فتنہ ابلاغ اورکرسیوں کے کیڑے
’’کرسیوں کے چند کیڑے‘‘ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ ملک سارا کھاچکے ہیں بلکہ اس ملک کے رہنے والوں کو بھی تقریباً کھاچکے ہیں۔
محترم ڈاکٹر اے آرخالد کی دوکتابیں پڑھ کر اس وقت ہم فارغ ہوچکے ہیں ،ایک کانام ہے ''فتنہ ابلاغ''جب کہ دوسری کا عنوان ہے ''کرسیوں کے چند کیڑے ملک سارا کھاگئے''
محترم خالد صاحب ایک معروف لکھنے والے ہیں اورصحافت کا ایک طویل تجربہ رکھتے ہیں اس لیے ان دونوں کتابوں میں وہی کچھ ہوگا اورہے جو ''چیونٹی کے اس گھر'' پاکستان میں ہوتارہاہے یا اندھے کی بیوی بھی کہہ سکتے ہیں ،پشتو کہاوت کے مطابق ''اندھے کی بیوی خدا کے حوالے''۔لیکن ہم نے ان دونوں کتابوں کی تحریروں میں وہ ''چیز''بہت زیادہ محسوس کی ہے جو الفاظ میں نہیں ہے۔
یا ، وہ سارے فسانے میں جس کاذکر نہ تھا۔ وہ غیر موجود اور شدت سے محسوس چیزوہ ''درد'' ہے جو ہر محب وطن ملک و قوم کو اپنا سمجھنے والوں کے دل میں ہوتاہے لیکن ان کی حالت اس کسان کی سی ہوجاتی ہے جس کے کھیت میں کھڑی فصل پر بے مہار اور آوارہ جانوروں نے ہلہ بولا ہواہو ۔کسان کنارے بیٹھا اپنی فصل کا حشر نشر دیکھ رہاہوتاہے لیکن اس کے ہاتھ میں لاٹھی لکڑی نہیں ہوتی جس سے ان جانوروں کو بھگا سکے،بلکہ میں اپنے تجربے کی روشنی میں ان جانوروں کو ''سوروں'' کا گلہ کہوں گا۔
ہمارے علاقے میں پہلے سورنہیں ہوتے تھے لیکن گزشتہ سیلاب میں جب ترائی کاعلاقہ زیر آب آگیا تو یہ سور وہاں سے بھاگ کر ہمارے علاقے میں آگئے جو پہلے خشک علاقہ ہونے کی وجہ سے اس بدبخت جانورسے محفوظ تھا۔چنانچہ آج کل ہم ان سوروں کے ہاتھوںبہت بڑے عذاب میں مبتلا ہیں،ایک تو یہ کہ جھرمٹ کی شکل میں پھرتے ہیں، دوسرا یہ کہ بوقت ضرورت حملہ آورہوکر انسانوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں اورتیسری مصیبت یہ کہ سور اتنا کھاتا نہیں جتنا بربادکرتے ہیں،کھانے کے بعد فصلوں میں لوٹیں لگاتے ہیں اوربچی کچی فصل بھی برباد کرتے ہیں ،اوپر سے کم بخت اتنے عیارہوتے ہیں کہ معمولی اسلحہ کی تو پرواہی نہیں کرتے لیکن اکیلے انسان کو پاکر حملہ آور ہوجاتے ہیں ،چھریدار اور معمولی بورکااسلحہ بھی ان پر بے اثر ہوتاہے کیوں کہ بہت موٹی اورپھسلوان کھال اوڑھے ہوتے ہیں اوربہت زیادہ چربی دار ہونے کی وجہ سے ان کے زخم بھی بہت جلد مندمل ہوجاتے ہیں، مطلب یہ کہ ہرلحاظ سے وہ ہوتے ہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔
صرف خالد صاحب ہی نہیں ہم سب خالی ہاتھ والے ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں ،کھیت کا حشر نشر بھی اوراپنی بے بسی بھی۔
شد آں کہ اہل نظر درکنارہ می رفتند
ہزارگونہ سخن درد ہاں ولب خاموش
یعنی پھر یوں ہواکہ اہل نظر بیچارے ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے ہزارہزار باتیں دل میں لیے اور خاموش لب۔دوسرا شعر حافظ شیراز کی اس غزل کا یہ ہے کہ ۔
بہ بانگ چنگ می گوئیم آں حکایت ہا
کہ ازتفتن آں دیگ سینہ می زد جوش
یعنی میں ''چنگ'' کی آواز میں باتیں کر رہا ہوں کیوں کہ اس ابلتے ہوئے دیگ سے سینہ جل رہاہے، لیکن حافظ کا زمانہ دوسرا تھا اس زمانے میں اگر کوئی بات ''بہ بانگ چنگ''بھی کی جاتی تھی تو لوگ سن لیتے تھے، لیکن بقول خالد صاحب آج کے فتنہ ابلاغ نے اتنا شور مچایاہے کہ کوئی نہ تو کسی کی سنتاہے نہ سمجھتاہے ،سارے کے ساے بول رہے ہیں بلکہ ''ابلاغ'' کے بڑے بڑے ''نقاروں'' کی آوازوں میں ''طوطے'' کی آواز ہی کھوگئی ہے،اس میں شک نہیں کہ ''ابلاغیہ'' ایک رحمت تھی،اس فن شریف میں صرف اہل درد ہوتے تھے جو درد سنتے بھی تھے اورسمجھتے بھی تھے ۔
لیکن بہت سی دوسری نعمتوں کی طرح جب سے یہ نعمت بھی کمرشلائز اورانڈسٹریلائز ہوچکی ہے تب سے یہ نعمت کے بجائے لعنت بنتی جارہی ہے، ایک ایسی قتل گاہ جہاں انسانیت ،اخلاقیات، شرافت اورضمیروں، ایمانوں کو بڑی بے دردی سے ''پی آر'' کی شیطانی قربان گاہ میں ذبح کیا جارہا ہے،مفادات اورکمائیوں کا ایک عفریت ہے جو سب کچھ نگلتاجارہاہے ،مذہب اخلاق ،شرافت، سچائی ، معصومیت،حیا،شرم ،ایمان ضمیر اوررشتے ناطے۔
ویسے بھی یہ ''شور'' باقاعدہ منصوبہ بندی سے مچایاجارہاہے کہ کوئی کسی کی نہ سنے، آزادی کے خوبصورت نام سے ہربکواس کو پذیرائی مل رہی ہے کیوں کہ ''اس آزاد ابلاغیہ '' میں پرانی پابند ابلاغیہ کا دل نہیں بلکہ دماغ کارفرما ہے ایسی کوئی چیز باقی نہیں بچی ہے جسے کمائی کی قربان گاہ پر ذبح کرکے چڑھایا نہ گیاہو۔ چنانچہ اس ابلاغیہ کے نسبتاً کمزورشعبے پرنٹ میڈیا میں کچھ ہو بھی تو جنگل میں مورناچا کس نے دیکھا ۔
ہنسو آج اتنا کہ اس شور میں
صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے
بیچارے خالد صاحب نے بھی اپنے دل کادرد ان دونوں کتابوں میں بکھیر اہواہے اور ان سارے المیوں کا ذکر کیاہے جو اس ملک کو لاحق ہوچکے ہیں۔
''کرسیوں کے چند کیڑے'' ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ ملک سارا کھا چکے ہیں بلکہ اس ملک کے رہنے والوں کو بھی تقریباً کھاچکے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ کرسیوں کے یہ کیڑے کوئی ڈھکے چھپے یا وائرس کی طرح نہیں کہ مائیکروسکوپ کے بغیر نظر نہ آسکیں، بالکل سامنے ہیں ازحد موٹے اورخاندانوں کے خاندان دن دھاڑے کھا رہے ہیں لیکن کوئی ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا کیوں ؟ اس کیوں کا جواب ہے ہمارے پاس لیکن وہ جواب اگر دے دیا تو سارے ''مقدسات''چیخ اٹھیں گے کیوں کہ کافر بنانے کی مشین ان کے پاس بے شمارہیں،اس لیے پوراجواب دینے کے بجائے صرف اتنا اشارہ کافی ہے کہ یہ ملک بنایاہی کیڑوں کے لیے گیاہے عوام تو کالانعام ہوتے ہیں اگر وہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کے لیے بنایاگیاہے۔ تو۔۔۔۔ ان کی کیابات کریں یہ تو ہیں ناداں۔
محترم خالد صاحب ایک معروف لکھنے والے ہیں اورصحافت کا ایک طویل تجربہ رکھتے ہیں اس لیے ان دونوں کتابوں میں وہی کچھ ہوگا اورہے جو ''چیونٹی کے اس گھر'' پاکستان میں ہوتارہاہے یا اندھے کی بیوی بھی کہہ سکتے ہیں ،پشتو کہاوت کے مطابق ''اندھے کی بیوی خدا کے حوالے''۔لیکن ہم نے ان دونوں کتابوں کی تحریروں میں وہ ''چیز''بہت زیادہ محسوس کی ہے جو الفاظ میں نہیں ہے۔
یا ، وہ سارے فسانے میں جس کاذکر نہ تھا۔ وہ غیر موجود اور شدت سے محسوس چیزوہ ''درد'' ہے جو ہر محب وطن ملک و قوم کو اپنا سمجھنے والوں کے دل میں ہوتاہے لیکن ان کی حالت اس کسان کی سی ہوجاتی ہے جس کے کھیت میں کھڑی فصل پر بے مہار اور آوارہ جانوروں نے ہلہ بولا ہواہو ۔کسان کنارے بیٹھا اپنی فصل کا حشر نشر دیکھ رہاہوتاہے لیکن اس کے ہاتھ میں لاٹھی لکڑی نہیں ہوتی جس سے ان جانوروں کو بھگا سکے،بلکہ میں اپنے تجربے کی روشنی میں ان جانوروں کو ''سوروں'' کا گلہ کہوں گا۔
ہمارے علاقے میں پہلے سورنہیں ہوتے تھے لیکن گزشتہ سیلاب میں جب ترائی کاعلاقہ زیر آب آگیا تو یہ سور وہاں سے بھاگ کر ہمارے علاقے میں آگئے جو پہلے خشک علاقہ ہونے کی وجہ سے اس بدبخت جانورسے محفوظ تھا۔چنانچہ آج کل ہم ان سوروں کے ہاتھوںبہت بڑے عذاب میں مبتلا ہیں،ایک تو یہ کہ جھرمٹ کی شکل میں پھرتے ہیں، دوسرا یہ کہ بوقت ضرورت حملہ آورہوکر انسانوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں اورتیسری مصیبت یہ کہ سور اتنا کھاتا نہیں جتنا بربادکرتے ہیں،کھانے کے بعد فصلوں میں لوٹیں لگاتے ہیں اوربچی کچی فصل بھی برباد کرتے ہیں ،اوپر سے کم بخت اتنے عیارہوتے ہیں کہ معمولی اسلحہ کی تو پرواہی نہیں کرتے لیکن اکیلے انسان کو پاکر حملہ آور ہوجاتے ہیں ،چھریدار اور معمولی بورکااسلحہ بھی ان پر بے اثر ہوتاہے کیوں کہ بہت موٹی اورپھسلوان کھال اوڑھے ہوتے ہیں اوربہت زیادہ چربی دار ہونے کی وجہ سے ان کے زخم بھی بہت جلد مندمل ہوجاتے ہیں، مطلب یہ کہ ہرلحاظ سے وہ ہوتے ہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔
صرف خالد صاحب ہی نہیں ہم سب خالی ہاتھ والے ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں ،کھیت کا حشر نشر بھی اوراپنی بے بسی بھی۔
شد آں کہ اہل نظر درکنارہ می رفتند
ہزارگونہ سخن درد ہاں ولب خاموش
یعنی پھر یوں ہواکہ اہل نظر بیچارے ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے ہزارہزار باتیں دل میں لیے اور خاموش لب۔دوسرا شعر حافظ شیراز کی اس غزل کا یہ ہے کہ ۔
بہ بانگ چنگ می گوئیم آں حکایت ہا
کہ ازتفتن آں دیگ سینہ می زد جوش
یعنی میں ''چنگ'' کی آواز میں باتیں کر رہا ہوں کیوں کہ اس ابلتے ہوئے دیگ سے سینہ جل رہاہے، لیکن حافظ کا زمانہ دوسرا تھا اس زمانے میں اگر کوئی بات ''بہ بانگ چنگ''بھی کی جاتی تھی تو لوگ سن لیتے تھے، لیکن بقول خالد صاحب آج کے فتنہ ابلاغ نے اتنا شور مچایاہے کہ کوئی نہ تو کسی کی سنتاہے نہ سمجھتاہے ،سارے کے ساے بول رہے ہیں بلکہ ''ابلاغ'' کے بڑے بڑے ''نقاروں'' کی آوازوں میں ''طوطے'' کی آواز ہی کھوگئی ہے،اس میں شک نہیں کہ ''ابلاغیہ'' ایک رحمت تھی،اس فن شریف میں صرف اہل درد ہوتے تھے جو درد سنتے بھی تھے اورسمجھتے بھی تھے ۔
لیکن بہت سی دوسری نعمتوں کی طرح جب سے یہ نعمت بھی کمرشلائز اورانڈسٹریلائز ہوچکی ہے تب سے یہ نعمت کے بجائے لعنت بنتی جارہی ہے، ایک ایسی قتل گاہ جہاں انسانیت ،اخلاقیات، شرافت اورضمیروں، ایمانوں کو بڑی بے دردی سے ''پی آر'' کی شیطانی قربان گاہ میں ذبح کیا جارہا ہے،مفادات اورکمائیوں کا ایک عفریت ہے جو سب کچھ نگلتاجارہاہے ،مذہب اخلاق ،شرافت، سچائی ، معصومیت،حیا،شرم ،ایمان ضمیر اوررشتے ناطے۔
ویسے بھی یہ ''شور'' باقاعدہ منصوبہ بندی سے مچایاجارہاہے کہ کوئی کسی کی نہ سنے، آزادی کے خوبصورت نام سے ہربکواس کو پذیرائی مل رہی ہے کیوں کہ ''اس آزاد ابلاغیہ '' میں پرانی پابند ابلاغیہ کا دل نہیں بلکہ دماغ کارفرما ہے ایسی کوئی چیز باقی نہیں بچی ہے جسے کمائی کی قربان گاہ پر ذبح کرکے چڑھایا نہ گیاہو۔ چنانچہ اس ابلاغیہ کے نسبتاً کمزورشعبے پرنٹ میڈیا میں کچھ ہو بھی تو جنگل میں مورناچا کس نے دیکھا ۔
ہنسو آج اتنا کہ اس شور میں
صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے
بیچارے خالد صاحب نے بھی اپنے دل کادرد ان دونوں کتابوں میں بکھیر اہواہے اور ان سارے المیوں کا ذکر کیاہے جو اس ملک کو لاحق ہوچکے ہیں۔
''کرسیوں کے چند کیڑے'' ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ ملک سارا کھا چکے ہیں بلکہ اس ملک کے رہنے والوں کو بھی تقریباً کھاچکے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ کرسیوں کے یہ کیڑے کوئی ڈھکے چھپے یا وائرس کی طرح نہیں کہ مائیکروسکوپ کے بغیر نظر نہ آسکیں، بالکل سامنے ہیں ازحد موٹے اورخاندانوں کے خاندان دن دھاڑے کھا رہے ہیں لیکن کوئی ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا کیوں ؟ اس کیوں کا جواب ہے ہمارے پاس لیکن وہ جواب اگر دے دیا تو سارے ''مقدسات''چیخ اٹھیں گے کیوں کہ کافر بنانے کی مشین ان کے پاس بے شمارہیں،اس لیے پوراجواب دینے کے بجائے صرف اتنا اشارہ کافی ہے کہ یہ ملک بنایاہی کیڑوں کے لیے گیاہے عوام تو کالانعام ہوتے ہیں اگر وہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کے لیے بنایاگیاہے۔ تو۔۔۔۔ ان کی کیابات کریں یہ تو ہیں ناداں۔