لاپتہ افراد پر فیصلہ دیا تو وزیر اعظم اور آرمی چیف متاثر ہو سکتے ہیں چیف جسٹس
مزید3افرادکا سراغ لگا لیا، ایڈیشنل سیکریٹری دفاع، عدالت کو لالی پوپ نہ دیں، اپنی عزت بچائیں ہمارا بھی خیال کریں، عدالت
TORONTO:
سپریم کورٹ نے33لاپتہ افراد پیش کرنے کیلیے کل تک مہلت دیدی جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لاپتہ افراد پیش نہ کیے گئے تو فیصلے سے وزیر اعظم اور آرمی چیف متاثر ہو سکتے ہیں۔
3رکنی بینچ نے حراستی مراکز میں قید لاپتہ افراد پیش نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا، ایڈیشنل سیکریٹری دفاع نے بتایا کہ3 افراد کا پتہ لگا لیا ہے، ایک شخص حبیب اللہ گزشتہ سال 18دسمبر کو رہا ہو کر بیرون ملک جا چکا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ اسکی سفری دستاویزات دکھائی جائیں اور بتایاجائے وہ کس کی تحویل میں تھا۔ ایڈیشنل سیکرٹری دفاع نے کہا کہ وہ ری ہیبلیٹیشن سنٹر میں تھا۔ 2 افراد ملک کے اندر ہیں، انہیں اپریل میں رہا کیا گیا لیکن انکے نام نہیں بتائے جاسکتے کیونکہ انکی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے، چیف جسٹس نے کہا دیگر افراد بھی فوج کی تحویل میں ہیں، انکے بارے میں بھی بتائیں، ہمیں بہلایا نہ جائے، یاسین شاہ کا بھی پتہ نہیں چلا، 3 افراد سے معاملہ ختم نہیں ہوگا، عدالت کے حکم پر عمل کرنا ہوگا ورنہ ہم عملدرآمد کرانا جانتے ہیں، وزیراعظم ہو یا آرمی چیف عدالت کا حکم سب کو ماننا پڑے گا۔
این این آئی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی حکم وزیر اعظم کو بھی ماننا پڑتا ہے۔ محض 3 لوگ سامنے لائے گئے، 30 فیصد لوگ بھی لے آتے تو کہتے کہ پیشرفت ہوئی، یہ مونگ پھلی کے دانے کے برابر ہے، بی بی سی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ لاپتہ افراد پیش نہ کیے گئے تو فیصلے سے وزیر اعظم اور آرمی چیف متاثر ہو سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا امان اللہ بیگ کا تعلق فوج سے ہے اور وہ 35افراد کو ملاکنڈ حراستی مرکز سے لیکر گیا، 5گواہ ریکارڈ پر ہیں۔ سیکرٹری دفاع نے کہا کہ فوج کا نام نہ لیا جائے، اس سے باہر غلط مطلب جا تا ہے، جسٹس جوا دنے کہا یہ سپرنٹنڈنٹ جیل کا بیان ہے۔ چیف جسٹس نے کہا لالی پاپ نہ دیں، بندے پیش کریں اور غیرقانونی حراست پر ذمہ داروں کیخلاف مقدمہ درج کریں۔
سپریم کورٹ نے33لاپتہ افراد پیش کرنے کیلیے کل تک مہلت دیدی جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لاپتہ افراد پیش نہ کیے گئے تو فیصلے سے وزیر اعظم اور آرمی چیف متاثر ہو سکتے ہیں۔
3رکنی بینچ نے حراستی مراکز میں قید لاپتہ افراد پیش نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا، ایڈیشنل سیکریٹری دفاع نے بتایا کہ3 افراد کا پتہ لگا لیا ہے، ایک شخص حبیب اللہ گزشتہ سال 18دسمبر کو رہا ہو کر بیرون ملک جا چکا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ اسکی سفری دستاویزات دکھائی جائیں اور بتایاجائے وہ کس کی تحویل میں تھا۔ ایڈیشنل سیکرٹری دفاع نے کہا کہ وہ ری ہیبلیٹیشن سنٹر میں تھا۔ 2 افراد ملک کے اندر ہیں، انہیں اپریل میں رہا کیا گیا لیکن انکے نام نہیں بتائے جاسکتے کیونکہ انکی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے، چیف جسٹس نے کہا دیگر افراد بھی فوج کی تحویل میں ہیں، انکے بارے میں بھی بتائیں، ہمیں بہلایا نہ جائے، یاسین شاہ کا بھی پتہ نہیں چلا، 3 افراد سے معاملہ ختم نہیں ہوگا، عدالت کے حکم پر عمل کرنا ہوگا ورنہ ہم عملدرآمد کرانا جانتے ہیں، وزیراعظم ہو یا آرمی چیف عدالت کا حکم سب کو ماننا پڑے گا۔
این این آئی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی حکم وزیر اعظم کو بھی ماننا پڑتا ہے۔ محض 3 لوگ سامنے لائے گئے، 30 فیصد لوگ بھی لے آتے تو کہتے کہ پیشرفت ہوئی، یہ مونگ پھلی کے دانے کے برابر ہے، بی بی سی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ لاپتہ افراد پیش نہ کیے گئے تو فیصلے سے وزیر اعظم اور آرمی چیف متاثر ہو سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا امان اللہ بیگ کا تعلق فوج سے ہے اور وہ 35افراد کو ملاکنڈ حراستی مرکز سے لیکر گیا، 5گواہ ریکارڈ پر ہیں۔ سیکرٹری دفاع نے کہا کہ فوج کا نام نہ لیا جائے، اس سے باہر غلط مطلب جا تا ہے، جسٹس جوا دنے کہا یہ سپرنٹنڈنٹ جیل کا بیان ہے۔ چیف جسٹس نے کہا لالی پاپ نہ دیں، بندے پیش کریں اور غیرقانونی حراست پر ذمہ داروں کیخلاف مقدمہ درج کریں۔