موت سے نہیں کورونا سے ڈر لگتا ہے
محض ہمارے ہاں ہی نہیں، پوری دنیا میں کورونا نے معاشرتی اور سماجی روایات کو الٹ پلٹ دیا ہے
ہر پل، ہر ثانیے نیوز چینلز پر کورونا کی خبریں سن کر اور اس کی کوریج دیکھ کر بے شمار لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ کورونا وائرس کو اتنا بڑھا چڑھا کر کیوں پیش کیا جارہا ہے؟ کیا دنیا میں اس کے علاوہ کوئی ضروری خبر باقی نہیں رہی کہ دنیا بھر کا میڈیا محض کورونا وائرس کو ہی اپنا فوکس بنائے ہوئے ہے۔ ان لوگوں کا یہ بھی اعتراض ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں، کروڑوں لوگ دیگر بیماریوں سے بھی تو مر جاتے ہیں، حتیٰ کہ ہر سال بھوک کئی لاکھ لوگوں کو نگل جاتی ہے، پھر ان باقی چیزوں کو اتنی ترجیح کیوں نہیں دی جاتی جتنی کورونا کو دی جارہی ہے؟
یہ اعتراضات بالکل بجا کہ ان سے انکار ممکن نہیں۔ ایسی دنیا جہاں ہر سال کم و بیش 4 کروڑ زندگیاں اسقاطِ حمل کے ذریعے چھین لی جاتی ہیں، جسے باقاعدہ طور پر ''میرا جسم، میری مرضی'' کے تحت انسانی حق تسلیم کیا گیا ہے، وہاں اگر ایک آدھ لاکھ بندہ کورونا سے مر بھی جائے تو اتنا ڈرنے گھبرانے اور پوری دنیا کو لاک ڈاؤن کرنے اور کرفیو لگانے کی کیا ضرورت ہے؟
ہر سال ایڈز جیسی لاعلاج بیماری کے مریضوں کی تعداد میں بھی تو 9 کروڑ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ جہاں ہر سال 30 لاکھ سے زائد افراد سگریٹ اور 20 لاکھ سے زائد الکوحل کے باعث موت کے گھاٹ اتر جاتے ہوں، جہاں ٹریفک حادثات کے باعث 10 لاکھ سالانہ اموات ہوتی ہوں اور تقریباً اتنے ہی افراد خود اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہوں، وہاں کورونا کس کھاتے میں آتا ہے؟ یہ یقیناً کوئی بڑی سازش کسی ورلڈ آرڈر کا حصہ ہے۔ وگرنہ یہ بیماری اتنی بڑی نہیں، یہ محض خوف کا کاروبار ہے کہ اسے اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔
مجھے باقیوں کا تو علم نہیں، لیکن مجھے آج یہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں کہ مجھے کورونا سے واقعی ڈر لگتا ہے اور میں اس سے بے حد خوفزدہ ہوں۔ میں ہی کیا، ہر وہ شخص اس بیماری سے ڈرا ہوا ہے جو اس بیماری کے سبب اپنے خاندان، اپنے کسی پیارے کو کھو دینے کے صدمے یا خدشے سے دوچار ہے۔ انسان جب کبھی اپنی موت کا تصور کرتا ہے تو زیادہ تر اس کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی موت اس کے اپنے قریبی افراد کی موجودگی میں ہو، اس کے اپنے اُسے اِس دنیا سے رخصت کریں۔ مگر یہ نامراد مرض تو ایسا ہے کہ کسی شخص کے وقتِ وفات اس کے گھر والے، اس کے دوست احباب اور عزیز رشتہ دار وغیرہ اس کے قریب موجود بھی نہیں ہوسکتے، کجا کہ ان کا ہاتھ پکڑا جائے، ان سے دل کی بات کی جائے یا معافی تلافی کی کوئی بات ہو۔ اسی طرح جب کوئی شخص کورونا میں مبتلا ہوکر مرجاتا ہے تو عزیز و اقارب آخری رسومات، جنازہ و تدفین میں ٹھیک سے شرکت نہیں کرسکتے، ایک دوسرے کے غم میں شریک نہیں ہو سکتے، کسی کو گلے لگا کر رو نہیں سکتے۔ اب بھلا جو مرض خطرناک اور چھوت کا ہو، اس سے ڈرنا اور ڈرانا بنتا ہے کہ نہیں؟
گزشتہ دنوں میئر کراچی وسیم اختر کا یہ بیان پڑھنے کو ملا کہ کورونا سے انتقال کرجانے والوں کو کراچی کے مخصوص 5 قبرستانوں میں ہی دفن کیا جائے گا (اب بھلا جن کی آبائی قبریں کسی اور قبرستان میں ہوں وہ کیا کریں، بندہ اپنے آباء کے ساتھ دفن بھی نہیں ہوسکتا؟) جبکہ نمازِ جنازہ میں محض 2 قریبی رشتے داروں کو شرکت کی اجازت ہوگی اور قبرستان میں قریبی عزیزوں کو میت کے آخری دیدار کی اجازت نہیں ہوگی۔ کیا اس طرح کے احکامات سن کر خوف نہیں آتا؟ کیا آپ میں سے کوئی اس حالت میں مرنا پسند کرے گا؟
سوچیے لاہور کی اس ماں پر کیا گزری ہوگی کہ شوہر کے بعد جس کے دو چھوٹے بچوں کو کورونا وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دس سالہ بیٹے اور سات سالہ بیٹی کو ایمبولینس میں بٹھانے اور قرنطینہ منتقلی کا منظر خاصا دل فگار تھا۔ جن لوگوں نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا، ان کے لیے تو تکلیف دہ تھا ہی، سوشل میڈیا پر بھی یہ تصویریں کچھ ہی دیر میں وائرل ہوگئیں اور سبھی نے نہایت دل گرفتگی سے یہ تصاویر دیکھیں۔ شنید ہے کہ ماں نے کچھ کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ قرآن پاک تھما کر اپنے بچوں کو رخصت کیا۔ عام حالات میں تو ماں ایک پل کو بھی بچوں کو نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتی، مگر یہ کورونا کا مرضِ رذیلہ ہی ہے جو اپنے پیاروں سے دور رہنے پر مجبور کررہا ہے۔
اسی طرح یہ خبر بھی سب کی نظروں سے گزری ہوگی کہ خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلا میں ایک مولوی صاحب نے کورونا وائرس سے مرنے والے شخص کی نمازِ جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا، جس کے بعد ڈاکٹر نے خود میت کو غسل دیا، نمازِ جنازہ پڑھائی اور اس کی تجہیز و تکفین کی۔ اسی طرح مصر میں کورونا کے باعث ہلاک ہونے والی ایک ڈاکٹر کی تدفین کے موقع پر ہنگامہ آرائی دیکھنے کو ملی جب درجنوں افراد نے تدفین میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے قبرستان اور علاقے میں توڑ پھوڑ شروع کردی، کیونکہ انہیں بتایا گیا تھا کہ کورونا سے وفات پانے والی ڈاکٹر کی میت کی اس قبرستان میں تدفین سے علاقے میں کورونا کی وبا پھوٹ پڑے گی۔ برطانیہ میں تو لوگوں نے احتجاج کرکے حکومت کو جاں بہ لب مریضوں کے رشتے داروں کو آخری لمحات میں اپنے عزیزوں کے سرہانے موجود رہنے کی اجازت دینے پر مجبور کیا۔ محض ہمارے ہاں ہی نہیں، پوری دنیا میں کورونا نے معاشرتی اور سماجی روایات کو الٹ پلٹ دیا ہے۔
کورونا وائرس سے متعلق اس طرح کی خبریں پڑھ کر مجھے نجانے کیوں ابولہب کی موت کا واقعہ یاد آجاتا ہے۔ روایت ہے کہ دشمنِ اسلام ابولہب عدسہ نامی ایک بیماری میں مبتلا ہوکر مرا تھا۔ (عدسہ کو کچھ طاعون اور کچھ چیچک سے مشابہ قرار دیتے ہیں) اس بیماری سے اس کا تمام بدن سڑنے لگا تھا۔ عرب کے لوگ عدسہ سے بہت ڈرتے تھے اور اس بیماری میں مرنے والے کو بہت منحوس سمجھتے تھـے۔ اس بیماری کا خوف اس قدر زیادہ تھا کہ ابولہب کے بیٹے بھی اس سے دور بھاگتے تھے، حتیٰ کہ کھانا وغیرہ اس تک پہنچانے کی ذمے داری بھی کچھ غلاموں کو سونپی گئی تھی۔ ابولہب جب مرگیا تو کسی کو خبر ہی نہ ہوسکی اور تین دن تک لاش گھر میں ہی پڑی رہی۔ پورا گھر جب بدبو سے بھر گیا تو علم ہوا کہ ابولہب مرچکا ہے مگر تب بھی اس کے بیٹے اسے دفنانے سے گریزاں رہے۔ بالآخر قریش کے ایک آدمی نے اس کے بیٹوں کو شرم دلائی کہ تمہارا باپ گھر میں پڑا سڑ رہا ہے اور تم ہو کہ اسے دفن نہیں کرتے۔ اس پر بیٹوں نے جواب دیا کہ ہمیں ڈر ہے کہ اس کی بیماری کہیں ہمارے گلے نہ پڑ جائے۔
اِس شخص نے اس کے بیٹوں کو مدد کا یقین دلایا اور یوں ابولہب کو دفنانے کی تیاری شروع ہوئی، مگر تب بھی کوئی خود آگے نہیں بڑھا بلکہ ان سب نے مل کر کچھ سوڈانی غلام بلائے جنہوں نے لکڑی کے بانسوں کی مدد سے لاش کو گھسیٹے ہوئے گھر سے باہر نکالا، دور سے گلی سڑی لاش پر پانی پھینکا اور پھر ایک گڑھا کھود کر لکڑیوں سے دھکیلتے ہوئے لاش کو وہاں تک لے گئے اور اس گڑھے میں لاش کو گرا کر کچھ مٹی اس میں ڈال دی، پھر لوگوں نے دور دور سے ہی اس گڑھے میں اس قدر پتھر پھینکے کہ ان پتھروں سے اس کی لاش چھپ گئی۔ (بحوالہ زرقانی ج1، دلائل النبوۃ للبیہقی)
لہٰذا موت سے تو علم نہیں کہ ڈر لگتا ہے یا نہیں لیکن کورونا سے ضرور ڈر لگتا ہے۔ میں ابولہب جیسی خوفناک موت اور تدفین نہیں چاہتا۔ میں نہیں چاہتا کہ میں مروں تو میرے گھر والے یا قریبی عزیزوں میں سے کوئی بھی میرے پاس موجود نہ ہو، مجھے کوئی غسل دینے یا میرا جنازہ پڑھانے کے لیے آگے نہ بڑھے، میرے جنازہ میں گنتی کے چند لوگ شامل ہوں۔ اگرچہ مرنے والوں کو ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور بقول حضرت اسما بنت ابی بکر، جب بکری ذبح ہوجائے تو پھر اس کی کھال کھینچی جائے یا اس کے جسم کے ٹکڑے کیے جائیں، کیا فرق پڑتا ہے۔ لیکن پھر بھی مجھے ڈر لگتا ہے، موت سے نہیں، کورونا سے ڈر لگتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ اعتراضات بالکل بجا کہ ان سے انکار ممکن نہیں۔ ایسی دنیا جہاں ہر سال کم و بیش 4 کروڑ زندگیاں اسقاطِ حمل کے ذریعے چھین لی جاتی ہیں، جسے باقاعدہ طور پر ''میرا جسم، میری مرضی'' کے تحت انسانی حق تسلیم کیا گیا ہے، وہاں اگر ایک آدھ لاکھ بندہ کورونا سے مر بھی جائے تو اتنا ڈرنے گھبرانے اور پوری دنیا کو لاک ڈاؤن کرنے اور کرفیو لگانے کی کیا ضرورت ہے؟
ہر سال ایڈز جیسی لاعلاج بیماری کے مریضوں کی تعداد میں بھی تو 9 کروڑ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ جہاں ہر سال 30 لاکھ سے زائد افراد سگریٹ اور 20 لاکھ سے زائد الکوحل کے باعث موت کے گھاٹ اتر جاتے ہوں، جہاں ٹریفک حادثات کے باعث 10 لاکھ سالانہ اموات ہوتی ہوں اور تقریباً اتنے ہی افراد خود اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہوں، وہاں کورونا کس کھاتے میں آتا ہے؟ یہ یقیناً کوئی بڑی سازش کسی ورلڈ آرڈر کا حصہ ہے۔ وگرنہ یہ بیماری اتنی بڑی نہیں، یہ محض خوف کا کاروبار ہے کہ اسے اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔
مجھے باقیوں کا تو علم نہیں، لیکن مجھے آج یہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں کہ مجھے کورونا سے واقعی ڈر لگتا ہے اور میں اس سے بے حد خوفزدہ ہوں۔ میں ہی کیا، ہر وہ شخص اس بیماری سے ڈرا ہوا ہے جو اس بیماری کے سبب اپنے خاندان، اپنے کسی پیارے کو کھو دینے کے صدمے یا خدشے سے دوچار ہے۔ انسان جب کبھی اپنی موت کا تصور کرتا ہے تو زیادہ تر اس کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی موت اس کے اپنے قریبی افراد کی موجودگی میں ہو، اس کے اپنے اُسے اِس دنیا سے رخصت کریں۔ مگر یہ نامراد مرض تو ایسا ہے کہ کسی شخص کے وقتِ وفات اس کے گھر والے، اس کے دوست احباب اور عزیز رشتہ دار وغیرہ اس کے قریب موجود بھی نہیں ہوسکتے، کجا کہ ان کا ہاتھ پکڑا جائے، ان سے دل کی بات کی جائے یا معافی تلافی کی کوئی بات ہو۔ اسی طرح جب کوئی شخص کورونا میں مبتلا ہوکر مرجاتا ہے تو عزیز و اقارب آخری رسومات، جنازہ و تدفین میں ٹھیک سے شرکت نہیں کرسکتے، ایک دوسرے کے غم میں شریک نہیں ہو سکتے، کسی کو گلے لگا کر رو نہیں سکتے۔ اب بھلا جو مرض خطرناک اور چھوت کا ہو، اس سے ڈرنا اور ڈرانا بنتا ہے کہ نہیں؟
گزشتہ دنوں میئر کراچی وسیم اختر کا یہ بیان پڑھنے کو ملا کہ کورونا سے انتقال کرجانے والوں کو کراچی کے مخصوص 5 قبرستانوں میں ہی دفن کیا جائے گا (اب بھلا جن کی آبائی قبریں کسی اور قبرستان میں ہوں وہ کیا کریں، بندہ اپنے آباء کے ساتھ دفن بھی نہیں ہوسکتا؟) جبکہ نمازِ جنازہ میں محض 2 قریبی رشتے داروں کو شرکت کی اجازت ہوگی اور قبرستان میں قریبی عزیزوں کو میت کے آخری دیدار کی اجازت نہیں ہوگی۔ کیا اس طرح کے احکامات سن کر خوف نہیں آتا؟ کیا آپ میں سے کوئی اس حالت میں مرنا پسند کرے گا؟
سوچیے لاہور کی اس ماں پر کیا گزری ہوگی کہ شوہر کے بعد جس کے دو چھوٹے بچوں کو کورونا وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دس سالہ بیٹے اور سات سالہ بیٹی کو ایمبولینس میں بٹھانے اور قرنطینہ منتقلی کا منظر خاصا دل فگار تھا۔ جن لوگوں نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا، ان کے لیے تو تکلیف دہ تھا ہی، سوشل میڈیا پر بھی یہ تصویریں کچھ ہی دیر میں وائرل ہوگئیں اور سبھی نے نہایت دل گرفتگی سے یہ تصاویر دیکھیں۔ شنید ہے کہ ماں نے کچھ کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ قرآن پاک تھما کر اپنے بچوں کو رخصت کیا۔ عام حالات میں تو ماں ایک پل کو بھی بچوں کو نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتی، مگر یہ کورونا کا مرضِ رذیلہ ہی ہے جو اپنے پیاروں سے دور رہنے پر مجبور کررہا ہے۔
اسی طرح یہ خبر بھی سب کی نظروں سے گزری ہوگی کہ خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلا میں ایک مولوی صاحب نے کورونا وائرس سے مرنے والے شخص کی نمازِ جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا، جس کے بعد ڈاکٹر نے خود میت کو غسل دیا، نمازِ جنازہ پڑھائی اور اس کی تجہیز و تکفین کی۔ اسی طرح مصر میں کورونا کے باعث ہلاک ہونے والی ایک ڈاکٹر کی تدفین کے موقع پر ہنگامہ آرائی دیکھنے کو ملی جب درجنوں افراد نے تدفین میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے قبرستان اور علاقے میں توڑ پھوڑ شروع کردی، کیونکہ انہیں بتایا گیا تھا کہ کورونا سے وفات پانے والی ڈاکٹر کی میت کی اس قبرستان میں تدفین سے علاقے میں کورونا کی وبا پھوٹ پڑے گی۔ برطانیہ میں تو لوگوں نے احتجاج کرکے حکومت کو جاں بہ لب مریضوں کے رشتے داروں کو آخری لمحات میں اپنے عزیزوں کے سرہانے موجود رہنے کی اجازت دینے پر مجبور کیا۔ محض ہمارے ہاں ہی نہیں، پوری دنیا میں کورونا نے معاشرتی اور سماجی روایات کو الٹ پلٹ دیا ہے۔
کورونا وائرس سے متعلق اس طرح کی خبریں پڑھ کر مجھے نجانے کیوں ابولہب کی موت کا واقعہ یاد آجاتا ہے۔ روایت ہے کہ دشمنِ اسلام ابولہب عدسہ نامی ایک بیماری میں مبتلا ہوکر مرا تھا۔ (عدسہ کو کچھ طاعون اور کچھ چیچک سے مشابہ قرار دیتے ہیں) اس بیماری سے اس کا تمام بدن سڑنے لگا تھا۔ عرب کے لوگ عدسہ سے بہت ڈرتے تھے اور اس بیماری میں مرنے والے کو بہت منحوس سمجھتے تھـے۔ اس بیماری کا خوف اس قدر زیادہ تھا کہ ابولہب کے بیٹے بھی اس سے دور بھاگتے تھے، حتیٰ کہ کھانا وغیرہ اس تک پہنچانے کی ذمے داری بھی کچھ غلاموں کو سونپی گئی تھی۔ ابولہب جب مرگیا تو کسی کو خبر ہی نہ ہوسکی اور تین دن تک لاش گھر میں ہی پڑی رہی۔ پورا گھر جب بدبو سے بھر گیا تو علم ہوا کہ ابولہب مرچکا ہے مگر تب بھی اس کے بیٹے اسے دفنانے سے گریزاں رہے۔ بالآخر قریش کے ایک آدمی نے اس کے بیٹوں کو شرم دلائی کہ تمہارا باپ گھر میں پڑا سڑ رہا ہے اور تم ہو کہ اسے دفن نہیں کرتے۔ اس پر بیٹوں نے جواب دیا کہ ہمیں ڈر ہے کہ اس کی بیماری کہیں ہمارے گلے نہ پڑ جائے۔
اِس شخص نے اس کے بیٹوں کو مدد کا یقین دلایا اور یوں ابولہب کو دفنانے کی تیاری شروع ہوئی، مگر تب بھی کوئی خود آگے نہیں بڑھا بلکہ ان سب نے مل کر کچھ سوڈانی غلام بلائے جنہوں نے لکڑی کے بانسوں کی مدد سے لاش کو گھسیٹے ہوئے گھر سے باہر نکالا، دور سے گلی سڑی لاش پر پانی پھینکا اور پھر ایک گڑھا کھود کر لکڑیوں سے دھکیلتے ہوئے لاش کو وہاں تک لے گئے اور اس گڑھے میں لاش کو گرا کر کچھ مٹی اس میں ڈال دی، پھر لوگوں نے دور دور سے ہی اس گڑھے میں اس قدر پتھر پھینکے کہ ان پتھروں سے اس کی لاش چھپ گئی۔ (بحوالہ زرقانی ج1، دلائل النبوۃ للبیہقی)
لہٰذا موت سے تو علم نہیں کہ ڈر لگتا ہے یا نہیں لیکن کورونا سے ضرور ڈر لگتا ہے۔ میں ابولہب جیسی خوفناک موت اور تدفین نہیں چاہتا۔ میں نہیں چاہتا کہ میں مروں تو میرے گھر والے یا قریبی عزیزوں میں سے کوئی بھی میرے پاس موجود نہ ہو، مجھے کوئی غسل دینے یا میرا جنازہ پڑھانے کے لیے آگے نہ بڑھے، میرے جنازہ میں گنتی کے چند لوگ شامل ہوں۔ اگرچہ مرنے والوں کو ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور بقول حضرت اسما بنت ابی بکر، جب بکری ذبح ہوجائے تو پھر اس کی کھال کھینچی جائے یا اس کے جسم کے ٹکڑے کیے جائیں، کیا فرق پڑتا ہے۔ لیکن پھر بھی مجھے ڈر لگتا ہے، موت سے نہیں، کورونا سے ڈر لگتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔