کورونا…مربوط اور منظم میکنزم کی ضرورت

ملک کے بائیس کروڑ عوام کی تقدیرکورونا کی موذی وباء سے جڑی ہوئی نہیں ہے، یہ عارضی آزمائش ہے۔

ملک کے بائیس کروڑ عوام کی تقدیرکورونا کی موذی وباء سے جڑی ہوئی نہیں ہے، یہ عارضی آزمائش ہے۔ فوٹو: فائل

اس حقیقت سے شاید ہی کسی کو انکار ہو کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے جس مربوط اور منظم میکنزم اور ہیلتھ ریلیف کی ضرورت تھی اس پر ارباب اختیار آج تک متفق نہیں ہوسکے، اختلافات کے مشترکہ بگولے شدت سے اٹھ رہے ہیں۔

ماضی کے حوالے سے اشرافیہ تک کو گھسیٹ کر اس بحث میں شامل کرلیا گیا ہے اور یوں ایک خالص صحت سے متعلق ایشو کو سیاسی رنگ میں رنگ لیا گیا ہے، المیہ یہ ہے کہ ایک طرف ملک بھر میں 147 اموات ریکارڈ ہوئیں، ہلاکتوں کی تعداد408، مریض8 ہزار کے قریب جب کہ ایک ہفتے کے دوران ہیلتھ ورکرز انفیکشن میں 75 فی صد اضافہ ہوا، لیکن ایک ہلاکت خیز وبائی لہر سے نمٹتے ہوئے4315 افراد صحت یاب بھی ہوئے۔

ایک انگریزی معاصر عزیز کے مطابق30 مئی تک ایک لاکھ50 ہزار افراد کورونا کے شکار ہوسکتے ہیں، سندھ حکومت اسی استدلال کے ساتھ وفاق سے برسرپیکار ہے کہ سخت لاک ڈاؤن ناگزیر ہے اور صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے اس لیے لاک ڈاؤن سندھ میں رمضان کے آخر تک جاری رہے گا۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق 182131ٹیسٹ کیے گئے،گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں 7 ہزار 971 کورونا ٹیسٹ کیے گئے، مزید کیسوں کی تصدیق کے بعد سندھ میں سب سے زیادہ 6675، پنجاب میں 6340، خیبر پختونخوا میں 2799، بلوچستان 1136، اسلام آباد 343، گلگت بلتستان 340 اور آزاد کشمیرمیں 66 مریض رپورٹ ہوئے۔ خیبر پختونخوا میں ایک دن میں کورونا کے15مریض چل بسے، صوبائی محکمہ صحت کیمطابق جاں بحق افراد میں سے 10 پشاور، 2 نوشہرہ، ایک سوات، ایک بٹگرام اور ایک کوہاٹ کا تھا اورسب سے زیادہ تعداد میں161 اموات ہوچکی ہیں جب کہ 36 افراد صحت یاب ہوئے۔ مقامی پھیلاؤ84 فیصد جب کہ ٹریول ہسٹری 16 فیصد ہے۔

ترجمان محکمہ صحت پنجاب کے مطابق پنجاب میں مزید 120 نئے کیس رپورٹ ہونے کے بعد تعداد 6340 ہو گئی' 106 اموات، 1850 افراد نے کوروناکو شکست دیدی،27 کی حالت تشویشناک جب کہ82651 افراد کے ٹیسٹ ہو چکے، ترجمان پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کیئر نے بتایا کہ768 زائرین سینٹرز،1926رائیونڈ سے منسلک افراد،86 قیدیوں،3560 عام شہریوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، دوسری جانب پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کے چیف آف مشن ڈاکٹر پیلیتا مہیپالا نے پی ڈی ایم اے آفس کا دورہ کیا۔ انھوں نے کہا قرنطینہ سینٹرز اور لاک ڈاؤن علاقوں میں تشخیص کی ضرورت ہے۔

ڈی جی پی ڈی ایم اے نے انھیں کورونا پر تفصیلی بریفنگ دی۔ سندھ اورخیبرپختونخوا میں ڈاکٹرز سمیت طبی عملے کے مزید 11 افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں، جناح اسپتال میں خاتون ڈاکٹر سمیت 4 ملازمین اورکے پی کے میں مزید 7 ڈاکٹرز، طبی عملہ میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

جناح اسپتال کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ شعبہ امراض نسواں سے ایک جونیئر خاتون ڈاکٹر اور 3 خاکروب متاثر ہوئے ہیں، ان ملازمین سے رابطہ کرنے والے عملے کے بھی ٹیسٹ ہوںگے، ملک کے سب سے بڑے قرنطینہ سینٹر ملتان سے ایک اور اچھی خبر سامنے آئی ہے، سینٹر میں مقیم 63 مریضوں نے کورونا کو مات دے دی ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ملتان کی ٹیکنیشن میں کورونا کی تصدیق ہوئی ہے، شوہر، بیٹی اور کزن بھی کورونا کا شکارہوگئے۔

کورونا کی روک تھام کی مجموعی صورتحال بہاؤ کی حالت میں ہے، کوئی شخص ملک میں حتمی بات بتانے کی پوزیشن میں نہیں، اور تکرار، پیش گوئی اور شتر بے مہار جیسی قیاس آرائیوں کے سیاق وسباق میں معاملات کو آگے بڑھایا جارہا ہے حالانکہ ملک کے معتبر اور انتہائی سنجیدہ فزیشنز نے ارباب اختیار کو باور کرایا کہ کورونا کی آیندہ لہر پر محض شور وفغاں کی ضرورت نہیں، اس کے لیے باہم مل بیٹھ کر وزیراعظم ایک سٹرٹیجی وضع کریں، وفاقی بیانیے کو درست سمت دیں، سندھ حکومت کے انداز فکر سے اسے ہم آہنگ کریں اورہر قسم کی کشیدگی اور بحث و مباحثہ کو ترک کرکے کوررونا کے خاتمہ کا ماسٹر پلان قوم کے سامنے لائیں، حکمرانوں سے قوم ایک امید وابستہ کیے ہوئے ہے، انھیں شدید معاشی مسائل درپیش ہیں۔


ملک غربت، بیروزگاری اور مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا ہے، مہنگائی اسے تابڑ توڑ ضربیں لگا رہی ہے، اس لیے حکومت لاک ڈاؤن پر اپنے ذہن کو صاف کرے، معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا اعداد و شمار بتانے سے دو قدم آگے آئیں، کورونا کے رجحانات، وباء کے تیزی سے پھیلاؤ کے بنیادی اسباب سے قوم کو آگاہ کریں اور یاد رکھیں کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ گلزار احمد نے ان کی کارکردگی پر تواتر کے ساتھ جن شکوک کا اظہار کیا تھا وہ اس جانب بھی توجہ دیں، کیونہ ملک میں ایسی آوازیں میڈیا کی زینت بنی ہیں کہ پاکستان کو اس وقت ضرورت ہے وائٹ ہاؤس کے کورونا ٹاسک فورس ڈاکٹر کے ایک عہدیدارانتھونی فاؤچھی، کوریا کے ڈاکٹر کم جو اور سنگاپور کے ڈاکٹر چائن کی جو وزارت صحت کے لیے رہنما اصول تیار کریں اور کورونا سے لڑنے کی موثر حکمت عملی کے لیے ماحول بنائیں۔

ضرورت تو اس امر کی ہے کہ سیاست دان ہر قسم کے اختلاف رائے کو ترک کرتے ہوئے اس بات کے لیے متعلقہ محکموں اور صحت حکام پر زور دیں کہ ملک کی آبادی کے مستند ڈیٹا کو کیوں نظر انداز کیا جارہا ہے، کیونکہ مردم شماری کا ڈیٹا ایک مضبوط رابطہ مہم کے آغاز کی بنیاد بن سکتا ہے، مردم شماری کے اعداد وشمار کی روشنی میں احساس پروگرام کی طرز پر ملک بھر میں عوام کو ریلیف مہیا کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں، صرف لاک ڈاؤن پر اصرار سے کورونا کے خاتمہ کا خواب شرمندہ ہوتا نظر نہیں آتا۔

ماہرین نے یہ بھی تجویز کیا ہے کہ مستند ڈیٹا نہ ہونے کے باعث ملک میں کورونا کے علاج اور کنٹرول کے حوالہ سے انتظامی و معالجاتی انتشار تاحال موجود ہے، یہ کس قدر حیرت ناک امر ہے کہ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہونے کے باوجود حکومت شہری علاقوں میں رہائشی سہولتوں کے فقدان اور مکینوں کے ارتکاز سے پیدا شدہ سماجی صورتحال سے لاتعلق بنی ہوئی ہے، فہمیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ ریلیف اور لاک ڈاؤن ساتھ ساتھ چلنے چاہئیں، صرف لاک ڈاؤن کا صور پھونکنا کافی نہیں، دیہاڑی دار مزدوروں کی فوج عملی اقدام کی منتظر ہے۔

ایک اہم سوال حکام صحت سے کیا گیا ہے کہ چین نے ووہان میں کورونا کے خاتمہ کے لیے کس قسم کا لاک ڈاؤن کیا تھا، ان کی اسٹرٹیجی کیا تھی، اور یہ کیسے ممکن ہوا کہ جس شہر میں کورونا نے جنم لیا اس کے مکینوں کو محصور کرکے محدود مدت میں وبا کا صفایا ہوگیا، ماہرین جاننا چاہیں گے، قوم یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ ارباب اختیار نے چین سے ان کا مکمل ووہان میکنزم مستعار لیا یا نہیں، وہی ڈاکٹر جنہوں نے ووہان سے کورونا ختم کیا ان سے رائے مانگی گئی کیا آدھے تیتر آدھے بٹیر جیسے لاک ڈاؤن سے پاکستان کورونا سے ووہان جیسے معجزہ کی توقع رکھ سکتا ہے؟

اس میں دو رائے نہیں کہ دنیا کورونا سے نمٹنے کے لیے یکسو ہے، اور ہم آپس میں لڑ رہے ہیں، نیوزی لینڈ نے کورونا کو شکست دی ہے، وہاں کی جواں سال وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے ملک میں دہشتگردی کی واردات سے نمٹنے میں جس مردانہ جرات، سیاسی بصیرت اور مذہبی ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا اس کی خوشگوار فصل بھی انھوں نے کاٹی، قوم کے زخموں پر مرہم رکھا، 50 مسلمان شہیدوں کے قاتل دہشتگرد کو زندگی بھر کے لیے میڈیا سے دور رکھا، خودکبھی اس ملعون کا نام نہیں لیا، اپنے ملک کے عوام کی امنگوں کے مطابق دہشتگرد کے خلاف جو انداز فکر اختیار کیا اس پر استقامت کے ساتھ عمل کیا۔

اس وقت پوری دنیا میں کورونا سے نمٹنے کی امنگ اور جذبہ دیکھا جاسکتا ہے مگر خدا گواہ ہے ہم اس منزل سے کوسوں دور ہیں، لوگ پریشان ہیں، لہٰذا ضرورت ایک قومی عزم و جنون کی ہے، یہ کام وفاقی حکومت کا ہے وہ صوبوں کو ساتھ لے کر چلے، یہ وقت پوائنٹ اسکورنگ، الزام تراشی اور کردار کشی کا نہیں، لاک ڈاؤن ایک حکمت عملی ہے وفاقی اور صوبائی ادارے اسے جبر کا ہتھیار نہ بنائیں، لوگوں کو ریلیف دے کر اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ لاک ڈاؤن ایک مجبوری ہے، کوئی چنگیزی حکم نہیں۔

سب سمجھدار لوگ ہیں، پاکستان کے کروڑوں عوام اس''قیدِ کورونا'' سے نجات چاہتے ہیں اس کے لیے لازم ہے کہ میڈیا دن کا آغاز اموات کے اعلان سے نہ کرے، حکومت درست اور ٹھوس اقدامات کے غلبہ کو ترجیح دے، تاکہ عوام کی زندگی نتیجہ خیز کروٹ لے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب حکومت اپنا طرز عمل اور سیاسی محاذ آرائی کا سلسلہ ختم کردے۔ حقیقت یہ ہے کہ کورونا کا خاتمہ سیاسی تناؤ کے خاتمہ سے مشروط ہے۔

اب گیند وزیراعظم کے کورٹ میں ہے، وہ اسپورٹس مین شپ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھیل کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں، ملک کے بائیس کروڑ عوام کی تقدیرکورونا کی موذی وباء سے جڑی ہوئی نہیں ہے، یہ عارضی آزمائش ہے قیادت کا امتحان حکمرانوں کا اگلا قدم ہے۔ ساری قوم قدم سے قدم ملا کر چلے گی۔ صرف پر فشاں ہونے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story