اس بے حسی کی کوئی حد بھی ہے
ایسے مخیر حضرات کی موجودگی میں ایسے لوگوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے جو انسانیت کے برعکس ایسے کام کر رہے ہیں
دنیا بھر میں پھیلی ہوئی عالمی وبا کورونا وائرس میں جہاں کچھ لوگ اپنی جانیں داؤ پر لگا کر وائرس میں مبتلا جاں بلب مریضوں کو بچا رہے ہیں ،وہاں ایسے بدبختوں کی بھی کمی نہیں جو موجودہ حالات میں وبا سے محفوظ کروڑوں لوگوں کو مختلف طریقوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں۔ پاکستان دنیا کا پانچواں ملک ہے کہ جہاں کے لوگ بڑی تعداد میں مخیر، انسانیت کے داعی، غریبوں کے ہمدرد اور انھیں مالی مدد دینے میں پیش پیش رہتے ہیں اور مصیبت کی کسی گھڑی میں پیچھے نہیں رہتے اور اپنی اپنی مالی حیثیت کے مطابق دل کھول کر ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔
ایسے مخیر حضرات کی موجودگی میں ایسے لوگوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے جو انسانیت کے برعکس ایسے کام کر رہے ہیں جنھیں دیکھ کر انسانیت ہی نہیں شیطانیت بھی شرما رہی ہے۔ ایسے لوگوں کو کیا نام دیا جائے جن کے لیے بے حسی جیسے الفاظ بھی بہت چھوٹے ہیں کیونکہ اس عالمی وبا میں ان کا شرمناک کردار قابل مذمت تو ہے ہی مگر ہمارے مذہب کی تعلیمات کے بالکل برعکس لادینیوں سے بدتر ہے۔ اسلام کی تعلیمات مسلمانوں کو نیکی اور صلہ رحمی کا درس دیتی ہیں اور غیرمسلموں میں بھی جانوروں کے ساتھ بھی وہ سلوک نہیں کیا جاتا جو مسلمان کہلانے والے یہ ظالم اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ کر رہے ہیں اور ان کا مقصد صرف اور صرف ناجائز اور غیر قانونی ذرائع اختیار کرکے پیسے کا وہ حصول ہے جو کبھی بھی ان کا پیٹ نہیں بھرنے دے رہا نہ بھرنے دے گا۔
ملک میں کورونا کی تشویش ناک صورتحال میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ لوگ بے روزگار اور متاثر ہیں اور کوئی پتا نہیں کہ یہ صورتحال کب تک برقرار رہے اور ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کی سالانہ کمائی کا مبارک مہینہ رمضان جاری ہے، جس کے تقدس کا کبھی ان لوگوں نے احترام نہیں کیا۔ رجب اور شعبان ایسے اہم مہینے ہیں جن میں خوف خدا رکھنے والے مسلمان رمضان المبارک میں روزے رکھنے کی فکر کرتے ہیں تو دوسری طرف رمضان کے احترام سے عاری اور رمضان کو ناجائز کمائی کا مہینہ سمجھنے والے نام کے مسلمان منصوبے بناتے ہیں کہ کون سی اشیا ذخیرہ کرنے کے لیے محفوظ کی جائے جس کی طلب زیادہ ہو جاتی ہے اور مصنوعی قلت پیدا کی جاسکتی ہے تاکہ منہ مانگے داموں فروخت کی جاسکے۔
اس بار رمضان سے قبل ناجائز منافع خوروں کی ہی کمی نہیں تھی کہ ایسے مزید انسانیت سے عاری عناصر میدان میں آگئے ہیں جن کے لیے کورونا وائرس موقعہ غنیمت ثابت ہوا ہے جو اس وبا میں استعمال ہونے والی اشیا ماسک، گلووز، سینی ٹائزر کی مہنگے داموں فروخت کو سنہری موقعہ سمجھ بیٹھے ہیں اور اس وبا میں ان اشیا کی قلت کا بھرپور فائدہ اٹھا کر یہ اشیا منہ مانگے داموں فروخت کر رہے ہیں۔
ایسے حالات میں وہ دھوکے باز بھی پیچھے نہیں رہے جو ماضی میں قدرتی آفت کے موقع پر نام نہاد خودساختہ سماجی ادارے بنا کر سادہ لوح لوگوں سے متاثرین کی مدد کے نام پر عطیات، راشن اور دیگر اشیا جمع کرنے میدان میں آجاتے تھے اور کہیں کیمپ لگا کر کہیں گاڑیوں میں لاؤڈ اسپیکر لگا کر گلیوں اور نواحی آبادیوں میں امدادی اشیا اور چندہ جمع کرنے نکل پڑتے ہیں، برساتی مینڈکوں کی طرح راتوں رات یہ خودساختہ فلاحی غیر رجسٹرڈ تنظیمیں نمودار ہوجاتی ہیں اور عوام کو دھوکہ دے کر عطیات جمع اور سامان بٹور کر یہ موقع پرست متاثرین کی مدد کے نام پر رقم اور قیمتی سامان خود ہڑپ کر جاتے ہیں اور غیر ضروری اشیا متاثرین میں بانٹ کر یا سرعام رکھ کر غائب ہوجاتے ہیں اور حقیقی متاثرین امدادی سامان کا انتظار کرتے رہ جاتے ہیں۔
اس بار امدادی سامان کی فروخت کا نیا مذموم دھندہ بھی ایجاد ہوا ہے اور امداد کے مستحق افراد میں پچاس پچاس روپے میں جعلی فارم فروخت کرنے والے بھی گرفتار ہوئے ہیں جو نام نہاد سماجی کارکن بن کر غریبوں کو لوٹ رہے تھے یعنی جعلساز کوئی بھی ایسا موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے جہاں سے انھیں ناجائز کمائی کا موقعہ مل رہا ہو۔ ناجائز منافع خوری تو عام حالات میں بھی شریعت کے خلاف اور غیر قانونی ہوتی ہے مگر ثواب کمانے کے متبرک مہینے رمضان المبارک اور قدرتی آفت کے موقع پر ایسی شرمناک حرکات دنیا بھر میں پاکستانیوں وہ بھی مسلمان کہلانے والوں کو بدنام کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔
ملک میں مخیرحضرات راشن و ضروری چیزیں ملک کے ضرورت مندوں میں مفت تقسیم کر رہے ہیں تو مسلمان کہلانے والے لٹیرے گراں فروشی کی انتہا کرکے ضرورت مندوں کو دن دیہاڑے لوٹ رہے ہیں اور لوگوں کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں اور انھیں اس وبا میں خود بھی مرنے کا خوف ہے اور نہ ہی کوئی احساس اور انھوں نے گراں فروشی کے نئے ریکارڈ قائم کردیے ہیں۔ لاہور میں دو ڈھائی سو روپے میں ملنے والا ایک سو ماسک کا پیکٹ ڈھائی ہزار میں اور 50 روپے والا اچھا ماسک پانچ سو روپے میں فروخت کیا گیا۔
حکومتی دعوؤں کے برعکس آٹے کی قلت نہیں مگر چکی کا آٹا ضرورت مندوں کو نوے اور سو روپے میں خریدنا پڑا۔ آٹے میں پلاسٹک کی آمیزش بھی کئی شہروں میں منظر عام پر آئی۔ ملاوٹی اور مضر صحت اشیا بنانے والوں کو بھی کمانے کا بھرپور موقع ملا جب اشیائے ضرورت ناپید ہوں تو ان کا معیار اور گرانی کون دیکھتا ہے۔ پیسے والوں نے اپنے گھروں میں مہینوں کا راشن جمع کرلیا اور روزانہ کمانے والوں کو اس وبا میں مزدوری نہ ملی کہ وہ دو وقت کی روٹی کا ہی انتظام کرسکتے۔ کورونا کی وبا میں انسانیت دشمن لٹیروں نے ہر ضرورت مند کو لوٹا ۔
ایسے حالات میں حکومتی مفاد پرستوں کو گراں فروشوں کو پکڑنے کی بجائے یہ فکر تھی کہ بہتی گنگا میں نہانے سے محروم نہ رہ جائیں سیاسی مفاد پرستوں کی اقربا پروری بھی چھپی نہ رہی اور انھوں نے بھی ہاتھ دھونے کا موقعہ غنیمت جانا اور کوئی کسر نہ چھوڑی۔ قدرتی آفات کمائی کا ذریعہ نہیں ہوتیں اور فلاحی کام صرف اور صرف انسانیت کے لیے خوف خدا سے کیے جاتے ہیں مگر ایسے حالات میں لٹیروں کی بے حسی خون کے آنسو رلا دیتی ہے۔ لٹیروں، بے حسوں اور ظالموں کو کیا نام دیا جائے اور ننگ انسانیت لوگوں کو کیسے احساس دلایا جائے کہ یہ کمائی کا نہیں آخرت سنوارنے کا موقعہ ہے۔ انھیں بھی مرنا ہے قدرتی آفت میں تو حکمران بھی لپیٹ میں آگئے تو یہ بے حس خدا کی پکڑ سے کب تک محفوظ اور لوٹنے میں آزاد رہیں گے؟
ایسے مخیر حضرات کی موجودگی میں ایسے لوگوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے جو انسانیت کے برعکس ایسے کام کر رہے ہیں جنھیں دیکھ کر انسانیت ہی نہیں شیطانیت بھی شرما رہی ہے۔ ایسے لوگوں کو کیا نام دیا جائے جن کے لیے بے حسی جیسے الفاظ بھی بہت چھوٹے ہیں کیونکہ اس عالمی وبا میں ان کا شرمناک کردار قابل مذمت تو ہے ہی مگر ہمارے مذہب کی تعلیمات کے بالکل برعکس لادینیوں سے بدتر ہے۔ اسلام کی تعلیمات مسلمانوں کو نیکی اور صلہ رحمی کا درس دیتی ہیں اور غیرمسلموں میں بھی جانوروں کے ساتھ بھی وہ سلوک نہیں کیا جاتا جو مسلمان کہلانے والے یہ ظالم اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ کر رہے ہیں اور ان کا مقصد صرف اور صرف ناجائز اور غیر قانونی ذرائع اختیار کرکے پیسے کا وہ حصول ہے جو کبھی بھی ان کا پیٹ نہیں بھرنے دے رہا نہ بھرنے دے گا۔
ملک میں کورونا کی تشویش ناک صورتحال میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ لوگ بے روزگار اور متاثر ہیں اور کوئی پتا نہیں کہ یہ صورتحال کب تک برقرار رہے اور ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کی سالانہ کمائی کا مبارک مہینہ رمضان جاری ہے، جس کے تقدس کا کبھی ان لوگوں نے احترام نہیں کیا۔ رجب اور شعبان ایسے اہم مہینے ہیں جن میں خوف خدا رکھنے والے مسلمان رمضان المبارک میں روزے رکھنے کی فکر کرتے ہیں تو دوسری طرف رمضان کے احترام سے عاری اور رمضان کو ناجائز کمائی کا مہینہ سمجھنے والے نام کے مسلمان منصوبے بناتے ہیں کہ کون سی اشیا ذخیرہ کرنے کے لیے محفوظ کی جائے جس کی طلب زیادہ ہو جاتی ہے اور مصنوعی قلت پیدا کی جاسکتی ہے تاکہ منہ مانگے داموں فروخت کی جاسکے۔
اس بار رمضان سے قبل ناجائز منافع خوروں کی ہی کمی نہیں تھی کہ ایسے مزید انسانیت سے عاری عناصر میدان میں آگئے ہیں جن کے لیے کورونا وائرس موقعہ غنیمت ثابت ہوا ہے جو اس وبا میں استعمال ہونے والی اشیا ماسک، گلووز، سینی ٹائزر کی مہنگے داموں فروخت کو سنہری موقعہ سمجھ بیٹھے ہیں اور اس وبا میں ان اشیا کی قلت کا بھرپور فائدہ اٹھا کر یہ اشیا منہ مانگے داموں فروخت کر رہے ہیں۔
ایسے حالات میں وہ دھوکے باز بھی پیچھے نہیں رہے جو ماضی میں قدرتی آفت کے موقع پر نام نہاد خودساختہ سماجی ادارے بنا کر سادہ لوح لوگوں سے متاثرین کی مدد کے نام پر عطیات، راشن اور دیگر اشیا جمع کرنے میدان میں آجاتے تھے اور کہیں کیمپ لگا کر کہیں گاڑیوں میں لاؤڈ اسپیکر لگا کر گلیوں اور نواحی آبادیوں میں امدادی اشیا اور چندہ جمع کرنے نکل پڑتے ہیں، برساتی مینڈکوں کی طرح راتوں رات یہ خودساختہ فلاحی غیر رجسٹرڈ تنظیمیں نمودار ہوجاتی ہیں اور عوام کو دھوکہ دے کر عطیات جمع اور سامان بٹور کر یہ موقع پرست متاثرین کی مدد کے نام پر رقم اور قیمتی سامان خود ہڑپ کر جاتے ہیں اور غیر ضروری اشیا متاثرین میں بانٹ کر یا سرعام رکھ کر غائب ہوجاتے ہیں اور حقیقی متاثرین امدادی سامان کا انتظار کرتے رہ جاتے ہیں۔
اس بار امدادی سامان کی فروخت کا نیا مذموم دھندہ بھی ایجاد ہوا ہے اور امداد کے مستحق افراد میں پچاس پچاس روپے میں جعلی فارم فروخت کرنے والے بھی گرفتار ہوئے ہیں جو نام نہاد سماجی کارکن بن کر غریبوں کو لوٹ رہے تھے یعنی جعلساز کوئی بھی ایسا موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے جہاں سے انھیں ناجائز کمائی کا موقعہ مل رہا ہو۔ ناجائز منافع خوری تو عام حالات میں بھی شریعت کے خلاف اور غیر قانونی ہوتی ہے مگر ثواب کمانے کے متبرک مہینے رمضان المبارک اور قدرتی آفت کے موقع پر ایسی شرمناک حرکات دنیا بھر میں پاکستانیوں وہ بھی مسلمان کہلانے والوں کو بدنام کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔
ملک میں مخیرحضرات راشن و ضروری چیزیں ملک کے ضرورت مندوں میں مفت تقسیم کر رہے ہیں تو مسلمان کہلانے والے لٹیرے گراں فروشی کی انتہا کرکے ضرورت مندوں کو دن دیہاڑے لوٹ رہے ہیں اور لوگوں کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں اور انھیں اس وبا میں خود بھی مرنے کا خوف ہے اور نہ ہی کوئی احساس اور انھوں نے گراں فروشی کے نئے ریکارڈ قائم کردیے ہیں۔ لاہور میں دو ڈھائی سو روپے میں ملنے والا ایک سو ماسک کا پیکٹ ڈھائی ہزار میں اور 50 روپے والا اچھا ماسک پانچ سو روپے میں فروخت کیا گیا۔
حکومتی دعوؤں کے برعکس آٹے کی قلت نہیں مگر چکی کا آٹا ضرورت مندوں کو نوے اور سو روپے میں خریدنا پڑا۔ آٹے میں پلاسٹک کی آمیزش بھی کئی شہروں میں منظر عام پر آئی۔ ملاوٹی اور مضر صحت اشیا بنانے والوں کو بھی کمانے کا بھرپور موقع ملا جب اشیائے ضرورت ناپید ہوں تو ان کا معیار اور گرانی کون دیکھتا ہے۔ پیسے والوں نے اپنے گھروں میں مہینوں کا راشن جمع کرلیا اور روزانہ کمانے والوں کو اس وبا میں مزدوری نہ ملی کہ وہ دو وقت کی روٹی کا ہی انتظام کرسکتے۔ کورونا کی وبا میں انسانیت دشمن لٹیروں نے ہر ضرورت مند کو لوٹا ۔
ایسے حالات میں حکومتی مفاد پرستوں کو گراں فروشوں کو پکڑنے کی بجائے یہ فکر تھی کہ بہتی گنگا میں نہانے سے محروم نہ رہ جائیں سیاسی مفاد پرستوں کی اقربا پروری بھی چھپی نہ رہی اور انھوں نے بھی ہاتھ دھونے کا موقعہ غنیمت جانا اور کوئی کسر نہ چھوڑی۔ قدرتی آفات کمائی کا ذریعہ نہیں ہوتیں اور فلاحی کام صرف اور صرف انسانیت کے لیے خوف خدا سے کیے جاتے ہیں مگر ایسے حالات میں لٹیروں کی بے حسی خون کے آنسو رلا دیتی ہے۔ لٹیروں، بے حسوں اور ظالموں کو کیا نام دیا جائے اور ننگ انسانیت لوگوں کو کیسے احساس دلایا جائے کہ یہ کمائی کا نہیں آخرت سنوارنے کا موقعہ ہے۔ انھیں بھی مرنا ہے قدرتی آفت میں تو حکمران بھی لپیٹ میں آگئے تو یہ بے حس خدا کی پکڑ سے کب تک محفوظ اور لوٹنے میں آزاد رہیں گے؟