سندھ حکومت کی کارکردگی 10 سال میں پونے 2 ارب خرچ کرنے کے باوجود اسپتال نامکمل

نیپاچورنگی پر 10 سال سے زیرتعمیر عمارت کھنڈرات میں تبدیل ہوتی جارہی ہے، اطراف میں چارج پارکنگ کاسلسلہ جاری

مخصوص فردکودینے کیلیے اسپتال کا نام صوبائی کابینہ کی منظوری سے تبدیل کراکر ٹراما آرتھوپیڈک انسٹیٹیوٹ وبحالی سینٹر رکھ دیا گیا فوٹو : فائل

حکومت سندھ گذشتہ 10سال میں پونے دوارب روپے خرچ کرنے کے باوجودبھی نیپا چورنگی پر تعمیرکی گئی عمارت کو اسپتال کی شکل دے کراسے فعال نہیں کرسکی جبکہ کراچی میں کورونا وائرس کا دوسرا مرحلہ شدت سے شروع ہوچکا ہے لیکن حکومت عوام کے ٹیکسوں سے تعمیر کی جانیوالی 3 منزلہ عمارت کو کورونا کے مریضوں کیلیے اسپتال کو فعال نہیں کرسکی۔

اس وقت کراچی میں ہزاروں افراد کورونا سے متاثر ہوچکے ہیں لیکن حکومت کی ناقص حکمت عملی اور عدم توجہی کی وجہ سے اربوں روپے کی سرکاری زمین پر تعمیر یہ کئی منزلہ عمارت اب کھنڈرات میں تبدیل ہوتی جارہی ہے، قوم کے ٹیکسوں کی رقم سے تعمیرکی جانے والی عمارت یہاں کسی سرکاری اسپتال کی فعالیت کی منتظرہے جہاں کورونا سے متاثر ہونے والوں کاعلاج کیا جاسکتا ہے۔


اس عمارت کو کورونا کے مریضوں کا اسپتال قراردیا جاسکتا ہے لیکن یہاں اسپتال تو شروع نہیں ہو سکا البتہ اسپتال کی عمارت کے اطراف چارج پارکنگ کاسلسلہ جاری ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے گلشن اقبال نیپا چورنگی پر ایک ارب 70کروڑ روپے مالیت سے تعمیرکیے جانے والے نیپااسپتال کواپنے موجودہ دورمیں بھی فعال نہیں کرسکی اورجنرل اسپتال کا حلیہ بھی بگاڑدیا اور ایک مخصوص فردکودینے کے لیے اسپتال کا نام خاموشی سے صوبائی کابینہ سے منظوری سے تبدیل کراکر ٹراما آرتھوپیڈک انسٹیٹوٹ وبحالی سینٹر رکھ دیا۔

معلوم ہوا ہے کہ صوبائی حکومت نے گلشن اقبال میں جنرل اسپتال کی تعمیرکیلیے 7سال قبل اے ڈی پی اسکیم کی منظوری دی تھی اورکہاگیا تھاکہ گلشن اقبال میں سرکاری اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے یہاںکے مکینوں کوعلاج و معالجے کی فراہمی کیلیے جنرل اسپتال تعمیر کیاجائیگا جس پر محکمہ صحت نے نیپا چورنگی میں 4سو بستروں پرمشتمل اسپتال کی اسکیم کی منظوری دیدی اور2010-11 میں اے ڈی پی اسکیم میں شامل کرلیا اور اسپتال کے لیے نیپا چورنگی پر جگہ مختص کی گئی ،10 سال میں بھی اسپتال کی تعمیرات کاکام مکمل نہیں کیا جاسکا اوراب تک اسپتال کی تعمیرات وطبی آلات و مشنریوں کے لیے مجموعی طورپرایک ارب 73 کروڑ 63 لاکھ روپے خرچ کیے جاچکے ہیں۔

 
Load Next Story