کورونا کی دہشت اور اطلاعات کی ’وبا‘
غلط اطلاعات پر شہریوں کو انتہائی محدود کر دینا کس حد تک درست ہے؟
حال ہی میں کراچی شہر میں ڈاکٹروں نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں کہا گیا کہ رمضان میں نماز کے لیے دی جانے والی اجازت انتہائی خطرناک ہے ، کورونا کے کیس بڑھنے کا خطرہ ہے اور اندیشہ ہے کہ ایسی صورت حال میں اسپتالوں میں جگہ کم پڑ جائے گی۔ اس کے علاوہ دکان داروں کا کاروبار بند رکھنے کا بھی مشورہ دیا گیا۔
اس سے کئی طرح کے سوالات ہمارے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، مثلاً یہ کہ جب حکومت، ڈاکٹروں اور علما کے اجلاس میں اصول طے کرکے نماز کی اجازت دی گئی تھی توپھر کون سے ڈاکٹر وں کی علمیت درست ہے، حکومت کے اجلاس میں شرکت کرنے والوں کی یا ان پریس کانفرنس کرنے والوں کی۔۔۔؟ یہ سوال بھی ذہن میں آ رہا ہے کہ ان پریس کانفرنس کرنے والوں کی طرح وزیراعظم سمیت بہت سے ذمہ دار یہ کہہ رہے ہیں کہ آئندہ آنے والے دن بڑے سخت ہو سکتے ہیں یعنی کیسز کی اور اموات کی تعداد میں اضافہ بہت زیادہ ہوسکتا ہے اور پھر مساجد میں نماز پڑھنے کی دی گئی اجازت واپس لی جا سکتی ہے۔
دوسری طرف ہم میڈیا پر خبر سن رہے ہیں کہ حکومت نے فلاں میڈیسن جو اس وائرس کی بیماری میں استعمال ہوتی ہے بیرون ملک فروخت کی اجازت دیدی ہے کیوں کہ ملک کی ضرورت سے زائد مقدار میں موجود ہے، سوال یہ ہے کہ پہلے تو حالات کے تناظر میں اس کی برآمد پر پابندی لگائی گئی تھی کہ ملک میں اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے ، کیا اب حالات بہتر ہو گئے ہیں ؟ اور اگر بہتر ہوگئے ہیں تو یہ کیوں کہا جا رہاہے کہ مساجد بند کرنی پڑ سکتی ہیں، آنے والے دنوں میں بڑھی تباہی آسکتی ہے؟
میڈیا پر ہر وقت ایک ہی بات کہی جا رہی ہے کہ لوگ گھروں میں رہیں حتی کہ نماز جیسے اہم اسلامی رکن کی ادائیگی کے لیے بھی مسجد جانے سے اجتناب کریں، کیوںکہ وائرس انتہائی خطر ناک ہے اور صرف ان بیان کردہ اصولوں سے ہی یہ بیماری کنٹرول ہو سکتی ہے۔ میڈیا پر یہ سن سن کر الٹا ذہن پک رہا ہے اور سوالات پر سولات ذہن میں اٹھ رہے ہیں کہ اگر یہ نصیحت درست ہے اور یہی بیماری کا حل ہے تو پھر یہ نصیحت کرنے والے خود اس پر عمل کیوں نہیں کر رہے؟کہا گیا کہ نمازی دوران نماز بھی آپس میں چھے فٹ کا فاصلہ رکھیں، لیکن خود وزیر اعظم فیصل ایدھی سے چیک وصول کر رہے ہیں ۔
جہاں چھے انچ کا بھی فاصلہ نہیں، محکمہ داخلہ صوبہ سندھ کی جانب سے 'ایس او پیز ' کے سلسلے میں اجلاس کی خبر اور فلم ٹی وی پر چل رہی ہے ، میڈیا کے نمائندوں سمیت چھے کے قریب افراد موجود مگر فاصلہ ایک دوسرے سے تین فٹ بھی نہیں، وزیر اعلیٰ پنجاب کی میٹنگ ہو ، حکومتی ارکان کے دوروں کی خبر ہو یا کسی بھی حکومتی یا اپوزیشن کے راہ نما کی سرگرمیاں ہو سب کی فلم نیوز یا اخبارات میں شائع ہونے والی تصاویر میں چھ فٹ تو کیا چھے انچ کا فاصلہ بھی بمشکل نظر آتا ہے، اسی طرح کسی کا احتجاج ہو یا مظاہر ہ سب جگہ یہی منظر ہے ، حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ وائرس سے بچاؤ کے لیے جو بھی حکمت عملی اپنائی جارہی ہے۔
اس سے 'سوشل ڈسٹنس' ہی ختم ہوتا نظر آتا ہے، مثلا تین کروڑ کے قریب آبادی والا کراچی شہر جہاں شہری صبح تا رات گئے خریداری کرتے تھے ان کو خریداری کے لیے محدود وقت دیا گیا، جس سے دکانوں پر مزید رش لگ گیا، اسی طرح جگہ جگہ 'ناکے' بنا کر شاہ راہوں کو تنگ کر دیا گیا، جس سے سڑکوں پر ٹریفک جام ہونے لگا، کہیں قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ایک لمبی قطار میں مرغا اس طرح بنایا کہ چھے انچ بھی فاصلہ نہ رہا۔ اسی طرح میڈیا پر بیٹھے صحافی اور میزبان 'سوشل ڈسٹنس' کا درس دیتے رہے، مگر خود ان پر عمل نہیں کر رہے، بلکہ بہت سے تو آپس میں مصافحہ کرتے ہوئے بھی نظر آ رہے ہیں۔
اسی طرح سندھ حکومت کی جانب سے انسانی جانوں کے تحفظ کی خاطر لاک ڈاؤن کرنا سمجھ میں نہیں آیا کیوں کہ ماضی قریب ہی کا ریکارڈ ہے کہ یہاں کتوں کو مارنے پر تو پابندی ہے، مگر انسانوں کو بچانے کے لیے ویکسین تک بہ آسانی دست یاب نہیں، صوبائی حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ ہم لاک ڈاؤن میں گھر گھر کھانا پہنچائیں گے، کوئی بھوکا نہیں رہے گا، مگر گزشتہ کئی برسوں کا ریکارڈ ہے کہ اس صوبے میں ہزار کے قریب بچے غذائی قلت کے سبب جاں بحق ہوئے، جب کہ لاک ڈاون میں معاشی بدحالی کے سبب خودکُشی کے واقعات الگ پیش آئے۔
ذرایع اِبلاغ پر بھی کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی اور بڑھتے ہوئے کیسز کی مختلف تعداد پیش کر رہے ہیں، مثلا صرف 18 اپریل کے ایک اخبار میں کیسز کی تعداد 74 ہزار چار اور اموات کی تعداد 138 تھی، جب کہ دوسرے اخبار میں یہ تعداد بالترتیب 73 ہزار 83 اور 137 تھی اسی طرح تیسرے اخبار میں بھی یہ تعداد بھی پہلے دو اخباروں سے مختلف تھی۔ یہ حال صرف ایک دن کے اخبارات پڑھنے سے سامنے آیا مزید تحقیق کی جائے تو نہ جانے کتنے تضادات سامنے آئیں۔
اپریل کے وسط میں صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے بیان سے پتا چلا کہ اچانک سے کراچی شہر میں اس وبا میں اضافہ ہو گیا ہے اور صورت حال بے قابو ہوتی نظر آرہی ہے، ایک خوف کا ماحول ہوگیا۔ اس پر ایک اخبار نے تحقیق کرکے 16 اپریل کے اخبار میں یہ خبر دی کہ 15 مارچ سے 13 اپریل تک کراچی شہر میں 759 ہلاکتوں کی تعداد غلط ہے، کورونا سے صرف ایک خاتون جاں بحق ہوئی تھی۔ اسی حوالے سے ایک نجی ٹی وی نے بھی اپنے ایک رپورٹر کی تحقیقی خبر چلا ئی، جس میں دعویٰ کیا گیا کراچی شہر میں بڑی تعداد میں ہلاکتوں کی خبر غلط ہے۔
واضح رہے کہ میڈیا کی جانب سے یہ تحقیق صرف وزیر اعلیٰ سندھ کے بیان سے متعلق ایک دن کی ہے، جوصوبائی حکومت کے دعوؤں کو قطعی غلط ثابت کر رہی ہیں اور مزید تحقیقات کی جائیں، تو نہ جانے کتنی غلط معاملات سامنے آئیں، یہاں ایسی غلط اطلاعات پر شہریوں کو انتہائی محدود کر دینا کس حد تک درست ہے؟ سوشل میڈیا پر ایسی بے شمار ویڈیوز اور اطلاعات بھی ہیں کہ جن میں مرنے والو ں کے لواحقین یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ ان کے مریض کو زبردستی کورونا کا شکار بتا یا گیا اور تدفین بھی رشتہ داروں کو نہیں کرنے دی گئی۔ ان تمام معاملات پر نہ صرف صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی بلکہ ذرایع اِبلاغ کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ تمام ظاہری حقائق اور دعوں کی تحقیقات کے لیے جو کمیٹی بنی ہے اس کی رپورٹ جلد پیش کی جائے اور میڈیا کم از کم حقائق جانے بغیر ان دعوں کو قطعی نمایاں جگہ نہ دے جو معاشرے میں خوف و ہراس پھیلا رہے ہیں بلکہ خود تفتیشی رپورٹنگ کرکے حقائق منظر عام پر لائے۔
اس سے کئی طرح کے سوالات ہمارے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، مثلاً یہ کہ جب حکومت، ڈاکٹروں اور علما کے اجلاس میں اصول طے کرکے نماز کی اجازت دی گئی تھی توپھر کون سے ڈاکٹر وں کی علمیت درست ہے، حکومت کے اجلاس میں شرکت کرنے والوں کی یا ان پریس کانفرنس کرنے والوں کی۔۔۔؟ یہ سوال بھی ذہن میں آ رہا ہے کہ ان پریس کانفرنس کرنے والوں کی طرح وزیراعظم سمیت بہت سے ذمہ دار یہ کہہ رہے ہیں کہ آئندہ آنے والے دن بڑے سخت ہو سکتے ہیں یعنی کیسز کی اور اموات کی تعداد میں اضافہ بہت زیادہ ہوسکتا ہے اور پھر مساجد میں نماز پڑھنے کی دی گئی اجازت واپس لی جا سکتی ہے۔
دوسری طرف ہم میڈیا پر خبر سن رہے ہیں کہ حکومت نے فلاں میڈیسن جو اس وائرس کی بیماری میں استعمال ہوتی ہے بیرون ملک فروخت کی اجازت دیدی ہے کیوں کہ ملک کی ضرورت سے زائد مقدار میں موجود ہے، سوال یہ ہے کہ پہلے تو حالات کے تناظر میں اس کی برآمد پر پابندی لگائی گئی تھی کہ ملک میں اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے ، کیا اب حالات بہتر ہو گئے ہیں ؟ اور اگر بہتر ہوگئے ہیں تو یہ کیوں کہا جا رہاہے کہ مساجد بند کرنی پڑ سکتی ہیں، آنے والے دنوں میں بڑھی تباہی آسکتی ہے؟
میڈیا پر ہر وقت ایک ہی بات کہی جا رہی ہے کہ لوگ گھروں میں رہیں حتی کہ نماز جیسے اہم اسلامی رکن کی ادائیگی کے لیے بھی مسجد جانے سے اجتناب کریں، کیوںکہ وائرس انتہائی خطر ناک ہے اور صرف ان بیان کردہ اصولوں سے ہی یہ بیماری کنٹرول ہو سکتی ہے۔ میڈیا پر یہ سن سن کر الٹا ذہن پک رہا ہے اور سوالات پر سولات ذہن میں اٹھ رہے ہیں کہ اگر یہ نصیحت درست ہے اور یہی بیماری کا حل ہے تو پھر یہ نصیحت کرنے والے خود اس پر عمل کیوں نہیں کر رہے؟کہا گیا کہ نمازی دوران نماز بھی آپس میں چھے فٹ کا فاصلہ رکھیں، لیکن خود وزیر اعظم فیصل ایدھی سے چیک وصول کر رہے ہیں ۔
جہاں چھے انچ کا بھی فاصلہ نہیں، محکمہ داخلہ صوبہ سندھ کی جانب سے 'ایس او پیز ' کے سلسلے میں اجلاس کی خبر اور فلم ٹی وی پر چل رہی ہے ، میڈیا کے نمائندوں سمیت چھے کے قریب افراد موجود مگر فاصلہ ایک دوسرے سے تین فٹ بھی نہیں، وزیر اعلیٰ پنجاب کی میٹنگ ہو ، حکومتی ارکان کے دوروں کی خبر ہو یا کسی بھی حکومتی یا اپوزیشن کے راہ نما کی سرگرمیاں ہو سب کی فلم نیوز یا اخبارات میں شائع ہونے والی تصاویر میں چھ فٹ تو کیا چھے انچ کا فاصلہ بھی بمشکل نظر آتا ہے، اسی طرح کسی کا احتجاج ہو یا مظاہر ہ سب جگہ یہی منظر ہے ، حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ وائرس سے بچاؤ کے لیے جو بھی حکمت عملی اپنائی جارہی ہے۔
اس سے 'سوشل ڈسٹنس' ہی ختم ہوتا نظر آتا ہے، مثلا تین کروڑ کے قریب آبادی والا کراچی شہر جہاں شہری صبح تا رات گئے خریداری کرتے تھے ان کو خریداری کے لیے محدود وقت دیا گیا، جس سے دکانوں پر مزید رش لگ گیا، اسی طرح جگہ جگہ 'ناکے' بنا کر شاہ راہوں کو تنگ کر دیا گیا، جس سے سڑکوں پر ٹریفک جام ہونے لگا، کہیں قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ایک لمبی قطار میں مرغا اس طرح بنایا کہ چھے انچ بھی فاصلہ نہ رہا۔ اسی طرح میڈیا پر بیٹھے صحافی اور میزبان 'سوشل ڈسٹنس' کا درس دیتے رہے، مگر خود ان پر عمل نہیں کر رہے، بلکہ بہت سے تو آپس میں مصافحہ کرتے ہوئے بھی نظر آ رہے ہیں۔
اسی طرح سندھ حکومت کی جانب سے انسانی جانوں کے تحفظ کی خاطر لاک ڈاؤن کرنا سمجھ میں نہیں آیا کیوں کہ ماضی قریب ہی کا ریکارڈ ہے کہ یہاں کتوں کو مارنے پر تو پابندی ہے، مگر انسانوں کو بچانے کے لیے ویکسین تک بہ آسانی دست یاب نہیں، صوبائی حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ ہم لاک ڈاؤن میں گھر گھر کھانا پہنچائیں گے، کوئی بھوکا نہیں رہے گا، مگر گزشتہ کئی برسوں کا ریکارڈ ہے کہ اس صوبے میں ہزار کے قریب بچے غذائی قلت کے سبب جاں بحق ہوئے، جب کہ لاک ڈاون میں معاشی بدحالی کے سبب خودکُشی کے واقعات الگ پیش آئے۔
ذرایع اِبلاغ پر بھی کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی اور بڑھتے ہوئے کیسز کی مختلف تعداد پیش کر رہے ہیں، مثلا صرف 18 اپریل کے ایک اخبار میں کیسز کی تعداد 74 ہزار چار اور اموات کی تعداد 138 تھی، جب کہ دوسرے اخبار میں یہ تعداد بالترتیب 73 ہزار 83 اور 137 تھی اسی طرح تیسرے اخبار میں بھی یہ تعداد بھی پہلے دو اخباروں سے مختلف تھی۔ یہ حال صرف ایک دن کے اخبارات پڑھنے سے سامنے آیا مزید تحقیق کی جائے تو نہ جانے کتنے تضادات سامنے آئیں۔
اپریل کے وسط میں صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے بیان سے پتا چلا کہ اچانک سے کراچی شہر میں اس وبا میں اضافہ ہو گیا ہے اور صورت حال بے قابو ہوتی نظر آرہی ہے، ایک خوف کا ماحول ہوگیا۔ اس پر ایک اخبار نے تحقیق کرکے 16 اپریل کے اخبار میں یہ خبر دی کہ 15 مارچ سے 13 اپریل تک کراچی شہر میں 759 ہلاکتوں کی تعداد غلط ہے، کورونا سے صرف ایک خاتون جاں بحق ہوئی تھی۔ اسی حوالے سے ایک نجی ٹی وی نے بھی اپنے ایک رپورٹر کی تحقیقی خبر چلا ئی، جس میں دعویٰ کیا گیا کراچی شہر میں بڑی تعداد میں ہلاکتوں کی خبر غلط ہے۔
واضح رہے کہ میڈیا کی جانب سے یہ تحقیق صرف وزیر اعلیٰ سندھ کے بیان سے متعلق ایک دن کی ہے، جوصوبائی حکومت کے دعوؤں کو قطعی غلط ثابت کر رہی ہیں اور مزید تحقیقات کی جائیں، تو نہ جانے کتنی غلط معاملات سامنے آئیں، یہاں ایسی غلط اطلاعات پر شہریوں کو انتہائی محدود کر دینا کس حد تک درست ہے؟ سوشل میڈیا پر ایسی بے شمار ویڈیوز اور اطلاعات بھی ہیں کہ جن میں مرنے والو ں کے لواحقین یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ ان کے مریض کو زبردستی کورونا کا شکار بتا یا گیا اور تدفین بھی رشتہ داروں کو نہیں کرنے دی گئی۔ ان تمام معاملات پر نہ صرف صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی بلکہ ذرایع اِبلاغ کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ تمام ظاہری حقائق اور دعوں کی تحقیقات کے لیے جو کمیٹی بنی ہے اس کی رپورٹ جلد پیش کی جائے اور میڈیا کم از کم حقائق جانے بغیر ان دعوں کو قطعی نمایاں جگہ نہ دے جو معاشرے میں خوف و ہراس پھیلا رہے ہیں بلکہ خود تفتیشی رپورٹنگ کرکے حقائق منظر عام پر لائے۔