فلسفہ شہادت پر بحث کے بجائے قومی یک جہتی پر توجہ مرکوز کی جائے
ایکسپریس فورم میں مذہبی، سیاسی ،عسکری،اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کا اظہار خیال
نائن الیون کے بعد جہاں جنوبی ایشیاء کے ممالک پاکستان اور افغانستان کی داخلہ و خارجہ پالیسوں میں تیزی سے تبدیلیاں واقع ہوئیں وہاں پر ملک خداداد پاکستان میں کئی محاذوں پر پالیسوں میں تضاد بھی دیکھا گیا۔
دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان کے امریکہ کے اتحادی ہونے کے ساتھ ساتھ اس جنگ سے پاکستان کو پہنچنے والے نقصانات اور خصوصاً دہشت گردی کی اس جنگ کے درست یا غلط ہونے کے حوالے سے ملک میں ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں پاکستان کے اتحادی بننے کی صورت میں ہمارے سکیورٹی اداروں اور خصوصاً پاک فوج جیسے اہم ادارے کو بھی شدید جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن کی طرف سے پاک فوج کے حوالے سے سامنے آنے والے بیان، ڈرون حملوں کے بارے میں قومی پالیسی اور پاکستان میں اداروں کو بدنام کرنے کیلئے جاری بین الاقوامی خٖفیہ اداروں کی سازشوں کے خاتمے کیلئے ملک میں اتحاد و یک جہتی کی صورتحال کیسے پیدا کی جا سکتی ہے، اس حوالے سے گزشتہ دنوں مذہبی، سیاسی، عسکری اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو ایکسپریس فورم میں مدعو کیا گیا، ان سے ہونے والی گفتگو قارئین کی نذر ہے۔
صاحبزادہ طارق اللہ خان
( پارلیمانی لیڈر جماعت اسلامی )
سید منور حسن نے اپنا بیان ارادتاً دیا ہے۔ ان کا مقصد پاک فوج کی دل آزاری نہیں تھا ۔ انہوں نے ایک سوال اٹھایا کہ کیا امریکا کی جنگ کی معاونت کرتے وقت مرنے والا شہید ہو سکتا ہے؟ منور حسن نے اپنے بیان میں فوج کا نام نہیں لیا، بہر حال میں ان کے بیان پر معذرت خواہ ہوں۔ ملک کے الیکٹرانک میڈیا کی طرف سے منور حسن کے بیان کو اتنا ہائی لائٹ کیا گیا ہے کہ ڈرون حملوں کی بات پیچھے رہ گئی ہے اور ہر ٹی وی چینل منور حسن کے بیان کی بات کرتا نظر آرہا ہے۔ یہ بھی عالمی طاقتوں کا ایجنڈا ہے کہ قوم کو آپس میں الجھائے رکھو اور ان میں نفاق پیدا کرو۔
میں سمجھتا ہوں کہ جہاں تک شہید کا تعلق ہے تو یہ معاملہ خالصتا ً خدا کے سپرد ہے اعمال کا دارو مدار نیت پر ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شہادت کا اپنا درجہ ہے اور اس کا اپنا مقدس رتبہ بھی ہے۔ جماعت اسلامی نے قیام پاکستان سے اب تک ایسی کوئی بات نہیں کی جس سے ملکی مفادات کا ٹکراو پیدا ہوا ہو۔ ہم نے ہر محاذ پر پاک فوج کی خدمات کو سراہا ہے اور وطن کی خاطر شہید ہونے والے نوجوانوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ ہم نے کشمیر کاز اور پھر مشرقی پاکستان کے حوالے سے ہر پلیٹ فارم پر فوج کی مکمل سپورٹ کی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاچین اور دیگر سر حدوں پر فوجیوں کی قربانیاں قابل تحسین ہیں ۔
جہاں تک شہید کا معاملہ ہے تو یہ خدا کے سپرد ہے ہم نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے ملکی مفادات کے ساتھ ٹکراو پیدا ہوا ہو۔ زمین اور ملک کے دفاع کیلئے کام کرنے والون کا اللہ کے ہاں بہت اجر ہے۔ مشرقی پاکستان کے محاذ پر جماعت اسلامی کے کارکنوں کی قربانیاں سب کے سامنے ہیں۔ بنگلہ دیش میں اب بھی جماعت اسلامی کے رہنماوں کو سزا دی جا رہی ہے۔ میں سجمھتا ہوں کہ پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہے کہ اسے آج تک ٹھیک قیادت میسر نہیں ہوئی۔ ایسے لوگوں کو ووٹ نہیں دیئے گئے جن کا ماضی صاف ہو ۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مفادات کی سیاست کر رہی ہیں اور اسے مصالحت کی سیاست کا نام دیا گیا ہے صحیح قومی تشخص اجاگر نہیں کیا جا رہا۔ بدقستمی سے نائن الیون کے بعد جو پالیسی بنائی گئی وہ ملک کی نہیں پرویز مشرف کی تھی جس سے ملک و قوم کو بہت نقصان ہوا، اس کی کوئی بات نہیں کرتا۔ قبائلی علاقوں اور وزیرستان میں 500 کے قریب ڈرون حملے ہو چکے ہیں اس سے زیادہ ملک کے ساتھ غداری اور کیا ہو سکتی ہے۔ منور حسن کے بیان کے بعد پاک فوج کے ادارے کو یہ بات ڈائریکٹ کرنے کی بجائے وزیراعظم کے ذریعے کرنی چاہیے تھی۔
بریگیڈیر (ر) مسعود الحسن
( جنرل سیکرٹری ایکس سروس مین ایسوسی ایشن )
میں سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن کے بیان سے قوم تقسیم نہیں ہوئی جو لوگ یہ بات کرتے ہیں کہ منور حسن کے بیان سے قوم تقسیم ہو گئی ہے وہ غلط کہتے ہیں اور یہ تاثر بھی مکمل طور پر غلط ہے کہ جماعت اسلامی کا گزشتہ سٓاٹھ سال سے ملٹری کے ساتھ کوئی تعلق رہا ہے۔ جماعت اسلامی نے صرف ذاتی مفادات کیلئے فوجی آمروں کا ساتھ دیا ہے جبکہ پرویز مشرف کے دور میں بھی جماعت اسلامی ایم ایم اے کے ذریعے حکومت میں رہی ہے۔
جماعت اسلامی کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں یہ صرف جنرل ضیاء الحق اور پھر سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت میں شامل رہے ہیں۔ ان کا فوج کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا ، یہ صرف انفرادی حیثیت میں ذاتی مفادات کیلئے فوجی آمروں کا حصہ رہے ہیں۔ پاک فوج کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف لڑ رہی ہے اور اسے امریکیوں کا اتحادی کہنا بھی غلط ہے کیونکہ طالبان ہماری مساجد اور بچوں پر حملے کر رہے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی منور حسن ایک پارٹی کے سربراہ ہیں لہٰذا یہ کہنا کہ انہوں نے حالات سے تنگ آکر یا کسی ڈپریشن کا شکار ہو کر پاک فوج کے خلاف بیان دیا ہے غلط بات ہے۔
یہ بات کوئی عام آدمی کرتا تو اس کی اہمیت نہیں تھی لیکن منور حسن کے بیان سے پاک فوج کے جوانوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔ منور حسن کے بیان سے ملک میں نیا ایشو سامنے آیا ہے۔ پاک فوج کے جوان جو وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس جنگ میں ہمارے متعدد فوجی جوان اور افسران شہید ہوئے ہیں اگر یہ بات کی جائے کہ اس جنگ کے لڑنے والے دشمنوں کے خلاف نہیں لڑ رہے تو یہ محض ان کا مورال گرانے کا باعث بنے گا اور یہ بات ہر گز نہیں کی جانی چاہیے۔
جو لوگ خود کش حملوں اور دھماکوں میں ہمارے بے گناہ شہریوں، بچوں اور خواتین سمیت علماء کو مار رہے ہیں کیا ہم انہیں شہید کہنا شرع کر دیں، اس کی ہر گز اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اسی طرح ہمارے پاک فوج کے جوان جو ان درندوں کے خلاف ملکی سلامتی کی حفاظت کیلئے جنگ لڑ رہے ہیں انہیں اگر شہید نہ کہا جائے تو یہ بڑی نا انصافی اور زیادتی کی بات ہو گی ۔ ہماری تنظیم ایکس سروس مین ایسوسی ایشن نے ہمیشہ فوجی آمروں کے اقدام کی مخالفت کی ہے ۔ یہاں بات کی گئی کہ منور حسن کے بیان سے قوم تقسیم ہو گئی ہے، ایسا ہر گز نہیں ہوا، یہ ایک پارٹی کا موقف سامنے آیا ہے۔ عوام خوب جانتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں فوج کی کتنی قربانیاں ہیں۔ بنگہ دیش کی بات کی جاتی ہے وہاں پر جماعت اسلامی والے بھاگ گئے تھے یہ مفت میں اس بات کا چرچا کرتے ہیں۔
علی محمد خان
( رکن اسمبلی تحریک انصاف )
اصل بات یہ ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک ملک کو درست سمت کی طرف نہیں لے جایا گیا ، غلط پالیسیوں سے نئی نسل کو بھی گمراہ کیا گیا۔ پرویز مشرف کی پالیسیوں سے ملک کو بے پناہ نقصان پہنچایا گیا اور یہ تفریق ختم کر دی گئی کہ جہاد کون کر رہا ہے اور شہید کون ہو رہا ہے۔ ملک میں مشرف کی پالیسیوں سے پہلے لوگوں کو جہادی بنایا گیا اور پھر انہیں ہی دہشت گرد کا نام دے دیا گیا جس سے قوم میں انتشار پیدا ہوا۔ ڈرون حملوں کی بندش اور منور حسن کے بیان کے بعد منتخب وزیراعظم نواز شریف کو چاہیے تھا کہ پارلیمنٹ میں آکر قوم کو اعتماد میں لیں لیکن انہوں نے قوم کو مایوس کیا ہے اور ہر مرحلے پر چوہدری نثار کو آگے کر دیا۔ ڈرون حملوں میں76 فیصد بے گناہ شہری مارے گئے ۔
ہمارے ملک کا مسلہ یہ ہے کہ اسلام کے نام پر وجود میں آیا لیکن یہاں بچوں کو دین کی تعلیم بھی ٹھیک طریقے سے نہیں دی جا رہی تعلیمی نصاب کو دیکھ لیں ہمارے لیے قرآن پاک رول ماڈل ہے لیکن میٹرک تک بچوں کو عربی کی تعلیم بھی نہیں دی جا رہی۔ اگر ہم ملک کا قبلہ درست نہیں کرتے اور اپنی پالیسیاں ملکی مفادات کو سامنے رکھ کر نہیں بناتے تو نتیجہ یہی نکلے گا اور قوم میں انتشار رہے گا۔ قیام پاکستان کے وقت جو نظریہ قائداعظم محمد علی جناح نے ہمیں دیا اس پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا اور شروع میں نافذ کی گئی پالیسیوں کو ہر آنے والے طالع آزما نے پس پشت ڈال دیا۔ سابق آمر پرویز مشرف کی پالیسیوں کو دیکھ لیں جو لوگ پہلے جہادی تھے انہیں ہی دہشت گرد بنا دیا گیا، اگر ہم جناح کے نظریات کو فالو کرتے تو قوم کی آج یہ حالت نہ ہوتی۔
ملک میں خود کش دھماکے بھی پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوئے اور اب تک بے گناہ لوگون کو مارا جا رہا ہے۔ منور حسن کا بیان گزشتہ پالیسیوں کا بخار یا ابال ہو سکتا ہے لیکن سابق صدر زرادی، مشرف اور اب نواز شریف کی پالیسیاں ایک جیسی ہی ہیں ۔ امید تھی کہ نواز شریف امریکا کے دورے کے بعد پارلیمنٹ آکر قوم کو ڈرون حملوں کے حوالے سے اعتماد میں لیں گے لیکن انہون نے یہ گوارہ نہیں کیا ۔ گزشتہ چند روز سے ملک میں سیاسی کشمکش جاری ہے لیکن نواز شریف پارلیمنٹ میں سرے سے آئے ہی نہیں ہیں۔
نواز شریف نے پرانی پالیسی کو فالو کر کے قوم کو مزید الجھا دیا ہے۔ تازہ ترین اعداو شمارکے مطابق ڈرون حملوں میں 22 فیصد بزرگ شہری جبکہ دس فیصد کے قریب بچے مارے گئے ہیں جبکہ صرف منفی پانچ فیصد ڈورن میں دہشت گرد ٹارگٹ ہو سکے ہیں۔ منور حسن کے بیان کی ایک سمت سے بات کی جائے تو جماعت ماضی میں فوج کے ساتھ یک جان دو قالب کی طرح رہی ہے۔ اب یہ ان کا بیان غلط پالیسیوں کی وجہ سے بخار یا ابال کی صورت میں ہو سکتا ہے۔
فرزانہ باری
( سماجی کارکن )
بد قسمتی سے ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں مغربی ممالک کے مفادات کا تحفظ کرتی نظر آتی ہیں۔ لوگوں کو ڈرون حملوں کے حوالے سے نہ تو معاشی انصاف مل سکا ہے اور نہ ہی سماجی سطح پر۔ جمہوریت اور آمریت کے دور میں پالیسیاں ایک جیسی رہی ہیں، خواہ خارجہ پالیسی ہو یا اقتصادی، تمام تر عوام کے مفادات کی بجائے ان کے خلاف بنائی گئیں۔ تعلیم اور صحت کا بجٹ ہر دور میں دو فیصد بھی نہیں رکھا گیا۔ عوام کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ شہید کون ہے اور کون نہیں، یہ صرف سیاست دانوں کا مسلہ ہے۔
وام صرف انصاف چاہتے ہیں جو انہیں نہیں مل رہا ہے۔ بدقسمتی سے ریاست کے اندر تضاد چل رہا ہے جس کا عوام کے مسائل سے کوئی تعلق ہی نہیں ۔ جب ہمیں دہشت گرد مارتے ہیں تو ہم فوج سے مدد طلب کرتے ہیں لیکن جب فوج والے آپریشن کرتے ہے تو ہمارا نکتہ نظر مخلتف ہوتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ آج ریاست کے اندر کنفیوزن ہے، عوام محض تماشا بنے ہوئے ہیں ان کی کسی سطح پر داد رسی نہیں کی جا رہی۔ لوگ جب حمکرانوں کی نا فذ کردہ پالیسیوں سے نالاں ہوں گے پھر گو مگو کی صورت حال تو رہے گی۔ سید منور حسن کو ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا۔ فوج کی بہت قربانیاں ہیں ۔ ایسے وقت میں ملکی اداروں کا مورال کم نہیں کرنا چاہیے۔
عبد القدس محمدی
( ترجمان وفاق المدارس العربیہ )
ڈرون حملوں پر پوری قوم میں یکسانیت تھی لیکن امریکا نے اپنا کام دکھا دیا، جب بھی ملک میں بہتری کے امکانات پیدا ہوتے ہیں، امریکا ہمیں منتشر کر دیتا ہے۔ آج منور حسن کا بیان زیر بحث ہے لیکن ڈرون حملوں کی کوئی بات نہیں کر رہا۔ یہ بھی بیرونی قوتوں کی سازش ہے۔ انہوں نے کہا عام آدمی ملک میں جاری خوف و ہراس کی صورتحال سے نجات چاہتا ہے۔ ایسی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جس سے عوام کو تحفظ ملے یہاں ہر کوئی پوائنٹ سکورنگ میں لگا ہے ۔ میری تجویز ہے کہ ملک میں ایک سپریم کونسل کا ادارہ بنایا جائے، جہاں اس طرح کے مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔ یہ ادارہ غیر متنازعہ ہونا چاہیے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرز کا نہیں ہونا چاہیے ،جہاں صرف مخصوص نظریات سامنے لائے جاتے ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارے ہاں مفادات کا کھیل جاری ہے اور لفظوں کا استعمال بھی انہی کے تناظر میں سامنے لایا جاتا ہے۔ منور حسن کے بیان میں بھی الفاظ کے استعمال کے دوران مفادات کا کھیل کھیلا گیا ہے۔ وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان اور حکومتی کوششوں کے ساتھ ساتھ علما ء کرام کے ذریعے طالبان سے مذاکرات کا ماحول بن گیا تھا جسے ایک سازش کے تحت امریکا نے ناکام بنا دیا ، حالانکہ طالبان سے مذاکرات کی بات سے پاکستانی عوام نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ ڈرون حملے بند کرنے کے سلسلے میں پوری قوم کے موقف میں یکسانیت تھی جو ایک سازش کے تحت ختم کر د ی گئی ہے۔ آج لوگ منور حسن کے بیان کا رونا رو رہے ہیں جبکہ ڈرون حملوں کی بات نہیں کی جا رہی، یہی دشمنوں کا ایجنڈا ہے۔ منور حسن نے اتنی بات کی نہیں جنتی ان کے حوالے سے میڈیا پر بحث کی جا رہی ہے۔
آج قوم میں یک جہتی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ہماری منزل فلاحی ریاست کا قیام اور معاشرے میں قیام امن ہونا چاہیے۔ ضرورت سے زیادہ کسی ایسی با ت کوا چھالنا نہیں چاہیے جس سے معاشرے میں انتشار کی فضا بنتی ہو۔ امریکا کا یہ پرانا ایجنڈا ہے کہ جب بھی پاکستان میں کسی حوالے سے بہتری کے آثار پیدا ہوتے ہیں وہ اپنی سازش سے انہیں ناکام بنا دیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں کو بھی اس حوالے سے غور کرنا چاہیے اور اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانی چاہیے ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جو عوام کے مفادات میں ہوں۔ میری رائے میں ملک کے اندر ایک سپریم کونسل کا ادارہ بنایا جائے جو کسی طرح کے بھی متنازعہ ایشو کو ڈسکس کر کے ان کا حل تلاش کرے۔ یہ ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ادارے جیسا نہیں ہونا چاہیے، اس ادارے میں علما ء کرام اور دیگر منتخب لوگوں کو شامل کیا جائے۔
دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان کے امریکہ کے اتحادی ہونے کے ساتھ ساتھ اس جنگ سے پاکستان کو پہنچنے والے نقصانات اور خصوصاً دہشت گردی کی اس جنگ کے درست یا غلط ہونے کے حوالے سے ملک میں ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں پاکستان کے اتحادی بننے کی صورت میں ہمارے سکیورٹی اداروں اور خصوصاً پاک فوج جیسے اہم ادارے کو بھی شدید جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن کی طرف سے پاک فوج کے حوالے سے سامنے آنے والے بیان، ڈرون حملوں کے بارے میں قومی پالیسی اور پاکستان میں اداروں کو بدنام کرنے کیلئے جاری بین الاقوامی خٖفیہ اداروں کی سازشوں کے خاتمے کیلئے ملک میں اتحاد و یک جہتی کی صورتحال کیسے پیدا کی جا سکتی ہے، اس حوالے سے گزشتہ دنوں مذہبی، سیاسی، عسکری اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو ایکسپریس فورم میں مدعو کیا گیا، ان سے ہونے والی گفتگو قارئین کی نذر ہے۔
صاحبزادہ طارق اللہ خان
( پارلیمانی لیڈر جماعت اسلامی )
سید منور حسن نے اپنا بیان ارادتاً دیا ہے۔ ان کا مقصد پاک فوج کی دل آزاری نہیں تھا ۔ انہوں نے ایک سوال اٹھایا کہ کیا امریکا کی جنگ کی معاونت کرتے وقت مرنے والا شہید ہو سکتا ہے؟ منور حسن نے اپنے بیان میں فوج کا نام نہیں لیا، بہر حال میں ان کے بیان پر معذرت خواہ ہوں۔ ملک کے الیکٹرانک میڈیا کی طرف سے منور حسن کے بیان کو اتنا ہائی لائٹ کیا گیا ہے کہ ڈرون حملوں کی بات پیچھے رہ گئی ہے اور ہر ٹی وی چینل منور حسن کے بیان کی بات کرتا نظر آرہا ہے۔ یہ بھی عالمی طاقتوں کا ایجنڈا ہے کہ قوم کو آپس میں الجھائے رکھو اور ان میں نفاق پیدا کرو۔
میں سمجھتا ہوں کہ جہاں تک شہید کا تعلق ہے تو یہ معاملہ خالصتا ً خدا کے سپرد ہے اعمال کا دارو مدار نیت پر ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شہادت کا اپنا درجہ ہے اور اس کا اپنا مقدس رتبہ بھی ہے۔ جماعت اسلامی نے قیام پاکستان سے اب تک ایسی کوئی بات نہیں کی جس سے ملکی مفادات کا ٹکراو پیدا ہوا ہو۔ ہم نے ہر محاذ پر پاک فوج کی خدمات کو سراہا ہے اور وطن کی خاطر شہید ہونے والے نوجوانوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ ہم نے کشمیر کاز اور پھر مشرقی پاکستان کے حوالے سے ہر پلیٹ فارم پر فوج کی مکمل سپورٹ کی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاچین اور دیگر سر حدوں پر فوجیوں کی قربانیاں قابل تحسین ہیں ۔
جہاں تک شہید کا معاملہ ہے تو یہ خدا کے سپرد ہے ہم نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے ملکی مفادات کے ساتھ ٹکراو پیدا ہوا ہو۔ زمین اور ملک کے دفاع کیلئے کام کرنے والون کا اللہ کے ہاں بہت اجر ہے۔ مشرقی پاکستان کے محاذ پر جماعت اسلامی کے کارکنوں کی قربانیاں سب کے سامنے ہیں۔ بنگلہ دیش میں اب بھی جماعت اسلامی کے رہنماوں کو سزا دی جا رہی ہے۔ میں سجمھتا ہوں کہ پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہے کہ اسے آج تک ٹھیک قیادت میسر نہیں ہوئی۔ ایسے لوگوں کو ووٹ نہیں دیئے گئے جن کا ماضی صاف ہو ۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مفادات کی سیاست کر رہی ہیں اور اسے مصالحت کی سیاست کا نام دیا گیا ہے صحیح قومی تشخص اجاگر نہیں کیا جا رہا۔ بدقستمی سے نائن الیون کے بعد جو پالیسی بنائی گئی وہ ملک کی نہیں پرویز مشرف کی تھی جس سے ملک و قوم کو بہت نقصان ہوا، اس کی کوئی بات نہیں کرتا۔ قبائلی علاقوں اور وزیرستان میں 500 کے قریب ڈرون حملے ہو چکے ہیں اس سے زیادہ ملک کے ساتھ غداری اور کیا ہو سکتی ہے۔ منور حسن کے بیان کے بعد پاک فوج کے ادارے کو یہ بات ڈائریکٹ کرنے کی بجائے وزیراعظم کے ذریعے کرنی چاہیے تھی۔
بریگیڈیر (ر) مسعود الحسن
( جنرل سیکرٹری ایکس سروس مین ایسوسی ایشن )
میں سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن کے بیان سے قوم تقسیم نہیں ہوئی جو لوگ یہ بات کرتے ہیں کہ منور حسن کے بیان سے قوم تقسیم ہو گئی ہے وہ غلط کہتے ہیں اور یہ تاثر بھی مکمل طور پر غلط ہے کہ جماعت اسلامی کا گزشتہ سٓاٹھ سال سے ملٹری کے ساتھ کوئی تعلق رہا ہے۔ جماعت اسلامی نے صرف ذاتی مفادات کیلئے فوجی آمروں کا ساتھ دیا ہے جبکہ پرویز مشرف کے دور میں بھی جماعت اسلامی ایم ایم اے کے ذریعے حکومت میں رہی ہے۔
جماعت اسلامی کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں یہ صرف جنرل ضیاء الحق اور پھر سابق صدر پرویز مشرف کی حکومت میں شامل رہے ہیں۔ ان کا فوج کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا ، یہ صرف انفرادی حیثیت میں ذاتی مفادات کیلئے فوجی آمروں کا حصہ رہے ہیں۔ پاک فوج کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف لڑ رہی ہے اور اسے امریکیوں کا اتحادی کہنا بھی غلط ہے کیونکہ طالبان ہماری مساجد اور بچوں پر حملے کر رہے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی منور حسن ایک پارٹی کے سربراہ ہیں لہٰذا یہ کہنا کہ انہوں نے حالات سے تنگ آکر یا کسی ڈپریشن کا شکار ہو کر پاک فوج کے خلاف بیان دیا ہے غلط بات ہے۔
یہ بات کوئی عام آدمی کرتا تو اس کی اہمیت نہیں تھی لیکن منور حسن کے بیان سے پاک فوج کے جوانوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔ منور حسن کے بیان سے ملک میں نیا ایشو سامنے آیا ہے۔ پاک فوج کے جوان جو وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس جنگ میں ہمارے متعدد فوجی جوان اور افسران شہید ہوئے ہیں اگر یہ بات کی جائے کہ اس جنگ کے لڑنے والے دشمنوں کے خلاف نہیں لڑ رہے تو یہ محض ان کا مورال گرانے کا باعث بنے گا اور یہ بات ہر گز نہیں کی جانی چاہیے۔
جو لوگ خود کش حملوں اور دھماکوں میں ہمارے بے گناہ شہریوں، بچوں اور خواتین سمیت علماء کو مار رہے ہیں کیا ہم انہیں شہید کہنا شرع کر دیں، اس کی ہر گز اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اسی طرح ہمارے پاک فوج کے جوان جو ان درندوں کے خلاف ملکی سلامتی کی حفاظت کیلئے جنگ لڑ رہے ہیں انہیں اگر شہید نہ کہا جائے تو یہ بڑی نا انصافی اور زیادتی کی بات ہو گی ۔ ہماری تنظیم ایکس سروس مین ایسوسی ایشن نے ہمیشہ فوجی آمروں کے اقدام کی مخالفت کی ہے ۔ یہاں بات کی گئی کہ منور حسن کے بیان سے قوم تقسیم ہو گئی ہے، ایسا ہر گز نہیں ہوا، یہ ایک پارٹی کا موقف سامنے آیا ہے۔ عوام خوب جانتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں فوج کی کتنی قربانیاں ہیں۔ بنگہ دیش کی بات کی جاتی ہے وہاں پر جماعت اسلامی والے بھاگ گئے تھے یہ مفت میں اس بات کا چرچا کرتے ہیں۔
علی محمد خان
( رکن اسمبلی تحریک انصاف )
اصل بات یہ ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک ملک کو درست سمت کی طرف نہیں لے جایا گیا ، غلط پالیسیوں سے نئی نسل کو بھی گمراہ کیا گیا۔ پرویز مشرف کی پالیسیوں سے ملک کو بے پناہ نقصان پہنچایا گیا اور یہ تفریق ختم کر دی گئی کہ جہاد کون کر رہا ہے اور شہید کون ہو رہا ہے۔ ملک میں مشرف کی پالیسیوں سے پہلے لوگوں کو جہادی بنایا گیا اور پھر انہیں ہی دہشت گرد کا نام دے دیا گیا جس سے قوم میں انتشار پیدا ہوا۔ ڈرون حملوں کی بندش اور منور حسن کے بیان کے بعد منتخب وزیراعظم نواز شریف کو چاہیے تھا کہ پارلیمنٹ میں آکر قوم کو اعتماد میں لیں لیکن انہوں نے قوم کو مایوس کیا ہے اور ہر مرحلے پر چوہدری نثار کو آگے کر دیا۔ ڈرون حملوں میں76 فیصد بے گناہ شہری مارے گئے ۔
ہمارے ملک کا مسلہ یہ ہے کہ اسلام کے نام پر وجود میں آیا لیکن یہاں بچوں کو دین کی تعلیم بھی ٹھیک طریقے سے نہیں دی جا رہی تعلیمی نصاب کو دیکھ لیں ہمارے لیے قرآن پاک رول ماڈل ہے لیکن میٹرک تک بچوں کو عربی کی تعلیم بھی نہیں دی جا رہی۔ اگر ہم ملک کا قبلہ درست نہیں کرتے اور اپنی پالیسیاں ملکی مفادات کو سامنے رکھ کر نہیں بناتے تو نتیجہ یہی نکلے گا اور قوم میں انتشار رہے گا۔ قیام پاکستان کے وقت جو نظریہ قائداعظم محمد علی جناح نے ہمیں دیا اس پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا اور شروع میں نافذ کی گئی پالیسیوں کو ہر آنے والے طالع آزما نے پس پشت ڈال دیا۔ سابق آمر پرویز مشرف کی پالیسیوں کو دیکھ لیں جو لوگ پہلے جہادی تھے انہیں ہی دہشت گرد بنا دیا گیا، اگر ہم جناح کے نظریات کو فالو کرتے تو قوم کی آج یہ حالت نہ ہوتی۔
ملک میں خود کش دھماکے بھی پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوئے اور اب تک بے گناہ لوگون کو مارا جا رہا ہے۔ منور حسن کا بیان گزشتہ پالیسیوں کا بخار یا ابال ہو سکتا ہے لیکن سابق صدر زرادی، مشرف اور اب نواز شریف کی پالیسیاں ایک جیسی ہی ہیں ۔ امید تھی کہ نواز شریف امریکا کے دورے کے بعد پارلیمنٹ آکر قوم کو ڈرون حملوں کے حوالے سے اعتماد میں لیں گے لیکن انہون نے یہ گوارہ نہیں کیا ۔ گزشتہ چند روز سے ملک میں سیاسی کشمکش جاری ہے لیکن نواز شریف پارلیمنٹ میں سرے سے آئے ہی نہیں ہیں۔
نواز شریف نے پرانی پالیسی کو فالو کر کے قوم کو مزید الجھا دیا ہے۔ تازہ ترین اعداو شمارکے مطابق ڈرون حملوں میں 22 فیصد بزرگ شہری جبکہ دس فیصد کے قریب بچے مارے گئے ہیں جبکہ صرف منفی پانچ فیصد ڈورن میں دہشت گرد ٹارگٹ ہو سکے ہیں۔ منور حسن کے بیان کی ایک سمت سے بات کی جائے تو جماعت ماضی میں فوج کے ساتھ یک جان دو قالب کی طرح رہی ہے۔ اب یہ ان کا بیان غلط پالیسیوں کی وجہ سے بخار یا ابال کی صورت میں ہو سکتا ہے۔
فرزانہ باری
( سماجی کارکن )
بد قسمتی سے ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں مغربی ممالک کے مفادات کا تحفظ کرتی نظر آتی ہیں۔ لوگوں کو ڈرون حملوں کے حوالے سے نہ تو معاشی انصاف مل سکا ہے اور نہ ہی سماجی سطح پر۔ جمہوریت اور آمریت کے دور میں پالیسیاں ایک جیسی رہی ہیں، خواہ خارجہ پالیسی ہو یا اقتصادی، تمام تر عوام کے مفادات کی بجائے ان کے خلاف بنائی گئیں۔ تعلیم اور صحت کا بجٹ ہر دور میں دو فیصد بھی نہیں رکھا گیا۔ عوام کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ شہید کون ہے اور کون نہیں، یہ صرف سیاست دانوں کا مسلہ ہے۔
وام صرف انصاف چاہتے ہیں جو انہیں نہیں مل رہا ہے۔ بدقسمتی سے ریاست کے اندر تضاد چل رہا ہے جس کا عوام کے مسائل سے کوئی تعلق ہی نہیں ۔ جب ہمیں دہشت گرد مارتے ہیں تو ہم فوج سے مدد طلب کرتے ہیں لیکن جب فوج والے آپریشن کرتے ہے تو ہمارا نکتہ نظر مخلتف ہوتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ آج ریاست کے اندر کنفیوزن ہے، عوام محض تماشا بنے ہوئے ہیں ان کی کسی سطح پر داد رسی نہیں کی جا رہی۔ لوگ جب حمکرانوں کی نا فذ کردہ پالیسیوں سے نالاں ہوں گے پھر گو مگو کی صورت حال تو رہے گی۔ سید منور حسن کو ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا۔ فوج کی بہت قربانیاں ہیں ۔ ایسے وقت میں ملکی اداروں کا مورال کم نہیں کرنا چاہیے۔
عبد القدس محمدی
( ترجمان وفاق المدارس العربیہ )
ڈرون حملوں پر پوری قوم میں یکسانیت تھی لیکن امریکا نے اپنا کام دکھا دیا، جب بھی ملک میں بہتری کے امکانات پیدا ہوتے ہیں، امریکا ہمیں منتشر کر دیتا ہے۔ آج منور حسن کا بیان زیر بحث ہے لیکن ڈرون حملوں کی کوئی بات نہیں کر رہا۔ یہ بھی بیرونی قوتوں کی سازش ہے۔ انہوں نے کہا عام آدمی ملک میں جاری خوف و ہراس کی صورتحال سے نجات چاہتا ہے۔ ایسی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جس سے عوام کو تحفظ ملے یہاں ہر کوئی پوائنٹ سکورنگ میں لگا ہے ۔ میری تجویز ہے کہ ملک میں ایک سپریم کونسل کا ادارہ بنایا جائے، جہاں اس طرح کے مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔ یہ ادارہ غیر متنازعہ ہونا چاہیے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرز کا نہیں ہونا چاہیے ،جہاں صرف مخصوص نظریات سامنے لائے جاتے ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارے ہاں مفادات کا کھیل جاری ہے اور لفظوں کا استعمال بھی انہی کے تناظر میں سامنے لایا جاتا ہے۔ منور حسن کے بیان میں بھی الفاظ کے استعمال کے دوران مفادات کا کھیل کھیلا گیا ہے۔ وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان اور حکومتی کوششوں کے ساتھ ساتھ علما ء کرام کے ذریعے طالبان سے مذاکرات کا ماحول بن گیا تھا جسے ایک سازش کے تحت امریکا نے ناکام بنا دیا ، حالانکہ طالبان سے مذاکرات کی بات سے پاکستانی عوام نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ ڈرون حملے بند کرنے کے سلسلے میں پوری قوم کے موقف میں یکسانیت تھی جو ایک سازش کے تحت ختم کر د ی گئی ہے۔ آج لوگ منور حسن کے بیان کا رونا رو رہے ہیں جبکہ ڈرون حملوں کی بات نہیں کی جا رہی، یہی دشمنوں کا ایجنڈا ہے۔ منور حسن نے اتنی بات کی نہیں جنتی ان کے حوالے سے میڈیا پر بحث کی جا رہی ہے۔
آج قوم میں یک جہتی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ہماری منزل فلاحی ریاست کا قیام اور معاشرے میں قیام امن ہونا چاہیے۔ ضرورت سے زیادہ کسی ایسی با ت کوا چھالنا نہیں چاہیے جس سے معاشرے میں انتشار کی فضا بنتی ہو۔ امریکا کا یہ پرانا ایجنڈا ہے کہ جب بھی پاکستان میں کسی حوالے سے بہتری کے آثار پیدا ہوتے ہیں وہ اپنی سازش سے انہیں ناکام بنا دیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں کو بھی اس حوالے سے غور کرنا چاہیے اور اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانی چاہیے ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جو عوام کے مفادات میں ہوں۔ میری رائے میں ملک کے اندر ایک سپریم کونسل کا ادارہ بنایا جائے جو کسی طرح کے بھی متنازعہ ایشو کو ڈسکس کر کے ان کا حل تلاش کرے۔ یہ ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ادارے جیسا نہیں ہونا چاہیے، اس ادارے میں علما ء کرام اور دیگر منتخب لوگوں کو شامل کیا جائے۔