعد میں معالج ہی تجویز کرسکتا ہے۔
ایکسپریس: کچھ لوگوں کو بظاہر کوئی بیماری نہیں ہوتی مگر ان کی آنکھیں سرخ رہتی ہیں تو اس کا کیا راز ہے؟
ڈاکٹرفضل: جیسے ہر شخص کی رنگت الگ ہوتی ہے، اسی طرح آنکھوں کی رنگت بھی جدا ہوتی ہے۔ جیسے کسی کی سرخی مائل، کسی کی زردی مائل اور کسی کی سفیدی مائل اگر قدرتی رنگ ہی ایسا ہو تو پھر پریشانی والی کوئی بات نہیں۔ لیکن اگر خداناخواستہ کوئی چیز چلی جاتی ہے یا انفکشن ہوجاتا ہے تو آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں۔
اگر آنکھوں کا قدرتی رنگ سرخ ہے تو کوئی مسئلہ نہیں، اگر الرجی ہے تو اس کے ڈراپس موجود ہیں اور اگر انفکشن ہے تو دیکھنا ہوگا کہ بیکٹرئیل انفکیشن ہے، وائرل ہے یا کوئی اور قسم ہے تو اس کا ٹریٹمنٹ دیں گے تو اس صورت آنکھوں کی سرخی ختم ہوگی۔اگر وائرل انفکشن ہے تو اس میں عموماً کسی اینٹی باڈی کی ضرورت نہیں ہوتی، اس میں آرٹیفیشل ٹیئرز ڈالیں تو وہ کچھ دنوں کے بعد ٹھیک ہوجاتا ہے۔ بیکٹرئیل انفیکشن کی صورت میں پیٹنٹ اینٹی باڈیز ڈالنے سے پانچ سے سات روز میں آپ کی وہ ریڈنس ختم ہوجائے گی۔
ایکسپریس: آشوب چشم کی کیا وجوہات ہوتی ہیں اور اس میں کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹرفضل: آشوب چشم ایک وائرل انفکشن کی صورت پھیلنے والی وباء ہے جوکہ عموماً ایک سے دوسرے فرد کو لگ سکتی ہے۔ اس میں اگر حفظان صحت کا خیال رکھیں تو کم سے کم متاثر ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ مثلاً ہاتھ اور چہرہ اچھے طریقے سے دھلا ہو اور صاف ہونا چاہیے۔ عموماً گندے ہاتھ منہ پر اور آنکھوں میں لگانے سے یہ انفکشن پھیلتا ہے۔ متاثرہ شخص کی استعمال شدہ اشیاء مثلاً اس کا تولیہ استعمال کرنے سے پھیل سکتا ہے۔
اگر ہائی جین (Hygiene) کا خیال رکھیں، مکمل صفائی رکھیں، متوازن غذا کا اہتمام کریں اور گھروں میں مناسب ہوا کا بندوبست ہو تو اس کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ جن علاقوں میں عموماً سیلاب کے بعد ایسی ایپی ڈیمک (Epidemic) یا وباء پھوٹ پڑتی ہے، تو اگر مناسب حفاظتی اقدامات کریں تو اس سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ کسی دوسرے کی آنکھوں میں دیکھنے سے یہ وباء ہرگز نہیں پھیلتی لیکن اختلاط سے جیسے گھروں میں خواتین جو چھوٹے بچوں کو اٹھاتی اور ان کی دیکھ بھالی کرتی ہیں یا چھوٹے بچے جو آپس میں کھیلتے ہیں یا اگر گھر میں سب ہی افراد ایک ہی تولیے کا استعمال کرتے ہوں یا عینک جو ایک بندے نے لگائی وہ دوسرا بھی لگائے تو یہ فوراً دوسرے شخص کو لگ سکتا ہے۔
ایکسپریس: الرجی کی بہت سی اقسام ہیں۔ ایسی کونسی علامات ہیں جو الرجی کو ظاہر کرتی ہیں؟
ڈاکٹرفضل: عموماً مریض کو آنکھوں میں چبھن ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ آنکھیں سرخ ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور ان میں سوجن ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ تو ان علامات سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ الرجی ہوگئی ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر سے رجوع کریں اور اس کی کافی ادویات موجود ہیں جنہیں استعمال کرنے سے افاقہ ہوتا ہے۔
ایکسپریس: دھندلا دکھائی دینا کس چیز کی جانب اشارہ کرتا ہے؟ عموماً لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نظر کی کمزوری کوئی بہت بڑی بیماری ہے تو اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
ڈاکٹرفضل: نظر کی کمزوری کی متعدد وجوہات ہوتی ہیں عموماً اسی صورت میں عینک کی ضرورت پڑتی ہے۔ آج کل بچوں کی نظر کمزور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی آؤٹ ڈور (Outdoor) ایکٹوٹیز بہت کم ہوتی ہے۔ ہر وقت گیجیٹس استعمال کرنے سے نظر کمزور ہونے کے چانسز بہت زیادہ ہوجاتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ بچوں کو موبائل بہت کم استعمال کردینے دینا چاہیے۔ اس کے علاوہ آؤٹ ڈور ایکٹویٹز بہت ضروری ہیں۔ اگر نظر کمزور ہوگئی ہے تو عینک کے استعمال سے اس روکا جاسکتا ہے۔ اگر عینک استعمال نہیں کریں گے تو نظر کے مزید خراب ہونے کے چانسز ہوں گے۔ کانٹیکٹ لینزز کا مستقل استعمال آنکھوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اگر اپنی ڈائٹ اچھی رکھیں، میک اپ کم سے کم استعمال کریں، آؤٹ ڈور مشاغل اپنائیں تو نظر پر بہتر اثرات مرتب ہوں گے۔ عموماً 18 سے 20 برس تک گروتھ مکمل ہوجاتی ہے اور اس کے بعد ایک عینک سے چھٹکارا پانا چاہیں تو لیئزر بھی کروایا جاسکتا ہے۔
ایکسپریس: کچھ بچوں کی آنکھوں سے پانی آتا ہے صبح اٹھنے کے بعد انہیں آنکھیں کھولنے میں دقت کا سامنا رہتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہوتی ہے اور کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹرفضل: عموماً انفکیشن کی صورت میں ایسا ہوتا ہے صبح اٹھنے پر آنکھوں میں ڈس چارج آیا ہوتا ہے۔ بیکٹریل انفکشن کی وجہ سے کافی ڈسچارج آنا شروع ہوجاتا ہے تو اینٹی باڈیز یوز کریں، پانی کے چھٹے لگائیں یہ ہفتہ دس دن کے اندر اندر ٹھیک ہوجاتا ہے۔
ایکسپریس: آنکھوں کی اچھی صحت کے لیے بطور ماہر امراض چشم کیا ہدایات دینا چاہیں گے؟
ڈاکٹرفضل: سب سے اہم یہ بات ہے کہ اپنی صفائی کا خیال رکھیں۔ اپنے ہاتھوں اورجسم کو صاف رکھیں، اپنے گھروں کو صاف رکھیں، متوازن غذا کا انتخاب کریں، نیند پوری لیں، ورزش کریں تو بہت سی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔ اگر اپنے طرز زندگی کو بہتر بنایا جائے تو ناصرف آنکھوں کی بلکہ بہت سی بیماریاں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی۔ میرے خیال سے کرونا نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ زندگی نان سٹاپ کام کرنے کا ہی نام نہیں، ہمیں کچھ وقت اپنی فیملی کے ساتھ بھی گزارنا چاہیے۔
کالا موتیا سے جانے والی نظر دوبارہ واپس نہیں آتی:ڈاکٹر فضل
ایکسپریس:گلوکوما یعنی کالا موتیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی علاج نہیں کیا یہ درست ہے؟ کیا اس کے علاج کے حوالے سے کسی بڑے بریک تھرو کی توقع کی جاسکتی ہے؟ کیا اس کے حملے کی کوئی پیشگی علامات ہیں جن سے بروقت بینائی بچانے کی کوئی سبیل کرسکے؟
ڈاکٹرفضل: کالے موتیے کی مختلف اقسام ہیں جیسے اس کی ایک قسم Angle Closure Glaucoma ہے۔ اس کے مریض کو شدید درد شروع ہوجاتی ہے۔ خاص طور پر شام کے وقت جب روشنی مدہم پڑتی ہے تو کیونکہ وہ Narrow angle ہوتا ہے تو آنکھ کی پتلیاں پھیلنے لگتی ہیں۔ سو مریض جب ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو وہ تشخیص کرلیا جاتا ہے۔ ایک ہوتا ہے۔
Open Angle Glaucoma جس میں آہستہ آہستہ مریض کی آنکھیں متاثر ہورہی ہوتی ہیں مگر اسے محسوس نہیں ہوتا۔ جب مریض کو لگتا ہے کہ اس کی نظر کم ہورہی ہے تو وہ ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے۔ تب معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ گھمبیر ہوچکا ہے۔ عموماً ایسے مریضوں میں فیملی ہسٹری ہوتی ہے۔ جن کے خاندان میں گلوکوما (کالا موتیا) ہو انہیں وقفے وقفے سے چیک کروانا چاہیے۔ عموماً چالیس برس (40) کے بعد اگر فیملی ہسٹری میں گلوکوما ہو تو آہستگی سے نظر کے متاثر ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ تو اس کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اور وقفے وقفے سے اپنی آنکھوں کا چیک اپ کرواتے رہناچاہئے۔
اب تو میڈیکلی اور سرجیکلی بھی اس کا بروقت علاج ممکن ہے۔ اس میں دوائیں مسلسل استعمال کرنا ہوتی ہیں۔ اگر یہ تشخیص ہوجائے تو ڈاکٹر سے مسلسل دوا لے کر اسے قابو کیا جاسکتا ہے اور دوائوں کے استعمال سے ویژن(بینائی) سٹیبل رہ سکتا ہے۔ اگر کوئی دوا اثر نہیں کرتی تو ڈاکٹر سے چیک اپ کرواکر اسے بدلابھی جاسکتا ہے، جس سے بہتر نتائج آسکتے ہیں۔ لیکن اگر ایک دفعہ کالے موتیے کی وجہ سے نظر چلی گئی تو پھر واپس نہیں آسکتی۔