فرنیچرسے لے کرآئی فون تک سب کرائے پر
مہنگی اشیا خریدنے کے بجائے کرائے پر لینے کا بڑھتا ہوا رجحان
دنیا بھرمیں مہنگائی کی شرح میں روز بروز اضافہ ہوتاجارہا ہے دولت کی غیرمتوازن تقسیم کے باعث چند ممالک امیر سے امیر ترین ہوتے اور دنیا کے زیادہ تر ممالک مزید غربت میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ پاکستان کا شمار تیسری دنیا کے ممالک میں ہوتا ہے جہاں ایک مخصوص طبقہ مزید امیر اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں۔ آئے دن بڑھتی مہنگائی ، اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں دن بدن ہوتا ہوشربا اضافہ اور روزمرہ استعمال ہونے والے گھریلو سامان کی ٓسمان سے باتیں کرتی قیمتوں نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ اس صورت حال میں جب لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ترین ہوگیا ہے ایسے میں لاکھوں کا فرنیچر اور مہنگے الیکٹرانک آئٹم اور گھریلو سامان کو خریدنا ایک الگ درد سر ہے۔
گھر میں مہنگا فرنیچر اور ہاتھ میں مہنگا موبائل شان و شوکت کی علامت سمجھاجاتا ہے۔ موجودہ دور میں ان چیزوں کے بغیر گزارا بھی ممکن نہیں۔ ہمارے معاشرے کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں دکھاواے اور جھوٹی شان و شوکت کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اگر گھر میں عالی شان فرنیچر اور ہاتھ میں مہنگا فون نہ ہو تو لوگ حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لہذا اپنی جھوٹی شان برقرار رکھنے کے لیے سفید پوش طبقہ ان چیزوں کے حصول کے لیے دن رات جدوجہد کرتا ہے۔
مہنگائی کے اس جن کو قابو میں کرنے اور سامان کو بار بار ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے جھنجھٹ سے بچنے کے لیے دنیا بھر میں فرنیچر اور دیگر گھریلو اشیاکو خریدنے کے بجائے کرائے پر لینے کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ وہ لوگ جو لاکھوں کا فرنیچر اور دیگر گھریلو اشیا نہیں خرید سکتے تو وہ ان چیزوں کو کرائے پر لے لیتے ہیں۔ ویسے تو چیزیں کرائے پر لینے کا رجحان پوری دنیا میں موجود ہے تاہم پاکستان میں ابھی زیاہ تر لوگ اس سے واقف نہیں ہیں لیکن بھارت میں نوجوانوں میں الیکٹرانک آئٹم سے لے کر فرنیچر اور گھر کی دیگر اشیا کو کرائے پر لے کر استعمال کرنا اب معمول بنتا جارہا ہے اور لوگ مہنگے فرنیچر اور دیگر سامان کو خریدنے کے بجائے کرائے پر لینازیادہ مناسب سمجھ رہے ہیں۔ اس طرح نہ صرف پیسوں کی بچت ہوجاتی ہے بلکہ نوجوان خود کو آزاد بھی محسوس کرتے ہیں۔
بھارتی شہر ممبئی کے 29 سالہ سپندن شرما Spandan Sharma کے پاس نہ تو اپنا فلیٹ ہے نہ کار، یہاں تک کہ ان کے پاس اووَن یا ذاتی کرسی تک نہیں ہے، بلکہ انہوں نے گھر میں استعمال ہونے والا تقریباً تمام سامان کرائے پر حاصل کیا ہے۔ سپندن شرما کا شمار بھارت کے ان نوجوانوں میں ہوتا ہے جو مہنگا فرنیچر اور لاکھوں کا سامان خریدنے کے بجائے اشیائے ضرورت کی چیزوں کو کرائے پر لینے کو ترجیح دیتے ہیں جن میں گھر کے فرنیچر سے لے کر آئی فون تک شامل ہے۔ سپندن کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ میری عمر کے نوجوان ہر چیز سے آزادی چاہتے ہیں پہلے اشیائے ضروریہ کو مہنگے داموں خرید کر گھر کی سجاوٹ کرنے کو ایک مستحکم زندگی کی علامت جاتا تھا لیکن اب ان چیزوں کو پابندی سمجھا جاتا ہے۔ نوجوان سمجھتے ہیں کہ اگر وہ فرنیچر اور دیگر اشیائے ضروریہ خرید کر گھر میں رکھیں گے تو نہ صرف لاکھوں روپے ضائع ہوجائیں گے بلکہ ملازمت یا کسی اور وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کی صورت میں بھی بے حد پریشانی اٹھانی پڑے گی جب کہ کرائے پر سامان لینے کا مطلب ہے کہ نہایت سستے داموں میں گھر کی سجاوٹ بھی ہو جائے گی اور جب سامان کی ضرورت نہ ہو تو بہ آسانی واپس کیا جاسکتا ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے میں کسی پریشانی کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔
سپندن شرما نے صرف 4 ہزار 247 روپے ماہانہ میں بیڈروم، لیونگ روم اور ڈائننگ روم سے لے کر گھر کی ضرورت کا ہر سامان کرائے پر لے رکھا ہے جس میں ریفریجریٹر اور مائیکرو ویو اوون تک شامل ہے۔ تاہم سپندن کے والدین کو گھر کا سامان کرائے پر لینے کا تصور کبھی سمجھ نہیں آیا۔ سپندن کا کہنا ہے کہ میرے والدین پرانے خیالات کے ہیں اور وہ آج تک گھر کے سازو سامان کو کرائے پر لینے کے تصور کو قبول نہیں کرسکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فرنیچر کرائے پر لینے سے کے مقابلے میںخریدنا زیادہ بہتر ہے۔ سپندن کے والد جب ان کی عمر کے تھے تو ایک پبلک سیکٹر بینک میں نوکری کرنے کے ساتھ شادی شدہ بھی ہوچکے تھے اور اس دوران اپنا فلیٹ اور کار خریدنے کے لیے اپنی تنخواہ میں سے بچت کرتے تھے لیکن سپندن کا جینے کا طریقہ ان کے والد سے الگ ہے وہ رقم بچانے کے بجائے سرمایہ کاری پر یقین رکھتے ہیں۔
سپندن اکیلے ایسے نوجوان نہیں ہیں جنہوں نے گھر کا سامان اور اشیائے ضروریہ کرائے پر لے رکھی ہیں بلکہ بھارت میں ہزاروں نوجوان ایسے ہیں جو خریدنے کے بجائے کرائے پر سامان لینے کی طرف منتقل ہورہے ہیں تاکہ اپنی زندگی آزادی کے ساتھ گزار سکیں۔
کرائے پر سامان لینے کا رجحان صرف گھروں تک محدود نہیں ہے بلکہ دفاتر میں بھی لوگ اب کرائے کا سامان استعمال کررہے ہیں۔ بھارت کی ہی ایک25 سالہ کاروباری خاتون وندیتا مورارکا نے تین سال قبل جب اپنا آفس کھولا تو انہوں نے آفس میں استعمال ہونے والی تقریباً ہر چیز کرائے پر لی، جس میں میز، کرسی، اوون اور لیپ ٹاپ وغیرہ شامل ہیں۔ وندیتا کا کہنا ہے کہ آفس کھولتے وقت انہیں یہ سارا سامان خریدنے کے بجائے کرائے پر سستے داموں لینا زیادہ بہتر لگا، جب کہ اس نظام نے انہیں کاروبار میں مزید خطرات مول لینے کا حوصلہ بھی دیا اور اگر حالات خراب ہوتے ہیں تو ہم بغیر کوئی بڑا نقصان برداشت کیے کہیں اور سے بہ آسانی شروعات کرسکتے ہیں۔
فرنیچر اور دیگر اشیا کو کرائے پر دینے والی ایک کمپنی کے مطابق 2025 تک اس کاروبار کی سالانہ آمدنی 335 بلین ڈالرز (335 ارب ڈالر) تک ہوجائے گی۔ بھارت میں حالیہ برسوں میں فرنیچر، گھریلو استعمال کی اشیا اور زیورات وغیرہ کو کرائے پر دینے کی ایپس میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ حالانکہ یہ کاروبار ابھی سست روی کا شکار ہے لیکن اس کا مستقبل روشن ہے۔ کنسلٹنگ فرم ریسرچ نیسٹر کے مطابق بھارت میں2025 تک صرف فرنیچر کرائے پر دینے کا کاروبار1.89 بلین ڈالرہوجائے گا۔
صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اشیا کرائے پر لینے کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے اور کرائے پر اشیا لینے کی مارکیٹ ویلیو میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ امریکا سمیت دنیا بھر میں مختلف آن لائن ویب سائٹس جیسے فرنیش Fernish ، فیدر Feather ، ایورسیٹ Everset ، رینٹ دی رن وے ، ہاورڈیش Haverdash اور لی ٹو Le Tote وغیرہ صارفین کو لباس، فرنیچر اور دیگر اشیا خریدنے کے بجائے کرائے پر لینے کا آپشن دیتی ہیں، جب کہ چین میں تو لوگ اپنے اسمارٹ فون کے ذریعے بی ایم ڈبلیو کار تک کرائے پر لے سکتے ہیں۔
ریٹیل تجزیاتی کمپنی گلوبل
ڈیٹا کے مطابق 2018 میں امریکا میں صارفین کی جانب سے لیے جانے والے سامان کے کرایوں سے تقریباً 60 بلین ڈالر کی آمدنی ہوئی تاہم اس آمدنی میں گھر اور گاڑیوں کے کرائے سے ہونے والی آمدنی شامل نہیں ہے۔ ایک امریکی کمرشل ریئل اسٹیٹ کمپنی Jones Lang LaSalle Incorporated ((JLLکے 2019 میں کیے جانے والے سروے کی رپورٹ کے مطابق اگر مصنوعات بہترین طریقے سے تیار کردہ اور جدید ہوں تو 57.3فی صد صارفین انہیں خریدنے کے بجائے کرائے پر لینے پر راضی ہوجاتے ہیں۔ اور اگر بات کی جائے نوجوانوں کی تو یہ شرح 70 فی صد ہوجاتی ہے۔ فرنیچر کو کرائے پر دینے والی ایک اور امریکی کمپنی فرنیش Fernish کے سی ای او اور شریک بانی مائیکل بارلو Michael Barlow کے مطابق مستقبل میں فرنیچر اور دیگر اشیا کرائے پر لینے کا رجحان مزید بڑھے گا۔ نوجوان نسل ملازمت کی وجہ سے مختلف جگہوں پر منتقل ہونے کے باعث گھریلو سامان خریدنے، اسے اِدھر سے اْدھر منتقل کرنے، بیچنے اور سامان کو محفوظ کرنے کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتی۔
امریکی ریٹیل ڈائریکٹر آف ریسرچ جے ایل ایل جیمز کوکJames Cook, Americas Retail Director of Research for JLL کا کہنا ہے کہ کرائے پر سامان لینا انہیں خریدے بغیر نئی چیزوں کوآزمانے کا ایک بہترین طریقہ ہے یہ بالکل ایسا ہے جیسے آپ نے ایک رات کے لیے کوئی فلم کرائے پر لی ہو۔ ایسا نہیں کہ اس سامان کے ساتھ آپ کو پوری زندگی گزارنی ہو۔جب آپ چیزیں خریدنے کے بجائے انہیں کرائے پر لیتے ہیں تو آپ چیزوں کا زیادہ تجربہ کرتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں چیزیں کرائے پر لینے کا رجحان بالکل بھی نہیں ہے یہاں بھی لوگ چیزیں کرائے پر لیتے ہیں لیکن ابھی اس رجحان نے پاکستان میں اتنی مقبولیت حاصل نہیں کی۔ تاہم جیسے جیسے مہنگائی بڑھتی جارہی ہے لوگ چیزیں خریدنے کے بجائے کرائے پر لینے کی طرف منتقل ہورہے ہیں۔ مثلاً شادی بیاہ کے موقعوں پر پہنے جانے والے مہنگے لباس ملک میں بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے ہر کسی کی پہنچ میں نہیں رہے، لہٰذا سفید پوش طبقہ ان لباسوں کو کرائے پر حاصل کرلیتا ہے ۔ اس طرح ان پر صرف کی جانے والی بڑی رقم کی بچت ہوجاتی ہے۔ لباس کرائے پر لینے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ لباس صرف شادی بیاہ کے موقعوں پر ہی پہنے جاتے ہیں اور پھر انہیں الماریوں میں بند کرکے رکھ دیاجاتا ہے یاپھر کسی خاص موقع پر دوبارہ نکالا جاتا ہے لیکن اکثر یہ خاص مواقع برسوں بعد آتے ہیں لہذٰا یہ مہنگے لباس الماریوں میں پڑے پڑے بے کار ہوجاتے ہیں۔
اس طرح ان لباسوں کی خریداری پر صرف کیے گئے تمام پیسے ضائع ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا اگر لباس کرائے پر لیے جائیں تو نہ صرف پیسوں کی بچت ہوتی ہے بلکہ انہیں سنبھال کر بھی نہیں رکھنا پڑتا جو آج کل کی نوجوان نسل کے لیے کافی مشکل کام ہے۔ اس کے علاوہ شادی بیاہ پر گھروالوں کی طرف سے دلہنوں کو سونے کے زیورات تحفے کے طور پر دینے کی روایت بھی ہمارے معاشرے میں کافی عام ہے لیکن سونے کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے اب اتنے مہنگے تحفے دینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں رہی لہذٰا لوگ شادی کی تقریبات کے لیے سنار سے سونے کے زیورات کرائے پر لے لیتے ہیں اور شادی ختم ہونے کے بعد انہیں واپس کردیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے ایک بہت بڑی رقم کی بچت ہوجاتی ہے۔
ملک میں روز بروز بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے یہ کہنا مشکل نہیں کہ مستقبل میں پاکستان میں بھی بھارت اور دیگر ممالک کی طرح روزمرہ استعمال ہونے والی اشیائے ضرورت کو مہنگے داموں خریدنے کے بجائے کرائے پر لینے کا رجحان بڑھے گااور لوگ چیزیں خریدنے کے بجائے کرائے پر لینے کی طرف منتقل ہوجائیں گے۔
گھر میں مہنگا فرنیچر اور ہاتھ میں مہنگا موبائل شان و شوکت کی علامت سمجھاجاتا ہے۔ موجودہ دور میں ان چیزوں کے بغیر گزارا بھی ممکن نہیں۔ ہمارے معاشرے کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں دکھاواے اور جھوٹی شان و شوکت کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اگر گھر میں عالی شان فرنیچر اور ہاتھ میں مہنگا فون نہ ہو تو لوگ حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لہذا اپنی جھوٹی شان برقرار رکھنے کے لیے سفید پوش طبقہ ان چیزوں کے حصول کے لیے دن رات جدوجہد کرتا ہے۔
مہنگائی کے اس جن کو قابو میں کرنے اور سامان کو بار بار ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے جھنجھٹ سے بچنے کے لیے دنیا بھر میں فرنیچر اور دیگر گھریلو اشیاکو خریدنے کے بجائے کرائے پر لینے کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ وہ لوگ جو لاکھوں کا فرنیچر اور دیگر گھریلو اشیا نہیں خرید سکتے تو وہ ان چیزوں کو کرائے پر لے لیتے ہیں۔ ویسے تو چیزیں کرائے پر لینے کا رجحان پوری دنیا میں موجود ہے تاہم پاکستان میں ابھی زیاہ تر لوگ اس سے واقف نہیں ہیں لیکن بھارت میں نوجوانوں میں الیکٹرانک آئٹم سے لے کر فرنیچر اور گھر کی دیگر اشیا کو کرائے پر لے کر استعمال کرنا اب معمول بنتا جارہا ہے اور لوگ مہنگے فرنیچر اور دیگر سامان کو خریدنے کے بجائے کرائے پر لینازیادہ مناسب سمجھ رہے ہیں۔ اس طرح نہ صرف پیسوں کی بچت ہوجاتی ہے بلکہ نوجوان خود کو آزاد بھی محسوس کرتے ہیں۔
بھارتی شہر ممبئی کے 29 سالہ سپندن شرما Spandan Sharma کے پاس نہ تو اپنا فلیٹ ہے نہ کار، یہاں تک کہ ان کے پاس اووَن یا ذاتی کرسی تک نہیں ہے، بلکہ انہوں نے گھر میں استعمال ہونے والا تقریباً تمام سامان کرائے پر حاصل کیا ہے۔ سپندن شرما کا شمار بھارت کے ان نوجوانوں میں ہوتا ہے جو مہنگا فرنیچر اور لاکھوں کا سامان خریدنے کے بجائے اشیائے ضرورت کی چیزوں کو کرائے پر لینے کو ترجیح دیتے ہیں جن میں گھر کے فرنیچر سے لے کر آئی فون تک شامل ہے۔ سپندن کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ میری عمر کے نوجوان ہر چیز سے آزادی چاہتے ہیں پہلے اشیائے ضروریہ کو مہنگے داموں خرید کر گھر کی سجاوٹ کرنے کو ایک مستحکم زندگی کی علامت جاتا تھا لیکن اب ان چیزوں کو پابندی سمجھا جاتا ہے۔ نوجوان سمجھتے ہیں کہ اگر وہ فرنیچر اور دیگر اشیائے ضروریہ خرید کر گھر میں رکھیں گے تو نہ صرف لاکھوں روپے ضائع ہوجائیں گے بلکہ ملازمت یا کسی اور وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کی صورت میں بھی بے حد پریشانی اٹھانی پڑے گی جب کہ کرائے پر سامان لینے کا مطلب ہے کہ نہایت سستے داموں میں گھر کی سجاوٹ بھی ہو جائے گی اور جب سامان کی ضرورت نہ ہو تو بہ آسانی واپس کیا جاسکتا ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے میں کسی پریشانی کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔
سپندن شرما نے صرف 4 ہزار 247 روپے ماہانہ میں بیڈروم، لیونگ روم اور ڈائننگ روم سے لے کر گھر کی ضرورت کا ہر سامان کرائے پر لے رکھا ہے جس میں ریفریجریٹر اور مائیکرو ویو اوون تک شامل ہے۔ تاہم سپندن کے والدین کو گھر کا سامان کرائے پر لینے کا تصور کبھی سمجھ نہیں آیا۔ سپندن کا کہنا ہے کہ میرے والدین پرانے خیالات کے ہیں اور وہ آج تک گھر کے سازو سامان کو کرائے پر لینے کے تصور کو قبول نہیں کرسکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فرنیچر کرائے پر لینے سے کے مقابلے میںخریدنا زیادہ بہتر ہے۔ سپندن کے والد جب ان کی عمر کے تھے تو ایک پبلک سیکٹر بینک میں نوکری کرنے کے ساتھ شادی شدہ بھی ہوچکے تھے اور اس دوران اپنا فلیٹ اور کار خریدنے کے لیے اپنی تنخواہ میں سے بچت کرتے تھے لیکن سپندن کا جینے کا طریقہ ان کے والد سے الگ ہے وہ رقم بچانے کے بجائے سرمایہ کاری پر یقین رکھتے ہیں۔
سپندن اکیلے ایسے نوجوان نہیں ہیں جنہوں نے گھر کا سامان اور اشیائے ضروریہ کرائے پر لے رکھی ہیں بلکہ بھارت میں ہزاروں نوجوان ایسے ہیں جو خریدنے کے بجائے کرائے پر سامان لینے کی طرف منتقل ہورہے ہیں تاکہ اپنی زندگی آزادی کے ساتھ گزار سکیں۔
کرائے پر سامان لینے کا رجحان صرف گھروں تک محدود نہیں ہے بلکہ دفاتر میں بھی لوگ اب کرائے کا سامان استعمال کررہے ہیں۔ بھارت کی ہی ایک25 سالہ کاروباری خاتون وندیتا مورارکا نے تین سال قبل جب اپنا آفس کھولا تو انہوں نے آفس میں استعمال ہونے والی تقریباً ہر چیز کرائے پر لی، جس میں میز، کرسی، اوون اور لیپ ٹاپ وغیرہ شامل ہیں۔ وندیتا کا کہنا ہے کہ آفس کھولتے وقت انہیں یہ سارا سامان خریدنے کے بجائے کرائے پر سستے داموں لینا زیادہ بہتر لگا، جب کہ اس نظام نے انہیں کاروبار میں مزید خطرات مول لینے کا حوصلہ بھی دیا اور اگر حالات خراب ہوتے ہیں تو ہم بغیر کوئی بڑا نقصان برداشت کیے کہیں اور سے بہ آسانی شروعات کرسکتے ہیں۔
فرنیچر اور دیگر اشیا کو کرائے پر دینے والی ایک کمپنی کے مطابق 2025 تک اس کاروبار کی سالانہ آمدنی 335 بلین ڈالرز (335 ارب ڈالر) تک ہوجائے گی۔ بھارت میں حالیہ برسوں میں فرنیچر، گھریلو استعمال کی اشیا اور زیورات وغیرہ کو کرائے پر دینے کی ایپس میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ حالانکہ یہ کاروبار ابھی سست روی کا شکار ہے لیکن اس کا مستقبل روشن ہے۔ کنسلٹنگ فرم ریسرچ نیسٹر کے مطابق بھارت میں2025 تک صرف فرنیچر کرائے پر دینے کا کاروبار1.89 بلین ڈالرہوجائے گا۔
صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اشیا کرائے پر لینے کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے اور کرائے پر اشیا لینے کی مارکیٹ ویلیو میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ امریکا سمیت دنیا بھر میں مختلف آن لائن ویب سائٹس جیسے فرنیش Fernish ، فیدر Feather ، ایورسیٹ Everset ، رینٹ دی رن وے ، ہاورڈیش Haverdash اور لی ٹو Le Tote وغیرہ صارفین کو لباس، فرنیچر اور دیگر اشیا خریدنے کے بجائے کرائے پر لینے کا آپشن دیتی ہیں، جب کہ چین میں تو لوگ اپنے اسمارٹ فون کے ذریعے بی ایم ڈبلیو کار تک کرائے پر لے سکتے ہیں۔
ریٹیل تجزیاتی کمپنی گلوبل
ڈیٹا کے مطابق 2018 میں امریکا میں صارفین کی جانب سے لیے جانے والے سامان کے کرایوں سے تقریباً 60 بلین ڈالر کی آمدنی ہوئی تاہم اس آمدنی میں گھر اور گاڑیوں کے کرائے سے ہونے والی آمدنی شامل نہیں ہے۔ ایک امریکی کمرشل ریئل اسٹیٹ کمپنی Jones Lang LaSalle Incorporated ((JLLکے 2019 میں کیے جانے والے سروے کی رپورٹ کے مطابق اگر مصنوعات بہترین طریقے سے تیار کردہ اور جدید ہوں تو 57.3فی صد صارفین انہیں خریدنے کے بجائے کرائے پر لینے پر راضی ہوجاتے ہیں۔ اور اگر بات کی جائے نوجوانوں کی تو یہ شرح 70 فی صد ہوجاتی ہے۔ فرنیچر کو کرائے پر دینے والی ایک اور امریکی کمپنی فرنیش Fernish کے سی ای او اور شریک بانی مائیکل بارلو Michael Barlow کے مطابق مستقبل میں فرنیچر اور دیگر اشیا کرائے پر لینے کا رجحان مزید بڑھے گا۔ نوجوان نسل ملازمت کی وجہ سے مختلف جگہوں پر منتقل ہونے کے باعث گھریلو سامان خریدنے، اسے اِدھر سے اْدھر منتقل کرنے، بیچنے اور سامان کو محفوظ کرنے کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتی۔
امریکی ریٹیل ڈائریکٹر آف ریسرچ جے ایل ایل جیمز کوکJames Cook, Americas Retail Director of Research for JLL کا کہنا ہے کہ کرائے پر سامان لینا انہیں خریدے بغیر نئی چیزوں کوآزمانے کا ایک بہترین طریقہ ہے یہ بالکل ایسا ہے جیسے آپ نے ایک رات کے لیے کوئی فلم کرائے پر لی ہو۔ ایسا نہیں کہ اس سامان کے ساتھ آپ کو پوری زندگی گزارنی ہو۔جب آپ چیزیں خریدنے کے بجائے انہیں کرائے پر لیتے ہیں تو آپ چیزوں کا زیادہ تجربہ کرتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں چیزیں کرائے پر لینے کا رجحان بالکل بھی نہیں ہے یہاں بھی لوگ چیزیں کرائے پر لیتے ہیں لیکن ابھی اس رجحان نے پاکستان میں اتنی مقبولیت حاصل نہیں کی۔ تاہم جیسے جیسے مہنگائی بڑھتی جارہی ہے لوگ چیزیں خریدنے کے بجائے کرائے پر لینے کی طرف منتقل ہورہے ہیں۔ مثلاً شادی بیاہ کے موقعوں پر پہنے جانے والے مہنگے لباس ملک میں بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے ہر کسی کی پہنچ میں نہیں رہے، لہٰذا سفید پوش طبقہ ان لباسوں کو کرائے پر حاصل کرلیتا ہے ۔ اس طرح ان پر صرف کی جانے والی بڑی رقم کی بچت ہوجاتی ہے۔ لباس کرائے پر لینے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ لباس صرف شادی بیاہ کے موقعوں پر ہی پہنے جاتے ہیں اور پھر انہیں الماریوں میں بند کرکے رکھ دیاجاتا ہے یاپھر کسی خاص موقع پر دوبارہ نکالا جاتا ہے لیکن اکثر یہ خاص مواقع برسوں بعد آتے ہیں لہذٰا یہ مہنگے لباس الماریوں میں پڑے پڑے بے کار ہوجاتے ہیں۔
اس طرح ان لباسوں کی خریداری پر صرف کیے گئے تمام پیسے ضائع ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا اگر لباس کرائے پر لیے جائیں تو نہ صرف پیسوں کی بچت ہوتی ہے بلکہ انہیں سنبھال کر بھی نہیں رکھنا پڑتا جو آج کل کی نوجوان نسل کے لیے کافی مشکل کام ہے۔ اس کے علاوہ شادی بیاہ پر گھروالوں کی طرف سے دلہنوں کو سونے کے زیورات تحفے کے طور پر دینے کی روایت بھی ہمارے معاشرے میں کافی عام ہے لیکن سونے کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے اب اتنے مہنگے تحفے دینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں رہی لہذٰا لوگ شادی کی تقریبات کے لیے سنار سے سونے کے زیورات کرائے پر لے لیتے ہیں اور شادی ختم ہونے کے بعد انہیں واپس کردیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے ایک بہت بڑی رقم کی بچت ہوجاتی ہے۔
ملک میں روز بروز بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے یہ کہنا مشکل نہیں کہ مستقبل میں پاکستان میں بھی بھارت اور دیگر ممالک کی طرح روزمرہ استعمال ہونے والی اشیائے ضرورت کو مہنگے داموں خریدنے کے بجائے کرائے پر لینے کا رجحان بڑھے گااور لوگ چیزیں خریدنے کے بجائے کرائے پر لینے کی طرف منتقل ہوجائیں گے۔