کورونا کی وباء گھروں میں کام کرنیوالی محنت کش خواتین بھی بیروزگار

سلائی کڑھائی اور چوڑیاں بنانے کے کام سمیت مختلف کام کرنیوالی خواتین لاک ڈاؤن کے بعد سے فارغ بیٹھی ہوئی ہیں

ان خواتین کے مرد مختلف قسم کی مزدوری کرتے ہیں، وہ بھی آج کل بے روزگار ہیں جس سے ان کا گزارہ مشکل ہوگیا ۔ فوٹو : فائل

کورونا وائرس کے باعث صوبہ سندھ میں جاری لاک سے لاکھوں کی تعداد میں مزدوروں کا روزگار متاثر ہوا ان میں گھروں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔

ان مزدوروں میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین کا بھی شمار ہوتا ہے جو گھروں میں مختلف قسم کی مزدوری کرکے اپنے خاندانوں کا سہارا بنی ہوئی تھیں،ان میں سلائی کڑھائی اور چوڑیاں بنانے کے کام سمیت مختلف کام شامل ہیں، لاک ڈاؤن کے باعث مذکورہ خواتین بری طرح متاثر ہوئیں کیونکہ مارچ سے شروع ہونیوالے لاک ڈاؤن کے بعد اب تک وہ فارغ بیٹھی ہوئی ہیں اور ان کے پاس کسی قسم کا کام کرنے کو نہیں، گھروں میں کام کرنیوالی ایسی خواتین کی اکثریت کراچی اور حیدرآباد میں مقیم ہیں، عام طور پر ان خواتین کا تعلق غریب طبقے سے ہونے کی وجہ سے ان کے مرد بھی مختلف قسم کی مزدوری کرتے ہیں۔


لاک ڈاؤن کے باعث ایک طرف ان کا اپنا کام ٹھپ ہوگیا تو دوسری جانب ان کے مزدوری کرنے والے مرد بھی بے روزگار ہوکر گھروں میں بیٹھ گئے جس کے بعد ان ایسے گھروں کا گزارا مشکل ہوگیا، نیو کراچی کی رہائشی غزالہ جو کہ محنت مزدوری کرکے اپنے تین بچوں کا پیٹ پال رہی ہے نے ایکسپریس کو بتایا کہ وہ اور علاقے کی دوسری بیشتر خواتین کافی عرصے سے گھروں میں بیٹھ کر دلہنوں کے کپڑے تیار کرنے کا کام کرتی ہیں، مختلف دکانوں یا کارخانوں سے وابستہ ٹھیکے دار انھیں کام دیتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے بعد ان کے پاس کام آنا بند ہوگیا، اسی طرح کی صورتحال حیدرآباد میں چوڑی کا کام کرنے والی کئی عورتوں کو بھی درپیش ہے۔

ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن حیدرآباد کی عہدیدار شکیلہ خان نے ایکسپریس کو بتایا کہ حیدرآباد میں گھروں میں چوڑیوں کا کام کرنیوالی عورتوں کے مرد بھی دیہاڑی دار مزدور ہیں، لاک ڈاؤن کے باعث مرد بھی بے روزگار ہوگئے تو چوڑیوں کے اکثر کارخانے بھی بند ہونے سے عورتوں کو بھی کام ملنا بند ہوگیا، حیدرآباد میں 25 ہزار کے قریب عورتیں چوڑی کے کام سے وابستہ ہیں،ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی مرکزی جنرل سیکریٹری زہرہ خان نے ایکسپریس کو بتایا کہ ایسی خواتین محنت کشوں کے تحفظ کے لیے قوانین بھی موجود نہیں جس کے باعث یہ خواتین ورکرز سوشل سکیورٹی سے بھی محروم ہیں۔
Load Next Story