کچھ سوالات سوچنے والوں کے لیے
پوری دنیا میں اس وقت ان گنت مسائل پر بحث ہورہی ہے، جن کی وجہ سے اس کرہ ارض کومختلف نوعیت کے خطرات کا سامناہے۔۔۔
پوری دنیا میں اس وقت ان گنت مسائل پر بحث ہورہی ہے، جن کی وجہ سے اس کرہ ارض کومختلف نوعیت کے خطرات کا سامناہے۔یہ کثیر الجہتی مسائل ہیں، جن میں سے بیشتر کا تعلق ماحولیات یعنی (Ecology)سے ہے۔ ان مسائل نے دنیا بھر کے متوشش شہریوں کی نیندیں اڑا دی ہیں،کیونکہ انسان کے اپنے بعض اقدامات کی وجہ سے اس کرہ ارض کا اپنا اور اس پرموجود حیات کا وجود شدید نوعیت کے خطرات سے دوچار ہوچکا ہے۔مگر پاکستان میں حکمرانوں ، سیاسی قیادتوں اور اہل دانش کو ان مسائل سے نہ کوئی سروکار ہے اور نہ ان پر توجہ دینے کے لیے وقت ہے۔ہمارے حکمران افغانستان میں تزویراتی گہرائی تلاش کر رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں نان ایشوز میں الجھی ہوئی ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں۔اہل دانش یہ گتھیاں سلجھانے میں سرگرداں ہیں کہ شہید کون ہوتا ہے اور کیوں ہوتا ہے؟ساتھ ہی وہ یہ طے کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف ہیں کہ صحیح مسلمان ہونے کی شرائط کیا ہیں؟ان کی توجہ اس تحقیق پر بھی مرکوز ہے کہ وہ کون سا ایک مسلک ایسا ہے، جس کے ماننے والے جنت میںجائیں گے اور باقی کن مسالک سے تعلق رکھنے والے جہنم رسید ہوں گے؟پاجامہ ٹخنے سے کتنا اونچا ہونا چاہیے؟کتا کنوئیں میں گر جائے تو کتنے ڈول پانی نکالنے سے وہ پاک ہوجائے گا؟لہٰذا پاکستان میں ماحولیات کے مسائل پر غور کرنے کی کسی بھی حلقے کو فرصت نہیں ہے۔
اس وقت عالمِ انسانیت کو جن بیشمار سنگین مسائل کا سامنا ہے،ان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آلودگی اور انسانی آبادی میں بے پایاں اضافہ سب سے اہم اور خطرناک ہیں۔ کیونکہ ان مسائل نے دیگر ضمنی اور ثانوی مسائل کو بھی جنم دیا ہے، جس سے ماحول کی سنگینی میں مزید اضافہ ہواہے۔ایک طرف کرہ ارض پر انسانی آبادی میں تیز رفتاری کے ساتھ اضافہ ہورہاہے۔دوسری طرف صنعتکاری اور تابکاری کے نتیجے میں پورے کرے کا ماحولیاتی نظام (Ecological System)تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہاہے۔پہلے آبادی کے مسئلے کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔1825ء میں دنیا کی آبادی ایک ارب تھی۔جو صدی کے اختتام تک گویا75برس میں دوگنی ہوگئی۔ اس پر طرہ یہ کہ بیسویں صدی کے آغاز پریعنی صرف100برسوںمیں 6ارب تک جاپہنچی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس برق رفتاری پر قابو نہ پایا گیا تو 2030ء میں 8اور 2050ء میں14ارب تک پہنچ جانے کا احتمال ہے۔اس تیزی سے بڑھتی انسانی آبادی کے لیے رہائش اور غذا کے جو مسائل پیدا ہوں گے،وہ تو اپنی جگہ ہیں،فضاء میں پہلے سے موجود آلودگی جو خطرناک حدود کو چھو رہی ہے،اس میں مزید خوفناک اضافہ ہوگا۔
چونکہ یہ تمام معاملات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں،اس لیے مسئلہ کی اصل جڑ تک پہنچنے کے لیے کچھ گفتگو ماحولیاتی آلودگی پرضروری ہے۔انسان کئی طریقوں سے فضاء کو آلودہ کررہا ہے۔اول بڑھتی ہوئی آبادی کے بوجھ سے۔دوئم صنعتکاری میں استعمال ہونے والے ایندھن کے فضلے سے جو کہیں دھوئیں کی شکل میں کاربن ڈائی اور کاربن مونوآکسائیڈ فضا میں بکھیر کرآکسیجن کی مقدار میں کمی کا سبب بن رہاہے۔کہیں کیمیائی بخارات کی شکل میں فضاء میں تحلیل ہوکرچہارسو زہریلے مادے پھیلانے کا سبب بن رہا ہے۔ اس کے علاوہ جوہری تابکاری کے اثرات بھی فضا کی آلودگی میں اضافے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔دراصل انسان کی نام نہاد ترقی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کاربن مونو آکسائیڈ اس کرہ ارض پر لپٹے ہوا کے دوکلومیٹر کے قریب ہوا کے موٹے غلاف کی اوپری سطح پر موجود اوزون (O3) گیس کی تہہ پتلی ہو رہی ہے اور اس میں جگہ جگہ شگاف پڑ رہے ہیں۔اس گیس کا کام ان زہریلی اشعاع کو زمین تک پہنچنے سے روکنا ہے، جو زمین کی فضاء کو مکدر کرتی ہیں اور اس کے درجہ حرارت میں اضافے کا سبب ہیں۔اس تہہ کے کمزور پڑجانے کی وجہ سے موسمیاتی تغیر جنم لے رہا ہے اور زمین کے درجہ حرارت میںمسلسل اضافہ ہورہاہے۔جسے عالمگیر گرمائش یا Global Warming کہا جاتا ہے۔
عالمگیر گرمائش یا Global Warmingکے نتیجے میں ایک طرف قطبین پر موجود گلیشئیر پگھل رہے ہیں، جو میدانی علاقوں میں سیلابوں کے حجم اور شدت میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔دوسری طرف سمندروں میں تبخیری عمل کے تیز ہونے سے بارشوں کی شدت میں اضافہ ہورہاہے۔ درجہ حرارت میںہونے والا اضافہ زرعی زمینوں کی زرخیزی ختم کرکے انھیںبنجربنارہاہے۔اس کے علاوہ جہاںکہیںفصلیں اگ بھی رہی ہیں،تو وہ تیز رفتار سیلابوں کی نذر ہورہی ہیں۔یوں غذائی اجناس کی قلت پیدا ہورہی ہے۔ دوسری طرف دریا اور دیگر قدرتی آبی ذرایع خشک ہورہے ہیں،جس کے باعث آب پاشی متاثر ہورہی ہے۔ فیکٹریوں اور ملوں سے نکلنے والازہریلاپانی، مختلف نوعیت کی کیمیائی کھادیں اور کیڑے مار ادویات رہی سہی فصلوں کو مضر صحت بنانے کا سبب بنی ہوئی ہیں۔چنانچہ دنیا پر دو طرح سے دبائو ہے۔ایک ماحولیاتی آلودگی کے نتیجے میں موسمیاتی تغیر کی شکل میں اور دوسرے کرہ ارض پر انسانوں کی آبادی میںتیز رفتار اضافہ سے۔
پاکستان دنیا کے ان پسماندہ ممالک میں شامل ہے،جو اپنی جہل آمادگی کی وجہ سے ان دونوں عوامل میں اضافے کا سبب بنا ہوا ہے۔اول، یہاں شرح پیدائش دیگر پسماندہ ممالک کی طرح بہت زیادہ ہے۔دوئم،صنعتی آلودگی کے پھیلائو میں تو پاکستان کا کوئی خاص کردار نہیں ہے،لیکن دیگر نوعیت کی آلودگی جس میں گاڑیوں کے دھوئیں، کچرے میں لگی آگ اور صنعتی فضلہ کوٹھکانے لگانے کے غیر سائنسی طریقے شامل ہیں۔ پاکستان میں حکمرانوں اور منصوبہ سازوں کی جہل آمادگی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ 15برس گذرجانے کے باوجود ابھی تک مردم شماری نہیں ہوسکی ہے۔ہمیں یہی نہیں معلوم کہ آبادی میں مختلف عمر کے لوگوں کا تناسب کیا ہے اور ان کی ضروریات کیا ہیں اور دستیاب وسائل کس طرح استعمال کرنا ہیں؟دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہے۔
عالمی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک روز سے زائد پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی بندوبست نہیںہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران اس قسم کے اہم مسائل پر توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔لہٰذاگذشتہ 40برسوں کے دوران نہ توچھوٹے بڑے ڈیم بنانے کی کوشش کی گئی اور نہ ہی مختلف نوعیت کے دوسرے Reservoirsتعمیر کیے گئے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال آنے والے سیلابوں کی وجہ سے ایک طرف زراعت اور انسانی جان ومال کو نقصان پہنچتاہے،وہیں دوسری طرف کروڑوں کیوسک پانی بلاسبب ضایع ہوجاتا ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دریا تیزی کے ساتھ خشک ہورہے ہیں،جب کہ دیگر آبی ذرایع بھی محدود ہورہے ہیں۔ جھیلوں کی صورتحال غیر ذمے دارانہ روش کے باعث انتہائی آلودہ ہوچکی ہے ۔خاص طور پر سندھ میں موجود دونوں جھیلوں منچھر اورکینجھرانتہائی آلودہ اور ان کا پانی ناقابل استعمال ہوچکاہے۔
آنے والے چند برسوں کے دوران پاکستان میں شدید نوعیت کے آبی بحران کے خدشات ہیں۔سندھ کی لاکھوں ایکڑزمین سیم اور تھور کی وجہ سے بنجر ہوچکی ہے اور مزید زرعی زمین خراب ہورہی ہے۔ ملکیت کے روائتی اور فرسودہ طریقے اور جاگیردارانہ کلچر کی وجہ سے بھی زراعت مشکلات کا شکار ہے۔ پنجاب میں بھی غلط منصوبہ بندی کے سبب زرعی زمینیں تباہ ہورہی ہے۔ایک طرف وسطی پنجاب کی زرخیز زرعی زمینوںپرصنعتیں لگا کر ان کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ جب کہ دوسری طرف جنوبی پنجاب سخت گیر فیوڈل اور قبائلی نظام میں جکڑا ہونے کے سبب وہاں نہ ہی جدید پیمانے پر زراعت ہورہی ہے اور نہ صنعتیں لگ رہی ہیں۔کم وبیش یہی صورتحال خیبر پختونخواہ کی ہے اور سب سے ابتر صورتحال بلوچستان کی ہے۔ اس طرح یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ آنے والے برسوں کے دوران پاکستان میں پانی کے علاوہ غذائی بحران سر اٹھاتا نظر آرہا ہے۔جس پر مردم شماری کی طرح خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔
اس وقت جن چند اہم امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ان میں سب سے اہم مردم شماری ہے جس کے بغیر صحیح ریاستی منصوبہ بندی کا تصور ممکن نہیں۔ اس کے بعد ماحولیات معاملات خاص طور پر پانی کے مسئلے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ آنے والے برسوں میں پانی کا شدید بحران آنے کو ہے۔اس مقصد کے لیے چھوٹے بڑے ڈیم بنانے کے علاوہ ہر شہر اور قصبے میں مختلف جسامت کے Reservoirs تعمیر کیے جائیں تاکہ پانی کو ذخیرہ کیا جاسکے اور ضرورت کے وقت Treatmentکے بعد استعمال کیا جاسکے۔شہریوں کو بھی تربیت دی جائے کہ وہ اپنی چھتوں پر برسات کا پانی جمع کرنے کا بندوبست کریں جیسا کہ نیپال میں ہوتا ہے۔اس مقصد کے لیے عوام کی فکری راہنمائی اور انھیں ہر سطح پر منصوبہ بندی میں شریک کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے شراکتی جمہوریت کے تصور کو مستحکم کیا جائے اور مقامی سطح پر سیاسی،انتظامی اور مالی طورپر بااختیارکونسلیں قائم کی جائیں۔یہی وہ اعمال ہیں جن کے ذریعہ مستقبل میں پیش آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کیاجاسکتا ہے،کیونکہ ان دیوہیکل مسائل سے نمٹنے کا اس کے سوا کوئی اور راستہ نظر نہیں آرہا۔
اس وقت عالمِ انسانیت کو جن بیشمار سنگین مسائل کا سامنا ہے،ان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آلودگی اور انسانی آبادی میں بے پایاں اضافہ سب سے اہم اور خطرناک ہیں۔ کیونکہ ان مسائل نے دیگر ضمنی اور ثانوی مسائل کو بھی جنم دیا ہے، جس سے ماحول کی سنگینی میں مزید اضافہ ہواہے۔ایک طرف کرہ ارض پر انسانی آبادی میں تیز رفتاری کے ساتھ اضافہ ہورہاہے۔دوسری طرف صنعتکاری اور تابکاری کے نتیجے میں پورے کرے کا ماحولیاتی نظام (Ecological System)تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہاہے۔پہلے آبادی کے مسئلے کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔1825ء میں دنیا کی آبادی ایک ارب تھی۔جو صدی کے اختتام تک گویا75برس میں دوگنی ہوگئی۔ اس پر طرہ یہ کہ بیسویں صدی کے آغاز پریعنی صرف100برسوںمیں 6ارب تک جاپہنچی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس برق رفتاری پر قابو نہ پایا گیا تو 2030ء میں 8اور 2050ء میں14ارب تک پہنچ جانے کا احتمال ہے۔اس تیزی سے بڑھتی انسانی آبادی کے لیے رہائش اور غذا کے جو مسائل پیدا ہوں گے،وہ تو اپنی جگہ ہیں،فضاء میں پہلے سے موجود آلودگی جو خطرناک حدود کو چھو رہی ہے،اس میں مزید خوفناک اضافہ ہوگا۔
چونکہ یہ تمام معاملات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں،اس لیے مسئلہ کی اصل جڑ تک پہنچنے کے لیے کچھ گفتگو ماحولیاتی آلودگی پرضروری ہے۔انسان کئی طریقوں سے فضاء کو آلودہ کررہا ہے۔اول بڑھتی ہوئی آبادی کے بوجھ سے۔دوئم صنعتکاری میں استعمال ہونے والے ایندھن کے فضلے سے جو کہیں دھوئیں کی شکل میں کاربن ڈائی اور کاربن مونوآکسائیڈ فضا میں بکھیر کرآکسیجن کی مقدار میں کمی کا سبب بن رہاہے۔کہیں کیمیائی بخارات کی شکل میں فضاء میں تحلیل ہوکرچہارسو زہریلے مادے پھیلانے کا سبب بن رہا ہے۔ اس کے علاوہ جوہری تابکاری کے اثرات بھی فضا کی آلودگی میں اضافے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔دراصل انسان کی نام نہاد ترقی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کاربن مونو آکسائیڈ اس کرہ ارض پر لپٹے ہوا کے دوکلومیٹر کے قریب ہوا کے موٹے غلاف کی اوپری سطح پر موجود اوزون (O3) گیس کی تہہ پتلی ہو رہی ہے اور اس میں جگہ جگہ شگاف پڑ رہے ہیں۔اس گیس کا کام ان زہریلی اشعاع کو زمین تک پہنچنے سے روکنا ہے، جو زمین کی فضاء کو مکدر کرتی ہیں اور اس کے درجہ حرارت میں اضافے کا سبب ہیں۔اس تہہ کے کمزور پڑجانے کی وجہ سے موسمیاتی تغیر جنم لے رہا ہے اور زمین کے درجہ حرارت میںمسلسل اضافہ ہورہاہے۔جسے عالمگیر گرمائش یا Global Warming کہا جاتا ہے۔
عالمگیر گرمائش یا Global Warmingکے نتیجے میں ایک طرف قطبین پر موجود گلیشئیر پگھل رہے ہیں، جو میدانی علاقوں میں سیلابوں کے حجم اور شدت میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔دوسری طرف سمندروں میں تبخیری عمل کے تیز ہونے سے بارشوں کی شدت میں اضافہ ہورہاہے۔ درجہ حرارت میںہونے والا اضافہ زرعی زمینوں کی زرخیزی ختم کرکے انھیںبنجربنارہاہے۔اس کے علاوہ جہاںکہیںفصلیں اگ بھی رہی ہیں،تو وہ تیز رفتار سیلابوں کی نذر ہورہی ہیں۔یوں غذائی اجناس کی قلت پیدا ہورہی ہے۔ دوسری طرف دریا اور دیگر قدرتی آبی ذرایع خشک ہورہے ہیں،جس کے باعث آب پاشی متاثر ہورہی ہے۔ فیکٹریوں اور ملوں سے نکلنے والازہریلاپانی، مختلف نوعیت کی کیمیائی کھادیں اور کیڑے مار ادویات رہی سہی فصلوں کو مضر صحت بنانے کا سبب بنی ہوئی ہیں۔چنانچہ دنیا پر دو طرح سے دبائو ہے۔ایک ماحولیاتی آلودگی کے نتیجے میں موسمیاتی تغیر کی شکل میں اور دوسرے کرہ ارض پر انسانوں کی آبادی میںتیز رفتار اضافہ سے۔
پاکستان دنیا کے ان پسماندہ ممالک میں شامل ہے،جو اپنی جہل آمادگی کی وجہ سے ان دونوں عوامل میں اضافے کا سبب بنا ہوا ہے۔اول، یہاں شرح پیدائش دیگر پسماندہ ممالک کی طرح بہت زیادہ ہے۔دوئم،صنعتی آلودگی کے پھیلائو میں تو پاکستان کا کوئی خاص کردار نہیں ہے،لیکن دیگر نوعیت کی آلودگی جس میں گاڑیوں کے دھوئیں، کچرے میں لگی آگ اور صنعتی فضلہ کوٹھکانے لگانے کے غیر سائنسی طریقے شامل ہیں۔ پاکستان میں حکمرانوں اور منصوبہ سازوں کی جہل آمادگی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ 15برس گذرجانے کے باوجود ابھی تک مردم شماری نہیں ہوسکی ہے۔ہمیں یہی نہیں معلوم کہ آبادی میں مختلف عمر کے لوگوں کا تناسب کیا ہے اور ان کی ضروریات کیا ہیں اور دستیاب وسائل کس طرح استعمال کرنا ہیں؟دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہے۔
عالمی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک روز سے زائد پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی بندوبست نہیںہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ کئی دہائیوں کے دوران اس قسم کے اہم مسائل پر توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔لہٰذاگذشتہ 40برسوں کے دوران نہ توچھوٹے بڑے ڈیم بنانے کی کوشش کی گئی اور نہ ہی مختلف نوعیت کے دوسرے Reservoirsتعمیر کیے گئے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال آنے والے سیلابوں کی وجہ سے ایک طرف زراعت اور انسانی جان ومال کو نقصان پہنچتاہے،وہیں دوسری طرف کروڑوں کیوسک پانی بلاسبب ضایع ہوجاتا ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دریا تیزی کے ساتھ خشک ہورہے ہیں،جب کہ دیگر آبی ذرایع بھی محدود ہورہے ہیں۔ جھیلوں کی صورتحال غیر ذمے دارانہ روش کے باعث انتہائی آلودہ ہوچکی ہے ۔خاص طور پر سندھ میں موجود دونوں جھیلوں منچھر اورکینجھرانتہائی آلودہ اور ان کا پانی ناقابل استعمال ہوچکاہے۔
آنے والے چند برسوں کے دوران پاکستان میں شدید نوعیت کے آبی بحران کے خدشات ہیں۔سندھ کی لاکھوں ایکڑزمین سیم اور تھور کی وجہ سے بنجر ہوچکی ہے اور مزید زرعی زمین خراب ہورہی ہے۔ ملکیت کے روائتی اور فرسودہ طریقے اور جاگیردارانہ کلچر کی وجہ سے بھی زراعت مشکلات کا شکار ہے۔ پنجاب میں بھی غلط منصوبہ بندی کے سبب زرعی زمینیں تباہ ہورہی ہے۔ایک طرف وسطی پنجاب کی زرخیز زرعی زمینوںپرصنعتیں لگا کر ان کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ جب کہ دوسری طرف جنوبی پنجاب سخت گیر فیوڈل اور قبائلی نظام میں جکڑا ہونے کے سبب وہاں نہ ہی جدید پیمانے پر زراعت ہورہی ہے اور نہ صنعتیں لگ رہی ہیں۔کم وبیش یہی صورتحال خیبر پختونخواہ کی ہے اور سب سے ابتر صورتحال بلوچستان کی ہے۔ اس طرح یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ آنے والے برسوں کے دوران پاکستان میں پانی کے علاوہ غذائی بحران سر اٹھاتا نظر آرہا ہے۔جس پر مردم شماری کی طرح خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔
اس وقت جن چند اہم امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ان میں سب سے اہم مردم شماری ہے جس کے بغیر صحیح ریاستی منصوبہ بندی کا تصور ممکن نہیں۔ اس کے بعد ماحولیات معاملات خاص طور پر پانی کے مسئلے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ آنے والے برسوں میں پانی کا شدید بحران آنے کو ہے۔اس مقصد کے لیے چھوٹے بڑے ڈیم بنانے کے علاوہ ہر شہر اور قصبے میں مختلف جسامت کے Reservoirs تعمیر کیے جائیں تاکہ پانی کو ذخیرہ کیا جاسکے اور ضرورت کے وقت Treatmentکے بعد استعمال کیا جاسکے۔شہریوں کو بھی تربیت دی جائے کہ وہ اپنی چھتوں پر برسات کا پانی جمع کرنے کا بندوبست کریں جیسا کہ نیپال میں ہوتا ہے۔اس مقصد کے لیے عوام کی فکری راہنمائی اور انھیں ہر سطح پر منصوبہ بندی میں شریک کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے شراکتی جمہوریت کے تصور کو مستحکم کیا جائے اور مقامی سطح پر سیاسی،انتظامی اور مالی طورپر بااختیارکونسلیں قائم کی جائیں۔یہی وہ اعمال ہیں جن کے ذریعہ مستقبل میں پیش آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کیاجاسکتا ہے،کیونکہ ان دیوہیکل مسائل سے نمٹنے کا اس کے سوا کوئی اور راستہ نظر نہیں آرہا۔