الف لیلہ کی جیوٹ جی دار لڑکی
یہ ایک ایسی المناک صورتحال تھی جو انتقام کی تمام حدوں سے گزر گئی
دنیا پر ایسا کڑا وقت پہلے کبھی نہیں پڑا تھا، ہر انسان زندگی کی جنگ لڑرہا ہے اور کسی نہ کسی حوالے سے اس کا دباؤ بھی محسوس کرتا ہے۔ مطالعہ ذہنی دباؤ کم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ آج ہم ''الف لیلہ و لیلہ'' کی دنیا میں جاتے ہیںاور یہ دیکھتے ہیں کہ ایک جی دار لڑکی نے ان گنت معصوم لڑکیوں کی جان بچانے کے لیے آگے بڑھ کر اپنی زندگی داؤ پر لگادی۔ آج کے مشکل دور میں ایسی لافانی داستانیں جدوجہد کا حوصلہ دیتی ہیں۔
ادب کا ذوق رکھنے والے سب ہی لوگ جنوں، پریوں اور انسانوں کی کہانیوں کے اس خزانے کے بنیادی خاکے سے آشنا ہیں۔ یہ ایک ساسانی بادشاہ شہر یار کا قصہ ہے۔ جو اپنی ملکہ کی بے وفائی کا انتقام اپنی سلطنت کی تمام کنواریوں سے لینے پر تل جاتا ہے۔ وہ اس بے وفائی کی وجوہ پر غور نہیں کرتا اور تمام عورتوں سے نفرت کے مرض میںمبتلا ہوکر اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اگر عورتوں کی آبادی کو نابود کردیا جائے تو دنیا ایک بہتر جگہ ہوجائے گی۔ وہ ہررات ایک حسینہ سے شادی کرتا ہے اور پوپھٹے ایک رات کی دلہن کا گلا گھونٹ کر ہلاک کردیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کے فرائض میں یہ شامل ہوا کہ وہ ہر شب شہر یار کی سیج پر ایک نئی دلہن لا بٹھائے اور صبح ہونے سے پہلے اپنی نگرانی میں اسے ہلاک ہوتے ہوئے دیکھے۔ ملک کی سیکڑوں بے گناہ لڑکیاں ایک رات کی دلہن بن کر قتل ہوئیں۔
یہ ایک ایسی المناک صورتحال تھی جو انتقام کی تمام حدوں سے گزر گئی۔ ہر گھر میں جوان بیٹیوں کی بے گناہ موت پر صف ماتم بچھ گئی۔ لوگ اس ظالم اور عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے والے بادشاہ سے نجات کی سوچنے لگے۔ اس نازک مرحلے پر جب سیاسی اضطراب و انتشار اپنی حد کو پہنچ چکا تھا اورعوامی بغاوت کسی دن بھی رونما ہوسکتی تھی۔ وزیر اعظم کی بیٹی شہرزاد نے اپنی جان پر کھیل جانے کا فیصلہ کیا اور باپ سے کہا کہ وہ شہر یار کی دلہن بننا چاہتی ہے گھر میں کہرام مچ گیا۔ باپ جو دوسروں کی بیٹیوں کے قتل پر غم زدہ تھا۔ اپنی بیٹی کو کس دل سے شہریار کی دلہن بناتا لیکن شہرزاد اپنی سی پر تلی ہوئی تھی۔
اس نے شادی کی صرف ایک شرط رکھی اور وہ یہ کہ زندگی کی آخری شب اس کی چھوٹی بہن دنیا زاد کو بھی اس کے ساتھ رہنے کی اجازت دی جائے۔ شہر یار نے یہ شرط منظور کرلی اور شہر زاد نے شب عروسی گزار کر شہریار سے آخری خواہش کے طور پر اپنی بہن کو خلوت میں بلاکر ایک کہانی سنانے کی گزارش کی۔ شہر یار اس بے ضرر خواہش پر بھلا کیوں معترض ہوتا۔ شاید وہ بھی انتقام کی یکسانی سے اتنا اکتایا ہوا تھا کہ اس کاجی بھی کہانی سننے کو چاہا ہو۔ یوں بھی پوپھٹنے میں ابھی دیر تھی اور شہرزاد کے پاس زندگی کی چند ساعتیں باقی تھیں اور یہاں سے داستان سرائی کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو اس لیے دراز ہوتا رہا کہ شہریار نامکمل قصے کو اگلی رات مکمل سننا چاہتا تھا۔ لیکن قصوں میں سے قصے نکلتے چلے گئے اور شہرزاد کی زندگی کی گھڑیوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ شہر یار کے ذہن کی گرہیں کھلتی رہیں اور عالمی ادب کا ایک شاہکار وجود میں آیا۔
بیسویں صدی میں فلم اور ٹی وی کا آغاز ہواتو روسی، جاپانی، ہندی، انگریزی، فرانسیسی اور دوسری یورپی زبانوں میں الف لیلہ کی کہانیوں پر فلمیں بننے لگیں اور بچوں کے لیے ان کہانیوں کی رنگین باتصویر کہانیوں کے ڈھیر لگ گئے۔ شہرزاد کی کہی ہوئی ہزار برس پرانی کہانیاں، پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں اور دنیا کا بچہ بچہ ان کہانیوں کی طلسماتی فضامیں سانس لیتا ہے۔
''الف لیلہ ولیلہ'' کہانیوں کا ایک ایسا سنہرا، روپہلا، لاجوردی، قرمزی اور بنفشی جال ہے کہ جس کے اسیر کیا سلطان اور کیا دہقان، کیا مشرق اور کیا مغرب، کیا قدیم اور کیا جدید سب ہی ہوئے۔ ایک داستان کی دہلیزپار کیجیے تو دوسری داستان کی ڈیوڑھی میں قدم دھریے۔ ان داستانوں میں ہندوستان کی پنچ تنتر کتھا، جاتک کہانیوں کے دھارے آکر ملتے ہیں۔ فارسی کی ہزار افسانہ ہے۔ کہیں سومیریوں کی داستان گل گامش کا عکس ہے اور کہیں عہد نامۂ قدیم کے کرداروں کا تذکرہ ہے۔ ہارون الرشید اور جعفر برمکی بھی بغداد کے کوچہ وبازار میں پھرتے نظر آتے ہیں اور داستان پر حقیقت کا گمان گزرتا ہے۔
الف لیلہ و لیلہ کے تحریری وجود کے متعلق سب سے پہلے نبیہ ایبٹ نے لکھا۔ نبیہ کو نویں صدی عیسوی کے چند اوراق شکستہ ملے جو الف لیلہ ولیلہ کی اولین شہادت ہیں۔ دسویں صدی میں ابن ندیم کی 'الفہرست' میں فارسی داستانوں کے ایک مجموعے ''ہزار افسانہ'' کا ذکر ملتا ہے اور یہ بھی ابن ندیم ہے جو کہتا ہے کہ دسویں صدی کا الجہشیاری جو اپنی کتاب الوزراء کے لیے مشہور ہوا اس نے عربوں، ایرانیوں، یونانیوں اور ہندوستانیوں کی 480 کہانیاں یکجا کیں۔ اس کا ارادہ ہزار کہانیاں جمع کرنے کا تھا۔ لیکن اس سے پہلے راہی ملک عدم ہوا۔ اسی لیے کچھ محققین الف لیلہ و لیلہ کی تصنیف کا سہرا الجہشیاری کے سر باندھتے ہیں۔
دسویں صدی کا مورخ مسعوی اس کا تذکرہ کرتا ہے اور اسے ایرانی، ہندوستانی، یونانی ماخذوں سے نئے رنگ میں کہی جانے والی کہانیاں قرار دیتا ہے جو بغداد میں سنائی گئیں۔ وہ کہتا ہے کہ یہ ''الف حرفہ'' ایک ہزار داستانیں تھیں جسے ''الف لیلہ ولیلہ'' کے نام سے یاد کیا گیا۔ ابن ندیم جو اسے فارسی کی ''ہزار افسانہ'' کا ترجمہ کہتا ہے وہ ان کہانیوں کا نکتہ چیں ہے۔ اس کے مطابق یہ بھدی اور ان گھڑ ہیں۔ دسویں صدی کے بعد داستانوں کا یہ خزانہ سات صدیوں تک گم نام رہا۔ ان سات صدیوں کے دوران اس کا صرف دو مرتبہ تذکرہ ملتا ہے بارہویں صدی میں ایک یہودی کے بہی کھاتے میں تحریر ہے کہ ''الف لیلہ و لیلہ'' مجید ابن العزیز کے پاس ہے اور دوسری مرتبہ پندرہویں صدی میں مصری مورخ المقرزی ان مصنفین کا حوالہ دیتا ہے جن کے کہنے کے مطابق گیارہویں صدی عیسویں میں یہ کہانیاں قاہرہ کی سراؤں اور بازاروں میں سنائی اور سنی جاتی تھیں۔
یہ صرف باشادہ اور وزیرں کی نہیں عام انسانوں کی کہانیاں ہیں۔ کوئی کبڑا کوئی لنگڑا ہے، کہیں مچھلی تلنے اور چاک پر برتن بنانے والے ہیں، نان بائی، حمال، درزی، پنساری ، شراب فروش، میوہ فروش، حجام، موچی، سوداگر، مزدور، ناخدا، سپیرا اور بقال ہیں۔ ان کی زندگی کے درد نام پیچاک ہیں۔ انسانی فطرت کا کون سا پہلا ہے جو ان کہانیوں کے دائرے سے بچ کر نکلا ہے۔ عشق، حسد، رشک، چشمک، انتقام،احترام، بخیلی، دریادلی، مردوں کی طرح آزاد عورتوں کی سجائی ہوئی لطف ونشاط کی محفلیں، ان کی بے وفائیاں، کج ادائیاں، وفاداریاں، کیا ہے جو ان کہانیوں میں نظر نہیں آتا۔
یہ داستان عربی زبان میں بیان ہوئی ہے اور بعد کے زمانوں میں ضبط تحریر میں آئی۔ انگریزی، فرانسیسی، اردو، ہسپانوی، روسی، جرمن، پولش، ڈنیش، اطالوی اور جانے کن کن زبانوں میں منتقل ہوئی۔ اس داستان کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ کس نے بیان کی اور تحریری شکل میں کس نے یکجا کیا۔ سچ یہ ہے کہ یہ کہانیوں حکایتوں اور داستانوں کے عشاق کے لیے ایک ایسا سبزہ زار ہے کہ اس کی سیر سے کبھی جی نہیں بھرتا۔ جس طور اجنتا اور ایلورا کے گم نام نقاش ہمارے لیے نقاشی کا بے مثال سرمایہ چھوڑ گئے، اسی طرح عرب داستان طرازوں کو ہمارا سلام کہ انھوں نے اپنے کم عقل اور بعض حالتوں میں فاتر العقل بادشاہوں کے ذہنی اختلال کے کیا کمال نقشے کھینچے ہیں اور انھیں آئینہ دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
ادب کا ذوق رکھنے والے سب ہی لوگ جنوں، پریوں اور انسانوں کی کہانیوں کے اس خزانے کے بنیادی خاکے سے آشنا ہیں۔ یہ ایک ساسانی بادشاہ شہر یار کا قصہ ہے۔ جو اپنی ملکہ کی بے وفائی کا انتقام اپنی سلطنت کی تمام کنواریوں سے لینے پر تل جاتا ہے۔ وہ اس بے وفائی کی وجوہ پر غور نہیں کرتا اور تمام عورتوں سے نفرت کے مرض میںمبتلا ہوکر اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اگر عورتوں کی آبادی کو نابود کردیا جائے تو دنیا ایک بہتر جگہ ہوجائے گی۔ وہ ہررات ایک حسینہ سے شادی کرتا ہے اور پوپھٹے ایک رات کی دلہن کا گلا گھونٹ کر ہلاک کردیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کے فرائض میں یہ شامل ہوا کہ وہ ہر شب شہر یار کی سیج پر ایک نئی دلہن لا بٹھائے اور صبح ہونے سے پہلے اپنی نگرانی میں اسے ہلاک ہوتے ہوئے دیکھے۔ ملک کی سیکڑوں بے گناہ لڑکیاں ایک رات کی دلہن بن کر قتل ہوئیں۔
یہ ایک ایسی المناک صورتحال تھی جو انتقام کی تمام حدوں سے گزر گئی۔ ہر گھر میں جوان بیٹیوں کی بے گناہ موت پر صف ماتم بچھ گئی۔ لوگ اس ظالم اور عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے والے بادشاہ سے نجات کی سوچنے لگے۔ اس نازک مرحلے پر جب سیاسی اضطراب و انتشار اپنی حد کو پہنچ چکا تھا اورعوامی بغاوت کسی دن بھی رونما ہوسکتی تھی۔ وزیر اعظم کی بیٹی شہرزاد نے اپنی جان پر کھیل جانے کا فیصلہ کیا اور باپ سے کہا کہ وہ شہر یار کی دلہن بننا چاہتی ہے گھر میں کہرام مچ گیا۔ باپ جو دوسروں کی بیٹیوں کے قتل پر غم زدہ تھا۔ اپنی بیٹی کو کس دل سے شہریار کی دلہن بناتا لیکن شہرزاد اپنی سی پر تلی ہوئی تھی۔
اس نے شادی کی صرف ایک شرط رکھی اور وہ یہ کہ زندگی کی آخری شب اس کی چھوٹی بہن دنیا زاد کو بھی اس کے ساتھ رہنے کی اجازت دی جائے۔ شہر یار نے یہ شرط منظور کرلی اور شہر زاد نے شب عروسی گزار کر شہریار سے آخری خواہش کے طور پر اپنی بہن کو خلوت میں بلاکر ایک کہانی سنانے کی گزارش کی۔ شہر یار اس بے ضرر خواہش پر بھلا کیوں معترض ہوتا۔ شاید وہ بھی انتقام کی یکسانی سے اتنا اکتایا ہوا تھا کہ اس کاجی بھی کہانی سننے کو چاہا ہو۔ یوں بھی پوپھٹنے میں ابھی دیر تھی اور شہرزاد کے پاس زندگی کی چند ساعتیں باقی تھیں اور یہاں سے داستان سرائی کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو اس لیے دراز ہوتا رہا کہ شہریار نامکمل قصے کو اگلی رات مکمل سننا چاہتا تھا۔ لیکن قصوں میں سے قصے نکلتے چلے گئے اور شہرزاد کی زندگی کی گھڑیوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ شہر یار کے ذہن کی گرہیں کھلتی رہیں اور عالمی ادب کا ایک شاہکار وجود میں آیا۔
بیسویں صدی میں فلم اور ٹی وی کا آغاز ہواتو روسی، جاپانی، ہندی، انگریزی، فرانسیسی اور دوسری یورپی زبانوں میں الف لیلہ کی کہانیوں پر فلمیں بننے لگیں اور بچوں کے لیے ان کہانیوں کی رنگین باتصویر کہانیوں کے ڈھیر لگ گئے۔ شہرزاد کی کہی ہوئی ہزار برس پرانی کہانیاں، پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں اور دنیا کا بچہ بچہ ان کہانیوں کی طلسماتی فضامیں سانس لیتا ہے۔
''الف لیلہ ولیلہ'' کہانیوں کا ایک ایسا سنہرا، روپہلا، لاجوردی، قرمزی اور بنفشی جال ہے کہ جس کے اسیر کیا سلطان اور کیا دہقان، کیا مشرق اور کیا مغرب، کیا قدیم اور کیا جدید سب ہی ہوئے۔ ایک داستان کی دہلیزپار کیجیے تو دوسری داستان کی ڈیوڑھی میں قدم دھریے۔ ان داستانوں میں ہندوستان کی پنچ تنتر کتھا، جاتک کہانیوں کے دھارے آکر ملتے ہیں۔ فارسی کی ہزار افسانہ ہے۔ کہیں سومیریوں کی داستان گل گامش کا عکس ہے اور کہیں عہد نامۂ قدیم کے کرداروں کا تذکرہ ہے۔ ہارون الرشید اور جعفر برمکی بھی بغداد کے کوچہ وبازار میں پھرتے نظر آتے ہیں اور داستان پر حقیقت کا گمان گزرتا ہے۔
الف لیلہ و لیلہ کے تحریری وجود کے متعلق سب سے پہلے نبیہ ایبٹ نے لکھا۔ نبیہ کو نویں صدی عیسوی کے چند اوراق شکستہ ملے جو الف لیلہ ولیلہ کی اولین شہادت ہیں۔ دسویں صدی میں ابن ندیم کی 'الفہرست' میں فارسی داستانوں کے ایک مجموعے ''ہزار افسانہ'' کا ذکر ملتا ہے اور یہ بھی ابن ندیم ہے جو کہتا ہے کہ دسویں صدی کا الجہشیاری جو اپنی کتاب الوزراء کے لیے مشہور ہوا اس نے عربوں، ایرانیوں، یونانیوں اور ہندوستانیوں کی 480 کہانیاں یکجا کیں۔ اس کا ارادہ ہزار کہانیاں جمع کرنے کا تھا۔ لیکن اس سے پہلے راہی ملک عدم ہوا۔ اسی لیے کچھ محققین الف لیلہ و لیلہ کی تصنیف کا سہرا الجہشیاری کے سر باندھتے ہیں۔
دسویں صدی کا مورخ مسعوی اس کا تذکرہ کرتا ہے اور اسے ایرانی، ہندوستانی، یونانی ماخذوں سے نئے رنگ میں کہی جانے والی کہانیاں قرار دیتا ہے جو بغداد میں سنائی گئیں۔ وہ کہتا ہے کہ یہ ''الف حرفہ'' ایک ہزار داستانیں تھیں جسے ''الف لیلہ ولیلہ'' کے نام سے یاد کیا گیا۔ ابن ندیم جو اسے فارسی کی ''ہزار افسانہ'' کا ترجمہ کہتا ہے وہ ان کہانیوں کا نکتہ چیں ہے۔ اس کے مطابق یہ بھدی اور ان گھڑ ہیں۔ دسویں صدی کے بعد داستانوں کا یہ خزانہ سات صدیوں تک گم نام رہا۔ ان سات صدیوں کے دوران اس کا صرف دو مرتبہ تذکرہ ملتا ہے بارہویں صدی میں ایک یہودی کے بہی کھاتے میں تحریر ہے کہ ''الف لیلہ و لیلہ'' مجید ابن العزیز کے پاس ہے اور دوسری مرتبہ پندرہویں صدی میں مصری مورخ المقرزی ان مصنفین کا حوالہ دیتا ہے جن کے کہنے کے مطابق گیارہویں صدی عیسویں میں یہ کہانیاں قاہرہ کی سراؤں اور بازاروں میں سنائی اور سنی جاتی تھیں۔
یہ صرف باشادہ اور وزیرں کی نہیں عام انسانوں کی کہانیاں ہیں۔ کوئی کبڑا کوئی لنگڑا ہے، کہیں مچھلی تلنے اور چاک پر برتن بنانے والے ہیں، نان بائی، حمال، درزی، پنساری ، شراب فروش، میوہ فروش، حجام، موچی، سوداگر، مزدور، ناخدا، سپیرا اور بقال ہیں۔ ان کی زندگی کے درد نام پیچاک ہیں۔ انسانی فطرت کا کون سا پہلا ہے جو ان کہانیوں کے دائرے سے بچ کر نکلا ہے۔ عشق، حسد، رشک، چشمک، انتقام،احترام، بخیلی، دریادلی، مردوں کی طرح آزاد عورتوں کی سجائی ہوئی لطف ونشاط کی محفلیں، ان کی بے وفائیاں، کج ادائیاں، وفاداریاں، کیا ہے جو ان کہانیوں میں نظر نہیں آتا۔
یہ داستان عربی زبان میں بیان ہوئی ہے اور بعد کے زمانوں میں ضبط تحریر میں آئی۔ انگریزی، فرانسیسی، اردو، ہسپانوی، روسی، جرمن، پولش، ڈنیش، اطالوی اور جانے کن کن زبانوں میں منتقل ہوئی۔ اس داستان کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ کس نے بیان کی اور تحریری شکل میں کس نے یکجا کیا۔ سچ یہ ہے کہ یہ کہانیوں حکایتوں اور داستانوں کے عشاق کے لیے ایک ایسا سبزہ زار ہے کہ اس کی سیر سے کبھی جی نہیں بھرتا۔ جس طور اجنتا اور ایلورا کے گم نام نقاش ہمارے لیے نقاشی کا بے مثال سرمایہ چھوڑ گئے، اسی طرح عرب داستان طرازوں کو ہمارا سلام کہ انھوں نے اپنے کم عقل اور بعض حالتوں میں فاتر العقل بادشاہوں کے ذہنی اختلال کے کیا کمال نقشے کھینچے ہیں اور انھیں آئینہ دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔