عوام اور تاجر ریلیف کے منتظر
کورونا وائرس کی وباء کے باعث دہاڑی دار اور مزدور پیشہ افرادکی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
کورونا وائرس کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈراس نے خبردارکیا ہے کہ یہ وائرس ایک طویل عرصے تک ہمارے ساتھ رہے گا۔ یہ بات اس سچائی اورحقیقت کی آئینہ دار ہے کہ وائرس کی وباء کے خلاف جنگ انتہائی کٹھن اور صبرآزما ہے، ہرگزرتے دن کے ساتھ جو منظرنامہ تشکیل پا رہا ہے، وہ انسانیت کے حوالے سے انتہائی درد ناک ہے،کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں دولاکھ سے زائد افراد اس وائرس کے باعث لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
پوری دنیا، وسائل اورجدید ترین سائنس کی موجودگی میں وائرس کے سامنے بے بس کیوں ہے۔اس لیے کہ جنگی جنون پر روزانہ ہزارہا، لاکھوں ڈالرخرچ کرنیوالے ممالک نے انسان کی فلاح کے بارے میںکبھی نہیں سوچا، شعبہ صحت سے یکسر صرف نظر اور بے اعتنائی کا ماحصل آج عالمی وبا پر قابو پانے میں مجموعی طور پر ناکامی اور بے بسی کی صورت میں سب کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
جدید ترین ٹیکنالوجی اور ترقی کے دعویدار ممالک کے پاس وینٹی لیٹرزتک نہیں ، یہاں تک کہ ویکسین بھی چھ ماہ سے قبل تیارہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا، جوکرتا دھرتا بنے پھرتے ہیں اس دنیاکے،انھیں انسانوں کی بقا، سلامتی اور ان کی صحت کے حوالے سے ایک نئے ورلڈ آرڈرکی ضرورت ہے، جس میں تہذیبوں سے تصادم کا راستہ چھوڑ کر وباؤں سے تصادم اور انسان کی صحت کو اولیت دی جائے، اس وباء نے عالمی انسانیت کے لیے ایک نئے منشور تشکیل دینے کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ایک ایسی طرزفکر اپنانے کی ضرورت ہے کہ جس میں اسلحہ سازی کے بجائے ادویات سازی اور انسانی فلاح و بہبود پر توجہ دی جائے۔
پاکستان میں بھی وائرس کے باعث دوسوسترہ افراد جاں بحق جب کہ متاثرمریضوں کی تعداد تیرہ ہزارکے قریب پہنچ چکی ہے۔ ہرآنیوالا دن وائرس کے حوالے سے ہولناکی اور خوف کی فضا کو پروان چڑھا رہا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ اب یہ قومی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ کیسے ان مسائل پر قابو پاتی ہے۔ ایک جانب تو کورونا وائرس کی تباہ کاریاں ہیں جو تھمنے کا نام نہیں لے رہیں اور دوسری جانب ملکی معیشت ہے جو شاخ نازک پرآشیانہ بنانے والی صورتحال اور خدشات سے دوچارہے۔
دوسری جانب ترجمان دفترخارجہ کے مطابق اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے ساتھ مشاورت کے بعد پاکستان قرضوں سے نجات میں دلچسپی رکھنے والے ممالک کا ایک گروپ تشکیل دے گا، جو قرضوں کے چیلنج کا جامع حل تلاش کرنے کے لیے مشاورت اور عملی اقدامات بھی کرے گا۔ اس بات کا کریڈٹ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو جاتا ہے، انھوں نے سب سے پہلے اس مسئلے کو اقوام عالم کے سامنے اٹھایا تھا، جس کو اقوام متحدہ نے سراہتے ہوئے خوش آمدید کہا۔
ایک بہت بڑاچیلنج ملکی معیشت کو تباہی سے بچانا بھی ہے، اسی تناظرمیں وزیراعظم عمران کی جانب سے قومی معیشت کے استحکام کے لیے قائم تھنک ٹینک کا اجلاس ہوا ، جس میں زرعی امور و بینکنگ ، سماجی تحفظ پروگرام ، چھوٹے اوردرمیانہ درجہ کا کاروبار، اشیاء کی قیمتیں، صحت عامہ کے چیلنجز اورنجی شعبہ وغیرسرکاری تنظیموں کے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے کورونا وائرس کے ملکی معیشت پر منفی اثرات کوکم کرنے کے لیے اقدامات پر غور کیا گیا، فورم کے شرکاء نے بڑے کاروبار اور برآمد کنندگان کے لیے بیل آؤٹ پیکیج کی ضرورت اور اہمیت کے علاوہ صارف اشیاء پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے کم کرکے پانچ فیصدکرنے کے امکانات پر طویل گفتگو کی۔
اس اجلاس کا انعقاد اور ماہرین معیشت کی اس میں شرکت اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ شرح سود میں مزیدکمی اوراس کے ساتھ ساتھ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کومنتقل کرنے کی اہمیت سے حکومت آگاہ ہے اور وہ عوام کو ہرممکن سطح پر ریلیف فراہم کرنا چاہتی ہے ۔ اسی طرح جی 20 کے تحت پاکستان کو1.8 ارب ڈالر تک کے قرضوں کی موخر ادائیگی میں ریلیف کا امکان ملکی معیشت کے لیے بہتری کے ساتھ کامیابی کے در بھی وا کرے گا۔
وزیر مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل نے کہا کہ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی عزت کرتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے دو مہینے کی اضافی تنخواہ ان کی خدمت کے اعتراف میں دی ہے، مساجد میں احتیاطی قوانین لاگو ہیں، عمل نہ کرنے کی صورت میں صوبائی حکومتیں بااختیار ہیں جو بھی قدم اٹھائیں۔ بلاشبہ کورونا وائرس کے خلاف طبی جہاد میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ قوم ان کے اس کردار کو قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
ہماری تاجر برادری لاک ڈاؤن کے باعث مسائل کا شکار ہے اسی حوالے سے آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر نے لاک ڈاؤن میں کچھ کاروبار کھولنے اور کچھ کو بند رکھنے کی حکومتی پالیسی کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ چھوٹا تاجر اپنی جمع پونجی خرچ کرچکا ہے اور اس میں دوبارہ کاروبار شروع کرنے کی بھی سکت نہیں رہی، جب کہ فیصل آباد میں ٹیکسٹائل کی تاجر تنظیموں کے نمایندوں نے بھی دہرے معیارکی پالیسی کو رد کرتے ہوئے جزوی طور پر کاروبارکرنے کی اجازت کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب کراچی تاجر اتحاد کے سربراہ نے آن لائن کاروبارکے طریقہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس سہولت سے صرف پانچ فیصد تاجر ہی فائدہ اٹھاسکیںگے۔ یہ واضح حقیقت ہے کہ جب تک حکومت تاجر اور صنعت کاروں کو کاروبار کھولنے کی اجازت نہیں دے گی، اس وقت تک معیشت کی بحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ سندھ حکومت کے ترجمان نے کہا کہ صنعتیں اور تجارتی مراکزکھولنے سے متعلق رشوت طلبی کے الزامات بے بنیاد ہیں،ان کی بات درست سہی لیکن سوال یہ ہے کہ آخر سندھ حکومت کو،کون سی ایسی صورتحال درپیش ہے کہ وہ تاجراورصنعتکار برادری کے مسائل اور تحفظات کو تاحال حل نہیں کرسکی ۔
یوٹیلیٹی اسٹورزکے ملازمین کی جانب سے ہڑتال ختم کرنے کا مژدہ جانفزا سنتے ہی اسٹورز پر خریداروں کا رش بڑھ گیا اور لوگوں کو طویل قطاریں بناکر سامان خریدنا پڑا۔ اسٹورز میںکورونا سے بچاؤکے لیے ماسک پہننا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ وزارت توانائی پٹرولیم ڈویژن نے پاکستان میں خام تیل اور پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر عائد پابندی ہٹا دی ہے، نئے فیصلے کے مطابق اب مارکیٹنگ کمپنیاں پٹرول، ڈیزل اور ریفائنریز خام تیل امپورٹ کرسکیں گی، وزارت توانائی نے 25 مارچ کو پٹرولیم مصنوعات اور خام تیل کی درآمد پر پابندی عائد کردی تھی اور مارکیٹنگ کمپنیوں سمیت ریفائنریزکو اپنے اپریل کے سودے منسوخ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
ملک بھر میں گندم کی کٹائی اور ترسیل کی وجہ سے ایندھن کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے ، اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ فیصلہ انتہائی بروقت ہے۔ ماہرین نے حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور طلب کے لحاظ سے امپورٹ بحال ہونے سے عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کا اثر عوام کو منتقل کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ ہم امیدکرتے ہیں کہ یکم مئی تک پیٹرولیم مصنوعات میں واضح کمی کا اعلان کرکے حکومت عوام کو بھرپور ریلیف فراہم کرے گی۔
راولپنڈی سے ہمارے نمایندے کی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن نے افطار دسترخوانوں کی نوعیت میں تبدیلی لاتے ہوئے روزے داروں کو بٹھانے کے بجائے ٹفن افطار تقسیم کرنا کا عمل شروع کردیا گیا ہے، ملک کے دیگر شہروں میں اس عمل کی پیروی کی جانی چاہیے، ماضی قریب میں تو افطار دستر خوان پر سیکڑوں روزے دار مختلف مقامات پر اکٹھے بیٹھ کر روزہ افطار کیا کرتے تھے لیکن اس بار رمضان کی وہ رونقیں دیکھنے میں نہیں آرہی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس سے ہونے والے مرض'' کوڈ19'' سے تندرست ہونے والے کسی مرد و زن کے بارے میں اس مرض سے مستقل محفوظ ہونے یا دوبارہ لاحق نہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ وہ خطرناک بات حقیقت ہے جس کے تحت ہمیں کورونا وائرس کے خلاف طویل جنگ کی تیاری کرنا پڑے گی ۔
رمضان تزکیہ نفس کا مہینہ ہے، رحمت اور برکت سے عبارت اس مہینے میں بھی منافع خور مافیاکو اللہ کا کوئی خوف نہیں ، یوں سمجھا جائے کہ مہنگائی کا کورونا بھی پھیل رہا ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی نظر آرہی ہے۔ منافع خوروں کے خلاف بھرپورکارروائی ہونی چاہیے۔ ماہ صیام انسانوں کو اپنے نفوس کی طہارت وپاکیزگی کا پیغام دیتا ہے۔اس ماہ میں عبادات کے ساتھ ساتھ نادار، مساکین اورضرورت مند افراد کی مشکلات دورکرکے افضل ترین ثواب کمایا جاسکتا ہے ۔
کورونا وائرس کی وباء کے باعث دہاڑی دار اور مزدور پیشہ افرادکی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، ان کے ذرایع آمدن نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں ہم سب پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنے قریبی رشتے داروں اور اہل محلہ میں ایسے افرادکا خصوصی خیال رکھا جائے تاکہ ہمیں اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل ہو۔ قومی سطح پر سیاسی لیڈروں کو جذباتی بیانات اورسیاسی اختلافات سے گریز کرتے ہوئے فہم وفراست اور عوامی مفادات پر مبنی حکمت عملی کا ثبوت دینا چاہیے، عام آدمی تک یہ پیغام جانا چاہیے کہ ہم ایک قوم ہیں اور انشاء اللہ ہم اس وبا کا متحد ہو کر مقابلہ کریں گے۔
پوری دنیا، وسائل اورجدید ترین سائنس کی موجودگی میں وائرس کے سامنے بے بس کیوں ہے۔اس لیے کہ جنگی جنون پر روزانہ ہزارہا، لاکھوں ڈالرخرچ کرنیوالے ممالک نے انسان کی فلاح کے بارے میںکبھی نہیں سوچا، شعبہ صحت سے یکسر صرف نظر اور بے اعتنائی کا ماحصل آج عالمی وبا پر قابو پانے میں مجموعی طور پر ناکامی اور بے بسی کی صورت میں سب کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
جدید ترین ٹیکنالوجی اور ترقی کے دعویدار ممالک کے پاس وینٹی لیٹرزتک نہیں ، یہاں تک کہ ویکسین بھی چھ ماہ سے قبل تیارہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا، جوکرتا دھرتا بنے پھرتے ہیں اس دنیاکے،انھیں انسانوں کی بقا، سلامتی اور ان کی صحت کے حوالے سے ایک نئے ورلڈ آرڈرکی ضرورت ہے، جس میں تہذیبوں سے تصادم کا راستہ چھوڑ کر وباؤں سے تصادم اور انسان کی صحت کو اولیت دی جائے، اس وباء نے عالمی انسانیت کے لیے ایک نئے منشور تشکیل دینے کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ایک ایسی طرزفکر اپنانے کی ضرورت ہے کہ جس میں اسلحہ سازی کے بجائے ادویات سازی اور انسانی فلاح و بہبود پر توجہ دی جائے۔
پاکستان میں بھی وائرس کے باعث دوسوسترہ افراد جاں بحق جب کہ متاثرمریضوں کی تعداد تیرہ ہزارکے قریب پہنچ چکی ہے۔ ہرآنیوالا دن وائرس کے حوالے سے ہولناکی اور خوف کی فضا کو پروان چڑھا رہا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ اب یہ قومی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ کیسے ان مسائل پر قابو پاتی ہے۔ ایک جانب تو کورونا وائرس کی تباہ کاریاں ہیں جو تھمنے کا نام نہیں لے رہیں اور دوسری جانب ملکی معیشت ہے جو شاخ نازک پرآشیانہ بنانے والی صورتحال اور خدشات سے دوچارہے۔
دوسری جانب ترجمان دفترخارجہ کے مطابق اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے ساتھ مشاورت کے بعد پاکستان قرضوں سے نجات میں دلچسپی رکھنے والے ممالک کا ایک گروپ تشکیل دے گا، جو قرضوں کے چیلنج کا جامع حل تلاش کرنے کے لیے مشاورت اور عملی اقدامات بھی کرے گا۔ اس بات کا کریڈٹ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو جاتا ہے، انھوں نے سب سے پہلے اس مسئلے کو اقوام عالم کے سامنے اٹھایا تھا، جس کو اقوام متحدہ نے سراہتے ہوئے خوش آمدید کہا۔
ایک بہت بڑاچیلنج ملکی معیشت کو تباہی سے بچانا بھی ہے، اسی تناظرمیں وزیراعظم عمران کی جانب سے قومی معیشت کے استحکام کے لیے قائم تھنک ٹینک کا اجلاس ہوا ، جس میں زرعی امور و بینکنگ ، سماجی تحفظ پروگرام ، چھوٹے اوردرمیانہ درجہ کا کاروبار، اشیاء کی قیمتیں، صحت عامہ کے چیلنجز اورنجی شعبہ وغیرسرکاری تنظیموں کے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے کورونا وائرس کے ملکی معیشت پر منفی اثرات کوکم کرنے کے لیے اقدامات پر غور کیا گیا، فورم کے شرکاء نے بڑے کاروبار اور برآمد کنندگان کے لیے بیل آؤٹ پیکیج کی ضرورت اور اہمیت کے علاوہ صارف اشیاء پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے کم کرکے پانچ فیصدکرنے کے امکانات پر طویل گفتگو کی۔
اس اجلاس کا انعقاد اور ماہرین معیشت کی اس میں شرکت اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ شرح سود میں مزیدکمی اوراس کے ساتھ ساتھ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کومنتقل کرنے کی اہمیت سے حکومت آگاہ ہے اور وہ عوام کو ہرممکن سطح پر ریلیف فراہم کرنا چاہتی ہے ۔ اسی طرح جی 20 کے تحت پاکستان کو1.8 ارب ڈالر تک کے قرضوں کی موخر ادائیگی میں ریلیف کا امکان ملکی معیشت کے لیے بہتری کے ساتھ کامیابی کے در بھی وا کرے گا۔
وزیر مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل نے کہا کہ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی عزت کرتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے دو مہینے کی اضافی تنخواہ ان کی خدمت کے اعتراف میں دی ہے، مساجد میں احتیاطی قوانین لاگو ہیں، عمل نہ کرنے کی صورت میں صوبائی حکومتیں بااختیار ہیں جو بھی قدم اٹھائیں۔ بلاشبہ کورونا وائرس کے خلاف طبی جہاد میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ قوم ان کے اس کردار کو قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
ہماری تاجر برادری لاک ڈاؤن کے باعث مسائل کا شکار ہے اسی حوالے سے آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر نے لاک ڈاؤن میں کچھ کاروبار کھولنے اور کچھ کو بند رکھنے کی حکومتی پالیسی کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ چھوٹا تاجر اپنی جمع پونجی خرچ کرچکا ہے اور اس میں دوبارہ کاروبار شروع کرنے کی بھی سکت نہیں رہی، جب کہ فیصل آباد میں ٹیکسٹائل کی تاجر تنظیموں کے نمایندوں نے بھی دہرے معیارکی پالیسی کو رد کرتے ہوئے جزوی طور پر کاروبارکرنے کی اجازت کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب کراچی تاجر اتحاد کے سربراہ نے آن لائن کاروبارکے طریقہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس سہولت سے صرف پانچ فیصد تاجر ہی فائدہ اٹھاسکیںگے۔ یہ واضح حقیقت ہے کہ جب تک حکومت تاجر اور صنعت کاروں کو کاروبار کھولنے کی اجازت نہیں دے گی، اس وقت تک معیشت کی بحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ سندھ حکومت کے ترجمان نے کہا کہ صنعتیں اور تجارتی مراکزکھولنے سے متعلق رشوت طلبی کے الزامات بے بنیاد ہیں،ان کی بات درست سہی لیکن سوال یہ ہے کہ آخر سندھ حکومت کو،کون سی ایسی صورتحال درپیش ہے کہ وہ تاجراورصنعتکار برادری کے مسائل اور تحفظات کو تاحال حل نہیں کرسکی ۔
یوٹیلیٹی اسٹورزکے ملازمین کی جانب سے ہڑتال ختم کرنے کا مژدہ جانفزا سنتے ہی اسٹورز پر خریداروں کا رش بڑھ گیا اور لوگوں کو طویل قطاریں بناکر سامان خریدنا پڑا۔ اسٹورز میںکورونا سے بچاؤکے لیے ماسک پہننا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ وزارت توانائی پٹرولیم ڈویژن نے پاکستان میں خام تیل اور پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر عائد پابندی ہٹا دی ہے، نئے فیصلے کے مطابق اب مارکیٹنگ کمپنیاں پٹرول، ڈیزل اور ریفائنریز خام تیل امپورٹ کرسکیں گی، وزارت توانائی نے 25 مارچ کو پٹرولیم مصنوعات اور خام تیل کی درآمد پر پابندی عائد کردی تھی اور مارکیٹنگ کمپنیوں سمیت ریفائنریزکو اپنے اپریل کے سودے منسوخ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
ملک بھر میں گندم کی کٹائی اور ترسیل کی وجہ سے ایندھن کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے ، اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ فیصلہ انتہائی بروقت ہے۔ ماہرین نے حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور طلب کے لحاظ سے امپورٹ بحال ہونے سے عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کا اثر عوام کو منتقل کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ ہم امیدکرتے ہیں کہ یکم مئی تک پیٹرولیم مصنوعات میں واضح کمی کا اعلان کرکے حکومت عوام کو بھرپور ریلیف فراہم کرے گی۔
راولپنڈی سے ہمارے نمایندے کی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن نے افطار دسترخوانوں کی نوعیت میں تبدیلی لاتے ہوئے روزے داروں کو بٹھانے کے بجائے ٹفن افطار تقسیم کرنا کا عمل شروع کردیا گیا ہے، ملک کے دیگر شہروں میں اس عمل کی پیروی کی جانی چاہیے، ماضی قریب میں تو افطار دستر خوان پر سیکڑوں روزے دار مختلف مقامات پر اکٹھے بیٹھ کر روزہ افطار کیا کرتے تھے لیکن اس بار رمضان کی وہ رونقیں دیکھنے میں نہیں آرہی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس سے ہونے والے مرض'' کوڈ19'' سے تندرست ہونے والے کسی مرد و زن کے بارے میں اس مرض سے مستقل محفوظ ہونے یا دوبارہ لاحق نہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ وہ خطرناک بات حقیقت ہے جس کے تحت ہمیں کورونا وائرس کے خلاف طویل جنگ کی تیاری کرنا پڑے گی ۔
رمضان تزکیہ نفس کا مہینہ ہے، رحمت اور برکت سے عبارت اس مہینے میں بھی منافع خور مافیاکو اللہ کا کوئی خوف نہیں ، یوں سمجھا جائے کہ مہنگائی کا کورونا بھی پھیل رہا ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی نظر آرہی ہے۔ منافع خوروں کے خلاف بھرپورکارروائی ہونی چاہیے۔ ماہ صیام انسانوں کو اپنے نفوس کی طہارت وپاکیزگی کا پیغام دیتا ہے۔اس ماہ میں عبادات کے ساتھ ساتھ نادار، مساکین اورضرورت مند افراد کی مشکلات دورکرکے افضل ترین ثواب کمایا جاسکتا ہے ۔
کورونا وائرس کی وباء کے باعث دہاڑی دار اور مزدور پیشہ افرادکی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، ان کے ذرایع آمدن نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں ہم سب پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنے قریبی رشتے داروں اور اہل محلہ میں ایسے افرادکا خصوصی خیال رکھا جائے تاکہ ہمیں اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل ہو۔ قومی سطح پر سیاسی لیڈروں کو جذباتی بیانات اورسیاسی اختلافات سے گریز کرتے ہوئے فہم وفراست اور عوامی مفادات پر مبنی حکمت عملی کا ثبوت دینا چاہیے، عام آدمی تک یہ پیغام جانا چاہیے کہ ہم ایک قوم ہیں اور انشاء اللہ ہم اس وبا کا متحد ہو کر مقابلہ کریں گے۔