ہیں تلخ بہت…
ماہ رمضان بھی ہے اور ہم اس وقت اپنی اپنی زکوۃ کی ادائیگی میں مصروف ہیں، اپنی زکوۃ میں سے رقم ہر وقت اپنے پاس رکھیں۔
'' بیس ہزارتنخواہ ملی ہے اور میں نے دو ہزار پاس رکھ کر باقی اٹھارہ ہزار تمہیں بھیج دیا ہے! '' وہ ٹرالیوں کی قطار کے پاس کھڑا تھا، '' اتنے بڑے شہر میں رہتے ہوئے اپنے پاس اتنا تو رکھنا پڑتا ہے، کوئی بیماری تکلیف ہی آجائے! '' وہ پنجابی میں بول رہا تھا۔ میں نے ایک ٹرالی پکڑی، وہ مجھے دیکھ کر بولتا ہوا رک گیا، میں نے ٹرالی گھسیٹی اور وہ پھر فون پر مصروف ہو گیا۔ اپنی خریداری کرتے ہوئے میرے کانوں میں اس کے الفاظ گونجتے رہے ۔ یقینا وہ اپنی بیوی سے بات کر رہا ہو گا اور اسے یہ مسئلہ ہو گا کہ اس کے شوہر نے اسے پورے بیس ہزار کیوں نہیں بھیجے تھے۔ وہ بھی اسلام آباد جیسے شہر میں رہ رہا ہے، جہاں کہیں کام کرتا ہو گا، ممکن ہے کہ رہائش اور باقی اخراجات ان کے ذمے ہوں مگر دو ہزار اپنے پاس کسی بھی طرح کی ہنگامی صورتحال کے لیے رکھ لینا تو اس کا حق بنتا تھا۔
سحری کے وقت بھی اچانک مجھے یاد آ گیا اور میں نے سب کو وہ پوری بات بتائی۔ '' میرا دل چاہا کہ میں اس سے پوچھوں اور اس کی کچھ مدد کردوں !''
'' تو کیوں نہیں کی آپ نے؟ '' صاحب نے سوال کیا۔
'' پتا نہیں، میں نفسجھجک گئی تھی ایک دم، مجھے لگا کہ اس کی بھی کوئی عزت ہو گی، وہ اپنی بیوی یا ماں سے بات کر رہا تھا، آواز بلند ہونے کی وجہ سے میںنے سن لیا مگر اسے کوئی پیش کش کرتی تو وہ برا منا جاتا! ''
'' یہ بھی تو ممکن ہے کہ اس کی آواز آپ کے کانوں تک اللہ تعالی نے پہنچائی ہی اس لیے تھی کہ آپ اس کی کوئی مدد کر دیتیں ! ''
'' مجھے پہلے ہی اتنا دکھ ہو رہا ہے کہ میںنے اس سے پوچھا کیوں نہیں!'' میرے لہجے میں پچھتاوا تھا۔
'' آپ پہچانتی ہیں اسے ماما؟ '' عبداللہ نے سوال کیا، '' ہو سکتا ہے کہ وہ اسی اسٹور کا کوئی ملازم ہو؟ ''
'' ہو سکتا ہے مگر میں اسے نہیں پہچانوںگی کیونکہ میںنے اسے غور سے نہیں دیکھا تھا! '' میںنے جواب میں کہا، '' میرے تو اپنے گھر کا ملازم بھی مجھے کہیں باہر کھڑا نظر آئے تو میں شاید اسے بھی نہ پہچان سکوں ، اور یوں بھی آج کل سب نے ماسک پہنے ہوتے ہیں تو کسی کو پہچاننا آسان نہیں ہوتا ! ''
'' آپ کی ماما ہمیں پہچان لیتی ہیں، یہ کیا کم ہے بیٹے! '' صاحب نے بچوں کے سامنے میری '' تعریف '' کرنے کا موقع ضایع نہیں کیا۔ ...''آپ آج اسی وقت دوبارہ اسٹور پر جائیں جس وقت پر کل گئی تھیں ، اگر وہ اسی اسٹور کا ملازم ہے تو ممکن ہے کہ وہیں کھڑا ہو! ''
'' لیکن میںنے بتایا ہے کہ میںاسے نہیں پہچان سکوں گی! '' میںنے بے بسی سے کہا، '' اور وہ کون سا دوبارہ اسی طرح فون پر کہہ رہا ہوگا کہ میں نے دو ہزار اپنے پاس رکھ کر تمہیں اٹھارہ ہزار بھجوا دئیے ہیں! ''
'' آپ کو اسی وقت اس کی مدد کرنا چاہیے تھی ماما! '' عبداللہ نے میرے ضمیر پر اور بھی بوجھ ڈال دیا ۔ واقعی ہم کیوں رک جاتے ہیں ایسے کسی موقعے پر؟ کوئی عورت ہوتی تو میں شاید اس سے سوال کرتی کہ بی بی کیا مسئلہ ہے مگر یوں راہ جاتے کسی مرد سے سوال کرنا ، کہاں اچھا لگتا ہے۔ جانے کتنا مجبور ہو گا بے چارہ، میںنے کسی کی مدد کرنے کی نیکی کا ایک موقع ضایع کیا جس نے میری نہ صرف نیند اڑا دی بلکہ اب تک ضمیر کے کچوکے بے چین کیے ہوئے ہیں ۔
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت ، بندۂ مزدور کے اوقات
( علامہ اقبال)
اتنے تلخ کہ ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہو پاتا، اللہ تعالی کا ہم پر اتنا کرم ہے کہ اس نے ہمیں لاکھوں کروڑوں سے بہتر حالات میں رکھا ہے ، ہمیں اور ہمارے بچوں کو اس غربت کی چکی میں پسنے والوں کی اصل کیفیات کا علم نہیں ہو سکتا ۔ ہم اپنے ارد گرد جن لوگوں کو خود سے مالی لحاظ سے کمتر پاتے ہیں، وہ کامے، مزدور یا دیہاڑی دار وہی ہیں جو ہمارے گھروں میں کام کرتے ہیں یا محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ان کا پہننا، اوڑھنا، بچھونا اور کھانا پینا ... ہمیں اس وقت نظر آتا ہے جب وہ ہمارے ہاں کام کر رہے ہوں ۔ ریڑھیاں لگانے والے، تھوڑے کی سکت رکھتے ہوئے ہر روز اپنی ریڑھی سجا کر دعائیں کرتے ہوں گے کہ ان کی ساری جنس بک جائے تو ان کے ہاتھ میں اتنی رقم آجائے کہ وہ گھر لوٹیں تو ان کے گھر والوں کے چہروں پر مسکراہٹ آ جائے۔ وہ مسکراہٹ جو ہمارے چہروں پر اتنی نعمتوں کے باوصف بڑی مشکل سے آتی ہے ۔
بازاروں میں ہمارا خریدا ہوا سامان، اپنے ٹوکروں میں ڈھونے والے مزدور، کیا نہیں سوچتے ہوں گے کہ یہ کون لوگ ہیں جن کی خریداری کا بوجھ ہماری کمر توڑ دیتا ہے، اتنے سامان کا یہ کیا کرتے ہیں ؟ اتنا پیسہ کہاں سے آتا ہے ان کے پاس یہ سب کچھ کہ یہ یوں بے بہا خرچ کرتے ہیں اور ان کے خزانوں میں پھر بھی کمی نہیں آتی۔ بظاہر ہماری ہی طرح کے لوگ، ہمارے ہی جیسے اعضاء کے مالک ، مگر کسی نہ کسی طرح تو اللہ کے بڑے خاص بندے ہوں گے جو ان محل نما مکانوں کو گھر بنا کر رہیں گے، جن گھروں کے ایک داخلی دروازے کی قیمت بھی اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا کہ میں سال بھر میں محنت کر کے کماتا ہوں۔
یہ بھی جانتا ہو گا کہ ایسے گھروں کے خواب دیکھنا بھی اس کی استطاعت سے بڑھ کر ہے ۔ وہ اپنے دل میں دعا کرتا ہو گا کہ امیروں کے گھر بنتے رہیں اور غریبوں کے گھروں کے چولہے جلتے رہیں کہ ایک گھرکی تعمیر کا آغاز ہونا ، اس کی کم از کم سال چھ ماہ کی مزدوری پکی ہوجانے کی ضمانت ہو جاتا ہے کہ وہ ہر روز وہاں سویرے وقت پر پہنچ کر کام کر لیا کرے گا ورنہ اپنے اوزار سجائے وہ کئی کئی دن سڑک کے کنارے بیٹھ کر منڈی میں بکنے والے مال کی طرح اپنی نمائش لگاتا رہے گا اور اس کے گھر میں مایوسی ڈیرے ڈال دے گی۔
بچے بھوک سے بلکیں گے اور بیوی اپنی بے بسی سے آنسوؤں کی تسبیح سمرے گی۔آج کل کے حالات میں تو ان مزدوروں کے حالات اور بھی برے ہیں، دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا یہی طبقہ ہے۔ انھی کے گھروں میں مستقل بھوک نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ ماہ رمضان بھی ہے اور ہم اس وقت اپنی اپنی زکوۃ کی ادائیگی میں مصروف ہیں، اپنی زکوۃ میں سے رقم ہر وقت اپنے پاس رکھیں اور اس ڈھونڈ میں نہ پڑیں کہ کون مستحق ہے اور کون نہیں۔ ہمیں جو اللہ دے رہا ہے تو ہمیں کیا معلوم کہ ہم مستحق ہیں کہ نہیں ۔ جہاں کوئی ایسا ضرورت مندنظر آتا ہے اسے دے دیں ، ورنہ میری طرح پچھتائیں گے اور وہ لمحہ جو بیت گیا وہ لوٹ کر نہیں آئے گا۔
سحری کے وقت بھی اچانک مجھے یاد آ گیا اور میں نے سب کو وہ پوری بات بتائی۔ '' میرا دل چاہا کہ میں اس سے پوچھوں اور اس کی کچھ مدد کردوں !''
'' تو کیوں نہیں کی آپ نے؟ '' صاحب نے سوال کیا۔
'' پتا نہیں، میں نفسجھجک گئی تھی ایک دم، مجھے لگا کہ اس کی بھی کوئی عزت ہو گی، وہ اپنی بیوی یا ماں سے بات کر رہا تھا، آواز بلند ہونے کی وجہ سے میںنے سن لیا مگر اسے کوئی پیش کش کرتی تو وہ برا منا جاتا! ''
'' یہ بھی تو ممکن ہے کہ اس کی آواز آپ کے کانوں تک اللہ تعالی نے پہنچائی ہی اس لیے تھی کہ آپ اس کی کوئی مدد کر دیتیں ! ''
'' مجھے پہلے ہی اتنا دکھ ہو رہا ہے کہ میںنے اس سے پوچھا کیوں نہیں!'' میرے لہجے میں پچھتاوا تھا۔
'' آپ پہچانتی ہیں اسے ماما؟ '' عبداللہ نے سوال کیا، '' ہو سکتا ہے کہ وہ اسی اسٹور کا کوئی ملازم ہو؟ ''
'' ہو سکتا ہے مگر میں اسے نہیں پہچانوںگی کیونکہ میںنے اسے غور سے نہیں دیکھا تھا! '' میںنے جواب میں کہا، '' میرے تو اپنے گھر کا ملازم بھی مجھے کہیں باہر کھڑا نظر آئے تو میں شاید اسے بھی نہ پہچان سکوں ، اور یوں بھی آج کل سب نے ماسک پہنے ہوتے ہیں تو کسی کو پہچاننا آسان نہیں ہوتا ! ''
'' آپ کی ماما ہمیں پہچان لیتی ہیں، یہ کیا کم ہے بیٹے! '' صاحب نے بچوں کے سامنے میری '' تعریف '' کرنے کا موقع ضایع نہیں کیا۔ ...''آپ آج اسی وقت دوبارہ اسٹور پر جائیں جس وقت پر کل گئی تھیں ، اگر وہ اسی اسٹور کا ملازم ہے تو ممکن ہے کہ وہیں کھڑا ہو! ''
'' لیکن میںنے بتایا ہے کہ میںاسے نہیں پہچان سکوں گی! '' میںنے بے بسی سے کہا، '' اور وہ کون سا دوبارہ اسی طرح فون پر کہہ رہا ہوگا کہ میں نے دو ہزار اپنے پاس رکھ کر تمہیں اٹھارہ ہزار بھجوا دئیے ہیں! ''
'' آپ کو اسی وقت اس کی مدد کرنا چاہیے تھی ماما! '' عبداللہ نے میرے ضمیر پر اور بھی بوجھ ڈال دیا ۔ واقعی ہم کیوں رک جاتے ہیں ایسے کسی موقعے پر؟ کوئی عورت ہوتی تو میں شاید اس سے سوال کرتی کہ بی بی کیا مسئلہ ہے مگر یوں راہ جاتے کسی مرد سے سوال کرنا ، کہاں اچھا لگتا ہے۔ جانے کتنا مجبور ہو گا بے چارہ، میںنے کسی کی مدد کرنے کی نیکی کا ایک موقع ضایع کیا جس نے میری نہ صرف نیند اڑا دی بلکہ اب تک ضمیر کے کچوکے بے چین کیے ہوئے ہیں ۔
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت ، بندۂ مزدور کے اوقات
( علامہ اقبال)
اتنے تلخ کہ ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہو پاتا، اللہ تعالی کا ہم پر اتنا کرم ہے کہ اس نے ہمیں لاکھوں کروڑوں سے بہتر حالات میں رکھا ہے ، ہمیں اور ہمارے بچوں کو اس غربت کی چکی میں پسنے والوں کی اصل کیفیات کا علم نہیں ہو سکتا ۔ ہم اپنے ارد گرد جن لوگوں کو خود سے مالی لحاظ سے کمتر پاتے ہیں، وہ کامے، مزدور یا دیہاڑی دار وہی ہیں جو ہمارے گھروں میں کام کرتے ہیں یا محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ان کا پہننا، اوڑھنا، بچھونا اور کھانا پینا ... ہمیں اس وقت نظر آتا ہے جب وہ ہمارے ہاں کام کر رہے ہوں ۔ ریڑھیاں لگانے والے، تھوڑے کی سکت رکھتے ہوئے ہر روز اپنی ریڑھی سجا کر دعائیں کرتے ہوں گے کہ ان کی ساری جنس بک جائے تو ان کے ہاتھ میں اتنی رقم آجائے کہ وہ گھر لوٹیں تو ان کے گھر والوں کے چہروں پر مسکراہٹ آ جائے۔ وہ مسکراہٹ جو ہمارے چہروں پر اتنی نعمتوں کے باوصف بڑی مشکل سے آتی ہے ۔
بازاروں میں ہمارا خریدا ہوا سامان، اپنے ٹوکروں میں ڈھونے والے مزدور، کیا نہیں سوچتے ہوں گے کہ یہ کون لوگ ہیں جن کی خریداری کا بوجھ ہماری کمر توڑ دیتا ہے، اتنے سامان کا یہ کیا کرتے ہیں ؟ اتنا پیسہ کہاں سے آتا ہے ان کے پاس یہ سب کچھ کہ یہ یوں بے بہا خرچ کرتے ہیں اور ان کے خزانوں میں پھر بھی کمی نہیں آتی۔ بظاہر ہماری ہی طرح کے لوگ، ہمارے ہی جیسے اعضاء کے مالک ، مگر کسی نہ کسی طرح تو اللہ کے بڑے خاص بندے ہوں گے جو ان محل نما مکانوں کو گھر بنا کر رہیں گے، جن گھروں کے ایک داخلی دروازے کی قیمت بھی اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا کہ میں سال بھر میں محنت کر کے کماتا ہوں۔
یہ بھی جانتا ہو گا کہ ایسے گھروں کے خواب دیکھنا بھی اس کی استطاعت سے بڑھ کر ہے ۔ وہ اپنے دل میں دعا کرتا ہو گا کہ امیروں کے گھر بنتے رہیں اور غریبوں کے گھروں کے چولہے جلتے رہیں کہ ایک گھرکی تعمیر کا آغاز ہونا ، اس کی کم از کم سال چھ ماہ کی مزدوری پکی ہوجانے کی ضمانت ہو جاتا ہے کہ وہ ہر روز وہاں سویرے وقت پر پہنچ کر کام کر لیا کرے گا ورنہ اپنے اوزار سجائے وہ کئی کئی دن سڑک کے کنارے بیٹھ کر منڈی میں بکنے والے مال کی طرح اپنی نمائش لگاتا رہے گا اور اس کے گھر میں مایوسی ڈیرے ڈال دے گی۔
بچے بھوک سے بلکیں گے اور بیوی اپنی بے بسی سے آنسوؤں کی تسبیح سمرے گی۔آج کل کے حالات میں تو ان مزدوروں کے حالات اور بھی برے ہیں، دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا یہی طبقہ ہے۔ انھی کے گھروں میں مستقل بھوک نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ ماہ رمضان بھی ہے اور ہم اس وقت اپنی اپنی زکوۃ کی ادائیگی میں مصروف ہیں، اپنی زکوۃ میں سے رقم ہر وقت اپنے پاس رکھیں اور اس ڈھونڈ میں نہ پڑیں کہ کون مستحق ہے اور کون نہیں۔ ہمیں جو اللہ دے رہا ہے تو ہمیں کیا معلوم کہ ہم مستحق ہیں کہ نہیں ۔ جہاں کوئی ایسا ضرورت مندنظر آتا ہے اسے دے دیں ، ورنہ میری طرح پچھتائیں گے اور وہ لمحہ جو بیت گیا وہ لوٹ کر نہیں آئے گا۔