رہزنوں نے ایکسپریس نیوز کے رپورٹر کو دفتر کے قریب لوٹ لیا

عبداللہ شیخ گھر جا رہے تھے،یونٹ نمبر2 میں 2 نوجوانوں نے ہزاروں روپے و موبائل چھین لیا

ایس ایچ او بی سیکشن خالد اقبال نے بھی رابطہ کر کے جائے وقوعہ کو تھانہ حسین آباد کی حد قرار دیا

ایس ایس پی کی مداخلت اور 24 گھنٹے گزر جانے کے باوجود دو تھانوںمیں واردات کا مقدمہ حدود کا تنازع طے نہ ہو نے پر درج نہ کیا جا سکا ۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ واردات والی سڑک پر تھوڑے فاصلے پر واقع معروف تعلیمی سینٹر کے سامنے روزانہ پولیس کے موٹر سائیکل سوار 2 اہلکار موجود ہوتے ہیں، لیکن جس وقت ایکسپریس کے رپورٹرکو لوٹا گیا کوئی اہلکار موجود نہیں تھا۔ وارداتکی اطلاع دینے کے لیے مددگار ون فائیو کوکال کی گئی تاہم 15 منٹ تک کال اٹینڈ نہیں کی گئی جس کے بعد تھانہ حسین آباد کے ایس ایچ او صغیر سانگی سے رابطہ کرکے صورتحال سے آگاہ کیا گیا لیکن انھوں نے خود آنے سے گریز کیا اور دو اہلکاروں کو جائے وقوعہ پر بھیج دیا جو یہ کہہ کر لوٹ گئے کہ یہ ان کے تھانہ کی حدود نہیں اور جب رپورٹر اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ رپورٹ درج کرانے تھانہ حسین آباد پہنچا تو نائب محرر نے بھی جائے وقوعہ حد میں شامل نہ ہونے کا عذر ظاہر کرتے ہوئے تھانہ بی سیکشن جانے کو کہا۔




بعد ازاں قریب ہی گشت پر مامور تھانہ بی سیکشن کی موبائل سے رابطہ کر کے صورتحال سے آگاہ کیا تو انھوں نے جائیواردات کو تھانہ حسین آباد کی حد بتایا ۔ بعد ازاں ایس ایچ او بی سیکشن خالد اقبال نے بھی رابطہ کر کے جائے وقوعہ کو تھانہ حسین آباد کی حد قرار دیا، تاہم ان کی ہدایت پر بی سیکشن پولیس نے واقعے کی ابتدائی رپورٹ درج کر لی۔ اطلاع دیے جانے پر ایس ایس پی عرفان بہادرعلی اور اے ایس پی عمرطفیل بھاری نفری کے ہمراہ ایکسپریس نیوز کے دفتر پہنچ گئے اور عبداﷲ شیخ سے واقعے کی تفصیل معلومات کی۔ ایس ایس پی نے15منٹ تک کال اٹینڈ نہ کرنے کا نوٹس لیتے ہوئے مددگار پولیس بیس کے انچارج کو اپنے دفتر طلب کر لیا، جبکہ انھوں نے دو تھانوںکا حدکا تنازع کھڑا کرنے پر ناراضی کا اظہار کیا ۔ انھوں نے یقین دہانی کرائی کہ پولیس بہت جلد ملزمانکو گرفتار کر کے مسروقہ موبائل اور نقدی برآمد کریگی۔ دوسری جانب مختلف صحافتی تنظیموں نے ایکسپریس نیوز کے رپورٹر سے لوٹ مار اور پولیس رویے کی مذمت کی ہے۔
Load Next Story