کورونا کی تباہ کاریاں بجٹ تخمینوں کی تیاری میں مشکلات

حکومت کی معاشی ٹیم شدید شش و پنج میں مبتلا ہے

حکومت کی معاشی ٹیم شدید شش و پنج میں مبتلا ہے

کورونا کے باعث عالمی سطع پردرپیش سیاسی، سماجی اور اقتصادی چیلنجزکم ہونے کی بجائے ہر گذرتے دن کے ساتھ مزید سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک جانب دنیا کے تقریباً ہر ملک کی معیشت متاثر ہو رہی ہے وہیں بیروزگاری میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہورہاہے۔ محدود وسائل کے حامل ممالک کے بجٹ بری طرح سے عدم توازن کا شکار ہوچکے ہیں۔ پاکستان بھی اس وباء کے اثرات سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ مسائل اس قدر سنگین ہیں کہ اگلے مالی سال کی بجٹ سازی مشکل ہو چکی ہے۔ بجٹ سر پر ہے اور ابھی تک بجٹ تخمینہ جات مرتب نہیں ہوسکے۔

حکومت کی معاشی ٹیم شدید شش و پنج میں مبتلا ہے۔ حکومت بجٹ میں معاشی بحالی کیلئے کاروباری اور کمزور طبقات کو ریلیف دینا چاہتی ہے مگر پاوں میں آئی ایم ایف کی بیڑیاں پڑی ہیں۔ اگرچہ آئی ایم ایف ،عالمی بینک و ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے کورونا کے تناظر میں ممبر ممالک کیلئے بڑے بڑے پیکجز کے اعلانات کئے گئے ہیں اور پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے لیکن ابھی تک پاکستان کو ان اداروں کی جانب سے توقع کے مطابق ریلیف نہیں مل سکا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے ایک ارب چالیس کروڑ ڈالر قرض فراہم کیا گیا ہے جس سے ملکی معیشت پرقرضوں کا بوجھ مزید بڑھ گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قرضے معاف کئے جاتے مگرایسا نہیں کیا گیا۔

سامراجی قوتوں نے قرضوں کا شکنجہ مزید سخت کردیا ہے جس سے ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت مزید بڑھ جائے گی۔ اب ہمارے معاشی اہداف کا تعین بھی آئی ایم ایف کرنے لگا ہے اگلے مالی سال کیلئے آئی ایم ایف نے ایف بی آر کیلئے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5101 ارب روپے تجویز کیا ہے۔ اگرکورونا وائرس کے باعث ترسیلات زر متاثر ہوئیں تو پاکستان کو اپنی مالی ضروریات پوری کر نے کے لئے غیر ملکی قرضوں پر انحصار کر نا پڑے گا۔

آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالر کے ایکسٹنڈڈ فنڈ فسیلٹی پروگرام کے تحت آئندہ بجٹ میں اسٹرکچرل اصلاحات متعارف کروائی جائیں گی۔ البتہ حالیہ تکنیکی مذاکرات میں آئی ایم ایف نے کورونا وائرس کے نتیجے میں پیدا شدہ صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام مالی فریم ورکس پر نظر ثانی پر اتفاق کیا ہے۔

آئی ایم ایف کے ساتھ تکنیکی مذاکرات کا مقصد مالی و اقتصادی فریم ورکس پر اتفاق رائے پیدا کرنا اور بجٹ خسارہ ، ابتدائی خسارہ ،ایف بی آر کے تحت مالی وصولیوں کا ہدف اور بڑے اخراجات کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ بینک میں اسٹرکچرل اصلاحات، توانائی کے شعبے میں بھاری گردشی قرضے پر قابو پانا اور ایف بی آر میں اصلاحات پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔


اب اس معاملہ پر منگل کو وزیراعظم عمران خان کے زیر صدارت بجٹ سازی سے متعلق اہم اجلاس ہوا ہے جس میں معاشی ٹیم نے وزیراعظم کو بجٹ سازی سے متعلق تفصلی بریفنگ دی ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ وزیراعظم کی ہدایات کی روشنی میں رواں ماہ کے آخر تک بجٹ تخمینہ جات کو حتمی شکل دیدی جائے گی اور اگلے ماہ کے پہلے عشرے بجٹ منظوری کیلئے پارلیمنٹ میں پیش کر دیا جائے گا۔ اس بجٹ میں 'فیٹف' سے متعلق بھی بہت سے اقدامات متعارف کروانا ہے جس کے تناظر میں پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکلنے یا بلیک لسٹ کئے جانے سے متعلق فیصلہ ہونا ہے۔ حکومت عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے لیکن اندیشہ ہے کے آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے ایسا نہ ہو پائے۔

حال ہی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے معاملے میں اپوزیشن سمیت دیگر حلقوں کی جانب سے خوب تنقید بھی ہوئی ہے جس پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات دیگر ممالک کے مقابلہ میں کم ہیں انکا یہ دعویٰ بادی النظر میں درست بھی ہے مگر اپوزیشن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پیٹرول کی قیمت زیادہ تر ممالک سے کم ضرور ہے لیکن اگر آمدنی اور عوام کی قوت خرید کے مطابق دیکھا جائے تو پاکستان میں پیٹرول خریدنا مہنگا ہے۔ قیمت کے حساب سے پاکستان میں پیٹرول بھارت چین برطانیہ سمیت 50 ممالک کے مقابلے میں کافی سستا ہے۔ ابھی اقتصادی سرگرمیاں منجمد ہونے کی وجہ سے تیل کی قیمتیں بھی نیچے ہیں اور ڈالر بھی سستا ہوا ہے لیکن جیسے ہی اقتصادی سرگرمیاں بحال ہونگی تو ڈالر بھی اڑان بھرے گا اور تیل کی قیمتیں بھی اوپر جائیں گی جس کے اثرات سے بچنے کیلئے ابھی سے پلاننگ کرنے کی ضرورت ہے۔

امتحان کی اس گھڑی میں ابھی تک حکومتی حلقوں میں کوئی سنجیدہ حکمت عملی سامنے نہیں آئی۔ اگر درست و بروقت فیصلہ سازی نہ کی گئی تو اسکے نتائج بھیانک ہونگے۔ عوام کو جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے آکسیجن فراہم کرنا ہوگی۔ اسلام آباد جیسے شہر میں سی ڈی اے کو پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف ایکشن کا حکم دینا پڑا ہے کیونکہ اب لوگوں کی طرف سے مزاحمت کے واقعات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ موٹر وے پر سفر کرنے والی فیملی کے ساتھ پیش آنے والے ڈکیتی کے واقعہ نے تو مزید خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے کیونکہ موٹر وے پر سفر کو محفوظ ترین تصور کیا جاتا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی ٹائیگر فورس کے جوانوں سے خطاب میں لاک ڈاون میں بتدریج نرمی کا عندیہ دیا ہے وہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں بڑی تعداد خط غربت سے نیچے زندگی گذارتی ہے اور وہ زیادہ عرصہ تک بے روزگار نہیں رہ سکتی۔ بیرون ملک سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوکر واپس پاکستان پہنچ رہے ہیں یہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عیدالفطر کے بعد میدان سجنے کو ہے۔ قید خانوں کی صفائیاں کروانے کی باتیں بھی ہورہی ہیں کہ گرفتاریوں کی نئی لہر شروع ہونے کو ہے، جبکہ بعض سیاسی پنڈتوں کو کا کہنا ہے کہ یہ محض چائے کی پیالی میں طوفان ہوگا۔ کپتان کی ٹیم کے اہم کھلاڑیوں کے آٹا چینی سکینڈل اور پھر توانائی سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد نیب کے پر بھی کاٹنے کی تیاریاں ہیں اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آٹا ،چینی سکینڈل کی فرانزک رپورٹ میں تاخیر بھی کسی مصلحت کا نتیجہ ہے۔ حکومت کی اہم اتحادی جماعت مسلم لیگ(ق)کے پاکستان مسلم لیگ(ن)کے ساتھ روابط کی بحالی ہوئی ہے۔ اٹھارویں ترمیم میں ترامیم کے بارے میں پاکستان مسلم لیگ(ن)کی مشروط حمایت کے حوالے سے شیخ رشید کا حالیہ بیان بھی خوب موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شیخ رشید کے ذریعے یہ پغام دیا گیا ہے۔

عالمی سطع پر اگرچہ چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کافی عرصے سے چل رہی ہے لیکن کورونا وائرس کی عالمی وبا اور امریکہ میں آئندہ صدارتی انتخابات نے اس تناؤ میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ جس سے آنے والے دنوں میں دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان کشیدگی میں اور زیادہ اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ٹرمپ بہت سی ریاستوں میں اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں کیونکہ کورونا وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکنے میں ناکامی پر ان کے خلاف تنقید بڑھتی جا رہی ہے۔ دوسری جامب ٹرمپ کی اتحادی 'امریکن فرسٹ ایکشن' تنظیم کی سیاسی کمیٹی اشتہارات دے رہی ہے جن میں کہا جا رہا ہے کہ 'بیجنگ بائیڈن اور واشنگٹن کی اشرافیہ امریکہ میں چین کو سازگار ماحول فراہم کرنا چاہتے ہیں۔

جو بائیڈن نے جواباً ایک اشتہار دیا ہے جس میں صدر پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کورونا وائرس کی وبا پر ہونے والی تنقید کا رخ موڑنا چاہتے ہیں اور ابتدا میں انھوں نے چین سے ملنے والی معلومات پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ کیا اگرچہ دونوں جماعتوں کے موقف میں تضاد ہے لیکن اس تضاد میں بھی ایک چیز یکساں ہے کہ دونوں کے خیال میں بیجنگ کو نشانہ بنانا سیاسی طور پر فائدہ مند ثابت ہو گا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اب عالمی سطع پر سپلائی لائنز پر چین کو برتری حاصل ہے اور امریکہ یہ سپپلائی لائنز اپنے پاس واپس لانا چاہتا ہے لیکن سپلائی لائنز کو امریکہ واپس لایا جانا اتنا آسان نہیں کیونکہ اس سے دونوں جانب کشیدگی بڑھے گی وہ بھی ان دنوں میں جب وبا کے اس دور میں امریکہ کا انحصار چینی ادویات اور طبّی آلات پر ہے۔ n
Load Next Story