ڈھول بجاکرسحری کے لیے جگانے کی روایت دم توڑنے لگی

اب ڈھول کی تھاپ کے ساتھ ’’اٹھ جاؤ لوگو، سحری کھا کر روزہ رکھ لو‘‘ کی صدا کم ہی سننے میں ملتی ہے

پنجاب کے دیہات میں آج بھی ڈھولچی ڈھول بجاکر لوگوں کو سحری کے لیے بیدارکرتے ہیں فوٹو: فائل

رمضان المبارک میں شہروں کے اندر ڈھول بجاکرلوگوں کو سحری کے لئے جگانے کی روایت اب دم توڑتی جارہی ہے تاہم لاہورکے دیہی علاقوں سمیت پنجاب کے کئی قصبوں اوردیہات میں آج بھی ڈھولچی ڈھول بجاکر لوگوں کو سحری کے لیے بیدارکرتے ہیں۔

ڈھول بجا کر لوگوں کو سحری کے لیے بیدار کرنیوالے زیادہ تر افرادایسے ہیں جو شادی بیاہ، میلوں اورخوشی کے موقعوں پرڈھول بجاتے ہیں۔ شہروں میں یہ روایت اب ختم ہوچکی ہے اور صدیوں پرانی روایت کے حامل ایسے ڈھولچیوں کی تعداد میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ اب گلیوں اور محلوں میں ڈھول کی تھاپ کے ساتھ ''اٹھ جاؤ لوگو، سحری کھا کر روزہ رکھ لو'' کی صدا کم ہی سننے میں ملتی ہے۔ تاہم دیہی علاقوں میں یہ رسم اب بھی موجود ہے۔


ایسے ڈھولچیوں میں واہگہ کا رہائشی بابا فقیرحسین بھی شامل ہے ، وہ گزشتہ بیس برسوں سے رمضان المبارک کے مہینے میں اپنے ڈھول پر لوگوں کو اٹھانے کا کام کررہا ہے۔ بابا فقیر حسین نے بتایا کہ وہ رات کوایک بجے اٹھتے ہیں، ان کا بیٹا ساتھ ہوتا ہے پھر وہ پورے گاؤں کا چکر لگاتے ہیں، دوسے ڈھائی گھنٹے میں ان کا کام مکمل ہوجاتا ہے، یہ کام وہ ایک نیکی سمجھ کر کرتے ہیں۔ خالی اور ویران گلیوں میں کئی کلومیٹر وہ اپنے ڈھول کو بجاتے ہوئے لوگوں کی توجہ روزہ رکھنے کی جانب مبذول کراتے ہیں۔

بابا فقیرحسین نے یہ بھی بتایا کہ کہ وہ کسی معاوضے کی خاطر یہ کام نہیں کرتے، ہاں اگر کوئی خود اپنی مرضی سے کچھ دینا چاہے تو لیتا ہے لیکن کسی سے مطالبہ نہیں کرتا۔ عام طور پر روزوں کے آخری ایام میں لوگ ان کی خدمت کرتے ہیں، کوئی سو روپے دیتا ہے تو کوئی پانچ سو اور ایک ہزار دے دیتا ہے،اس طرح وہ اپنوں کے بچوں کے لیے عید کے کپڑے اورجوتے خریدلیتے ہیں۔

دوسری طرف بعض لوگ اسلام میں ڈھول یا میوزک بجانے کو ممنوع بھی قرار دیتے ہیں اور پھر رمضان جیسے مبارک مہینے میں تو بقول ان کے اس کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں ہے۔ مذہبہ اسکالرعلامہ ضیا الحق نقشبندی کہتے ہیں اسلام کسی بھی صورت میں ڈھول بجانے کی اجازت نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا کہ رمضان میں 3 بجے تو تہجد کا وقت ہوتا ہے لوگ عبادت میں مشغول ہوتے ہیں اور ایسے وقت میں ڈھول کی آواز سن کر عبادت میں خلل پڑسکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ سحری کے لئے لوگوں کو جگانا ثواب کا کام ہے لیکن ضروری نہیں ڈھول ہی بجائے جائے اور بھی تو کئی طریقے ہوسکتی ہیں۔
Load Next Story