لاک ڈاؤن سونے چاندی کے زیور بنانے والے کاریگر بیروزگار ہونے لگے
زیورات کے کارخانے 40 روز سے نہیں کھلے، سناروں کی دکانیں بندرہنے سے زیورات کی خرید و فروخت بند ہو گئی، سنار پریشان
KARACHI:
ملک بھر میں جاری لاک ڈاؤن کی وجہ یومیہ اجرت کمانے والے مزدوروں کی طرح سونے چاندی کے زیورات بنانے والے کاریگر بھی بے روزگاری کا شکار ہوگئے ہیں۔
زیورات تیار کرنے والے کارخانوں میں 40 روز سے تالے پڑے ہیں، سناروں کی دکانیں بند پڑی ہیں اور زیورات کی خرید و فروخت معطل ہے، ایسے افراد جو معاشی مشکلات کی وجہ سے سونے کے زیورات فروخت کر کے سرمائے کا بندوبست کرنا چاہتے ہیں سناروں کی دکانیں بند ہونے سے مشکلات کا شکار ہیں۔
کراچی میں کھارا در اور صدر کے صرافہ بازاروں سمیت لیاقت آباد، لانڈھی اور دیگر علاقائی صرافہ بازاروں سے سونے چاندی کے زیورات کی تیاری، خرید و فروخت، پالش، موتی نگینے فروخت کرنے والوں کا روزگار وابستہ ہے۔
ملک میں معاشی چیلنجز اور مہنگائی کی وجہ سے سونے کے زیورات کی تیاری اور فروخت کا کام پہلے ہی70 فیصد تک کم ہوچکا تھا تاہم کورونا کی وبا کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں سناروں کا کام مکمل طور پر بند ہوچکا ہے۔
سناروں کا کہنا ہے کہ مشکلات کا شکار شہری اپنے سونے کے زیورات فروخت کرکے سخت حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن صرافہ بازار بند ہونے کی وجہ سے سرمائے کی گردش رک چکی ہے اور خود سناروں کے پاس بھی ادائیگی کے لیے رقوم نہیں ہیں۔
ادھر صرافہ بازار کے بے روزگار کاریگروں کے لیے روزگار کے دیگر مواقع بھی بند پڑے ہیں سناروں کا کام ٹھپ ہونے کی وجہ سے بیشتر کاریگر رکشہ کرائے پر چلارہے تھے یا پھر ان ہی صرافہ بازاروں میں کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے پر مجبور تھے تاہم لاک ڈاؤن کی وجہ سے متبادل روزگار کے راستے بھی بند ہو چکے ہیں۔
صرافہ بازاروںکوبھی کاروبارکی اجازت دی جائے، اختر ٹیسوری
پاکستان جیمز جیولری ٹریڈرز ایسوسی ایشن نے سندھ حکومت اور شہری انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ شہر کے صرافہ بازاروں کو بھی ایس او پی کے مطابق کاروبار کی اجازت دی جائے تاکہ مشکلات کا شکار شہری جو اپنے زیورات فروخت کرکے سرمایہ حاصل کرنا چاہتے ہوں اپنے زیورات فروخت کرسکیں۔
ایسوسی ایشن کے چیئرمین اختر خان ٹیسوری نے بتایا کہ سونے کے زیورات کی تیاری اور فروخت کا کام مکمل طور پر بند ہے زیورات بیچنے والے رابطہ کررہے ہیں لیکن خریداری ممکن نہیں ہے انھوں نے کہا کہ صرافہ کا کام بند ہونے سے سناروں کے علاوہ وہ شہری بھی متاثر ہورہے ہیں جو اپنے اچھے دنوں کی بچت جو سونے کے زیورات میں محفوظ رکھی تھی فروخت کرکے سرمایہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جیولرز کی دکانوں میں عملہ بہت کم ہوتا ہے دکانوں میں صفائی کا خاص طور پر انتظام کیا جاتا ہے اسی طرح گاہک بھی اکا دکا آتے ہیں ہجوم کی شکل میں کاروبار نہیں ہوتا اس لیے جیولرز کی دکانوں سے کرونا پھیلنے کا کوئی امکان نہیں ہے،کورونا سے بچاؤ کے احتیاطی اقدامات کرتے ہوئے سونے کے زیورات کی خرید و فروخت کی جاسکتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان جیمز جیولری ٹریڈرز ایسوسی ایشن نے سندھ حکومت سے رابطہ کرکے صرافہ بازار کھولنے کی اجازت مانگی ہے اور جلد ایک نمائندہ وفد کمشنر کراچی سے بھی ملاقات کرے گا۔
لاک ڈاؤن میں سونے کی درآمد غیر معمولی طور پر کم ہو گئی
پاکستان میں لاک ڈاؤن اور سونے کے زیورات کی طلب نہ ہونے کی وجہ سے سونے کی درآمد بھی غیرمعمولی طور پر کم ہوگئی ہے۔ مارچ کے مہینے میں پاکستان میں صرف 5 کلو سونا درآمد کیا گیا۔
وفاقی ادارہ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق فروری کے مقابلے میں مارچ میں سونے کی درآمد 77 فیصد اور مارچ 2019 کے مقابلے میں 86 فیصد کم رہی، فروری 2020 میں 22 کلو گرام جبکہ مارچ 2019 میں 37کلو گرام سونا درآمد کیا گیا تھا۔
گولڈ جیولری ایکسپورٹرز کا کہنا ہے کہ یہ سونا بھی انٹرسٹمنٹ اسکیم کے تحت امپورٹ کیا جارہا ہے جو سناروں کی نہیں بلکہ سونے کے زیورات خریدنے والے غیرملکی خریداروں کی ملکیت ہوتا ہے اور پاکستانی سنا ر درآمدی سونے سے زیورات تیار کرکے ایکسپورٹ کردیتے ہیں۔
پاکستان میں سونے کے زیورات کی ایکسپورٹ کی پالیسی انتہائی ناقص ہونے کی وجہ سے سونے کے زیورات کی ایکسپورٹ بھی 98 فیصد تک کم ہوچکی ہے اور اب لاک ڈاؤن، فضائی سروس بند ہونے کی وجہ سے ایکسپورٹ بھی مکمل طور پر بند ہوچکی ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق مارچ 2020 میں پاکستان سے 3 کروڑ 20 لاکھ روپے مالیت کے زیورات ایکسپور ٹ کیے گئے، فروری 2020 میں 2 کروڑ 80 لاکھ روپے کے زیورات ایکسپور ٹ کیے گئے تھے مارچ 2019 میں محض ایک کروڑ روپے کے زیورات ایکسپورٹ کیے گئے تھے۔
پاکستان میں سونے کی طلب نہ ہونے سے دام دبئی کے مقابلے میں 5 ہزارروپے کم ہیں
پاکستان جیمز جیولری ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین اختر خان ٹیسوری کے مطابق پاکستان میں سونے کے زیورات کی طلب نہ ہونے کی وجہ سے سونے کے دام دبئی کے مقابلے میں 4 سے 5 ہزار روپے کم ہیں لیکن کوئی خریدار نہیں ہے، امریکا اور برطانیہ کی منڈیاں بند ہونے سے زیورات کی ایکسپورٹ بھی بند پڑی ہے۔
لاک ڈاؤن سے پریشان سنار بے یقینی کا شکارہوگئے
آل کراچی جیولرز اینڈ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے بھی صرافہ بازار کھولنے کا مطالبہ کیا ہے، ایسوسی ایشن کے صدر حسین قریشی کے مطابق لاک ڈاؤن کی وجہ سے مشکلات کا شکار سنار مشکلات اور کاروبار کے بارے میں بے یقینی شکار ہیں انھوں نے کہا کہ تاجر ازخور کاروبار کھولنے کی طرف جارہے ہیں کیونکہ دکانوں کے کرائے، ملازمین کی تنخواہیں اور یوٹلیٹی بلز جمع کرانے کے لیے سرمایہ نہیں ہے۔
بڑی صنعتوں اور ایکسپورٹرز کی طرح صرافوں کو بھی ریلیف پیکیج دیا جائے
حسین قریشی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بڑی صنعتوں اور ایکسپورٹرز کی طرح صرافہ کا کاروبار کرنے والوں کو بھی ریلیف پیکیج دیا جائے، جیولرز اور کارخانوں کے بجلی گیس کے بل معاف کیے جائیں۔
ایسوسی ایشن کے ایک وفد نے گورنر سندھ سے بھی ملاقا ت کی اور سناروں کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سنار لاک ڈاؤن یا حکومتی ہدایات کی خلاف ورزی کرکے کاروبار ہرگز نہیں کھولنا چاہتے اگر کاروبار کھولنا ممکن نہیں تو سناروں کو ریلیف پیکیج دیا جائے اور ایک سے 10 لاکھ روپے مالیت تک کے بلا سود قرضے فراہم کیے جائیں۔
ملک بھر میں جاری لاک ڈاؤن کی وجہ یومیہ اجرت کمانے والے مزدوروں کی طرح سونے چاندی کے زیورات بنانے والے کاریگر بھی بے روزگاری کا شکار ہوگئے ہیں۔
زیورات تیار کرنے والے کارخانوں میں 40 روز سے تالے پڑے ہیں، سناروں کی دکانیں بند پڑی ہیں اور زیورات کی خرید و فروخت معطل ہے، ایسے افراد جو معاشی مشکلات کی وجہ سے سونے کے زیورات فروخت کر کے سرمائے کا بندوبست کرنا چاہتے ہیں سناروں کی دکانیں بند ہونے سے مشکلات کا شکار ہیں۔
کراچی میں کھارا در اور صدر کے صرافہ بازاروں سمیت لیاقت آباد، لانڈھی اور دیگر علاقائی صرافہ بازاروں سے سونے چاندی کے زیورات کی تیاری، خرید و فروخت، پالش، موتی نگینے فروخت کرنے والوں کا روزگار وابستہ ہے۔
ملک میں معاشی چیلنجز اور مہنگائی کی وجہ سے سونے کے زیورات کی تیاری اور فروخت کا کام پہلے ہی70 فیصد تک کم ہوچکا تھا تاہم کورونا کی وبا کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں سناروں کا کام مکمل طور پر بند ہوچکا ہے۔
سناروں کا کہنا ہے کہ مشکلات کا شکار شہری اپنے سونے کے زیورات فروخت کرکے سخت حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن صرافہ بازار بند ہونے کی وجہ سے سرمائے کی گردش رک چکی ہے اور خود سناروں کے پاس بھی ادائیگی کے لیے رقوم نہیں ہیں۔
ادھر صرافہ بازار کے بے روزگار کاریگروں کے لیے روزگار کے دیگر مواقع بھی بند پڑے ہیں سناروں کا کام ٹھپ ہونے کی وجہ سے بیشتر کاریگر رکشہ کرائے پر چلارہے تھے یا پھر ان ہی صرافہ بازاروں میں کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے پر مجبور تھے تاہم لاک ڈاؤن کی وجہ سے متبادل روزگار کے راستے بھی بند ہو چکے ہیں۔
صرافہ بازاروںکوبھی کاروبارکی اجازت دی جائے، اختر ٹیسوری
پاکستان جیمز جیولری ٹریڈرز ایسوسی ایشن نے سندھ حکومت اور شہری انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ شہر کے صرافہ بازاروں کو بھی ایس او پی کے مطابق کاروبار کی اجازت دی جائے تاکہ مشکلات کا شکار شہری جو اپنے زیورات فروخت کرکے سرمایہ حاصل کرنا چاہتے ہوں اپنے زیورات فروخت کرسکیں۔
ایسوسی ایشن کے چیئرمین اختر خان ٹیسوری نے بتایا کہ سونے کے زیورات کی تیاری اور فروخت کا کام مکمل طور پر بند ہے زیورات بیچنے والے رابطہ کررہے ہیں لیکن خریداری ممکن نہیں ہے انھوں نے کہا کہ صرافہ کا کام بند ہونے سے سناروں کے علاوہ وہ شہری بھی متاثر ہورہے ہیں جو اپنے اچھے دنوں کی بچت جو سونے کے زیورات میں محفوظ رکھی تھی فروخت کرکے سرمایہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جیولرز کی دکانوں میں عملہ بہت کم ہوتا ہے دکانوں میں صفائی کا خاص طور پر انتظام کیا جاتا ہے اسی طرح گاہک بھی اکا دکا آتے ہیں ہجوم کی شکل میں کاروبار نہیں ہوتا اس لیے جیولرز کی دکانوں سے کرونا پھیلنے کا کوئی امکان نہیں ہے،کورونا سے بچاؤ کے احتیاطی اقدامات کرتے ہوئے سونے کے زیورات کی خرید و فروخت کی جاسکتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان جیمز جیولری ٹریڈرز ایسوسی ایشن نے سندھ حکومت سے رابطہ کرکے صرافہ بازار کھولنے کی اجازت مانگی ہے اور جلد ایک نمائندہ وفد کمشنر کراچی سے بھی ملاقات کرے گا۔
لاک ڈاؤن میں سونے کی درآمد غیر معمولی طور پر کم ہو گئی
پاکستان میں لاک ڈاؤن اور سونے کے زیورات کی طلب نہ ہونے کی وجہ سے سونے کی درآمد بھی غیرمعمولی طور پر کم ہوگئی ہے۔ مارچ کے مہینے میں پاکستان میں صرف 5 کلو سونا درآمد کیا گیا۔
وفاقی ادارہ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق فروری کے مقابلے میں مارچ میں سونے کی درآمد 77 فیصد اور مارچ 2019 کے مقابلے میں 86 فیصد کم رہی، فروری 2020 میں 22 کلو گرام جبکہ مارچ 2019 میں 37کلو گرام سونا درآمد کیا گیا تھا۔
گولڈ جیولری ایکسپورٹرز کا کہنا ہے کہ یہ سونا بھی انٹرسٹمنٹ اسکیم کے تحت امپورٹ کیا جارہا ہے جو سناروں کی نہیں بلکہ سونے کے زیورات خریدنے والے غیرملکی خریداروں کی ملکیت ہوتا ہے اور پاکستانی سنا ر درآمدی سونے سے زیورات تیار کرکے ایکسپورٹ کردیتے ہیں۔
پاکستان میں سونے کے زیورات کی ایکسپورٹ کی پالیسی انتہائی ناقص ہونے کی وجہ سے سونے کے زیورات کی ایکسپورٹ بھی 98 فیصد تک کم ہوچکی ہے اور اب لاک ڈاؤن، فضائی سروس بند ہونے کی وجہ سے ایکسپورٹ بھی مکمل طور پر بند ہوچکی ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق مارچ 2020 میں پاکستان سے 3 کروڑ 20 لاکھ روپے مالیت کے زیورات ایکسپور ٹ کیے گئے، فروری 2020 میں 2 کروڑ 80 لاکھ روپے کے زیورات ایکسپور ٹ کیے گئے تھے مارچ 2019 میں محض ایک کروڑ روپے کے زیورات ایکسپورٹ کیے گئے تھے۔
پاکستان میں سونے کی طلب نہ ہونے سے دام دبئی کے مقابلے میں 5 ہزارروپے کم ہیں
پاکستان جیمز جیولری ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین اختر خان ٹیسوری کے مطابق پاکستان میں سونے کے زیورات کی طلب نہ ہونے کی وجہ سے سونے کے دام دبئی کے مقابلے میں 4 سے 5 ہزار روپے کم ہیں لیکن کوئی خریدار نہیں ہے، امریکا اور برطانیہ کی منڈیاں بند ہونے سے زیورات کی ایکسپورٹ بھی بند پڑی ہے۔
لاک ڈاؤن سے پریشان سنار بے یقینی کا شکارہوگئے
آل کراچی جیولرز اینڈ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے بھی صرافہ بازار کھولنے کا مطالبہ کیا ہے، ایسوسی ایشن کے صدر حسین قریشی کے مطابق لاک ڈاؤن کی وجہ سے مشکلات کا شکار سنار مشکلات اور کاروبار کے بارے میں بے یقینی شکار ہیں انھوں نے کہا کہ تاجر ازخور کاروبار کھولنے کی طرف جارہے ہیں کیونکہ دکانوں کے کرائے، ملازمین کی تنخواہیں اور یوٹلیٹی بلز جمع کرانے کے لیے سرمایہ نہیں ہے۔
بڑی صنعتوں اور ایکسپورٹرز کی طرح صرافوں کو بھی ریلیف پیکیج دیا جائے
حسین قریشی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بڑی صنعتوں اور ایکسپورٹرز کی طرح صرافہ کا کاروبار کرنے والوں کو بھی ریلیف پیکیج دیا جائے، جیولرز اور کارخانوں کے بجلی گیس کے بل معاف کیے جائیں۔
ایسوسی ایشن کے ایک وفد نے گورنر سندھ سے بھی ملاقا ت کی اور سناروں کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سنار لاک ڈاؤن یا حکومتی ہدایات کی خلاف ورزی کرکے کاروبار ہرگز نہیں کھولنا چاہتے اگر کاروبار کھولنا ممکن نہیں تو سناروں کو ریلیف پیکیج دیا جائے اور ایک سے 10 لاکھ روپے مالیت تک کے بلا سود قرضے فراہم کیے جائیں۔