کورونا کا خاتمہ یکسوئی کی ضرورت
عوام چاہتے ہیں وفاقی حکومت اورتمام صوبائی حکومتیں لاک ڈاؤن سمیت کوروناسے نمٹنے کے لائحہ عمل کوپارلیمنٹ میں ڈسکس کریں۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے لاک ڈاؤن سے 119 ارب روپے نقصان ہوا لہٰذا ملک ہمیشہ کے لیے بند نہیں کرسکتے۔ انھوں نے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر میں اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ میں کہا پاکستان میں کورونا وائرس سے زیادہ ہلاکتیں ٹریفک حادثات میں ہوتی ہیں، اس کے باوجود ٹریفک کی اجازت ہوتی ہے۔
موجودہ پابندیوں کا 9 مئی تک اطلاق رہے گا، اس سے پہلے وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوگا، جس میں اہم فیصلے کیے جائیں گے۔ گزشتہ چند دنوں میں اموات میں اضافہ ہوا جو اچھی خبر نہیں، ہلاکتوں کی تین سرخ لکیریں عبور ہوچکیں، گذشتہ6 روز میں روزانہ 24 اموات ہورہی ہیں لیکن آبادی کے تناسب کے حساب سے یہ شرح کم ہے۔
روزگار میں بڑے پیمانے پر کمی آئی،7 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے، ایک کروڑ 80 لاکھ افراد بے روزگار ہوسکتے ہیں، 10 لاکھ چھوٹے ادارے ہمیشہ کے لیے بند ہوسکتے ہیں، ہر چار میں سے ایک پاکستانی کے گھر میں خوراک کی کمی ہوئی۔
یورپ سمیت دیگر ممالک روزگار چلانے کے لیے بندشیں کم کررہے ہیں، ملک ہمیشہ کے لیے بند کرکے بیٹھ نہیں سکتے، ہمارا ہدف نظام صحت مضبوط کرنا ہے، فوری طور پر ملک اس لیے نہیں کھول سکتے کہ کہیں نظام صحت مفلوج نہ ہوجائے، بندشیں آہستہ آہستہ کم کریں گے، روزگار کے مواقع بڑھائیں گے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی کے حسن بیان پر درحقیقت غالب کا یہ سدا بہار شعر صادق آتا ہے کہ:
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آئے
کورونا کے وسیع تر تناظر میں ملکی معاشی صورتحال کا جو نقشہ اسد عمر نے اپنے بیان میں کھینچا ہے وہ گنجینۂ معنی کا طلسم ہی ہے، لاک ڈاؤن تھیوری اور اس پر متذبذب عملدرآمد کے حقیقی مضمرات، زمینی حقائق اور حکومتی حکمت عملی پر اب بحث کے کئی دروازے کھل رہے ہیں، اس بات پر کسی کو شک نہیں کہ کورونا وائرس نے معیشت کو تباہ کیا، عالمی اقتصادی نظام میں دراڑیں پڑ چکی ہیں، ہیلتھ سسٹم تتر بتر ہے، کوئی دوا نہیں جو کورونا کے مریضوں کو پلائی جائے اور انھیں شفا نصیب ہو، صحت کے نظام کی عالمگیر مضبوطی اور شفافیت اور اس سے حاصل ہونے والی شفاعت کا بھرم بھی دھڑام سے زمیں بوس ہوچکا، امریکا، اٹلی، برطانیہ، اسپین، ایران سمیت دیگر ممالک کورونا کے صدمے سے نڈھال ہیں، ہلاکتیں دہشت ناک ہیں۔
کورونا ایک عالمگیر وبا ہے اور اس کے اثرات کے ابتدائی حصے پر وزیر منصوبہ بندی نے جن حقائق اور اندیشوں کا ذکر کیا ہے وہ اس اعتبار سے سوالیہ نشان ہیں کہ کیا یہ سب کچھ محض لاک ڈاؤن کا نتیجہ تھا، اور معاشی مسائل تسلسل سے پل رہے تھے یا یہ حادثہ ایک دم ہوگیا ہے یا یہ کہ کورونا کی ''ہشت پائی'' نے عوام تک ان حقائق کی رسائی کو ممکن بنایا ہے، حقیقت اور صورتحال کی سچائی کے اظہار کی روایت کے صائب پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت سے پوچھا جاسکتا ہے کہ 119 ارب روپے کے خسارے، اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی بیروزگاری، دس لاکھ اداروں کی بندش، خوراک کی کمی اور دیگر مسائل ایک ہی جھٹکے میں سامنے آگئے، یہ قابل فہم بات نہیں ہوسکتی، کیونکہ غربت بڑھنے کی بات تو وزیراعظم اس سے پہلے کرچکے تھے، وہ یہ حقیقت شر ح صدر کے ساتھ بیان کرچکے تھے کہ ایٹم بم بنانے والا ملک وینٹی لیٹر نہیں بنا سکتا۔
دوسری حقیقت 7 کروڑ کے لگ بھگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے عزیزان وطن کی ہے، یہ حقائق بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں، میڈیا غربت، بیروزگاری اور مہنگائی پر حکمرانوں کو بارہا متوجہ کرتا رہا ہے لیکن افسوس ہے کہ حکومتی ترجیحات میں مذکورہ حقائق کو ہمیشہ حزب اختلاف کا پروپیگنڈا قرار دیکر مسترد کیا گیا، جب کہ ضرورت عوامی جذبات اور معاشی صورتحال کے معروضی تجزیے کی ہے، اب بھی ضرورت ملکی معاشی حالات میں کسی qualitative تبدیلی کی ہے اگر کوئی توقع ہوسکتی ہے تو وہ معیشت،کورونا اور حکومتی انداز نظر میں عملیت پسندی کی ہے۔
لاک ڈاؤن کی منطقی بنیاد کو چیلنج کرنے کی کسی کی نیت نہیں، سب ملک کی خیرخواہی چاہتے ہیں لیکن یہ تو بدیہی حقیقت ہے کہ عوام کو لاک ڈاؤن کرکے اور روزگار اور خوراک سے محروم رکھا جائے، انھیں کوئی گزارا لاؤنس نہ ملے، اور تنگ وتاریک گھروں میں ان پر سماجی فاصلہ کا جبر تھوپا جائے تو ایسی صورت میں وہی کچھ ہوسکتا ہے جس کا اظہار وفاقی وزیر اپنے بیان میں کرچکے ہیں۔ ایسے میں تو کوئی جمہوریت معاشی عوامل سے ٹکرانے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
صدر ٹرمپ کی پوری کوشش رہی ہے کہ امریکا میں معاشی بحالی جلد ہو، حکومت بھی اپنی ویو لینتھ درست کرے، حکومت، وزرا، مشیران اور معاونین خصوصی ایئرکنڈیشنڈ کمروںاور ٹیبل ٹاک سے دور رہتے ہوئے عوام سے دکھ درد شیئر کریں، اگر ملکی معیشت کے آیندہ چند ماہ میں سنگین صورتحال سے دوچار ہونے کا خطرہ ہے تو اس خطرہ کو ٹالنے کی کوشش بے سود ہے، بلکہ عوام کو درپیش معاشی مسائل کا بہتر حل پیش کیاجائے۔
ماہرین کے مطابق عوام، تاجر برادری، اپوزیشن رہنما، اقتصادی ماہرین اور سول سوسائٹی کے مطالبہ پر لاک ڈاؤن میں زمینی حقائق اور حکمت عملی کے مطابق نرمی لائی جائے، کورونا کی روک تھام کے لیے جاری کردہ ایس او پیز پر موثر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تو صورتحال کا فرق لازمی طور نظر آجائیگا، پہلے دن سے ایک مربوط صحت میکنزم کی تقویت پر زور دینے کی ضرورت ہے۔
عوام چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت اور تمام صوبائی حکومتیں لاک ڈاؤن سمیت کورونا سے نمٹنے کے لائحہ عمل کو پارلیمنٹ میں ڈسکس کریں، ایک اتفاق رائے پیدا کریں، ملکی معیشت کی کمزری اور بیروزگاری ومہنگائی کے معاملات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسی پالیسیاں بنائیں کہ کورونا وائرس سے پھیلے ہوئے خوف وہرواس کی شدت کم ہو اور ملک کے عوام کو اس وائرس سے بچاؤ میں کسی بڑے نقصان کا سامنا نہ ہو، عوام کے فہمیدہ حلقوں کو آج بھی توقع ہے کہ کورونا اپنے تمام تر منفی پہلوؤں اور ہوشربا تباہ کاریوں کے باوجود ارباب اختیارکو ایک پیج پر ضرور لائے گا۔
اسد عمر کا کہنا ہے کہ عالمی تحقیق کے مطابق پاکستان میں 10لاکھ افراد میں سے یومیہ 2اموات ہورہی ہیں جو دنیا اور بالخصوص خطے میں سب سے کم ہیں، اللہ کا کرم ہے یہاں بیماری اتنی مہلک ثابت نہیں ہوئی جتنی یورپ میں ہوئی، امریکا میں 58 گنا اور برطانیہ میں 124 گنا زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ بیماری کے پہلے 46 روز میں ہر 10 لاکھ شہریوں میں سے اسپین میں سب سے زیادہ 414، اٹلی 305، فرانس 256، برطانیہ 248 اور امریکا میں 116 ہلاکتیں ہوئیں جب کہ پاکستان میں صرف 2 افراد جاں بحق ہوئے۔
پاکستان میں کورونا سے اوسطاً روزانہ 24 لوگ اور ماہانہ 720 افراد ہلاک ہوسکتے ہیں، اس سے زیادہ لوگ ٹریفک حادثات میں ہلاک ہوتے ہیں، ملک میں ایک ماہ میں اوسطاً 4 ہزار 800 سے زیادہ لوگ ٹریفک حادثات میں ہلاک ہوجاتے ہیں لیکن ٹریفک چلتی ہے کیونکہ اس پر پابندی زیادہ نقصان دہ ہے۔ کورونا سے اموات صفر کرنا ناممکن ہے دیگر ممالک میں بھی اسے ختم کرنے کی نہیں بلکہ پھیلاؤ روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس بیماری کامعاشی نقصان زیادہ ہے، روزگار کے مواقع بڑھائیں گے، وفاقی حکومت آنے والے دنوں میں تمام صوبوں کو شامل کرکے مزید فیصلے کرے گی۔
انھوں نے کہا کورونا وائرس کا علاج ویکسین سے ہی ممکن ہے، دنیا اس پر کام کر رہی ہے، اسے ایک حد تک روکنے کی کوشش کی جاری ہے، پاکستان کی بھی حکمت عملی ہے کہ وائرس کا پھیلاؤ ایک حد تک روکا جائے۔ ہمارے پاس 2 ماہ کا ڈیٹا اکٹھا ہو چکا،جس کی بنیاد پرفیصلے لیں گے اور عمل درآمد یقینی بنائیں گے۔ مئی میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے کا خدشہ ہے جب کہ حکومتی حکمت عملی صحت کے نظام کی استعداد کار بڑھانا ہے، مقامی صنعتوں اور مینوفیکچروں کی جانب سے طبی آلات کی مقامی سطح پر تیاری میں اچھا ردعمل ملا ہے، وینٹیلیٹر کے مقامی اور بہتر نظام منظور ہوچکے۔
کورونا سے غریب، سفید پوش اور متوسط طبقے کو بھاری قیمت اٹھانا پڑے گی، گیلپ سروے کے مطابق ہر چار میں سے ایک شخص کہتا ہے وباکے دوران خوراک میں کمی ہوئی۔ اس وقت ہمارے پاس کورونا وائرس کیسز کے لیے ملک بھر کے سپتالوں کے آئی سی یو میں4911 بیڈز ہیں جن میں 132استعمال ہورہے ہیں، 1400 وینٹیلٹرز ہیں، جون تک مزید900 آجائیں گے، اس وقت 35 مریض وینٹیلیٹر پر ہیں۔
وقت کی جدلیاتی ضرورت اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومت ذہنی، سیاسی اور انتظامی محاذ پر مزاحمت، الزام تراشی، اپوزیشن سے تکرار اور تصادم سے گریز کرتے ہوئے کورونا کے خاتمہ پر ایک متفق علیہ اور نتیجہ خیز پالیسی پر کاربند ہو، بلیم گیم نے نقصان پہنچایا ہے، مزید کشیدگی اور تناؤ سے نقصان پہنچنے کا زیادہ احتمال رہیگا، اسلیے قوم کا مفاد اسی میں ہے کہ تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز سنگین حالات کا ادراک کریں اور کورونا سے نمٹنے میں یکسوئی ناگزیر ہے، کورونا وباء کسی کی دوست نہیں۔
موجودہ پابندیوں کا 9 مئی تک اطلاق رہے گا، اس سے پہلے وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوگا، جس میں اہم فیصلے کیے جائیں گے۔ گزشتہ چند دنوں میں اموات میں اضافہ ہوا جو اچھی خبر نہیں، ہلاکتوں کی تین سرخ لکیریں عبور ہوچکیں، گذشتہ6 روز میں روزانہ 24 اموات ہورہی ہیں لیکن آبادی کے تناسب کے حساب سے یہ شرح کم ہے۔
روزگار میں بڑے پیمانے پر کمی آئی،7 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے، ایک کروڑ 80 لاکھ افراد بے روزگار ہوسکتے ہیں، 10 لاکھ چھوٹے ادارے ہمیشہ کے لیے بند ہوسکتے ہیں، ہر چار میں سے ایک پاکستانی کے گھر میں خوراک کی کمی ہوئی۔
یورپ سمیت دیگر ممالک روزگار چلانے کے لیے بندشیں کم کررہے ہیں، ملک ہمیشہ کے لیے بند کرکے بیٹھ نہیں سکتے، ہمارا ہدف نظام صحت مضبوط کرنا ہے، فوری طور پر ملک اس لیے نہیں کھول سکتے کہ کہیں نظام صحت مفلوج نہ ہوجائے، بندشیں آہستہ آہستہ کم کریں گے، روزگار کے مواقع بڑھائیں گے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی کے حسن بیان پر درحقیقت غالب کا یہ سدا بہار شعر صادق آتا ہے کہ:
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آئے
کورونا کے وسیع تر تناظر میں ملکی معاشی صورتحال کا جو نقشہ اسد عمر نے اپنے بیان میں کھینچا ہے وہ گنجینۂ معنی کا طلسم ہی ہے، لاک ڈاؤن تھیوری اور اس پر متذبذب عملدرآمد کے حقیقی مضمرات، زمینی حقائق اور حکومتی حکمت عملی پر اب بحث کے کئی دروازے کھل رہے ہیں، اس بات پر کسی کو شک نہیں کہ کورونا وائرس نے معیشت کو تباہ کیا، عالمی اقتصادی نظام میں دراڑیں پڑ چکی ہیں، ہیلتھ سسٹم تتر بتر ہے، کوئی دوا نہیں جو کورونا کے مریضوں کو پلائی جائے اور انھیں شفا نصیب ہو، صحت کے نظام کی عالمگیر مضبوطی اور شفافیت اور اس سے حاصل ہونے والی شفاعت کا بھرم بھی دھڑام سے زمیں بوس ہوچکا، امریکا، اٹلی، برطانیہ، اسپین، ایران سمیت دیگر ممالک کورونا کے صدمے سے نڈھال ہیں، ہلاکتیں دہشت ناک ہیں۔
کورونا ایک عالمگیر وبا ہے اور اس کے اثرات کے ابتدائی حصے پر وزیر منصوبہ بندی نے جن حقائق اور اندیشوں کا ذکر کیا ہے وہ اس اعتبار سے سوالیہ نشان ہیں کہ کیا یہ سب کچھ محض لاک ڈاؤن کا نتیجہ تھا، اور معاشی مسائل تسلسل سے پل رہے تھے یا یہ حادثہ ایک دم ہوگیا ہے یا یہ کہ کورونا کی ''ہشت پائی'' نے عوام تک ان حقائق کی رسائی کو ممکن بنایا ہے، حقیقت اور صورتحال کی سچائی کے اظہار کی روایت کے صائب پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت سے پوچھا جاسکتا ہے کہ 119 ارب روپے کے خسارے، اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی بیروزگاری، دس لاکھ اداروں کی بندش، خوراک کی کمی اور دیگر مسائل ایک ہی جھٹکے میں سامنے آگئے، یہ قابل فہم بات نہیں ہوسکتی، کیونکہ غربت بڑھنے کی بات تو وزیراعظم اس سے پہلے کرچکے تھے، وہ یہ حقیقت شر ح صدر کے ساتھ بیان کرچکے تھے کہ ایٹم بم بنانے والا ملک وینٹی لیٹر نہیں بنا سکتا۔
دوسری حقیقت 7 کروڑ کے لگ بھگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے عزیزان وطن کی ہے، یہ حقائق بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں، میڈیا غربت، بیروزگاری اور مہنگائی پر حکمرانوں کو بارہا متوجہ کرتا رہا ہے لیکن افسوس ہے کہ حکومتی ترجیحات میں مذکورہ حقائق کو ہمیشہ حزب اختلاف کا پروپیگنڈا قرار دیکر مسترد کیا گیا، جب کہ ضرورت عوامی جذبات اور معاشی صورتحال کے معروضی تجزیے کی ہے، اب بھی ضرورت ملکی معاشی حالات میں کسی qualitative تبدیلی کی ہے اگر کوئی توقع ہوسکتی ہے تو وہ معیشت،کورونا اور حکومتی انداز نظر میں عملیت پسندی کی ہے۔
لاک ڈاؤن کی منطقی بنیاد کو چیلنج کرنے کی کسی کی نیت نہیں، سب ملک کی خیرخواہی چاہتے ہیں لیکن یہ تو بدیہی حقیقت ہے کہ عوام کو لاک ڈاؤن کرکے اور روزگار اور خوراک سے محروم رکھا جائے، انھیں کوئی گزارا لاؤنس نہ ملے، اور تنگ وتاریک گھروں میں ان پر سماجی فاصلہ کا جبر تھوپا جائے تو ایسی صورت میں وہی کچھ ہوسکتا ہے جس کا اظہار وفاقی وزیر اپنے بیان میں کرچکے ہیں۔ ایسے میں تو کوئی جمہوریت معاشی عوامل سے ٹکرانے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
صدر ٹرمپ کی پوری کوشش رہی ہے کہ امریکا میں معاشی بحالی جلد ہو، حکومت بھی اپنی ویو لینتھ درست کرے، حکومت، وزرا، مشیران اور معاونین خصوصی ایئرکنڈیشنڈ کمروںاور ٹیبل ٹاک سے دور رہتے ہوئے عوام سے دکھ درد شیئر کریں، اگر ملکی معیشت کے آیندہ چند ماہ میں سنگین صورتحال سے دوچار ہونے کا خطرہ ہے تو اس خطرہ کو ٹالنے کی کوشش بے سود ہے، بلکہ عوام کو درپیش معاشی مسائل کا بہتر حل پیش کیاجائے۔
ماہرین کے مطابق عوام، تاجر برادری، اپوزیشن رہنما، اقتصادی ماہرین اور سول سوسائٹی کے مطالبہ پر لاک ڈاؤن میں زمینی حقائق اور حکمت عملی کے مطابق نرمی لائی جائے، کورونا کی روک تھام کے لیے جاری کردہ ایس او پیز پر موثر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تو صورتحال کا فرق لازمی طور نظر آجائیگا، پہلے دن سے ایک مربوط صحت میکنزم کی تقویت پر زور دینے کی ضرورت ہے۔
عوام چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت اور تمام صوبائی حکومتیں لاک ڈاؤن سمیت کورونا سے نمٹنے کے لائحہ عمل کو پارلیمنٹ میں ڈسکس کریں، ایک اتفاق رائے پیدا کریں، ملکی معیشت کی کمزری اور بیروزگاری ومہنگائی کے معاملات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسی پالیسیاں بنائیں کہ کورونا وائرس سے پھیلے ہوئے خوف وہرواس کی شدت کم ہو اور ملک کے عوام کو اس وائرس سے بچاؤ میں کسی بڑے نقصان کا سامنا نہ ہو، عوام کے فہمیدہ حلقوں کو آج بھی توقع ہے کہ کورونا اپنے تمام تر منفی پہلوؤں اور ہوشربا تباہ کاریوں کے باوجود ارباب اختیارکو ایک پیج پر ضرور لائے گا۔
اسد عمر کا کہنا ہے کہ عالمی تحقیق کے مطابق پاکستان میں 10لاکھ افراد میں سے یومیہ 2اموات ہورہی ہیں جو دنیا اور بالخصوص خطے میں سب سے کم ہیں، اللہ کا کرم ہے یہاں بیماری اتنی مہلک ثابت نہیں ہوئی جتنی یورپ میں ہوئی، امریکا میں 58 گنا اور برطانیہ میں 124 گنا زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ بیماری کے پہلے 46 روز میں ہر 10 لاکھ شہریوں میں سے اسپین میں سب سے زیادہ 414، اٹلی 305، فرانس 256، برطانیہ 248 اور امریکا میں 116 ہلاکتیں ہوئیں جب کہ پاکستان میں صرف 2 افراد جاں بحق ہوئے۔
پاکستان میں کورونا سے اوسطاً روزانہ 24 لوگ اور ماہانہ 720 افراد ہلاک ہوسکتے ہیں، اس سے زیادہ لوگ ٹریفک حادثات میں ہلاک ہوتے ہیں، ملک میں ایک ماہ میں اوسطاً 4 ہزار 800 سے زیادہ لوگ ٹریفک حادثات میں ہلاک ہوجاتے ہیں لیکن ٹریفک چلتی ہے کیونکہ اس پر پابندی زیادہ نقصان دہ ہے۔ کورونا سے اموات صفر کرنا ناممکن ہے دیگر ممالک میں بھی اسے ختم کرنے کی نہیں بلکہ پھیلاؤ روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس بیماری کامعاشی نقصان زیادہ ہے، روزگار کے مواقع بڑھائیں گے، وفاقی حکومت آنے والے دنوں میں تمام صوبوں کو شامل کرکے مزید فیصلے کرے گی۔
انھوں نے کہا کورونا وائرس کا علاج ویکسین سے ہی ممکن ہے، دنیا اس پر کام کر رہی ہے، اسے ایک حد تک روکنے کی کوشش کی جاری ہے، پاکستان کی بھی حکمت عملی ہے کہ وائرس کا پھیلاؤ ایک حد تک روکا جائے۔ ہمارے پاس 2 ماہ کا ڈیٹا اکٹھا ہو چکا،جس کی بنیاد پرفیصلے لیں گے اور عمل درآمد یقینی بنائیں گے۔ مئی میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے کا خدشہ ہے جب کہ حکومتی حکمت عملی صحت کے نظام کی استعداد کار بڑھانا ہے، مقامی صنعتوں اور مینوفیکچروں کی جانب سے طبی آلات کی مقامی سطح پر تیاری میں اچھا ردعمل ملا ہے، وینٹیلیٹر کے مقامی اور بہتر نظام منظور ہوچکے۔
کورونا سے غریب، سفید پوش اور متوسط طبقے کو بھاری قیمت اٹھانا پڑے گی، گیلپ سروے کے مطابق ہر چار میں سے ایک شخص کہتا ہے وباکے دوران خوراک میں کمی ہوئی۔ اس وقت ہمارے پاس کورونا وائرس کیسز کے لیے ملک بھر کے سپتالوں کے آئی سی یو میں4911 بیڈز ہیں جن میں 132استعمال ہورہے ہیں، 1400 وینٹیلٹرز ہیں، جون تک مزید900 آجائیں گے، اس وقت 35 مریض وینٹیلیٹر پر ہیں۔
وقت کی جدلیاتی ضرورت اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومت ذہنی، سیاسی اور انتظامی محاذ پر مزاحمت، الزام تراشی، اپوزیشن سے تکرار اور تصادم سے گریز کرتے ہوئے کورونا کے خاتمہ پر ایک متفق علیہ اور نتیجہ خیز پالیسی پر کاربند ہو، بلیم گیم نے نقصان پہنچایا ہے، مزید کشیدگی اور تناؤ سے نقصان پہنچنے کا زیادہ احتمال رہیگا، اسلیے قوم کا مفاد اسی میں ہے کہ تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز سنگین حالات کا ادراک کریں اور کورونا سے نمٹنے میں یکسوئی ناگزیر ہے، کورونا وباء کسی کی دوست نہیں۔